Jasarat News:
2025-04-15@06:08:52 GMT

اسلامی معاشرت سہیل وڑائچ اور میڈیا

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

اسلامی معاشرت سہیل وڑائچ اور میڈیا

گزشتہ دنوں وسط دسمبر اور اوائل جنوری میں دو مرتبہ راولپنڈی ریلوے اسٹیشن جانے کا اتفاق ہوا، 21 ویں صدی میں 19 ویں صدی کے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم اور سہولتوں کو دیکھ کر ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کہ آثار قدیمہ کے شوقین کسی آثار قدیمہ جا کر اپنا وقت ضائع کریں۔ دونوں بار واش روم جانے کے لیے اجڑے ہوئے مردانہ ویٹنگ روم کے باہر انگریزی زبان میں ایک نوٹس آویزاں دیکھا کہ مینٹیننس کی وجہ سے ٹکٹ ویٹنگ ہال کا واش روم استعمال کیا جائے جس کے لیے پچاس روپے وصول کیے جا رہے تھے، خواتین ویٹنگ روم کے حمام کی حالت ناگفتہ اور مسلسل پانی کا زیاں ہو رہا تھا، کار پارکنگ سے باہر نکلتے وقت ایک صاحب گاڑیاں روک کر پارکنگ رسید بٹور رہے تھے، ان واپسی رسیدوں کا مصرف سمجھنا زیادہ دقت طلب امر نہیں ہے۔ کاش اسلام آباد ائر پورٹ بھی آثار قدیمہ کے شائقین کے لیے اپنی اصلی حالت میں رہنے دیا جاتا تاکہ کچھ تو ائر پورٹ اور ریلوے اسٹیشن کا آپس میں موازنہ ہوتا۔ حسب معمول پلیٹ فارم پر کھڑی ٹرین روانگی کے لیے تاخیر کا شکار تھی اور میرے سامنے کھڑے دو تین افراد نظر بازی میں مصروف جن کا ارتکاز قریب کھڑی خواتین تھیں۔ آپ راول ڈیم جائیں، کراچی ساحل سمندر جائیں یا کسی چڑیا گھر یا بازار یا کوئی بس ویگن کا اڈہ ہو آپ کو اس طرح نظر بازی کے مناظر بار بار نظر آئیں گے۔ ایسے میں ٹی وی چینل پر جانے پہچانے سہیل وڑائچ اپنے مقبول پروگرام’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ یاد آگئے، گزشتہ دنوں کراچی سے ان کے مہمان پیپلز پارٹی کے قبضہ مئیر مرتضیٰ وہاب تھے۔ دوران پروگرام سفر کرتے ہوئے انہوں نے مرتضیٰ وہاب سے کچھ سوالات کیے، سوالات کے ساتھ جوابات بھی شاہکار تھے، مختصراً آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

خوبصورتی میں انسانی حسن میں کیا پسند ہے؟۔ آنکھیں؛
حسن پرست آدمی ہوں دیکھتا ہوں اچھی چیز نظر آتی ہے ایڈمائر کرتے ہیں اس کو؛
حسن پرست، تو پھر حسن کو چھونے کی حسن کو پانے کی بھی خواہش کرتا ہے؟
حسن کو پا لیا بیگم صاحبہ ہیں زندگی میں؛
اور کوئی دوسرا حسن کبھی آ کے ڈسٹرب تو نہیں کرتا؟
اگر ڈسٹرب کرتا بھی تو ٹی وی پہ تو نہیں کہوں گا (مشترکہ قہقہے)
یہ کس طرح قابو پاتے ہیں؟

یہ کیمرہ بڑی زبردست چیز ہے ہر جگہ ہمارے ساتھ تو اب کیمرہ چل رہا ہوتا ہے تو اب تو دیکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے (دوبارہ مشترکہ قہقہے)

