نیویارک (نیوز ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف مہم جاری، 4 روز میں 10ہزار افراد گرفتار ، بڑے پیمانے پر ملک بدری کا طوفان، ملک بھر میں خوف وہراس، ہر شب کے آخر میں چھاپہ مار کارروائیاں عام ہوگئیں۔

ریسٹورینٹس چھوٹے کاروباری اداروں میں کام کرنے والے غیر قانونی تارکین وطن گھروں میں بیٹھ گئے ہیں، سستی لیبر اور بے بی سسٹرز کی قلت ہوگئی، کتنے پاکستانی، بھارتی اور ایشیائی متاثر ہوئے واضح نہیں ہے۔

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پیدائشی حق شہریت کا قانون صرف غلاموں کی اولادوں کیلئے تھا اسے کسی اور کو استعمال نہیں کرنے دیں گے۔

امریکی صدر ٹرمپ چین، کینیڈا اور میکسیکو پر ٹیرف عائد کرنے کا اعلان آج کریں گے، وائٹ ہاؤس کے مطابق کینیڈا اور میکسیکو سے مصنوعات کی درآمد پر 25 فیصد جبکہ چینی مصنوعات پر 10 فیصد ٹیرف عائد ہوگا جس کا اطلاق آج سے ہوگا۔

قبل ازیں اطلاعات کے مطابق امریکی حکام نے حال ہی میں ایک ایسے پاکستانی کو ڈیپورٹ کیا ہے جس نے امریکا میں سیاسی وجوہات بیان کرکے سیاسی پناہ حاصل کرلی تھی اور گرین کارڈ کے ساتھ پاکستان گئے واپسی پر ایئرپورٹ حکام نے انہیں یہ کہہ کر ڈیپورٹ کردیا کہ ان کے پاکستان جانے اور بخیر واپسی سے واضح ہے کہ ان کی جان کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں لہٰذا امریکا میں ان کی سیاسی پناہ کا اب جواز نہیں۔

تفصیلات کے مطابق صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے اور امیگریشن کے بارے میں ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کے بعد محکمہ امیگریشن، ڈرگ انفورسمنٹ، ایف بی آئی اور دیگر امریکی سرکاری ایجنسیوں کی مشترکہ ٹیموں نے 4 روز میں امریکا بھر میں 10 ہزار سے بھی زیادہ غیر قانونی تارکین وطن کی گرفتاریاں کرلی ہیں۔

امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے تارکین وطن کی فوجی طیاروں اور دیگر ذرائع سے وسیع پیمانے پر لاطینی امریکا کے ممالک وینزویلا، کولمبیا وغیرہ کے شہروں کو ڈیپورٹ کئے جانے کی تصدیق کردی ہے۔

نائب صدر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اتنے وسیع اور تاریخی پیمانے پر ڈیپورٹیشن کے علاوہ یہ بھی تصدیق کی ہے کہ صدر ٹرمپ نے روزانہ 1800؍ غیر قانونی تارکین وطن کی گرفتاری اور ڈیپورٹیشن کا ٹارگٹ بھی مقرر کردیا ہے جو غیرقانونی امیگرنٹس کے خلاف صدر ٹرمپ کے آپریشن کے اختتام تک جاری رہےگا۔

غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف صدر ٹرمپ کی اس مہم کی شدت نے امریکا بھر میں ایک طوفان کھڑا کردیا ہے۔ ہر شب کے آخری حصے میں امریکا کے مختلف شہروں میں چھاپے مارنے کے لئے محکمہ امیگریشن، ایف بی آئی، انسداد منشیات اوردیگر محکموں کے افسران پر مشتمل مشترکہ ٹیمیں رہائش گاہوں اور کام کرنے کی جگہوں پر علی الصبح چھاپے مارنے کے لئے روانہ ہوتی ہیں اور غیر قانوی تارکین مرد و خواتین کو گرفتارکرکے انہیں ڈیپورٹیشن کے لئے بھجوادیا جاتا ہے۔

گو کہ ٹرمپ انتظامیہ کا عوامی موقف یہ ہے کہ وہ امریکا میں غیر قانونی تارکین وطن کی شکل میں موجود غیر ملکی جرائم پیشہ افراد کو ڈی پورٹ کرکے امریکی عوام کو پرامن اورجرائم سے پاک ماحول اور سیکورٹی فراہم کرنا چاہتے ہیں لیکن ٹرمپ حکومت کی امیگریشن کے باے میں اس مہم نے امریکا بھر میں خوف و ہراس کی فضا قائم کردی ہے۔

نیویارک، شکاگو جیسے بڑے شہر غیر قانونی امیگرینٹس کیلئے روزگار اور رہائش کیلئے محفوظ پناہ گاہوں کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اب یہ شہر بھی خوف و ہراس اور گرفتاریوں کا شکار ہیں۔ چھوٹے کاروباری اداروں مثلا ریسٹورنٹس، کنسٹرکشن اور دیگر کاروباری اداروں میں کام کرنے والے غیر قانونی تارکین گھروں میں بیٹھ گئے ہیں یا محفوظ جگہوں پر منتقل ہوگئے ہیں اس کے نتیجے میں اسمال بزنس کے شعبے میں سستی لیبر کی کمی ہوگئی ہے۔

