پی ٹی آئی نے پیکا ایکٹ کے خلاف ووٹ دیا: عمر ایوب
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب—فائل فوٹو
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے پیکا ایکٹ کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
لاہور میں انسدادِ دہشت گری کی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلاول خود کو جمہوریت پسند کہتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی نے ایکٹ کے لیے ووٹ دیا۔
عمر ایوب کا کہنا ہے کہ میرے خلاف پورے پنجاب میں مقدمات درج ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی آفر کو مسترد کرتے ہیں، عمر ایوبعمر ایواب نے کہا کہ پی ٹی آئی کے تمام گرفتار کارکنوں کو رہا کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں مہنگائی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے آواز اٹھانے والوں پر سختی مت کریں۔
پی ٹی آئی کے رہنما کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت پی ٹی آئی کو مینارِ پاکستان پر جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دے رہی، عالیہ حمزہ نے ڈی سی لاہور کو جلسے کی اجازت لینے کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔
عمر ایوب کی 9 مئی کے 3 مقدمات میں عبوری ضمانت میں توسیعدوسری جانب لاہور کی انسدادِ دہشت گری کی عدالت نے عمر ایوب کے خلاف 9 مئی کے 3 مقدمات میں عبوری ضمانت میں 18 فروری تک توسیع کر دی۔
عدالت نے پولیس کو تفتیش مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔
دورانِ سماعت عدالت نے سوال کیا کہ کیا عمر ایوب کی تفتیش مکمل ہو چکی ہے؟
پولیس نے بتایا کہ نہیں ابھی بیانات ریکارڈ ہونا باقی ہیں۔
عمر ایوب نے کہا کہ جے آئی ٹی میں گیا تھا، اپنا مؤقف پیش نہیں کر سکا۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
صحافیوں کا پیکا ایکٹ کے خلاف ملک گیر احتجاج
28 جنوری کو حسب معمول لاہور پریس کلب میں داخل ہوا تو کلب کے احاطے میں بڑی غیر معمولی صورت حال تھی۔یہاں صحافیوں کے ایک بڑے ہجوم کو دیکھا جو کچھ ہی دیر میں “پیکا ترمیمی ایکٹ” کے خلاف ایک بڑے احتجاج کے موڈ میں تھا۔میں نے بھی اس احتجاج میں شمولیت اختیار کی۔کچھ نوجوان صحافیوں نے تو کتبے بھی اٹھا رکھے تھے۔جن میں پیکا ترمیمی ایکٹ کے خلاف نعرے درج تھے۔محسوس ہواِ،صحافی آج کچھ اچھے موڈ میں نہیں ہیں۔بات کر لیتے ہیں پیکا ترمیمی ایکٹ پر،جس کا ان دنوں بہت چرچا اور شور ہے ملک بھر کے صحافی اور صحافتی تنظیمیں اس ایکٹ کے خلاف نہ صرف سراپا احتجاج ہیں بلکہ کئی مقامات پر سڑکوں پر بھی احتجاج کرتی نظر آ رہی ہیں۔ کراچی،لاہور اور راولپنڈی، اسلام آباد، ایسے شہر ہیں جہاں اخبارات اور ڈیجیٹل میڈیا کے مرکزی دفاتر ہیںصحافیوں کا سب سے زیادہ احتجاج انہی شہروں میں ہو رہا ہے۔ایک ہیجان کی سی کیفیت ہے۔جو صحافتی حلقوں میں پائی جاتی ہے۔ اس چیز سے بے نیاز ہو کر کہ کس صحافی کا کس سیاسی جماعت سے تعلق یا وابستگی ہے اس ایکٹ کے خلاف سخت غصے میں ہے اور سب ہی خفگی کا اظہار کر رہے ہیں کہ مشاورت کئے بغیر ایسے ایکٹ کو لایا گیا جو آزادء صحافت کی روح کے سراسر منافی اور اظہار رائے پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔قومی اسمبلی کے بعد منگل کو سینٹ نے بھی اس متنازع پیکا ترمیمی ایکٹ کی منظوری دے دی۔جبکہ ملک بھر میں صحافیوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد اب اس بل پر صدر نے بھی دستخط کر دیئے ہیں اور یہ نافذ العمل ہو گیا ہے۔بل کے مطابق جو شخص بھی آن لائن ’’فیک نیوز‘‘ پھیلانے میں ملوث پایا گیا اسے تین سال قید یا 20 لاکھ تک جرمانہ،یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔منگل کو جب سینیٹ میں یہ متنازع بل پیش کیا گیا تو نہ صرف پریس گیلری میں موجود صحافیوں بلکہ پی ٹی آئی سمیت حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔قائد حزب اختلاف شبلی فراز کا کہنا تھا کہ یہ بل ایک سیاسی جماعت (پی ٹی آئی) کے لیئے بنایا گیا ہے۔جس پر بحث اور کوئی مشاورت نہیں ہوئی۔جبکہ قانون بنانے کے لئے کئی ماہ درکار ہوتے ہیں،مگر یہ قانون عجلت میں بنایا گیا اور پاس کیا گیا۔جمعیت علما اسلام کے سینیٹر ایڈووکیٹ کامران مرتضیٰ کا استدلال تھا کہ یہ ترمیمی ایکٹ ہر لحاظ سے ایک برا قانون ہے۔