اخلاقی زوال کی یہ انتہا ہے کہ اگر خوف ہے تو بس کیمرے کی آنکھ کا، یہ جملہ شخصیت کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے، سہیل وڑائچ جو استاد جیسے معزز پیشے سے وابستہ بھی رہے ہیں، ان کا مرتضیٰ وہاب سے یہ مکالمہ دیکھیں، کیا یہ کھلم کھلا نظر بازی کی اشتہا کے حوالے سے گفتگو نہیں؟، احکام الٰہی اور تعلیمات رسول کریمؐ سے متصادم اس طرح کے سوالات کے کیا کچھ مقاصد ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو ہم سہیل وڑائچ اور ٹی وی چینلز پر انٹرٹینمنٹ پروگرام کرنے والے خاص کر تابش ہاشمی اور دیگر سے یہ ہی التماس کریں گے کہ آپ خرافات اور ذومعنی جملوں کے استعمال سے ناظرین کو ہنسنے، قہقہے لگانے اور دلچسپی فراہم کرنے کے لیے اپنے پروگرام میں ’’بے حیا باتوں کے ٹوٹے‘‘ لگانے پر کیوں مصر ہیں؟۔ کم از کم آپ جیسے آسودہ حال لوگوں کی معاش کے حوالے سے اپنے اپنے چینلز کی خلاف اسلام پالیسیوں کی تعمیل مجبوری نہیں۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ میڈیا کے ہماری ثقافت پر ہر طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، بڑے بڑے مالز کا حال احوال کیا بتایا جائے اب تو گلی محلوں میں چھوٹے بازار اور مارکٹوں میں آنے والی خواتین خاص کر بچیوں کے پہناوے دیکھیں، کیا یہ سب مغربی اقدار کی نقالی میڈیا کے زیر اثر نہیں اور کیا یہ سب ان برائیوں کے ایک بڑے اسباب میں نہیں جو آج ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکا ہے۔ خبروں میں آئے دن کیسے کیسے دلخراش واقعات سنائی دیتے ہیں اور نظر بازی کیا یہ اسی شاخسانہ کا ایک بد نما باب نہیں جس کا ذکر ریلوے اسٹیشن کے حوالے سے کیا گیا۔ اسی طرح ایک ڈھولک بجانے والی ’’ڈھولچن‘‘ کے ساتھ اپنے پروگرام میں سہیل وڑائچ نے اس کی ایک روز کی آمدنی کا تخمینہ لگایا تو کیا اس ڈھولچن کی ایک دن کی ہوشربا آمدنی دیکھ اور سن کر کتنی بچیوں کا دل نہیں مچلا ہو گا کہ کاش وہ بھی ڈھولچن بن جائیں۔ آپ ہماری اخلاقی گراوٹ کا اندازہ کریں کہ سہیل وڑائچ نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ ڈھولچن کے وارڈ روب میں ان کے لباس اور جم میں مرد ٹرینر کے ساتھ ورزش کا سیشن بھی شامل پروگرام کر لیا۔ آخر وہ اس طرح کی ڈھولچن اور دیگر ڈانسرز کے ساتھ پروگرام کرکے نوجوان نسل کو کہاں لے جانا چاہ رہے ہیں؟، معاشرہ کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟، ایک معلم اور معاشرہ پر اثر انداز ہونے والے اور تجزیہ پیش کرنے والے فرد کا اس طرح کا رویہ اسلامی معاشرت کی اقدار کے قطعی منافی ہے۔

قرآن کریم میں مرد و خواتین کو نگاہیں نیچی رکھنے، غض بصر اور خواتین کو سینوں پر اوڑھنیاں ڈالنے اور قدم زور سے مار کر چلنے سے منع کیا گیا ہے کہ ان کی زینت نہ ظاہر ہو جائے، ابھی چند دنوں پہلے کراچی میں میراتھن دوڑ کا اہتمام کیا گیا، اس میں خواتین جن حلیوں میں کْل عالم کے سامنے دوڑ رہی تھیں اور میڈیا سے جیسی کوریج ہو رہی تھی اس کا حال سب جانتے ہیں، یہی حال خواتین کرکٹ ٹیم کا ہے ان کے منتظمین اور کوچ مرد ہوتے ہیں، ان کے غیر ملکی دورے ہوں یا ملک میں کرکٹ مقابلے، ان کی لائیو کوریج کی جاتی ہے اور کْل عالم یہ نظارے دیکھتا ہے۔ خدانخواستہ اس کا کوئی مطلب یا شائبہ بھی نہ لیا جائے کہ خواتین کو کھیل کود سے دور رکھا جائے، بجا طور سے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے لیکن خواتین کے کھیل خواتین تک ہی محدود رکھے جائیں چاہے وہ انتظامیہ ہو کوچ ہوں یا شائقین تو اس میں کوئی مضائقہ کی بات نہیں۔ کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے رسول کریمؐ کا اسوہ دیکھیے آپؐ کے ارشادات مبارک سنیے، احادیث مبارکہ میں نبی کریمؐ کی شرم وحیا اور آنکھیں نیچی رکھنے کا بالخصوص ذکر ملتا ہے۔ نبی کریمؐ جب کبھی کسی نوجوان کو کسی غیر محرم عورت کی طرف نظریں گاڑے دیکھتے تو اسے اس سے منع کرتے۔ آپؐ نے فرمایا جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹا لے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کر دیتا ہے۔ کسی آدمی کے لیے یہ بات حلال نہیں کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے، ایک دفعہ اچانک نظر پڑ جائے تو وہ معاف ہے لیکن یہ معاف نہیں ہے کہ آدمی نے پہلی نظر میں جہاں کوئی کشش محسوس کی وہاں پر نظر دوڑائے، رسول کریمؐ نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بدکاری سے تعبیر فرمایا ہے۔

