جینٹری بیچ:’’کہ خوشی سے مر نہ جاتے…‘‘
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
آج کے ڈیجیٹل دور میں نیوز انڈسٹری کا منظر بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ خبریں عموماً دو طرح کی ہوتی ہیں کسی حادثے یا جنگی جھڑپ کی خبریں اچانک نمودار ہوتی ہیں پرانے زمانے میں میڈیا کی زبان میں بریکنگ نیوز وہ خبر ہوتی تھی جو اچانک واقعہ ہو جائے اب تو ہر خبر کو بریکنگ نیوز کہنے کا رواج ہے۔ حادثے یا جنگی جھڑپ یا کسی آدمی کی اچانک وفات کی خبر کے علاوہ کچھ خبریں ایسی ہوتی ہیں جن کا پہلے سے یقین ہوتا ہے کہ فلاں پراجیکٹ کا افتتاح ہونا ہے یا کوئی اعلیٰ سطحی وفد یا سربراہ مملکت پاکستان کے دورے پر آ رہا ہے یہ خبریں پہلے سے اعلان شدہ ہوتی ہیں اور ان میں حیرت یا تجسس سے زیادہ ایک خوشگواری کا تاثر پہلے سے قائم ہوتا ہے کیونکہ یہ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے ان کی خبر آ چکی ہوتی ہے اور میڈیا نے اس پر ہوم ورک کیا ہوا ہوتا ہے۔
اس ہفتے اچانک اہل وطن کو امریکا کے ایک بہت بڑے سفارتی وفد کی پاکستان آمد کی خبر دی گئی جس کا مرکز و محور امریکی سرمایہ کار جینٹری بیچ تھے جو وفد کے سربراہ تھے انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور ملک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا یہ ایک خوشگوار حیرت تھی کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں فارن انویسٹمنٹ نہ ہونے کے برابر ہے اور کوئی ادارہ یا ملک ہمیں قرضہ دینے کے لیے راضی نہیں ہمیں اربوں ڈالر کی امید دلائی جا رہی ہے۔
جنیٹری بیچ کا نام امریکی حلقوں میں بھی کوئی خاص شہرت نہیں رکھتا وہ ایک غیر معروف ایلیٹ ہیں جو صدر ٹرمپ کے کاروباری پارٹنر رہے ہیں اور ان کی انتخابی مہم میں چندہ دیتے ہیں وہ ٹیکساس کی ایک کمپنی ہائی گراؤنڈ ہو لڈ نگز کے مالک ہیں اور ان کے پاس کوئی حکومتی یا سرکاری عہدہ نہیں ہے۔
جینٹری بیچ کی وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کی اتنی زیادہ تشہیر حالانکہ یہ ایک پرائیویٹ دورہ تھا صرف اس لیے تھی کہ وہ ملک کے وزیراعظم کو مل رہے تھے دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ امریکی تھے حالانکہ اسلام آباد میں موجود امریکی سفیر دورے کے کسی مرحلے پر نہ تو ان کے ساتھ تھے اور نہ امریکی سفارتخانے نے اس دورے پر اپنی طرف سے کوئی بیان جاری کیا۔ جس کی وجہ سے ان کے دورے کی وہ اہمیت نہیں رہتی جو انہیں دی گئی۔ سفارتی آداب میں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی امریکی ہمارے ملک کے سرکاری دورے پر آئے اور سفارتخانہ یا ہمارا فارن آفس اس میں involve نہ ہو۔ اس سلسلے میں پاکستان فارن آفس کی طرف سے بھی کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
امریکا پاکستان میں اگر ایک ملین ڈالر بھی خرچ کرنا چاہے تو اس میں اتنے زیادہ ادارے اور دستاویزات اور تفصیلات ہوتی ہیں کہ آپ حیران رہ جائیں گے مگر جینٹری بیچ کی اعلان کردہ سرمایہ کاری میں نہ تو کوئی اعداد و شمار ہیں نہ کسی مقامی ادارے یا کمپنی کا نام ہے اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کس صوبے میں ہو رہی ہے۔ ان کی ساری گفتگو پانی کے بلبلوں کی طرح تھی جو ہوا میں بلند ہوتے ہی ختم ہو جاتے ہیں اور پتہ نہیں چلتا کہ کہاں سے آئے اور کہاں گم ہو گئے۔
البتہ ان کی ہوائی سرمایہ کاری کے برعکس ان کا سیاسی بیان بڑا کلیئر تھا جس نے پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے اور حکمران جماعت بڑے فاتحانہ انداز میں اس کا تذکرہ کرتے پھر رہے ہیں وہ بیان ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی مشیر رچرڈ گرینل کے عمران خان کی رہائی والے بیان کو زائل کرنے کے لیے تھا جس میں جینٹری بیچ نے کہا کہ ہو سکتا ہے رچرڈ کو انٹرنیٹ پر جعلی Deep Fake ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان کے بارے میں غلط معلومات دی گئی ہوں۔ یہ وہ لب لباب تھا جس کے لیے حکمران جماعت نے اس دورے کا اہتمام کرایا تھا۔