جسے مسترد کرتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت پیکا ایکٹ کی شق 29 میں ترمیم کرے کیونکہ اس شق میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ کے تحت ہونے والے اقدامات کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔پیکا قوانین میں ترامیم سوشل میڈیا پر غلط اور من گھڑت خبروں کے پھیلا کو روکنے کے لیئے کی گئی ہیں تاکہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کو بدنام نہ کر سکے۔دونوں ایوانوں سے منظور ہونے والے اس پیکا ترمیمی بل کو دی پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ترمیمی بل 2025 کا نام دیا گیا ہے۔مجوزہ ترمیمی بل کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی۔اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہو گا جس کے ذیلی آفس صوبائی دارالحکومتوں میں قائم کیئے جائیں گے۔ ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی سوشل میڈیا کیپلیٹ فارم کی سہولت کاری کرے گی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کی مجاز ہو گی۔جبکہ رجسٹریشن کی۔ منسوخی اور معیارات کے تعین کی بھی مجاز ہو گی۔ پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے خلاف تادیبی کارروائی کر سکے گی۔ اتھارٹی متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی بھی مجاز ہو گی۔پیکا ترمیمی ایکٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ شخص 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔اتھارٹی 9 اراکین پر مشتمل ہو گی ۔ سیکرٹری داخلہ،چیئرمین پی ٹی اے اور چیئرمین پیمرا بھی اس اتھارٹی کے اراکین میں شامل ہوں گے۔ متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا بیچلر ڈگری ہولڈر شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جائے گا۔چیئرمین اور پانچ اراکین کی تعیناتی کی مدت پانچ سال ہو گی۔ حکومت کی جانب سے اتھارٹی میں صحافیوں کو بھی نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ صحافت میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ ویئر انجینئر،وکیل اور سوشل میڈیا سے متعلق آئی ٹی ایکسپرٹ بھی اس اتھارٹی میں شامل ہو گا۔ ایکٹ کے مطابق چیئرمین اتھارٹی سوشل میڈیا پر کسی بھی قابل اعتراض غیر قانونی مواد کو فوری بلاک کرنے کی ہدایت دینے کا مجاز ہو گا۔اتھارٹی کا چیئرمین اور اراکین کسی دوسرے کاروبار سے وابستہ نہیں ہوں گے ۔
نئے ترمیم شدہ پیکا ترمیمی آرڈیننس کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اتھارٹی سے رجسٹر کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔اتھارٹی نظریہ پاکستان کے برخلاف شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی۔ اتھارٹی آرمڈ فورسز پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کے خلا ف غیر قانونی مواد کو بھی بلاک کر سکے گی۔ ترمیم کے تحت سوشل میڈیا شکایت کونسل بھی قائم کی جائے گی۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی جانب سے ہدایات پر عملدر آمد نہ ہونے کی صورت میں اتھارٹی لیگل کارروائی کے لیئے قائم کردہ خصوصی ٹربیونل سے رجوع کرے گی۔ترمیمی بل کے تحت فیک نیوز پھیلانے والے شخص کو تین سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔ٹربیونل بیک وقت دونوں سزائیں بھی دے سکتا ہے۔ ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا۔ ٹربیونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں 60 دنوں میں چیلنج کیا جا سکے گا۔سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کے لئے وفاقی حکومت ایف آئی اے میں ایک نئے تحقیقاتی ونگ کا قیام عمل میں لائے گی جبکہ سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر دیا جائے گا۔سوشل میڈیا پر فیک نیوز پھیلانے والوں کا جرم بھی ناقابل ضمانت ہو گا۔ اس جرم میں گرفتاری کے لیئے کسی وارنٹ کی بھی ضرورت نہیں ہو گی۔تاہم پیکا آرڈیننس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس ترمیم میں فیک نیوز کی تشریح نہیں کی۔جس سے اس قانون کا غلط استعمال ہو سکتا ہے۔صحافتی تنظیموں نے بل کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا ہے کہ عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جائے گا۔ نیز صحافتی تنظیمیں مشاورت کے بعد آئندہ کے لئے سخت ردعمل اور لائحہ عمل کا بھی اعلان کرنے والی ہیں۔