اے پی ایس حملہ، 9 مئی احتجاج کے سویلینز میں کیا فرق ہے؟ سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا ہے کہ اے پی ایس حملہ اور 9 مئی احتجاج کے سویلینز میں کیا فرق ہے؟۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئین سے منافی کوئی قانون برقرار نہیں رہ سکتا۔ وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ عام سویلین ملٹری ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں، افواج پاکستان کے سول ملازمین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔ جسٹس حسن رضوی نے استفسار کیا کہ کیا ائیر بیسز پر حملہ کرنے پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے؟۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آرمی پبلک سکول پر دہشت گرد حملہ ہوا، 9 مئی پر احتجاج ہوا، دونوں واقعات کے سویلینز میں کیا فرق ہے؟۔ وکیل احمد حسین نے آئینی بینچ کو بتایا کہ آرمی پبلک سکول پر دہشت گردی کا حملہ ہوا۔ اے پی ایس واقعہ کے بعد 21ویں ترمیم کی گئی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اے پی ایس میں سارے سویلین بچے مارے گئے۔ وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ہمارا مقدمہ آئین سے باہر نہیں ہے۔ 9 مئی والوں کا ٹرائل ہو لیکن ملٹری کورٹس میں نہیں ہونا چاہیے۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں آئین سے منافی قانون سازی کو عدالت دیکھ سکتی ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ عدالتی فیصلے تک اپنے دلائل محدود رکھیں۔ خواجہ احمد حسین نے مزید کہا کہ جو خود متاثرہ ہو وہ شفاف ٹرائل نہیں دے سکتا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہمارے سامنے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کی مثال موجود ہے۔ کلبھوشن یادو کیس میں صرف افواج پاکستان ہی متاثرہ نہیں ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ٹو کو کالعدم قرار دینے سے تو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو جیسے واقعات میں ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عدالتی فیصلے میں کلبھوشن یادو پر بات نہیں کی گئی۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کیا مستقل میں اگر کوئی ملک دشمن جاسوس پکڑا جائے تو اس کا ٹرائل کہاں ہوگا؟، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ اس کا ٹرائل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوگا۔ اس موقع پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’’اچھا جی‘‘۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے قانون کی شق کو کالعدم بھی قرار دیا جائے اور یہ بھی کہا جائے سپیشل ریمیڈی والوں کو استثنا ہے۔ یہ تو عجیب بات ہے۔ وکیل نے کہا میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مستقبل میں کیا افواج پاکستان آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی ٹو استعمال کر سکتی ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ یہ حقیقت ہے مستقبل میں ٹو ون ڈی ٹو کا استعمال نہیں ہو سکے گا۔ وکیل نے کہا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں پسند کا وکیل کرنے کی اجازت نہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ ملزموں کا مقدمہ یہاں پر لڑ رہے ہیں جو ہمارے سامنے نہیں۔ وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں وکیل آرمی چیف کی اجازت سے ملتا ہے۔ آرمی چیف اجازت نہ دیں پسند کا وکیل نہیں ملتا۔ فیصلہ کوئی کرتا ہے، فیصلے کو کنفرم دوسری اتھارٹی کرتی ہے۔ ایسے تو کنفرمنگ اتھارٹی ناٹ گلٹی کو گلٹی بھی کر سکتی ہے۔جسٹس جمال نے کہا کہ ایف بی علی سمیت عدالتی فیصلوں سے کیسے انحراف کر سکتے ہیں۔ ایف بی علی کیس میں قانونی شقوں کو برقرار رکھا گیا۔ ایف بی علی فیصلے کی کئی عدالتوں میں توثیق کی گئی ہے۔ 