ورکنگ خواتین کے لئے بچوں کی نگہداشت کے لئے بے بی سسٹرز کی بھی کمی ہوگئی ہے۔ صدر ٹرمپ کی اس مہم کے منفی اثرات امریکا کےچھوٹے کاروباری اداروں پر جلد ہی نمودار ہوگا جبکہ سخت محنت طلب بڑے انڈسٹریل اور زراعتی کاروباربھی منفی اثرات کی لپیٹ میں آرہے ہیں کیونکہ فصلوں کی پیداوار اور پھلوں کی زراعتی انڈسٹری کا دارومدار لاطینی امریکا سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن اور ’’سیزنل ورکرز‘‘ پر ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: غیر قانونی تارکین وطن قانونی تارکین وطن کی کاروباری اداروں ٹرمپ کی کے لئے

پڑھیں:

صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی تعریف کیا پاک امریکا سکیورٹی تعلقات کی بحالی کا اشارہ ہے؟

سفارتی ماہرین کی رائے میں بین الاقوامی تعلقات تزویراتی و دیگر ضروریات کے مرہونِ منت ہوتے ہیں نہ کہ جذباتی وابستگیوں کے۔

گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کانگریس سے اپنے طویل ترین خطاب میں اراکین کانگریس کو بتایا کہ امریکا کے افغانستان سے شرمناک انخلا کے وقت دہشت گردی کے ذریعے 13 امریکیوں کی جانیں لینے والے داعش کے دہشت گرد کو پاکستان حکومت کے تعاون سے گرفتار کرکے امریکا لایا جا رہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اس پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا جس پر اراکینِ کانگریس نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔

یہ بھی پڑھیے: ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی کانگریس سے خطاب، پاکستان کا خاص شکریہ کیوں ادا کیا؟

کیا پاک امریکا سکیورٹی تعاون پھر سے بحال ہونے جا رہا ہے اور کیا پاکستان ایک بار پھر سے امریکہ کے لیے ایک اہم ملک بننے جا رہا ہے؟ پھر پاکستان تحریک انصاف کے وابستگان کی جانب سے امریکا میں پاکستان کے خلاف شروع کی گئی اُن مہمات کا مستقبل کیا ہو گا جن میں پاکستان کے سیاسی اور عدالتی نظام کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر امریکی عہدیداران کی حمایت حاصل کی جا رہی ہے؟

یہ سوالات بہت اہم ہیں لیکن اس سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل پاک امریکا تعلقات کی نوعیت کیا تھی اور حلف برداری کے بعد کیا نوعیت ہے؟

پاک امریکا تعلقات حلف برداری سے پہلے اور حلف برداری کے بعد

صدر ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل اور اُس کے بعد کچھ ایسے اشارے نظر آئے جن سے معلوم ہوتا تھا جیسے سپر پاور امریکا پاکستان کے خلاف ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ کی جانب سے پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندیاں، اسی طرح امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کے جانب سے پاکستان میں انتخابات کی ساکھ اور جمہوری نظام پر تبصرے، اس پر مستزاد، صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل کی جانب سے فری عمران خان جیسے ٹویٹس اور حالیہ دنوں میں امریکی کانگریس مین جو ولسن کی جانب سے اسی طرح کے ٹویٹس سے ایسا منظر نظر آتا تھا گویا پاک امریکا تعلقات کچھ زیادہ متاثرکن نہیں اور خاص طور پر ٹرمپ انتظامیہ شاید اس حوالے سے زیادہ سخت اقدامات کرے۔

یہ بھی پڑھیے: دہشتگردی کے خلاف پاکستانی کوششوں کو سراہنے پر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ، وزیراعظم شہباز شریف

حیران کُن طور پر حلف برداری کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے جہاں بہت سے ملکوں کی فوجی امداد بند کی وہیں اُنہوں نے پاکستان کے لیے ایف۔16 طیاروں کی مد میں 397 ملین ڈالر کی امداد پر پابندی نہیں لگائی۔ گزشتہ روز امریکی صدر کی جانب سے ایک ہائی پروفائل دہشت گرد کی گرفتاری پر پاکستانی کردار کی توصیف بھی خاص معنی رکھتی ہے۔

گرفتار دہشت گرد کون ہے؟

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گرفتار دہشت گرد محمد شریف اللہ کا تعلق داعش سے ہے اور وہ اگست 2021 میں امریکی انخلا کے وقت کابل ایبے گیٹ حملے میں 13 امریکیوں کی ہلاکت کا مبینہ ماسٹر مائنڈ ہے۔ روئٹرز کے مطابق شریف اللہ کی گرفتاری پاکستان اور امریکا کے درمیان انسدادِ دہشت گردی تعاون کی ازسرنو تجدید کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے اور پاکستان اور امریکا کے درمیان انسدادِ دہشت گردی تعاون کے ضِمن میں وسیع تر اتفاقِ رائے موجود ہے۔

