آزادی اظہارکاقاتل پیکا ایکٹ
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
اپوزیشن میں ہوتے ہوئے سیاستدان کا مسائل دیکھنے کاجوزاویہ ہوتاہے وہ اقتدار میں آتے ہی یکسر بدل جاتاہے اِس خیال کی تائیدپیکا ترمیمی بل سے ہوتی ہے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے آزاد صحافت کی بات کرنے والے حکومت میں آکر تعمیری تنقیدبرداشت کرنے سے بھی قاصرہیں قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظوری ملتے ہی صدرآصف زرداری نے بھی متنازع ترمیمی بل پر دستخط کر دیئے ہیں جس سے اِس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ ظاہری اختلاف کے باوجود ن لیگ اور پی پی دونوں ذرائع ابلاغ کاناطقہ بند کرنے پر متفق ہیں صدر نے دستخط کرنے سے قبل کسی کو اِتنا موقع ہی نہیں دیا کہ آئینی حقوق سے متصادم کسی شق کے متعلق کوئی اُنھیںآگاہ کرسکے حالانکہ اعتراض لگا کر چند روزبل روکنے کا اُنھیں اختیارحاصل ہے لیکن انھوں نے حکومت کاساتھ دیکر اُس کے خلاف بڑھتی نفرت میں حصہ داربننابہترسمجھا اب جبکہ یہ قانون بن کر نافذ ہو چکا ہے تو اِس میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ صحافیوں کی زندگی اجیرن ہونے کے ساتھ عام آدمی کی سچ تک رسائی کم ہوگی نیز پاکستان میں آزادی اظہارکا نعرہ دم توڑ دے گا اور صرف حکومتی موقف عوام تک پہنچنے کی راہ ہموار ہوگیااِس بناپرموجودہ دورکو جمہوری کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے جمہوریت تو یہ ہے کہ عوام اپنی پسند اور ناپسند کا اظہار کرنے میں آزاد ہو برداشت و رواداری جمہوریت کاحسن اور روح ہے نرم سے نرم الفاظ میں بھی پیکا ایکٹ کو آزادی اظہار کا قاتل کہنامناسب ہے اب لوگ بولنے سے قبل حکومتی اجازت نامہ حاصل کرنے پر مجبورہوں گے وگرنہ گرفتاری اور سزا کا سامنا ہوگا پیکا قانون سے اگر حکومت آزادی اظہارکاحق سلب کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ ایسے خواب پورے ہوں بلکہ ایک نئی احتجاجی تحریک جنم لینے کا امکان ہے البتہ صحافیوں سے جیلیں بھرنے کامقصد پورا ہو سکتا ہے متوقع عالمی دبائو کابھی شاید حکمرانوں کو اندازہ نہیں۔
حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اخبار یا ٹی وی نہیں بل سوشل میڈیا کے متعلق ہے لیکن بل کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ایسے کئی سقم ہیں جو حکومتی موقف کے برعکس ہرخبر دینے والے کو قانونی شکنجے میں لا سکتے ہیں شق 29 اِس بل کے تحت ہونے والے اقدامات کو کسی عدالت یا ایجنسی کے آگے چیلنج کرنے پر قدغن لگاتی ہے یہ بل صحافیوں کے ساتھ شخصی آزادیوں کی آئینی یقین دہانیوں کو غیر موثر کرتا ہے دی پری وینشن آف الیکٹرانک کرائمز (ترمیمی)بل جسے پیکاکا نام دیا گیا ہے کے لیے ایک نئی تحقیقاتی ایجنسی تشکیل دینے کی تجویز ہے جو سزائیں سنانے کے وسیع اختیارات کی حامل ہو گی ۔
حکمران اتحادمیں شامل دونوں بڑی جماعتوں ن لیگ اور پی پی سے ایسے کسی انتہائی اقدام کی توقع نہیں تھی جس سے ذرائع ابلاغ میں تلاطم وہیجان جنم لے کیونکہ ذوالفقارعلی بھٹو نے پی پی کی بنیاد رکھی تو آمریت سے بدظن پرنٹ میڈیا نے ہواکا تازہ جھونکا محسوس کرتے ہوئے نئی جماعت کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور قلیل مدت میں بھٹو اقتدار تک پہنچادیا مشرف دورمیں جب چینلزپر پابندیاں لگائی گئیں تو اِس کڑے وقت میں بے نظیربھٹو صحافیوں کے ساتھ رہیں ن لیگ کو بھی میڈیا دوست جماعت تصورکیا جاتا ہے پی ٹی آئی کو اقتدارتک لانے میں بھی میڈیا کاکلیدی کردارہے جب عمران خان پر تنقید بڑھنے لگی توہ میڈیا سے نالاں رہنے لگے اوردورہوتے گئے اورپھرنجی محافل میں