ویسے یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک پرائیویٹ شخص پاکستان آکر ایسی باتیں اور بیانات دے رہا ہے جو کہ اس حکومت کا مؤقف نہیں ہے۔ رچرڈ گرینل نے اگر اپنے مطالبے سے لاتعلقی کا اظہار کرنا ہوتا تو وہ خود اس پر اپنا بیان جاری کرتے یا اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ ان کے بیان کر تردید کرتا۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی اپنے اپنے دائرہ کار میں امریکا میں اپنی لابنگ پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں ان دونوں جماعتوں نے وہاں کانگریس میں اور کاروباری شعبوں میں اپنے اپنے سورسز بنائے ہوئے ہیں۔ جینٹری بیچ ایک نیا سورس ہے جو ن لیگ کے ہاتھ آیا ہے ہو سکتا ہے اس کی ڈونلڈ ٹرمپ تک ایسی رسائی ہو کہ وہ ن لیگ کے لیے رعایتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ اب یہ ن لیگ کا فیصلہ کہاں تک دانشمندانہ یاسیاسی پختگی کا حامل ہے کہ انہوںنے اپنا سورس ظاہر کر کے اس سے عارضی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اگر وہ جینٹری پیج یا اس طرح کی کسی شخصیت کو اندر ہی اندر استعمال کر کے ڈونلڈ ٹرمپ تک پہنچ جاتے تو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونا تھی۔ جب اعلان کردہ لاتعداد بلین ڈالر پاکستان میں نہیں آتے جیسا کہ قوم کو بتایا گیا ہے تو ن لیگ کو اس سے فائدے کی بجائے نقصان ہو گا۔ ن لیگ نے عارضی سیاسی فائدے کو ترجیح دی ہے۔
ہماری حکومتیں ویسے بھی باہر کے لوگوں کی رائے کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں تا کہ اس طرح کے لوگ ملک سے باہر ان کے امیج کو بہتر انداز میں پیش کریں جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتیں مقامی ماہرین کو انگیج کر کے امیج قائم کرنے کی بجائے زمینی حقائق کو بہتر بنائیں۔ حکومت نے حال ہی میں عالمی شہرت یافتہ ماہر معیشت اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر Stefan Dercon کو اڑان پاکستان منصوبے میں مشاورت کی پیشکش کی ہے۔ پروفیسر سٹیفن پاکستان میں بدعنوانی اور کرپشن پر بہت زیادہ بولتے ہیں اور ان کی آواز ہر جگہ سنی جاتی ہے ان کو مشیر بنانے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ ن لیگ کے خلاف گورننس کے معاملات پر خاموشی اختیار کر لیں۔ اڑان پاکستان میں سیاسی لفرے بازی زیادہ اور حقیقت کم ہے ہم یہ کر دیں گے ہم وہ کر دیں گے لیکن ہمیں ایسا منصوبہ چاہیے جس میں بتایا جائے کہ یہ سب کچھ آپ عملاً کیسے سر انجام دیں گے۔
بہرحال ہماری دعا ہے کہ جینڑی بیچ صاحب ڈھیروں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لے کر پاکستان آئیں جس سے ملک میں بند سرمایہ کاری کا سلسلہ پھر سے شروع ہو جائے تو ہم اس کا سارا کریڈٹ ن لیگ حکومت کو دینے کے لیے تیار ہیں لیکن جس مشکوک ماحول اور طریقے سے یہ دورہ ہوا ہے اس کی افادیت کی عملی تکمیل پر ہمارے تحفظات ہیں بقول مرزا غالب:
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سرمایہ کاری پاکستان میں جینٹری بیچ ہیں اور ان ہوتی ہیں ہوتا ہے پہلے سے کے لیے کی خبر ہے اور
پڑھیں:
غزہ کی مظلومیت پر خاموشی کیوں؟
اسلام ٹائمز: صیہونی لابی عالمی سطح پر سب سے اہم لابیوں میں سے ایک ہے۔ یہودی لابی یورپ اور امریکہ کے اندر اور عالمی نظام میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتی ہے اور وہ صیہونی حکومت کیخلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ عالمی برادری کیجانب سے صیہونی حکومت کے جرائم کو روکنے میں ناکامی کی ایک اور وجہ بین الاقوامی تنظیموں خصوصاً اقوام متحدہ پر عائد پابندیاں ہیں۔ سیاسی ڈھانچے اور سلامتی کونسل میں ویٹو کے حق کیوجہ سے اقوام متحدہ صیہونیوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا۔ جب صیہونی حکومت کیخلاف فیصلے کیے جاتے ہیں تو اس پر عملدرآمد کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں اقوام متحدہ کے پاس فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کیلئے کافی طاقت نہیں ہے۔ تحریر: سید رضا عمادی
