Jasarat News:
2025-02-01@06:06:13 GMT

اسلامی معاشرت سہیل وڑائچ اور میڈیا

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

اسلامی معاشرت سہیل وڑائچ اور میڈیا

گزشتہ دنوں وسط دسمبر اور اوائل جنوری میں دو مرتبہ راولپنڈی ریلوے اسٹیشن جانے کا اتفاق ہوا، 21 ویں صدی میں 19 ویں صدی کے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم اور سہولتوں کو دیکھ کر ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کہ آثار قدیمہ کے شوقین کسی آثار قدیمہ جا کر اپنا وقت ضائع کریں۔ دونوں بار واش روم جانے کے لیے اجڑے ہوئے مردانہ ویٹنگ روم کے باہر انگریزی زبان میں ایک نوٹس آویزاں دیکھا کہ مینٹیننس کی وجہ سے ٹکٹ ویٹنگ ہال کا واش روم استعمال کیا جائے جس کے لیے پچاس روپے وصول کیے جا رہے تھے، خواتین ویٹنگ روم کے حمام کی حالت ناگفتہ اور مسلسل پانی کا زیاں ہو رہا تھا، کار پارکنگ سے باہر نکلتے وقت ایک صاحب گاڑیاں روک کر پارکنگ رسید بٹور رہے تھے، ان واپسی رسیدوں کا مصرف سمجھنا زیادہ دقت طلب امر نہیں ہے۔ کاش اسلام آباد ائر پورٹ بھی آثار قدیمہ کے شائقین کے لیے اپنی اصلی حالت میں رہنے دیا جاتا تاکہ کچھ تو ائر پورٹ اور ریلوے اسٹیشن کا آپس میں موازنہ ہوتا۔ حسب معمول پلیٹ فارم پر کھڑی ٹرین روانگی کے لیے تاخیر کا شکار تھی اور میرے سامنے کھڑے دو تین افراد نظر بازی میں مصروف جن کا ارتکاز قریب کھڑی خواتین تھیں۔ آپ راول ڈیم جائیں، کراچی ساحل سمندر جائیں یا کسی چڑیا گھر یا بازار یا کوئی بس ویگن کا اڈہ ہو آپ کو اس طرح نظر بازی کے مناظر بار بار نظر آئیں گے۔ ایسے میں ٹی وی چینل پر جانے پہچانے سہیل وڑائچ اپنے مقبول پروگرام’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ یاد آگئے، گزشتہ دنوں کراچی سے ان کے مہمان پیپلز پارٹی کے قبضہ مئیر مرتضیٰ وہاب تھے۔ دوران پروگرام سفر کرتے ہوئے انہوں نے مرتضیٰ وہاب سے کچھ سوالات کیے، سوالات کے ساتھ جوابات بھی شاہکار تھے، مختصراً آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

خوبصورتی میں انسانی حسن میں کیا پسند ہے؟۔ آنکھیں؛
حسن پرست آدمی ہوں دیکھتا ہوں اچھی چیز نظر آتی ہے ایڈمائر کرتے ہیں اس کو؛
حسن پرست، تو پھر حسن کو چھونے کی حسن کو پانے کی بھی خواہش کرتا ہے؟
حسن کو پا لیا بیگم صاحبہ ہیں زندگی میں؛
اور کوئی دوسرا حسن کبھی آ کے ڈسٹرب تو نہیں کرتا؟
اگر ڈسٹرب کرتا بھی تو ٹی وی پہ تو نہیں کہوں گا (مشترکہ قہقہے)
یہ کس طرح قابو پاتے ہیں؟

یہ کیمرہ بڑی زبردست چیز ہے ہر جگہ ہمارے ساتھ تو اب کیمرہ چل رہا ہوتا ہے تو اب تو دیکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے (دوبارہ مشترکہ قہقہے)

