ڈیرہ اسماعیل خان، افغان حکومت کے اعلیٰ عہدیدار کا بیٹا خوارج کیساتھ ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
حکام نے بتایا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور افغان طالبان کے اعلیٰ عہدیدار کے بیٹے کی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ ہلاکت اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں فتنۃ الخوارج کے خلاف کارروائی کے دوران دہشتگروں کے ساتھ موجود افغان طالبان کی حکومت کے اہم عہدیدار صوبائی نائب گورنر کا بیٹا بھی ہلاک ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق سیکیورٹی فورسز کی ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں کارروائی میں 30 جنوری 2025 کو افغان صوبہ بادغیس کے نائب گورنر مولوی غلام محمد کا بیٹا بدرالدین عرف یوسف ہلاک ہونے والے تین دہشت گردوں میں شامل تھا۔ حکام نے بتایا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور افغان طالبان کے اعلیٰ عہدیدار کے بیٹے کی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ ہلاکت اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان نائب گورنر کے بیٹے یوسف کی ٹی ٹی پی دہشت گردوں کے ساتھ ہلاکت ثابت کرتی ہے کہ افغانستان کھلم کھلا پاکستان میں دہشت گردی کو سپورٹ کر رہا ہے۔
مزید بتایا گیا کہ افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپس کو ٹریننگ، اسلحہ اور محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی جا رہی ہیں، یہ کھلی جارحیت ہے، جسے مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ بیان میں کہا گیا کہ افغان نائب گورنر کا بیٹا پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں ملوث تھا اور ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے ساتھ مارا گیا، یہ افغانستان کی ریاستی دہشت گردی کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ اس ضمن میں کہا گیا کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپس نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں، کابل کی حکومت ان گروپس کو تحفظ دے کر کھلی جنگ چلا رہی ہے۔ مزید کہا گیا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کو پناہ دینا پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے، ٹی ٹی پی کے ساتھ افغان طالبان کے روابط اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ جب بھی افغانستان پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کو استعمال کرے گا، پاکستان ان کا بھرپور جواب دے گا، افغانستان کی ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی اب مزید برداشت نہیں، افغانستان کا دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا خطے کے استحکام کے لیے خطرناک ہے اور پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردی برداشت نہیں کرے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پاکستان کے خلاف دہشت کہ افغانستان افغان طالبان افغانستان کی گیا کہ افغان نائب گورنر کہا گیا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کا بیٹا کے لیے
پڑھیں:
افغان طالبان سے مذاکرات کیلئے خیبر پختونخوا سے وفدکی چند روز میں افغانستان روانگی متوقع
اسلام آباد: خیبر پختونخوا حکومت کے معاملات سنبھالنے کی ٹیم میں شامل پی ٹی آئی کے ایک اہم عہدیدار نے کہا ہے کہ افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے ’چھوٹا گروپ‘ سرکاری سرپرستی میں افغانستان چند دنوں میں روانہ ہو گا۔
انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کرتے ہوئے عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ سرکاری سرپرستی میں پہلے مرحلے میں ایک سمال گروپ بنایا گیا جو افغانستان کا دورہ کرکے افغان طالبان کے سرکردہ رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ گروپ چند دنوں میں افغانستان جائے گا اور اس کے بعد ایک بڑا گروہ بنایا جائے گا جس میں تمام شراکت دار بھی شامل ہوں گے۔
عہدیدار، جو پی ٹی آئی کی مرکزی کور کمیٹی کا حصہ بھی ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو مزید بتایا کہ اس سے پہلے مسئلہ صوبائی حکومت کے مینڈیٹ کا تھا، ہم خود سے مذاکرات شروع نہیں کر سکتے۔ چونکہ دہشت گردی کی سب سے زیادہ حدت خیبر پختونخوا میں ہی محسوس ہوتی ہے تو ماضی قریب میں ہونے والے کچھ اعلٰی سطحی اجلاسوں میں افغان طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔
انہوں نے بتایا ماضی قریب میں ایک اہم ملاقات کے بعد اب ایک چھوٹا گروہ بنایا گیا ہے جو مذاکراتی مرحلے کو شروع کرے گا۔ ان مذاکرات میں اکوڑہ خٹک نوشہرہ میں واقع دارالعلوم حقانیہ کی مدد بھی حاصل ہو گی کیونکہ ان کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔
واضح رہے کہ چند دن قبل صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے جامعہ حقانیہ کا دورہ کر کے وہاں کے منتظمین سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے سرکاری طور پر جاری بیان میں افغان طالبان سے مذاکرات کا کوئی ذکر تو نہیں تھا لیکن عہدیدار کے مطابق وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے رواں سال 21 جنوری کو وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے ڈیرہ اسماعیل خان میں تقریب سے خطاب میں بتایا کہ جلد ہی مذاکراتی جرگہ افغانستان جائے گا۔
علی امین کے مطابق مذاکراتی وفد میں قبائلی عمائدین اور مشران بھی شامل ہوں گے جو افغان عبوری حکومت سے بات چیت کریں گی۔
کچھ دن پہلے پشاور میں پاکستان فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا سمیت سیاسی جماعتوں کے نمائندگان سے ملاقات ہوئی تھی۔
اس ملاقات میں شامل سیاسی جماعت کے ایک نمائندے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ آرمی چیف سے ملاقات کے دوران صوبائی حکومت کو بات چیت کرنے کا بتایا گیا تھا تاکہ اس مسئلے کا حل نکل آئے۔
مذاکراتی عمل شروع کرنے کے پس منظر کے حوالے سے عہدیدار نے بتایا کہ وفاقی حکومت اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لے رہی تھی اور خیبر پختونخوا حکومت کا یہ مینڈیٹ نہیں تھا کہ وہ مذاکرات شروع کر دیتے۔
گذشتہ برس دسمبر میں بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں سے ملاقات میں وزیر اعلٰی علی امین گنڈاپور نے بھی مذاکرات کا ذکر کیا تھا۔
علی امین گنڈاپور نے بتایا تھا کہ جب میں خود مذاکرات کی بات کی تھی تو اس سے پتہ نہیں لوگوں نے کیا بنا لیا تھا لیکن اب وفاقی حکومت نے مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے بتایا ہے۔
اس وقت وزیر اعلیٰ نے بتایا تھا کہ شدت پسندی سے سب سے زیادہ متاثرہ ہمارا صوبہ اور یہاں کے عوام ہیں تو ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