امریکہ کی پالیسی ٹوئٹر پر نہیں بنتی: حسین حقانی

پاکستان کے امریکا میں سابق سفیر اس خبر کے حوالے سے خصوصی طور پر سوشل میڈیا پر تبصرے کر رہے ہیں، ایسے ہی ایک ٹویٹ میں اُنہوں نے پاکستان تحریک انصاف کا نام لیے بغیر لکھا ’کافی پہلے عرض کیا تھا کہ امریکا کی پالیسی ٹوئٹر پر نہیں بنتی۔ سوچا آج یاد دہانی کروا دوں‘۔ حسین حقانی امریکی کانگریس مینوں کے اُن ٹویٹس کی جانب اشارہ کر رہے تھے جن کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف نے امریکی صدر ٹرمپ سے عمران خان کی رہائی کے سلسلے میں کافی اُمیدیں باندھ رکھی تھیں اور مذکورہ ٹویٹس یہ ظاہر کرتے تھے کہ گویا پاک امریکا تعلقات تاریخ کی خراب ترین سطح پر ہیں۔

حسین حقانی نے ایک ٹویٹ میں مزید لکھا ہے کہ ’پاکستانیوں سے درخواست ہے کہ اب اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائیں کہ امریکہ سے ماضی جیسے تعلقات بحال ہو جائیں گے۔ لیکن تعلقات میں بہتری کی طرف پیشرفت کا امکان ضرور ہے۔ بس سنبھل کر قدم اٹھائیں۔‘

یہ بھی پڑھیے: ’اب عمران خان کی رہائی کا کیا ہوگا؟‘، ڈونلڈ ٹرمپ کے اظہار تشکر کے بعد سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی

4 نومبر کو وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں حسین حقانی نے کہا تھا کہ ’امریکا اپنی تزویراتی ضروریات کے تحت مُلکوں سے تعلقات قائم کرتا ہے اور افغانستان کی وجہ سے پاکستان کو اہمیت ملتی تھی جو اب شاید نہ ملے‘۔ اُسی انٹرویو میں عمران خان کی رہائی میں امریکی صدر ٹرمپ کے کردار بارے پوچھے گئے سوال پر حسین حقانی نے کہا تھا کہ ’میں کسی کی خوش فہمیاں ختم نہیں کرنا چاہتا۔ وہ اگر خوش فہمیوں میں رہنا چاہتے ہیں تو رہیں۔ مجھے سب سے زیادہ پریشانی اس بات سے ہوتی ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے اور انہوں نے پی ٹی آئی کے دوستوں کی خواہش پوری نہ کی تو پھر ان پر کیا گزرے گی۔‘

انسدادِ دہشت گردی پر پاک امریکہ تعاون بحال ہوتا دکھائی دیتا ہے: مائیکل کوگلمین

امریکہ تھنک ٹینک ’دی ولسن سینٹر‘ میں جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان، افغانستان میں دہشت گردی سے متعلق، امریکی خدشات سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے، اور امریکہ کے ساتھ سکیورٹی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے نئی کوششیں کر رہا ہے لیکن یہ کوششیں اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک آپ نئی امریکی انتظامیہ کو کوئی پیشکش نہیں کرتے۔ مائیکل کوگلمین کے مطابق ایبے گیٹ حملے کے ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری کو اِسی تناظر میں دیکھے جانے کی ضرورت ہے‘۔ ایک اور ٹویٹ میں مائیکل کوگلمین نے لکھا کہ ’امریکی صدر نے کابل میں ایبے گیٹ حملے کے ماسٹر مائنڈ تک پہنچنے میں مدد کے لیے پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے، سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ڈائریکٹرز اِس سلسلے میں پاکستان آئی ایس آئی چیف کے ساتھ رابطے میں تھے۔ انسدادِ دہشت گردی پر پاک امریکہ تعاون بحال ہوتا دکھائی دیتا ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

داعش ڈونلڈ ٹرمپ کابل

متعلقہ مضامین

  • امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی طویل ترین تقریر میں کتنے اور کون سے جھوٹ بولے؟
  • صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی تعریف کیا پاک امریکا سکیورٹی تعلقات کی بحالی کا اشارہ ہے؟
  • بڑی خبر! 5 ہزار ملازمین کیلئے بری خبر، نوکری سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا گیا
  • ماہ صیام اور مہنگائی کا طوفان
  • شہری کی مبینہ غیرقانونی حراست کیس ؛ایس پی سی ٹی ڈی، ایس ایچ اور اور دیگر کیخلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم  
  • پاکستانی و دیگر تارکین وطن کو گوانتاناموبے جیل بھیجنے کیخلاف امریکا میں مقدمہ دائر
  • امریکی جج نے ٹرمپ کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دے دیا
  • تلخ ملاقات
  • سعودی عرب میں 17 ہزار غیر قانونی تارکین گرفتار
  • یوکرین، عالمی طاقت کا یوٹرن