اخلاقی زوال کی یہ انتہا ہے کہ اگر خوف ہے تو بس کیمرے کی آنکھ کا، یہ جملہ شخصیت کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے، سہیل وڑائچ جو استاد جیسے معزز پیشے سے وابستہ بھی رہے ہیں، ان کا مرتضیٰ وہاب سے یہ مکالمہ دیکھیں، کیا یہ کھلم کھلا نظر بازی کی اشتہا کے حوالے سے گفتگو نہیں؟، احکام الٰہی اور تعلیمات رسول کریمؐ سے متصادم اس طرح کے سوالات کے کیا کچھ مقاصد ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو ہم سہیل وڑائچ اور ٹی وی چینلز پر انٹرٹینمنٹ پروگرام کرنے والے خاص کر تابش ہاشمی اور دیگر سے یہ ہی التماس کریں گے کہ آپ خرافات اور ذومعنی جملوں کے استعمال سے ناظرین کو ہنسنے، قہقہے لگانے اور دلچسپی فراہم کرنے کے لیے اپنے پروگرام میں ’’بے حیا باتوں کے ٹوٹے‘‘ لگانے پر کیوں مصر ہیں؟۔ کم از کم آپ جیسے آسودہ حال لوگوں کی معاش کے حوالے سے اپنے اپنے چینلز کی خلاف اسلام پالیسیوں کی تعمیل مجبوری نہیں۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ میڈیا کے ہماری ثقافت پر ہر طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، بڑے بڑے مالز کا حال احوال کیا بتایا جائے اب تو گلی محلوں میں چھوٹے بازار اور مارکٹوں میں آنے والی خواتین خاص کر بچیوں کے پہناوے دیکھیں، کیا یہ سب مغربی اقدار کی نقالی میڈیا کے زیر اثر نہیں اور کیا یہ سب ان برائیوں کے ایک بڑے اسباب میں نہیں جو آج ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکا ہے۔ خبروں میں آئے دن کیسے کیسے دلخراش واقعات سنائی دیتے ہیں اور نظر بازی کیا یہ اسی شاخسانہ کا ایک بد نما باب نہیں جس کا ذکر ریلوے اسٹیشن کے حوالے سے کیا گیا۔ اسی طرح ایک ڈھولک بجانے والی ’’ڈھولچن‘‘ کے ساتھ اپنے پروگرام میں سہیل وڑائچ نے اس کی ایک روز کی آمدنی کا تخمینہ لگایا تو کیا اس ڈھولچن کی ایک دن کی ہوشربا آمدنی دیکھ اور سن کر کتنی بچیوں کا دل نہیں مچلا ہو گا کہ کاش وہ بھی ڈھولچن بن جائیں۔ آپ ہماری اخلاقی گراوٹ کا اندازہ کریں کہ سہیل وڑائچ نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ ڈھولچن کے وارڈ روب میں ان کے لباس اور جم میں مرد ٹرینر کے ساتھ ورزش کا سیشن بھی شامل پروگرام کر لیا۔ آخر وہ اس طرح کی ڈھولچن اور دیگر ڈانسرز کے ساتھ پروگرام کرکے نوجوان نسل کو کہاں لے جانا چاہ رہے ہیں؟، معاشرہ کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟، ایک معلم اور معاشرہ پر اثر انداز ہونے والے اور تجزیہ پیش کرنے والے فرد کا اس طرح کا رویہ اسلامی معاشرت کی اقدار کے قطعی منافی ہے۔

قرآن کریم میں مرد و خواتین کو نگاہیں نیچی رکھنے، غض بصر اور خواتین کو سینوں پر اوڑھنیاں ڈالنے اور قدم زور سے مار کر چلنے سے منع کیا گیا ہے کہ ان کی زینت نہ ظاہر ہو جائے، ابھی چند دنوں پہلے کراچی میں میراتھن دوڑ کا اہتمام کیا گیا، اس میں خواتین جن حلیوں میں کْل عالم کے سامنے دوڑ رہی تھیں اور میڈیا سے جیسی کوریج ہو رہی تھی اس کا حال سب جانتے ہیں، یہی حال خواتین کرکٹ ٹیم کا ہے ان کے منتظمین اور کوچ مرد ہوتے ہیں، ان کے غیر ملکی دورے ہوں یا ملک میں کرکٹ مقابلے، ان کی لائیو کوریج کی جاتی ہے اور کْل عالم یہ نظارے دیکھتا ہے۔ خدانخواستہ اس کا کوئی مطلب یا شائبہ بھی نہ لیا جائے کہ خواتین کو کھیل کود سے دور رکھا جائے، بجا طور سے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے لیکن خواتین کے کھیل خواتین تک ہی محدود رکھے جائیں چاہے وہ انتظامیہ ہو کوچ ہوں یا شائقین تو اس میں کوئی مضائقہ کی بات نہیں۔ کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے رسول کریمؐ کا اسوہ دیکھیے آپؐ کے ارشادات مبارک سنیے، احادیث مبارکہ میں نبی کریمؐ کی شرم وحیا اور آنکھیں نیچی رکھنے کا بالخصوص ذکر ملتا ہے۔ نبی کریمؐ جب کبھی کسی نوجوان کو کسی غیر محرم عورت کی طرف نظریں گاڑے دیکھتے تو اسے اس سے منع کرتے۔ آپؐ نے فرمایا جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹا لے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کر دیتا ہے۔ کسی آدمی کے لیے یہ بات حلال نہیں کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے، ایک دفعہ اچانک نظر پڑ جائے تو وہ معاف ہے لیکن یہ معاف نہیں ہے کہ آدمی نے پہلی نظر میں جہاں کوئی کشش محسوس کی وہاں پر نظر دوڑائے، رسول کریمؐ نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بدکاری سے تعبیر فرمایا ہے۔

