Nai Baat:
2025-02-01@06:40:51 GMT

جرمن انتخابات۔۔جرمنی نئی منزلوں کی تلاش میں

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

جرمن انتخابات۔۔جرمنی نئی منزلوں کی تلاش میں

عالمی سیاسی افق اس وقت عجیب منظر نامہ پیش کرہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دائیں بازو کی حامل شخصیات اور سیاسی جماعتوں نے رائے عامہ کو یرغمال بنا لیا ہے۔ آج سے چند ہفتے قبل امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسری بار صدارت کی گدی پر براجمان ہونا اسی رجحان کی کڑی ہے۔ اسی طرح، آسٹریا میں ’’فری ہائٹلیشے پارٹی آسٹریا‘‘ اور اٹلی میں’’لیگا‘‘ جیسی پارٹیاں، جو امیگریشن کے خلاف خیالات کی بنیاد پر انتخابات میں کامیاب ہوئیں اور اب ان ممالک کی بھاگ دوڑ سنبھال رہی ہیں۔ بھارت میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی ہندوتوا اور افغانستان میں انتہا پسند طالبان کا بول بالا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے سابقہ وزیراعظم عمران خان اپنے غیر مستحکم مذہبی و سیاسی خیالات کی بنیاد پر مقبولیت کے سنگھاسن پر سوار ہیں۔

ہارڈ لائنز کی نمائندگی جرمنی میں 23 فروری2025ء کو ہونے والے عام انتخابات میں بھی نظر آنے کا امکان ہے، جس میں دائیں بازو کی جماعت ’’آلٹرنیٹو فار جرمنی‘‘ (اے ایف ڈی) اپنی امیگریشن مخالف پالیسی اور نازی حمایت یافتہ مؤقف کی بنیاد پر مقبولیت کی نئی سطح کو چھو رہی ہے۔آنے والے دنوں میں دنیا کی چوتھی بڑی اور یورپ کی سب سے بڑی معیشت کی فیصلہ سازی کے عمل میں اس دائیں بازو کی جماعت کا کلیدی کردار ہوگا۔ اس بڑھتی ہوئی مقبولیت سے مسلمانوں، غیر ملکیوں خصوصاً پاکستانی کمیونٹی میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ جرمنی میں مقیم پاکستانیوں کی اکثر تعداد طالبعلم، نوکری پیسہ افراد یا پناہ گزینوں پر مشتمل ہے۔ ان انتخابات کے نتائج کا ڈائریکٹ اور فوری اثر ان میں سے بیشتر افراد خصوصاً وہ افراد جو غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں کے مستقبل پر طور پر پڑے گا۔

ایلس ویڈل’’آلٹرنیٹو فار جرمنی‘‘ (اے ایف ڈی) کی جانب سے چانسلر کی امیدوار ہیں۔ اس پارٹی کے رہنماؤں نے اپنے حالیہ متنازعہ بیانات میں ہٹلر کے کچھ خیالات کو درست قرار دیا اور یورپی اتحاد پر کڑی تنقید کی۔یہ پارٹی اپنی امیگریشن اور مہاجرین مخالف پالیسی کو بخوبی اجاگر کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ ایک حالیہ واقعے میں، جرمنی کے شہر کارلسروہے میں، ’’آلٹرنیٹو فار جرمنی‘‘کے حامی کارکنوں نے 30ہزار پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کیے جن کا ڈیزائن یکطرفہ ہوائی جہاز ٹکٹوں سے مشابہت رکھتا تھا اور اس کی منزل کے خانے میں محفوظ سر زمین درج تھا۔ اس بات کا بھی خیال رکھا گیا کہ یہ پمفلٹ اپنے اصل مخاطبین یعنی مہاجرین تک پہنچ سکیں چنانچہ یہ ان کے گھروں کے لیٹر باکس میں ڈالے گئے تھے۔ ایک بیان کے مطابق پولیس نے اس واقعے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ اس پارٹی کے مخالفین نے سوشل میڈیا پر’’نیور اگین‘‘کا ہیش ٹیگ چلا کر ان انتہا پسند بیانات اور سرگرمیوں کی مخالفت کی ہے۔ یہ یاد رہے کہ اس پارٹی کے مہاجرین مخالف مؤقف کو غیر ملکیوں کے پرتشدد واقعات کی بنا پر پزیرائی ملتی ہے۔حال ہی میں، اشافن برگ میں ایک افغان شہری نے دو افرار کو چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا تھا، جس کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اینٹی امیگریشن قوانین پر بحث مزید تیز ہو گئی ہے۔

کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) طویل عرصے تک جرمنی کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آتی رہی ہے۔ ماضی میں اس پارٹی کی قیادت سابقہ چانسلر انگیلا مرکل نے کامیابی کے ساتھ سنبھالی اور اپنی مقبولیت کی بدولت 2005 سے2012ء تک ملک کی چانسلر رہیں۔ تاہم، اب مرکل کی بہت سی پالیسیز جن میں جنگ زدہ ممالک کے پناہ گزینوں کی مدد، ’’ڈیٹ بریک‘‘ پالیسی کا نفاذ، روسی تیل پر ضرورت سے زیادہ انحصار اور انفراسٹرکچر پر ضرورت سے کم خرچ کرنے پر کڑی تنقید ہو رہی ہے۔ حالیہ انتخابات میں اس پارٹی کے چانسلر کے امیدوار فریڈرک مرز ہیں جن کا مرکزی فوکس ٹیکس ریٹس میں کمی، فلاحی سہولیات میں کچھ سختی برتنا، امیگریشن میں کٹوتی کرنا اور یوکرین کی امداد کو بڑھانا شامل ہیں۔

دوسری جانب سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (اس پی ڈی ) کے اولاف شولز ہیں، جو حالیہ اتحادی حکومت میں چانسلر تھے۔ شولز کے بنیادی نکات میں کم آمدنی والے خاندانوں پر کھانے پینے کی اشیاء پر کم ویلیو ایڈڈ ٹیکس نافذ کرنا، کم آمدنی والے افراد پر کم ٹیکس کا بوجھ ڈالنا، کم از کم اجرت کی شرح بڑھانا، امیگریشن پالیسی کو کم فنڈ دینا، انفراسٹرکچر سرمایہ کاری فنڈ کی مد میں100ارب یورو مختص کرنا اور یوکرینی امداد میں کمی کرنا شامل ہے۔

رابرٹ ہیبیک’’گرین‘‘پارٹی کی جانب سے چانسلر کے عہدے کی امیدوار ہیں۔ پچھلی حکومت گرین پارٹی کی اینالینا بیربوک وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں اور انہوں نے ماحولیاتی تبدیلیوں کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ رابرٹ کا فوکس پرجوش نوجوانوں کی طرف راغب ہے اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جرمنی کو قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل ہونا ہوگا اور ماحول دوست پالیسیز کو اپنانا ہوگا۔’’گرین‘‘پارٹی کی انتخابی مہم کا مرکزی نعرہ ’’مستقبل کو سبز بنائیں‘‘ہے، جس میں وہ کاربن اخراج میں کمی، الیکٹرک گاڑیوں کی ترویج، اور فوسل فیولز سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ وہ ان سبز دوست پالیسیز کی بدولت پورے یورپ میں ماحولیاتی تعاون کے خواہاں ہیں۔فری ڈیموکریٹک پارٹی (آف دی پی) کے امیدوار کرسچن لنڈنر کاروبار دوست پالیسیز، کم ٹیکسز اور آزاد مارکیٹ کے حامی ہیں۔ یہ گزشتہ اتحادی حکومت میں اولف شولز کے وزیر خزانہ رہے تاہم اس وقت کے چانسلر اولاف شولز نے 6 نومبر 2024ء کو وزیر خزانہ کرسچن لنڈنر کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ اس فیصلے کی وجہ حکومت کے بجٹ اور معاشی پالیسیوں پر طویل عرصے سے جاری اختلافات تھے۔ شولز زیادہ مالیاتی اخراجات اور یوکرین کی حمایت کے لیے مزید قرض لینے کے حامی تھے، جبکہ لنڈنر مالیاتی سختی اور قرض کی حد کو برقرار رکھنے پر زور دے رہے تھے۔

لنڈنر کی برطرفی کے بعد، ان کی جماعت ایف ڈی پی نے مخلوط حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی، جس سے حکومت کا اتحاد ٹوٹ گیا اور قبل از وقت انتخابات کی راہ جرمنی کی سیاست میں ماحولیاتی تبدیلی، امیگریشن، اور معیشت اہم موضوعات بن چکے ہیں۔ کووڈ-91 کے بعد جرمنی کو شدید معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کا سب سے واضح اثر آٹو انڈسٹری کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں تقریباً 50بڑے کارخانے بند ہو چکے ہیں، جن میں ووکس ویگن، بی ایم ڈبلیو، اور مرسیڈیز بینز جیسے بڑے برانڈز کے چھوٹے بڑے کارخانے بھی شامل ہیں۔ ان بندشوں کے نتیجے میں تقریباً ایک لاکھ افراد اپنی ملازمتوں سے محروم ہو چکے ہیں۔’’گرین‘‘ پارٹی نے اس بحران کو موقع گردانتے ہوئے ممکنہ ووٹرز کی توجہ اس طرف مرکوز کرائی ہے کہ جرمنی کو اب اپنی روایتی صنعتوں پر انحصار کم کر کے الیکٹرک گاڑیوں اور قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل ہونا ہوگا۔