صیہونی حکومت غزہ پر نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن عالمی برادری ابھی تک غزہ میں نسل کشی کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کرسکی ہے۔ یہ وہ سوال ہے، جو ہر باضمیر کے قلب و ذہن میں گردش کر رہا ہے۔ غزہ پٹی کے خلاف اسرائیل نے 7 اکتوبر کو جنگ کا آغاز کیا تھا۔ 15 ماہ بعد جنوری میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ 42 روزہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے اختتام کے بعد، حکومت نے غزہ پر ایک بار پھر جنگ شروع کر دی اور امریکہ کی حمایت کے سائے میں ابھی تک جنگ کے خاتمے کی کوئی علامت نظر نہیں آرہی ہے۔ فلسطینی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ 20 دنوں میں 5 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ سات اکتوبر 2023ء کو غزہ پر صیہونی حکومت کے حملوں کے آغاز کے بعد سے اب تک شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔
ماضی میں ہونے والی عارضی جنگ بندیوں نے اس بحران کو مؤثر طریقے سے ختم نہیں کیا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ عالمی برادری غزہ کے خلاف نسل کشی کے لیے کوئی اقدام کیوں نہیں کرسکی۔؟ امریکی حکومت نے گذشتہ 18 ماہ کے دوران غزہ پر صیہونی حکومت کے جرائم کی بھرپور حمایت کی ہے اور صیہونی حکومت کے خلاف کسی بھی عالمی کارروائی کو نتیجہ خیز نہ ہونے دیا۔ امریکہ سلامتی کونسل نے اس حکومت کے جرائم کو روکنے کے لیے ہر طرح کی قرارداد کو ویٹو کیا۔ واشنگٹن نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اس فیصلے پر بھی تنقید کی ہے، جس میں وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور معزول وزیر جنگ یو یو گالینٹ کو حراست میں لیا گیا تھا۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے والے کسی بھی ملک کو امریکہ کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کچھ یورپی ممالک بھی صیہونیوں کی حمایت میں امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، جبکہ امریکہ اور یورپ میں عوام کی رائے صیہونیوں کے خلاف ہے۔ عالمی برادری کی غزہ کے خلاف صیہونیوں کی بے مثال نسل کشی کو روکنے میں ناکامی کی ایک اور وجہ بہت سے ممالک کے سیاسی اور معاشی مفادات ہیں۔ بہت سے ممالک اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کی وجہ سے غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ صیہونی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے بھی کچھ ممالک اس پر تنقید کرنے یا اس کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ بہت سے معاملات میں، مؤثر کارروائی کے لئے سیاسی عزم کی ضرورت ہوتی ہے جو بہت سےممالک میں ناپید ہے۔
صیہونی لابی عالمی سطح پر سب سے اہم لابیوں میں سے ایک ہے۔ یہودی لابی یورپ اور امریکہ کے اندر اور عالمی نظام میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتی ہے اور وہ صیہونی حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ عالمی برادری کی جانب سے صیہونی حکومت کے جرائم کو روکنے میں ناکامی کی ایک اور وجہ بین الاقوامی تنظیموں خصوصاً اقوام متحدہ پر عائد پابندیاں ہیں۔ سیاسی ڈھانچے اور سلامتی کونسل میں ویٹو کے حق کی وجہ سے اقوام متحدہ صیہونیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا۔ جب صیہونی حکومت کے خلاف فیصلے کیے جاتے ہیں تو اس پر عمل درآمد کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں اقوام متحدہ کے پاس فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کے لیے کافی طاقت نہیں ہے۔ پس نہ اقوام متحدہ نہ عالمی برادری اور نہ ہی اسلامی ممالک کوئی بھی اہل غزہ کی پکار پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ غزہ کے معاملے پر مسلم ممالک کی فوجیں جہاد نہیں کرتیں تو کس کام کی ہیں۔؟