نبی کریمؐ نے عقائد کی اصلاح کے بعد سب سے زیادہ توجہ اصلاح معاشرہ پر دی اور اس میں بھی شرم اور حیا کو بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ رسول کریمؐ پردہ نشین کنواری لڑکی سے زیادہ حیا دار تھے، اگر آپؐ کو کوئی بات ناگوار گزرتی تو چہرہ مبارک پر اس کے آثار ظاہر ہو جاتے تھے، آج ان اقدار کو دیکھیں اور اپنے معاشرے کا جائزہ لیں کیا ہم پر بھی ان رویوں پر کبھی ناگواری کی کیفیت طاری ہوتی ہے؟، دراصل بحیثیت مجموعی ہم ان اقدار سے نہ صرف دور ہو چکے ہیں بلکہ ایک ایسا طبقہ بھی وجود میں آگیا ہے جو شرم، حیا، لباس اور حجاب کے حوالے سے مغربی معاشرت کے اثرات کے تحت اس رو میں بہنے کے لیے مائل و آمادہ ہے۔ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر زیادہ تر ایک ایسا طبقہ اثر انداز اور قابض ہو چکا ہے کہ جس کا اسلامی تعلیمات اور عقائد سے دور دور کا واسطہ نہیں، یہ اسلامی اقدار کے تمسخر اور خلاف اسلام نظریات کے ابلاغ پر ایک بڑی اُجرت اور ایک ایجنڈے پر باقاعدہ مامور ہیں۔ آج کے نوجوان کو ’’طاؤس و رباب‘‘ میں گم کر دیا گیا ہے اور عوام بسم اللہ کے گنبد میں بند تو پھر ہماری معاشرت اسلامی معاشرت میں کیسے ڈھل سکتی ہے، جب کہ غار حرا سے پھوٹنے والی روشنی سے نہ جانے کیوں ہم اپنے در و دیوار اور مکینوں کے دل و دماغ روشن کرنے کے لیے آمادہ نہیں اور اپنے اپنے رویوں پر مصر ہیں؟، شاید اسی سوال میں بارشوں کے نہ ہونے کی وجوہات اور دیگر مسائل میں گھرے اہل وطن کے مسائل کا حل پنہاں ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ریلوے اسٹیشن کے حوالے سے رسول کریم کے لیے ا کے ساتھ کیا یہ

پڑھیں:

پنجاب دھی رانی پروگرام کے تحت بہاولنگر میں 49 اجتماعی شادیوں کی پروقار تقریب

پنجاب دھی رانی پروگرام کے تحت بہاولنگر میں 49 اجتماعی شادیوں کی پروقار تقریب کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر کا کہنا تھا کہ دھی رانی پروگرام پنجاب کی تاریخ کا منفرد فلاحی منصوبہ ہے، رواں سال پنجاب میں 3000 اجتماعی شادیاں کروائی جائیں گی۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے پنجاب دھی رانی پروگرام کے تحت بہاولنگر میں 49 اجتماعی شادیوں کی پروقار تقریب ہوئی۔ صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر سہیل شوکت بٹ نے تقریب میں خصوصی شرکت کی، شرکا سے خطاب کرتے ہوئے سہیل شوکت بٹ نے کہا کہ دھی رانی پروگرام پنجاب کی تاریخ کا منفرد فلاحی منصوبہ ہے، رواں سال پنجاب میں 3000 اجتماعی شادیاں کروائی جائیں گی۔ سہیل شوکت بٹ نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے بہاولنگر میں اجتماعی شادی کے جوڑوں کو ڈبل بیڈ، پنکھے، کھانے کا سامان اور ایک لاکھ روپے سلامی فراہم کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دھی رانی پروگرام خواتین کی خودمختاری اور سماجی ترقی کی جانب بڑا قدم ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے نوبیاہتا جوڑوں کو خصوصی مبارکباد دیتا ہوں، نوبیاہتا جوڑوں کے لیے کامیاب اور خوشحال زندگی کی دعا کرتے ہیں۔ تقریب میں ممبران اسمبلی میاں عبدالغفار کالوکا وٹو، سہیل خان زاہد، انعام شوکت باری، کاشف نوید پنسوتہ اور کمشنر بہاولپور مسرت جبین نے شرکت کی، تقریب میں قوالی پیش کی گئی، شرکاء نے قوالوں کو بھرپور داد دی۔

متعلقہ مضامین

  • خواتین کے خلاف تعصبات کا خاتمہ ضروری ہے، فرحین عامر
  • پنجاب دھی رانی پروگرام کے تحت بہاولنگر میں 49 اجتماعی شادیوں کی پروقار تقریب
  • میں نے نہیں بلکہ متھیرا نےمجھے۔۔۔!!! چاہت فتح اپنے دفاع کیلئےمیدان میں آگئے
  • میراتھن ریس رکوانے کیلیے جماعت اسلامی کے وفدکی کمشنر سے ملاقات
  • کھیل و تفریح کیلیے مناسب انتظامات عوام کا حق ہے،نصرت مسعود
  • ہر 5 میں سے ایک پاکستانی کا اپنے خاندان یا جاننے والوں میں کسی کی طلاق ہونے کا انکشاف
  • برطانوی خواتین کینسر ویکسین کی عدم دستیابی کا شکار
  • جماعت اسلامی کامقصد الیکشن نہیں اقامت دین کی جدوجہد ہے
  • خواتین کی میرا تھن ریس کا انعقادشرمناک ہے ،شکیل فہیم