Nai Baat:
2025-02-01@06:48:24 GMT

نہرو کا بھوت کشمیر کب چھوڑے گا؟

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

نہرو کا بھوت کشمیر کب چھوڑے گا؟

وہ 18جنوری 1955ء کا دن تھا جب ایک ایمبولینس ہسپتال میں تیزی سے داخل ہوئی۔ سٹریچر پر پڑے شخص کو جلدی جلدی ڈاکٹر تک پہنچایا گیا۔ اس کے منہ کے قریب لال رنگ کے قطروں کے کچھ داغ نمایاں تھے۔ ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کیا اور مریض کے ساتھ آنے والوں کو مخاطب کرکے کہا کہ اس کی جگہ ہسپتال نہیں قبرستان ہے، یہ مرچکا ہے۔ ڈاکٹر کو کیا معلوم تھا کہ یہ مردہ کبھی ایک کشمیری بچہ تھا، جو اپنا بچپن امرتسر، جوانی لدھیانہ، علی گڑھ، دہلی اور بمبئی میں گزارتے ہوئے پختہ عمری میں پختہ ارادے کے ساتھ شہر لاہور پہنچا تھا اور پھر یہاں سے کہیں نہیں گیا۔ ڈاکٹر کا اردو کے ایک ممتاز قلم کار سعادت حسن منٹو کو نہ پہچاننے کا معاملہ اتنا افسوس ناک نہیں تھا لیکن منٹو کو بہت سے ادیبوں، نقادوں اور حکومتِ وقت کے نہ پہچاننے کا معاملہ شاید بہت افسوس ناک تھا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ یہ مرچکا ہے۔ وہ اُس کے مردہ جسم کی بات کررہا تھا جس پر اس وقت کی حکومت اور بہت سے ادیب خوش ہوگئے ہوں گے کیونکہ وہ مردوں کو پسند کرنے کے باعث راجہ گدھ میں تبدیل ہوچکے تھے جس کی تصدیق 21ویں صدی میں ہوتی ہے جو پاکستانی لوگوں کے لیے اظہارِ رائے کی آزادی کی جرات زیادہ لوگوں میں لے کر آئی۔ محقق اور ادیب پروفیسر ڈاکٹر روش ندیم لکھتے ہیں کہ مجھے منٹو کے اندر ہمیشہ نشاۃ الثانیہ اور 18ویں صدی کے یورپی ادیبوں کی سی باغیانہ تڑپ دکھائی دی ہے۔ سعادت حسن منٹو پر فحاشی پھیلانے، نفسیاتی مریض ہونے اور ملک سے محبت نہ کرنے جیسے روایتی الزامات لگائے جاتے رہے جن کی بنیاد پر اُس کا اکثر بے روزگار رہنا، سوسائٹی میں ناپسندیدہ شخص قرار پانا اور ذہنی اذیت میں چلے جانا ایک قدرتی امر تھا لیکن وہ ایک خالص کشمیری تھا، اسے خود پر اعتماد تھا، اسی لیے مانگے کی اکڑپر یقین نہیں رکھتا تھا۔ اُس نے تمام تر مقدمات، حاسد بہروپیوں اور تنگ دستی کے صحرائوں کا خوب مقابلہ کیا۔ ممتاز دانشور، اردو کے معروف نقاد اور محقق پروفیسر فتح محمد ملک سعادت حسن منٹو پر لگائے گئے اعتراضات کے حوالے سے اپنی ایک تصنیف ’’سعادت حسن منٹو ایک نئی تعبیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اپنی وفات سے نصف صدی بعد بھی منٹو اپنے نقاد کے انتظار میں ہے۔ ہماری تنقید اب تک منٹو کی اُسی شہرت کی اسیر چلی آرہی ہے جو بالکل ابتدا ہی میں منٹو کو مل گئی تھی۔ آغازِ کار سے لے کر پایانِ کار تک منٹو کا فن ایک مسلسل ارتقا ہے مگر اُردو تنقید نے منٹو کے بارے میں ادبی رائے عامہ سے زیادہ اعتنا کیا ہے اور منٹو کی فکری نشوونما اور منٹو کے موضوعات کے تنوع سے بہت کم سروکار رکھا ہیـ۔ پاکستان بننے کے بعد منٹو کی تخلیقی صلاحیتوں کے بارے میں پروفیسر صاحب نے اپنی اسی کتاب میں ایک جگہ لکھا کہ پاکستان کا طلوع اپنے جلو میں نئی تخلیقی زرخیزی لایا تھا۔ منٹو ہمارے ان فنکاروں میں یگانہ و یکتا ہے جنہوں نے اس تخلیقی زرخیزی کو کام میں لانے کی طرف توجہ دی۔ پاکستان کے قیام نے منٹو کے فکرو احساس کی دنیا کو منقلب کرکے رکھ دیا تھا۔ چنانچہ پاکستان پہنچتے ہی منٹو نے نئی زندگی کے نئے ممکنات کو کھنگالنا شروع کردیا تھا۔ اس تعمیری اندازنظر نے منٹو کو اپنے معاصرین کے ساتھ فکری تصادم اور نظریاتی پیکار میں بھی مبتلا کردیا تھا۔ پروفیسر فتح محمد ملک مزید لکھتے ہیں کہ سچی بات یہ ہے کہ سعادت حسن منٹو نے کتاب سے زیادہ زندگی سے سیکھا ہے۔ وہ عمربھر اپنے مشاہدات اور تجربات سے سیکھتے رہے۔ نئے تجربات اور گہرے مشاہدات سے انہوں نے ہمیشہ زندگی کی معنی خیز سچائیاں اخذ کیں اور ان کا انتہائی جرات سے اظہار کیا۔ اس سلسلے میں یہ بات انتہائی قابل قدر ہے کہ انہوں نے اپنے تجربہ اور مشاہدہ سے برآمد ہونے والے انکشافات سے اپنے تصورات کو بارہا رد کردیا اور ان کی جگہ نئے تصورات اختیار کرلیے۔ اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان کے بارے میں ان کے نقطہ نظر میں رونما ہونے والی تبدیلی ہے۔ ’’سعادت حسن منٹو ایک نئی تعبیر‘‘ میں منٹو کی پاکستان سے جذباتی وابستگی کے بارے میں تحریر ہے کہ سعادت حسن منٹو نے خود کو اگست سن سنتالیس میں پہچانا۔ سعادت حسن منٹو کا مَن کتنا مسلمان اور پاکستانی تھا اس بارے میں پروفیسر صاحب نے اپنی اسی کتاب میں بیان کیا کہ انہیں اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ اسلام، ہادی اسلام اور پاکستان کے خلاف لوگ ایک عرصے تک زہر اگلتے رہیں گے لیکن اس زہرافشانی کے باوجود اسلام اور پاکستان کے اٹل حقائق اپنی جگہ پر قائم اور دائم رہیں گے۔ چنانچہ منٹو، بابو رائو پاٹیل جیسے اسلام دشمن اور پاکستان مخالف قلم کاروں کے قلم کو غلاظت اور گندگی میں ڈوبا ہوا دیکھتے ہیں اور اُن کی تحریروں سے انہیں گھن آنے لگتی ہے۔ سعادت حسن منٹو کے مَن میں کشمیر کتنا بسا ہوا تھا اس کا اندازہ ان کے ایک مضمون ’’مرلی کی دھن‘‘ میں ہوتا ہے جس میں وہ اپنے ایک بمبئی کے سابقہ جگری یار شیام کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آج چودہ اگست ہے۔ وہ دن جب پاکستان اور ہندوستان آزاد ہوئے تھے۔ اِدھر اور اُدھر دونوں طرف خوشیاں منائی جارہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ حملے اور دفاع کی تیاریاں بھی زوروشور سے جاری ہیں۔ میںشیام کی روح سے مخاطب ہوتا ہوں۔ پیارے شیام! میں بمبئی ٹاکیز چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ کیا پنڈت جواہر لال نہرو کشمیر نہیں چھوڑ سکتے؟ ہے نا ہپ ٹلا بات؟ ڈاکٹر نے سٹریچر پر پڑے ہوئے سعادت حسن منٹو کو دیکھ کر کہا تھا کہ اس کی جگہ یہاں نہیں بلکہ قبرستان ہے۔ ڈاکٹر نے بالکل غلط کہا تھا کیونکہ منٹو کی جگہ اور کہیں نہیں پاکستانیوں اور کشمیریوں کے دل میں ہے۔ کشمیری لکھتے ہوں یا لڑتے ہوں، ان کا مقصد آزادی ہے، انسان کی آزادی، زبان کی آزادی، قلم کی آزادی۔ آزادی کی جدوجہد کرنے والے کبھی مردہ نہیں ہوتے، زندہ رہتے ہیں۔ لوگ انہیں کتابوں میں، تحریروں میں اور دلوں میں یاد رکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل سطح پر منٹو کی علمی خدمات کے اعتراف کے بعد بھی کشمیری منٹو کی روح اس سوال کا جواب لینے کو تڑپ رہی ہے کہ نہرو کا بھوت کشمیر کب چھوڑے گا؟ یہ کالم 5فروری کو منائے جانے والے یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سعادت حسن منٹو اور پاکستان کے بارے میں پاکستان کے کی ا زادی ڈاکٹر نے منٹو کو منٹو کے منٹو کی کی جگہ