روس-یوکرین جنگ نے جرمنی کی معیشت اور معاشرے کو شدید متاثر کیا ہے۔ جرمنی روس سے قدرتی گیس کا سب سے بڑا درآمد کنندہ تھا، لیکن جنگ کے بعد توانائی کے بحران نے ملک کو ایک بڑے چیلنج سے دوچار کر دیا۔ توانائی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے نے نہ صرف گھریلو صارفین کو بے حد متاثر کیا بلکہ صنعتوں کو بھی شدید دباؤ میں ڈال دیا۔ اس بحران کے نتیجے میں آٹو، مینوفیکچرنگ اور کیمیکل سیکٹرز، جو جرمن معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ اس بحران نے عوام میں گزشتہ حکومت کے خلاف ناراضی کو بڑھاوا دیا تھا۔ اس خفت کا اثر انتخابات میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔

یورپی اتحاد اور نیٹو کے حوالے سے جرمنی کو سخت دباؤ کا سامنا ہے۔ اپنے حالیہ صدارتی خطاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی مجموعی قومی پیداوار کا کم از کم 5 فیصد دفاع پر خرچ کریں جو کہ پہلے 2فیصد طے شدہ تھا۔ جرمنی نے اس ہدف کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ابھی تک یہ صرف1.

5 فیصد تک پہنچ سکا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیز نے یورپ اور خاص طور پر جرمنی میں تحفظات پیدا کیے ہیں۔ اے ایف ڈی جیسی جماعتیں یورپی اتحاد کے خلاف موقف اختیار کرتی ہیں اور ٹرمپ کی ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ پالیسی سے متاثر ہیں، جبکہ ایس پی ڈی اور گرین پارٹی یورپی اتحاد کی حامی ہیں اور نیٹو میں جرمنی کے کردار کو متوازن رکھنے کی خواہش مند ہیں۔

ایلون مسک نے اپنے حالیہ بیانات میں واضح طور پر ’’آلٹرنیٹو فار جرمنی‘‘ کی حمایت کا اشارہ دیا ہے۔ حتیٰ کہ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر کے دوران بازو اٹھا کر اور ہوا میں خاص طریقے سے لہرا کر پرو نازی ہونے کا سگنل بھی کیا۔ان کی یہ حرکات اور کئی ایسے اور بیانات جرمنی میں شدید تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ایک جرمن تجزیہ کار کے مطابق ایلون مسک ان اشاروں سے ان سوئنگ ووٹرز پر حاوی ہونا چاہ رہے ہیں جو کہ ابھی تک اپنے ووٹ کے حقدار کو تلاش کرنے میں ناکام ہیں اور ان کی یہ حرکات ان کے ہم خیال ’’آلٹرنیٹو فار جرمنی‘‘ کو زیادہ سے زیادہ ووٹ لینے میں مددگار ثابت ہو سکیں گی۔ کیونکہ ماضی کے انتخابات میں جرمنی کو کبھی اتنی کھلی مداخلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، وہ اسے اپنی ملکی سالمیت پر حملے سے تشبیہ دے رہے ہیں اور ان حرکات کو جرمن انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونا گردان رہے ہیں۔

ان سب نکات کا واضح اثر معاشرے میں گہری تقسیم کی صورت میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں پر’’گرین‘‘ کے حامی نوجوان اور سی ڈی یو کے روایتی ووٹرز کے درمیان کشش بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے، جس کی وجہ سے قریبی حلقہ احباب اور دوستوں کے درمیان گرم بحث و مباحثے کا سماں نظر آتا ہے۔ امیگریشن کے مسئلے پر اے ایف ڈی کے سخت موقف نے معاشرے کو مزید تقسیم کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں مہاجرین کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ان کے حامیوں کے جوابی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ معاشی پالیسیوں پر اختلافات نے مڈل کلاس اور مزدور طبقے کے درمیان دوریاں پیدا کی ہیں، جس کا اثر واضح طور پر کام کی جگہوں پر دیکھائی دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر’’نیور اگین‘‘ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ ہونا اس سماجی تقسیم کی نمایاں مثال ہے۔دی گارڈین کے تازہ ترین جائزوں کے مطابق، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سی ڈی یو اور اس کی باویرین اتحادی پارٹی، سی ایس یو کے امیدوار مرز جرمنی کے اگلے چانسلر ہوں گے۔ یہ اتحادی پارٹیاں کئی مہینوں سے مسلسل 31 فیصد کے ساتھ پولز میں سب سے آگے ہیں، جبکہ اے ایف ڈی21-20 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ ایس پی ڈی تقریباً 61 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، اور گرین 41 فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔در حقیقت جو بھی پارٹی اوپر درج اہم موضوعات کا متوازن حل اور ان کو عملی جامہ پہنانے کا مؤثر پلان پیش کرے گی، آنے والی حکومت میں نمایاں مقام پائے گی۔مستند تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ممکن ہے کہ اتحادی حکومت قائم ہوگی کیونکہ کسی ایک جماعت کا واضح اکثریت حاصل کرنا مشکل ہو گا۔اس اتحاد میں اس پی ڈی یا گرین، یا شاید دونوں شامل ہوں گی مگر پارلیمنٹ میں نشستوں کی تقسیم کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ امر بھی ممکنات میں سے ہے کہ سی ڈی یو کچھ نکات جیسے کہ غیر قانونی غیر ملکیوں کے اوپر کریک ڈاؤن جیسے معاملات پر دائیں بازو کی اے ایف ڈی کے ساتھ الحاق کر کے ’’ایکلیمیٹ ایڈیشن آف ورکنگ ریلیشن شپ‘‘ قائم کر لے۔ دنیا بھر کی نظریں جرمنی کے آنے والے انتخابات اور اس کے نتیجے پر لگی ہوئی ہیں۔ تاہم ہمیں اس کے نتائج اور اس کی بنیاد پر بننے والی اتحادی حکومت جو کہ نہ صرف جرمنی بلکہ یورپ کی سمت کا تعین کرے گی، کا انتظار2025ء کے پہلے ربع کے اخیر تک کرنا ہو گا۔

