Islam Times:
2025-02-01@06:50:17 GMT

غزہ جانیوالی انسانی امداد توقع سے بہت کم ہے

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

غزہ جانیوالی انسانی امداد توقع سے بہت کم ہے

اپنی ایک رپورٹ میں الجزیرہ کا کہنا تھا کہ ملبہ ہٹانے کی کارروائیوں اور شہداء کی لاشوں کی تلاش کیلئے کوئی سامان و بھاری مشینری اس علاقے میں داخل نہیں ہوئی۔ اسلام ٹائمز۔ الجزیرہ نے رپورٹ دی ہے کہ غزہ کی پٹی میں خیمے لے جانے والے کنٹینرز کی تعداد 208 ہے جو ضرورت سے کہیں کم ہے۔ دریں اثنا، شمالی و جنوبی غزہ میں کوئی عارضی یا پہلے سے تیار شدہ گھر نہیں بھیجے گئے۔ میڈیا میں آنے والی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ جنگ بندی کے آغاز سے اس علاقے میں تقریباََ 7 ہزار 926 کنٹینرز داخل ہو چکے ہیں۔ جن میں سے دو تہائی کنٹینرز غذائی مواد کے تھے۔ اس کے علاوہ صرف 197 ٹرک ایندھن لے کر غزہ داخل ہوئے کہ جن کی رسائی شہری دفاع کی تنظیموں، بلدیات اور بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں تک نہ ہو سکی۔ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ملبہ ہٹانے کی کارروائیوں اور شہداء کی لاشوں کی تلاش کے لیے کوئی سامان و بھاری مشینری اس علاقے میں داخل نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ غزہ میں تباہ حال عمارتوں کی مرمت کے لئے کوئی تعمیراتی سامان نہیں پہنچا۔ الجزیرہ نے مزید بتایا کہ بجلی کی شدید ضرورت کے باوجود یہاں کوئی سولر پینل تک دستیاب نہیں۔ جب کہ ہسپتالوں کی حالت ابھی تک پسماندہ ہے۔ شمالی غزہ میں پانی کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔ اس علاقے کی 75 فیصد ٹینکیاں تباہ حال ہیں۔ جس سے فلسطینیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اس علاقے

پڑھیں:

کون بنے گا کروڑ پتی؟

بھارتی ٹی وی پر ایک پروگرام بیحد مقبول ہے جس کا نام ہے "کون بنے گا کروڑ پتی”۔ یہ پروگرام جولائی 2000 سے مسلسل نشر ہورہا ہے۔ شروع میں اِس کا سب سے بڑا اِنعام ایک کروڑ روپے تھا۔ پھر وہ بڑھ کر پانچ کروڑ ہوا۔ اَب سب سے بڑا اِنعام سات کروڑ روپے ہے۔ بھارت کے مشہور فلم اسٹار امیتابھ بچن اِس پروگرام کے میزبان ہیں۔ شروع سے وہ ہی اِس پروگرام کو چلا رہے ہیں۔