پڑھیں:

کشمیریوں کی نسل کشی میں ملوث بھارت کو جمہوری ملک کہلانے کا کوئی حق نہیں

سیمینار کے مقررین کا کہنا تھا ک بھارت نے کشمیری عوام کی خواہشات کے برخلاف ریاست جموں و کشمیر کے بڑے حصہ پر غاصبانہ قبضہ کر کے دو کروڑ کے قریب کشمیریوں کے بنیادی حق حق خوداردیت کو سلب کر رکھا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار کے مقررین نے کہا ہے کہ بھارت ریاست جموں و کشمیر کے ایک بڑے حصہ پر ناجائز اور غیر قانونی تسلط قائم کر کے کالے قوانین کی آڑ میں مظلوم کشمیریوں کی نسل کشی میں ملوث ہے اور اسے جمہوری ملک کہلانے کا حق حاصل نہیں ہے۔ ”بھارت کی نام نہاد جمہوریت:مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں” کے عنوان سے سیمینار کا اہتمام جموں و کشمیر لبریشن سیل لا افیئر ونگ اور اسلام اباد بار ایسوسی ایشن کے باہمی تعاون سے شہداء ہال جوڈیشل کمپلیکس میں منعقد کیا گیا تھا۔ سیمینار کے مقرریں میں کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے کنوینیر غلام محمد صفی، اسلام آباد بار کے صدر نعیم گجر ایڈووکیٹ، کشمیر انسٹی ٹیوٹ اف انٹرنیشنل ریلیشن کے چیئرمین الطاف حسین وانی، قائداعظم یونیورسٹی سکول اف لا کے پروفیسر فہد امین، کشمیر پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈایریکٹر ڈاکٹر سجاد لطیف، جمون و کشمیر لبریشن سیل لا افیئر ونگ کے انچارج سردار ساجد محمود، ملک حذیفہ ایڈوکیٹ اور سیکریڑی بار عبدالحلیم بوٹو شامل تھے۔

مقرین نے کہا کشمیری عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارت کے یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منا تے ہیں۔ غلام محمد صفی اور نعیم علی گجر نے کہا کے بھارت نے کشمیری عوام کی خواہشات کے برخلاف ریاست جموں و کشمیر کے بڑے حصہ پر غاصبانہ قبضہ کر کے دو کروڑ کے قریب کشمیریوں کے بنیادی حق حق خوداردیت کو سلب کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے کشمیریوں کی جدوجہد جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فوجی نہتے کشمیریوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت کشمیریوں کے قتل عام، جبری گرفتاریوں، پیلٹ گنز کے ذریعے انہیں عمر بھر کیلئے بینائی سے محروم کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی شناخت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

دیگر مقررین نے کہا کہ بھارت کا یہ دعویٰ کہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر وہ عمل درآمد کا پابند نہیں درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ میں بھارت نے کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دینے کا وعدہ کیا تھا۔ سیمینار میں اسلام آباد بار کے عہدیداران اور سینئر وکلا کی بڑی تعداد کے علاوہ کشمیر سنٹر راولپنڈی کے ڈائریکٹر راجہ خان افسر خان، ایڈووکیٹ نثار شاہ، ایڈووکیٹ دلاور خان، ایڈووکیٹ وصی طاہر، ایڈووکیٹ کامران یوسف زئی اور راجہ راشد رضا نے بھی شرکت کی۔

متعلقہ مضامین

  • یوم یکجہتی کشمیر: ’آزادی کا دن دور نہیں‘، آزاد کشمیر کے عوام کا مقبوضہ کشمیر کے نام پیغام
  • یوم یکجہتی کشمیر کی تیاریوں کےسلسلے کا آغاز کر دیا‘ سنی تحریک
  • کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے ،فیصل ندیم
  • 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر عام تعطیل کا اعلان
  • سقوط ڈھاکہ کے بعد ایک کوئی سقوط نہیں ہوگا؛ سیکرٹری جماعت اسلامی
  • کشمیریوں کی نسل کشی میں ملوث بھارت کو جمہوری ملک کہلانے کا کوئی حق نہیں
  • مقام افسوس یہ ہے کہ …!!
  • افغانستان میں امریکی جدید ہتھیاروں کی موجودگی خطے کی سلامتی کیلئے باعث تشویش ہیں، دفتر خارجہ
  • پاکستان کا جدید امریکی ہتھیاروں کی افغانستان میں موجودگی پر ردعمل