میڈیا کو قابو کرنے پر مشاورت شروع کردی صحافیوں کو جوتے کی نوک پر رکھنے کے قائل فوادچوہدری جیسے لوگوں نے مزیدکان بھرے تو پیکا ایکٹ جیسے کسی قانون کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے خدوخال طے کیے گئے لیکن عملی طورپرکچھ نہ کر سکے دراصل آزاد صحافت کوحکمران پسندنہیں کرتے اور قابومیں رکھنے کے حیلے کرتے رہتے ہیں ایسے ہتھکنڈوں کامقصداپنی خامیاں ،نالائقی اور بدعنوانی عوام سے پوشیدہ رکھنا ہوتاہے مگر پی پی اور ن لیگ صحافت کوقابو کرنے کے لیے تمام حدیں پھلانگ گئی ہیںایساتو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
دنیا میں ابلاغی ذرائع اب سیلاب کی مانند طاقتور ہیں اور عوامی رائے کو تبدیل کرنے پر بھی قادرہیںلیکن ابلاغی سیلاب کو کیسے قابوکرناہے؟ ابھی تک کسی کو سمجھ نہیں آرہی البتہ کچھ ممالک کے سیاستدان اپنی پالیسیوں کی بدولت سوشل میڈیاکی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہیں لیکن ہماری حکومت کہتی ہے سوشل میڈیا فیک نیوز پھیلانے اور تذلیل کی اہم وجہ ہے لہٰذا آزاد رکھنا خطرے کاباعث ہوسکتاہے حالانکہ اِس حقیقت کو ہر گز جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ جب سچ سامنے لانے کے ذرائع بندہوتے ہیں تو یہی ذریعہ کرداراداکرتا ہے حکومت کی طرح جعلی خبروں کی تو صحافی بھی مذمت کرتے ہیں اِس لیے سچ جاننے کے حق سے عوام کو محروم نہیں کیا جا سکتاعلاوہ ازیں حکومت نے فیک نیوز کا تعین کرنے کا پیمانہ تو بنایاہی نہیںلیکن فیک نیوز کی آڑ میں سارے میڈیا پر قدغن لگانے میں مصروف ہے اگر سوشل میڈیا پرفیک نیوز کاالزام ہے تو اسی ذریعہ سے بہت سی ایسی چیزیں بے نقاب بھی ہوئیں جو درست ہونے کے باوجود بدنامی کے ڈرسے حکمران چھپانا چاہتے تھے اسی سوشل میڈیا کی طاقت نے حکمرانوں کو کچھ معاملات میں دفاعی رویہ اپنانے اورپیچھے ہٹنے پر مجبورکیاضرورت اِس امر کی ہے کہ پابندیاں لگانے کی بجائے فائدہ حاصل کرنے کا طریقہ کار بنایا جائے۔
پیکاترمیمی بل سے کئی چہرے بے نقاب ہوئے ہیں قومی اسمبلی سے بل کی منظوری میں بڑی جماعتیں ایک نظر آئیں سینٹ جہاں پی ٹی آئی قدرے بہتر پوزیشن میں ہے یہاں وہ حکومت کی سہولت کاربنی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام ہم خیال جماعتوں میں اِتفاقِ رائے پیداکرنے کی کوشش کرتی اور بل کو پاس ہونے سے روکنے کی سنجیدہ کوشش کی جاتی لیکن ایسا کرنے کی بجائے پی ٹی آئی نے اپوزیشن جماعتوں سمیت اجلاس کاہی بائیکاٹ کردیا ایسے طرزِ عمل کامظاہرہ حکومت کو من مرضی کرنے کی کُھلی چھٹی دینے کے لیے کیا گیا شبلی فراز کامشاورت نہ ہونے اور یہ بل ایک سیاسی جماعت کے لیے بنانے کا واویلا اب محض اپنا منافقانہ کردار چھپانے کی کوشش ہے جمعیت علمائے اسلام کے سینٹر کامران مرتضیٰ نے ڈھیلے ڈھالے انداز میں بغیر تیاری کے ایسے اندازمیں ترامیم پیش کیں جنھیں حکومت کے لیے مسترد کرانابہت آسان ثابت ہوا پی پی ایوانوں میں بل کی حمایت کرتی ووٹ دیتی نظر آئی لیکن پریس گیلریوں میں اِس کے رہنما صحافیوں کے ساتھ یکجہتی بھی کرتے رہے حالانکہ پی پی حمایت میں ووٹ نہ دیتی تویہ قانون ہرگز نہ بنتا اب سوال یہ ہے کہ جب سیاستدانوں کا تضاد بے نقاب ہو چکا تو مستقبل میں کیسے اپنی سوچ کو جمہوری ثابت کرپائیں گے؟۔