میں سوچتا ہوں کہ ہمارے ملک میں اِس قسم کا کوئی پروگرام کیوں ٹی وی پر نہیں چلتا جس میں لوگوں کو اْن کی معلومات جانچ کر اِنعامات دیے جائیں؟ ہمارے یہاں جس قسم کے اِنعامی پروگرام چلتے ہیں اْنھیں کوئی ذی ہوش اِنسان سنجیدہ پروگرام نہیں کہے گا۔ وہ ہلڑ بازی، دھوم دھڑکا والے پروگرام تو ہوسکتے ہیں لیکن ایک سنجیدہ ذہنی آزمائش کا پروگرام کوئی بھی نہیں چل رہا۔ کسی زمانے میں ذہنی کی آزمائش کے سنجیدہ پروگرام ہوا کرتے تھے جو پاکستان ٹیلی وژن پر چلتے تھے۔ اِس کی ایک مثال پروگرام کسوٹی تھا۔ لیکن وہ بھی کوئی اِنعامی پروگرام نہیں تھا۔ اِس کے باوجود وہ بیحد مقبول تھا۔ اْس کے بعد مختلف مواقع پر مختلف پروگرام چلے لیکن بہت تھوڑی مدت کے لیے۔ پھر وہ ختم ہوگئے۔ اب ایک طویل عرصے سے پاکستان کے پچاس سے زائد ٹی وی چینلوں پر ایک پروگرام بھی اِنعامی معلوماتی پروگرام نہیں ہے۔ اِس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے یہاں کسی کو یہ شوق نہیں ہے کہ قوم کے اَندر جاننے کے جذبے کو جگایا جائے۔ قوم خود بھی سوئی ہوئی ہے۔ چنانچہ معلوماتِ عامہ یا جنرل نالج کا ہمارے یہاں جنازہ نکل گیا ہے۔ وہ باتیں جو ہمیں ہمارے بچپن میں معلوم تھیں وہ آج کل کے بچوں کو گریجویشن کے بعد بھی معلوم نہیں ہوتیں۔ میں نے اپنی نوکری کے دوران بیشمار اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے انٹرویو کیے۔ اْنھیں مندرجہ ذیل سوالوں کے جوابات نہیں آتے تھے۔ یارِ غار کس کو کہا جاتا ہے؟ دریائے فرات کہاں ہے؟ سعودی عرب کے ساتھ کون سے سمندر لگتے ہیں؟ ڈاؤننگ اسٹریٹ کہاں واقع ہے؟ وال اسٹریٹ کہاں واقع ہے؟ USAکس براعظم میں واقع ہے؟ (اِس کا جواب اکثر نے یہ دیا کہ یورپ میں)۔ Scandinavianممالک کون سے ہیں؟چاند پر سب سے پہلے کس نے قدم رکھا تھا؟وغیرہ۔ یاد رہے کہ یہ تمام لوگ وہ تھے جن کے پاس کم از کم سولہ سال کی تعلیم تھی۔اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں معلوماتِ عامہ جاننے کا کوئی رجحان نہیں ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے یہ نوجوان جب دِیگر ممالک میں جاتے ہیں اَور وہاں اْن کا مقابلہ بھارتی، بنگلہ دیشی یا دیگر ایشائی ممالک کے نوجوانوں سے ہوتا ہے تو ہمارے نوجوان اْن کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔ چنانچہ باہر کے ممالک میں بھی ہمارے نوجوان اچھی نوکریاں نہیں لے پاتے یا اْن نوکریوں میں اْس تیزی سے ترقی نہیں کرپاتے جس تیزی سے دیگر ممالک کے لوگ ترقی کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں پڑھنے اَور جاننے کا وہ رواج ہی پیدا نہیں ہوا جو دیگر ممالک میں ہے۔

کون بنے گا کروڑ پتی کے قسم کے پروگراموں نے اپنے ممالک میں لوگوں میں علم حاصل کرنے کی پیاس جگائی ہے۔ ایک ہزار روپے سے لے کر سات کروڑ روپے تک کے اِنعامات دے کر اِس پروگرام میں بھارت میں خاص طور پر نوجوانوں میں معلومات حاصل کرنے کی ایک دوڑ لگا دی ہے۔ آپ اْس پروگرام کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اِس میں نہایت غریب طبقے کے افراد بھی آئے۔ اْنھوں نے دِن رات محنت کرکے اِس کی تیاری کی اَور اچھی خاصی رقم جیت کر وہاں سے گئے۔ یہ بات یاد رہے کہ بھارت کے سات کروڑ ہمارے اکیس کروڑ سے بھی زیادہ بنتے ہیں۔ گویا یہ پروگرام ایک بہت بڑی رقم اِنعام کے طور پر پیش کررہا ہے۔

اِس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں بھی ذہنی آزمائش کے اِنعامی مقابلوں کے پروگرام شروع کیے جائیں۔ یہ ایک طریقہ ہے لوگوں میں معلومات کو حاصل کرنے کی پیاس پیدا کرنے کا۔ ہمارے نوجوان سارا وقت سوشل میڈیا، فلمیں اَور گپیں لگانے میں ضائع کر رہے ہیں۔ جواِن سے بچ گئے ہیں وہ جرائم میں ملوث ہیں علم کی طرف رجحان تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ اِس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔ اور اگر اِس پر توجہ نہ دی گئی تو وہ دِن دْور نہیں جب ہمارے نوجوان بالکل ردی مال بن چکے ہوں گے۔ ہمارے حکمرانوں کو کسی قسم کی کوئی فکر نہیں ہے۔ لیپ ٹاپ تقسیم کرنے سے قوم پڑھی لکھی نہیں ہوجاتی۔ پڑھنے لکھنے سے ہوتی ہے۔ لیپ ٹاپ یا موبائل فون معلومات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تو بن سکتے ہیں لیکن صرف تب جب کوئی اِنھیں اِس کام کے لیے اِستعمال کرے۔ اگر نوجوانوں کا دھیان علم حاصل کرنے کی طرف ہے ہی نہیں تو یہ لیپ ٹاپ کیا کرلیں گے؟