: مصنف سعود بن نعمان میونخ، جرمنی میں مقیم فری لانس صحافی اور لکھاری ہیں۔ وہ جرمنی کی زندگی کے تجربات اور حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ پاکستانی ثقافت، سیاست اور دیگر موضوعات پر اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ ان کے مضامین سماجی مسائل، بین الاقوامی تعلقات اور جدید دنیا کے مختلف پہلوؤں پر محیط ہوتے ہیں۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: دائیں بازو کی اتحادی حکومت انتخابات میں فیصد کے ساتھ یورپی اتحاد اس پارٹی کے کی بنیاد پر اے ایف ڈی جرمنی کو پارٹی کی جرمنی کے کے نتیجے کے مطابق جرمنی کی سی ڈی یو کے حامی کے خلاف بات میں ہیں اور رہے ہیں اور اس اور ان کے بعد دیا ہے رہی ہے کر دیا

پڑھیں:

کچا قلعہ سے لاپتا ذہنی معذور نوجوان کا پتہ نہ چل سکا

حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) کچا قلعہ سے 20 روز قبل پراسرار طور پر لاپتا ہونے والے ذہنی معذور نوجوان کا تاحال پتہ نہ چل سکا، نوجوان کی والدہ نے اربابِ اختیار سے مطالبہ کیا ہے کہ میرے بیٹے کی تلاش میں میری مدد کی جائے۔ اس حوالے سے لاپتا نوجوان کی والدہ مسمات حمیدہ اور بھائی محمد بلال نے گزشتہ روز پریس کلب کے سامنے پہنچ کر بتایا کہ میرا نوجوان بیٹا حسن ذہنی معذور ہے اور گزشتہ 11 جنوری کے روز گھر سے نکلا تھا جو اب تک واپس نہیں آیا، جبکہ اس سے قبل میرا بیٹا کبھی لاپتا نہیں ہوا، بیٹے کے گمشدگی کی حوالے سے متعلقہ تھانے کی پولیس، ایدھی سینٹر سمیت دیگر اداروں کو بھی آگاہ کیا اور ہر جگہ تلاش کیا لیکن 20 روز گزر جانے کے باوجود اب تک میرے بیٹے کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ انہوں نے اربابِ اختیار سے اپیل کی کہ بیٹے کی تلاش میں ہماری مدد کی جائے۔

متعلقہ مضامین

  • کچا قلعہ سے لاپتا ذہنی معذور نوجوان کا پتہ نہ چل سکا
  • ناصر حسین شاہ سے جرمنی کے وفد کی ملاقات، انرجی سیکٹر میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار
  • جرمن قانون ساز متنازعہ امیگریشن قانون پر آج ووٹ ڈالیں گے
  • رمضان کے دوران صارفین کو ریلیف فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، رانا تنویر حسین
  • کیا حکومت تعلیم کے شعبے کو بھی کنٹرول کرنا چاہتی ہے؟
  • جی بی کے آنے والے انتخابات ہمارے لیے بہت اہم ہیں،امیرمقام
  • شام: نئی قیادت کی جانب سے آئین منسوخ، احمد الشرع عبوری صدر مقرر
  • پاکستان کسی وقت جرمنی اور چین جیسے ملکوں کو قرض دیتا تھا
  • فلسطینیوں کو بےگھر کرنا ٹھیک نہیں، جرمنی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز مسترد کردی