ملک کا آئین ہر شہری کو آزادی اظہار کاحق دیتا ہے افسوس کا مقام یہ ہے کہ جمہوری دورمیں عوام سے یہ حق چھیناجارہا ہے پیکا ایکٹ کی منظوری سے قبل اِس کے بنیادی فریق صحافیوں سے مشاورت کرنے اور اعتماد میں لینے کی کوئی کوشش ہی نہ کی گئی خود حکومتی اراکین یہ غلطی تسلیم کرتے ہیں یہ بل نہ صرف جمہوریت کی روح کے خلاف ہے بلکہ آزاد صحافت کوجکڑنے کی سازش ہے موجودہ جمہوری حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ معاشرے پابندیوں سے نہیں سماجی آزادیوں سے ترقی کرتے ہیں سوشل میڈیا کی آڑ میں میڈیا کے تمام شعبوں کو قابوکرنے کی حکومتی کاوشوں کی کسی طورتائیدیاتحسین نہیں کی جا سکتی یہ جو کہا جاتاہے کہ صحافت کے لبادے میں کچھ گندی مچھلیاں ہیں تو ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیاپارلیمنٹ میں بیٹھے تمام لوگ حاجی ،نمازی اور دیانتدار ہیں؟کیا حکومتی لوگوں میں بشری خامیوں نہیں؟ نیز کیاسیاست بدعنوانی ،جھوٹ اور مکروفریب سے مکمل طورپرپاک ہے؟جب کسی سوال کاجواب ہاں میں نہیں دیا جا سکتاتو پیکا جیسا کالاقانون مسلط کرکے حکومت کیوں نئے تنازعات کو جنم دے رہی ہے؟۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پیکا ایکٹ کے ساتھ کرنے کی کے لیے
پڑھیں:
پیکا ایکٹ کی متنازعہ شقیں بتائیں، بات کرنے پر تیار: عطا تارڑ
اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے ) وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا کے خطرات روکنے کے لئے پیکا ایکٹ ایک اچھا اقدام ہے، اس سے میڈیا اور اخبارات کو کوئی مسائل نہیں ہوں گے، اس کے ابھی رولز تیار ہونے ہیں، مشاورت کی گنجائش موجود ہے، مشاورت میں تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلیں گے، صحافتی تنظیموں کو اس قانون کی حمایت کرنی چاہئے۔ جمعہ کو پیکا ایکٹ کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد صدر مملکت نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کئے جو اب قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پیکا ایکٹ میں دنیا کے بہترین طریقوں کو اپنایا گیا ہے۔ اس میں کوئی متنازعہ شق ہے تو سامنے لائیں، ہم بات چیت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ وفاقی وزیر نے سوال کیا کہ کیا فیک نیوز کا تدارک متنازعہ ہے؟ کیا سوشل میڈیا کے حوالے سے وضع کردہ نظام متنازعہ ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ صحافتی تنظیموں کو اس قانون کی حمایت کرنی چاہئے اور اس قانون کے تحت رولز کی تیاری اور مشاورت پر آگے بڑھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک اس میں کوئی متنازعہ چیز سامنے نہیں لائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج ہر ایک کا حق ہے، دنیا کے اندر سوشل میڈیا لاء اور چیک اینڈ بیلنس موجود ہے، مغربی ممالک اور دنیا کے مہذب معاشرے میں سوشل میڈیا قوانین موجود ہیں، جب پاکستان میں اس قانون کی بات ہوتی ہے تو اس پر احتجاج تو ہو رہا ہے مگر شقوں پر بات کوئی نہیں کر رہا کہ فلاں شق متنازعہ یا غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹریبونل اور سوشل میڈیا پروٹیکشن اتھارٹی میں نجی شعبے کے لوگ اور پریس کلب کے صحافی شامل ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کونسل آف کمپلینٹس میں بھی انہیں اپیل اور رٹ پٹیشن کا حق دیا گیا ہے تو پھر ڈر کس بات کا ہے، یہ قانون صرف سوشل میڈیا کے غلط استعمال اور سوشل میڈیا کے ذریعے معاشرے میں بدامنی، لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے تدارک کے لئے لایا گیا ہے، اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ وفاقی وزیر نے ورلڈ اکنامک فورم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہماری جنریشن کا سب سے بڑا خطرہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والی ڈس انفارمیشن ہے، عالمی ادارے اس پر بات کر رہے ہیں، اس حوالے سے اپنی قانون سازی کر رہے ہیں تو پھر پاکستان میں اس کو کیوں برا سمجھا جا رہا ہے۔