ذہنی آزمائش کے وہ پروگرام جو بہت بڑے اِنعام پیش کررہے ہوں لوگوں کو مجبور کریں گے کہ وہ اِس کے ذریعے بڑی رقم جیتنے کی خواہش اَپنے اَندر پیدا کریں۔ یوں روپے کا لالچ اْنھیں پڑھنے پر مجبور کردے گا۔ بھارت میں بھی یہی ہوا ہے۔ دْوسرے ممالک میں بھی لوگوں نے اِس طرح لوگوں کو پڑھنے پر مجبور کیا۔ اِس پروگرام پر ایک مشہور برطانوی فلم بھی بنی جسے آٹھ آسکر ایوارڈ ملے تھے۔ اِس سے اِس سارے سلسلے کی مقبولیت کا اَندازہ کیا جاسکتا ہے۔
کون بنے گا کروڑ پتی کی مقبولیت کا ایک اور سبب امیتابھ بچن بھی ہیں۔ جو مقبولیت اْنھیں بھارت میں حاصل ہے، جس طرح بھارتی لوگ اْنھیں پیار کرتے ہیں اَور اْن کی عزت کرتے ہیں، ہمارے پاس بدنصیبی سے اْس طرح کا کوئی شخص موجود نہیں ہے۔ اگر ہے تو کم از کم میرے علم میں نہیں ہے۔ اِس سے قحط الرجال کی سنگین نوعیت کا اَندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ امیتابھ بچن نے یہ مقبولیت اَور پیار مفت میں حاصل نہیں کرلیے۔ اِس کے لیے اْنھوں نے برسوں لگاتار محنت کی ہے اَور آج تک کررہے ہیں۔

میرے دوست میر صاحب قوم کا بڑا درد رکھتے ہیں۔ اْنھوں نے ساری عمر بیرونِ ملک ملازمت کے سلسلے میں گزاری۔ خلیجی ممالک میں ہمارے نوجوانوں کی جو حالت ہے وہ اْن سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اْنھوں نے بڑے دردِ دِل سے یہ کوشش کی کہ ملک میں ذہنی آزمائش کا ایک پروگرام شروع کیا جائے۔ وہ اِس کے لیے مفت میں محنت کرنے کے لیے بھی تیار تھے لیکن کسی نے اْن کی نہ سنی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔ اگر میر صاحب ایک سیاسی ٹاک شو کرنا چاہیں، ہلڑ بازی کا پروگرام کرنے کی خواہش رکھیں، وہ پروگرام کرنا چاہیں جس میں لوگوں کو ذلیل کرکے یا گھٹیا قسم کی جگت بازی کے ذریعے لوگوں کو ہنسایا جائے تو سب اْن کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ علمی پروگرام کرنے اَور اْن پر بڑے اِنعامات دینے کا کسی میں حوصلہ نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں کتنے ہی ارب پتی لوگ موجود ہیں۔ کیا ایک شخص بھی اَیسا نہیں ہے جو یہ کہے کہ میں دو ارب روپے دیتا ہوں، آپ یہ پروگرام شروع کریں؟ جب یہ مقبول ہوجائے تو پھر اِشتہارات کے ذریعے اِسے آگے چلا لیا جائے۔ کیا ہم اپنی دولت صرف اپنے آپ پر یا اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے ہی اِستعمال کرسکتے ہیں اَور کسی کو ملک کا کوئی خیال نہیں ہے؟

متعلقہ مضامین

  • ’ٹیم میں شمولیت کی توقع نہیں تھی‘، بھارتی بلے باز کا بیان
  • اسرائیلی پابندیوں کے باوجود ’انروا‘ امدادی کاموں میں مصروف عمل
  • لاہور سے کراچی جانیوالی شالیمار ایکسپریس کو حادثہ
  • اسرائیل نے اونراسے تعلقات منقطع کر لیے
  • کون بنے گا کروڑ پتی؟
  • پیپلز پارٹی کا ایم کیو ایم کے چیئرمین خالد مقبول کے بیان پر شدید ردعمل کا اظہار
  • پاکستان کو میری ٹائم شعبے میں سالانہ 5 ہزار ارب کا نقصان، کوئی بندرگاہ دنیا کی سرفہرست 60 پورٹس میں شامل نہیں
  • برطانیہ و کینیڈا میں بھارت ’’ناپسند‘‘ ملک قرار دیدیا گیا
  • سبھی ٹی بیگز نقصان دہ نہیں