21 ویں ترمیم کا فیصلہ 17 ججز کا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آئے روز افواج پاکستان کے جوان شہید ہو رہے ہیں۔ جسٹس امین نے کہا کہ افواج پاکستان پر حملوں میں سویلین ملوث ہیں، آرمی ایکٹ کی شقیں ٹو ون ڈی ون اور ٹو ون ڈی ٹو کو کالعدم قرار دے دیا گیا، اس عدالتی فیصلے کی موجودگی میں افواج پاکستان کے شہدا کو انصاف کیسے ملے گا، آپ کہہ رہے ہیں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں کیسز چلائے جائیں، شواہد کہاں سے آئیں گے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ شیخ لیاقت حسین کیس صرف کراچی تک محدود تھا، اس وقت ملک دہشت گردی کا شکار ہے، دو صوبے بلکہ تقریبا ڈھائی صوبے دہشت گردی کا شکار ہیں۔خواجہ احمد حسین نے کہا کہ افواج پاکستان کا تحفظ سب کو عزیز ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت کوئی مکتی بانی تحریک نہیں ہے، بلکہ سویلین حملوں میں ملوث ہیں۔ جسٹس جمال نے کہا ہم نے صرف فیصلہ کرنا ہے، انصاف اللہ ہی کر سکتا ہے، میں خود دہشت گردی کا شکار ہوا، ہمارا ججز کا ایک قافلہ جا رہا تھا پانچ منٹ قبل بم دھماکا ہوا، خدانخواستہ اگر حملہ کامیاب ہوتا تو چھ ججز چلے جاتے، کہا جاتا ہے ہماری عدلیہ 130 نمبر پر ہے، اگر میرے سامنے شواہد نہیں ہیں تو ملزموں بری ہی ہونگے، پھر کہا جائے گا عدلیہ کا نمبر 250 نمبر پر آگیا۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ یہاں کوئی گواہی دینے نہیں آتا، کسی کے سامنے قتل ہو جائے پھر بھی وہ گواہی نہیں دیتا، کیا ہوں تحفظ نہیں دیا جاتا، قتل کیس میں پچیس پچیس تاریخیں تو وکیل لے جاتا ہے اور مقدمہ ملتوی ہوتا رہتا ہے۔جسٹس جمال نے کہا 21ویں آئینی ترمیم چار سال کیلئے ہوئی جس کے تحت فوجی عدالتیں بنیں، بتائیں اکیسویں ترمیم کا کوئی فائدہ ہوا؟۔ بعدازاں کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: خواجہ احمد حسین نے کہا کہ جسٹس امین الدین خان نے جسٹس حسن اظہر رضوی نے جسٹس مسرت ہلالی نے افواج پاکستان دہشت گردی کا ٹو ون ڈی ٹو نے کہا کہ ا ا رمی ایکٹ اے پی ایس وکیل نے میں کیا ایکٹ کا
پڑھیں:
جنگلات اراضی کیس، تمام صوبوں اور وفاقی حکومت سے تفصیلی رپورٹس طلب
---فائل فوٹوسپریم کورٹ نے جنگلات اراضی کیس میں تمام صوبوں اور وفاقی حکومت سے تفصیلی رپورٹس طلب کر لیں۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے حکم دیا کہ زیرِ قبضہ اور واگزار کروائی گئی اراضی کی تفصیلات جمع کروائیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ایک ایشو اسلام آباد کی حدود کا بھی تھا اس کا کیا ہوا؟
سرکاری وکیل نے بتایا کہ اسلام آباد کی حدود کا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ ساری دنیا میں جنگلات بڑھائے جا رہے ہیں پاکستان میں کم ہو رہے ہیں، ہمیں رپورٹ نہیں حقیقت دیکھنا ہے، سب کو حقیقت کو بھی دیکھنا ہے، زیارت میں منفی 17 درجے میں لوگ درخت نہیں کاٹیں تو کیا کریں؟ کیا حکومت سرد علاقوں میں کوئی متبادل انرجی سورس دے رہی ہے؟
سپریم کورٹ نے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو 9 مئی کے مقدمات کو 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ زیارت میں ایل پی جی فراہم کی جا رہی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پہاڑی علاقوں پر بسنے والے غریب لوگوں کو کیا سبسڈی دی جا رہی ہے؟
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ عوام کو بہتر سہولتیں دینا حکومتوں کا کام ہے، 2018ء سے آج تک مقدمے میں رپورٹس ہی آرہی ہیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ سندھ میں سندر اراضی سمندر کھا رہا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ درخت لگوانا سپریم کورٹ کا کام نہیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