نبی کریمؐ نے عقائد کی اصلاح کے بعد سب سے زیادہ توجہ اصلاح معاشرہ پر دی اور اس میں بھی شرم اور حیا کو بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ رسول کریمؐ پردہ نشین کنواری لڑکی سے زیادہ حیا دار تھے، اگر آپؐ کو کوئی بات ناگوار گزرتی تو چہرہ مبارک پر اس کے آثار ظاہر ہو جاتے تھے، آج ان اقدار کو دیکھیں اور اپنے معاشرے کا جائزہ لیں کیا ہم پر بھی ان رویوں پر کبھی ناگواری کی کیفیت طاری ہوتی ہے؟، دراصل بحیثیت مجموعی ہم ان اقدار سے نہ صرف دور ہو چکے ہیں بلکہ ایک ایسا طبقہ بھی وجود میں آگیا ہے جو شرم، حیا، لباس اور حجاب کے حوالے سے مغربی معاشرت کے اثرات کے تحت اس رو میں بہنے کے لیے مائل و آمادہ ہے۔ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر زیادہ تر ایک ایسا طبقہ اثر انداز اور قابض ہو چکا ہے کہ جس کا اسلامی تعلیمات اور عقائد سے دور دور کا واسطہ نہیں، یہ اسلامی اقدار کے تمسخر اور خلاف اسلام نظریات کے ابلاغ پر ایک بڑی اُجرت اور ایک ایجنڈے پر باقاعدہ مامور ہیں۔ آج کے نوجوان کو ’’طاؤس و رباب‘‘ میں گم کر دیا گیا ہے اور عوام بسم اللہ کے گنبد میں بند تو پھر ہماری معاشرت اسلامی معاشرت میں کیسے ڈھل سکتی ہے، جب کہ غار حرا سے پھوٹنے والی روشنی سے نہ جانے کیوں ہم اپنے در و دیوار اور مکینوں کے دل و دماغ روشن کرنے کے لیے آمادہ نہیں اور اپنے اپنے رویوں پر مصر ہیں؟، شاید اسی سوال میں بارشوں کے نہ ہونے کی وجوہات اور دیگر مسائل میں گھرے اہل وطن کے مسائل کا حل پنہاں ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ریلوے اسٹیشن کے حوالے سے رسول کریم کے لیے ا کے ساتھ کیا یہ

پڑھیں:

سوشل میڈیا، گلوبل سیفٹی انڈیکس اور پاکستان کی حقیقت

سوشل میڈیا بھی ایک سمندر ہے، جس کی تہوں میں پوری کائنات کی معلومات چھپی ہوئی ہیں۔ اس کی سطح پر تیرتی خبروں، علمی و ادبی پوسٹوں اور مزاحیہ خاکوں کی بے شمار اقسام ہیں۔ جب کوئی ایک بار اس کے پانیوں میں قدم رکھتا ہے تو پھر اس میں اترتے ہی جاتا ہے۔ دلچسپ مواد کی کشش اسے جکڑ لیتی ہے اور وہ معلوماتی لہروں کے بیچ بھنور میں پھنس جاتا ہے۔
گزشتہ روز مری سے پنڈی سفر کے دوران فیس بک پر چلتی ایک خبر پر نظر پڑی۔ عنوان کی دلفریبی نے نظریں روک لیں: ’’گلوبل سیفٹی انڈیکس پر پاکستان بھارت سے اوپر‘‘۔ تفصیل پڑھ کر دل کو عجیب اطمینان ملا کہ وطن عزیز کے بارے میں کوئی مثبت اور حوصلہ افزا خبر ملی۔ ورنہ منفی خبروں اور افواہوں کی زد میں تو یہ مسکین ملک ہر وقت رہتا ہے۔ ملک دشمن عناصر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، جس کے نتیجے میں ملکی تجارت اور سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے۔ خاص طور پر سیاحت جیسی اہم انڈسٹری پر اس کے منفی اثرات نمایاں ہوتے ہیں، اور بیرونی ممالک کے سیاح پاکستان کے سفر سے گریز کرتے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی بیرونی تجارت اور سیاحت اس کے اندرونی حالات پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر امن و امان کی صورت حال بہتر ہو، سفر محفوظ ہو، جرائم کی شرح کم ہو اور معیار زندگی اچھا ہو تو بیرونی سیاح اور سرمایہ کار خود بخود کھنچے چلے آتے ہیں۔ لیکن اگر حالات اس کے برعکس ہوں تو معیشت تنزلی کا شکار ہو جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویب سائٹس موجود ہیں جو سیاحوں، مسافروں اور سرمایہ کاروں کو اپنے منصوبے مرتب کرنے میں مفید معلومات اور راہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک ’’نمبیو‘‘ ہے، جسے 2009 ء میں سربیا سے تعلق رکھنے والے ایک گوگل ملازم نے تخلیق کیا تھا۔ یہ ایک آن لائن ڈیٹا بیس ہے جہاں دنیا بھر کے صارفین مسلسل اپنے ملک اور شہر کے سماجی، سیکورٹی اور اقتصادی حالات کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اس ویب سائٹ پر معیار زندگی، تعلیمی سہولتوں، صحت کے شعبے، ہوٹلنگ، ٹرانسپورٹ، آلودگی اور جرائم کی شرح جیسے عوامل کو ایک خاص اسکیل پر پرکھا جاتا ہے، جس کے بعد متعلقہ ممالک اور شہروں کی رینکنگ ترتیب دی جاتی ہے۔ اس کا ایک اہم فیچر ’’گلوبل سیفٹی انڈیکس‘‘ ہے، جو دنیا کے محفوظ ترین اور غیر محفوظ ترین ممالک کی درجہ بندی کرتا ہے۔
سال 2025 ء کے اعداد و شمار کے مطابق سیاحت، سفر اور قیام کے لیے دنیا کا سب سے زیادہ موزوں اور محفوظ ملک ’’ایڈورا‘‘ ہے، جو کہ فرانس اور اسپین کے درمیان واقع ہے اور اس کی آبادی تقریبا اسی ہزار ہے۔ اسی ویب سائٹ کے مطابق وینزویلا کو دنیا کا سب سے غیر محفوظ ملک قرار دیا گیا ہے، جو اس رینکنگ میں آخری نمبر پر ہے۔
اگر ہم پاکستان کی پوزیشن دیکھیں تو گلوبل سیفٹی انڈیکس 2025 ء کے مطابق پاکستان 3.56 پوائنٹس کے ساتھ 65 ویں نمبر پر ہے، جبکہ بھارت 7.55 پوائنٹس کے ساتھ 66 ویں نمبر پر ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان بہت کم فرق ہے، مگر سیفٹی کے معاملے پر پاکستان کو بدنام کرنے والوں کے لیے یہ ایک منہ توڑ جواب ہے۔ پاکستان کے حالات اتنے خراب نہیں جتنا کہ ہمارے مخالفین بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ البتہ، اندرونی سطح پر سیاسی عدم استحکام اور تفریق کی وجہ سے ایک خاص طبقہ ملکی مفاد کی پرواہ کرنے سے بھی گریزاں ہے۔ بعض افراد اپنے سیاسی اختلافات اور ذاتی مفادات کی خاطر ملک کے خلاف سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں، جو کسی بھی محب وطن شہری کے شایان شان نہیں۔
ہمیں چاہیے کہ سیاسی اختلافات ضرور رکھیں، حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کریں، لیکن جب بات ملکی مفاد اور سلامتی کی ہو تو سب کچھ ایک طرف رکھ کر یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں اپنے ملک کے مثبت پہلوئوں کو اجاگر کرنا ہوگا اور کمزور گوشوں کی نشاندہی کر کے اصلاحی تجاویز دینی ہوں گی۔ وقت کی نزاکت کا یہی تقاضا ہے اور ہمیں اس کا ادراک اور احساس کرنا ہوگا ۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں ۔ آج کسی اور کل کسی اور سیاسی پارٹی کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہو گا ۔ محض ایک عارضی اور مخصوص مدتی مفاد کی خاطر یا سیاسی بغض میں ملکی سالمیت اور بقا کو داو پہ نہیں لگانا چاہیے۔ ملکی ترقی اور خوشحالی کے اشاروں پر فسردہ نہیں بلکہ خوشی اور فخر محسوس کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے ہمیں اپنی نفسیات اور ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا ۔ قومی ترقی کے سفر میں ملنے والی کامیابیوں کو اجتماعی خوشی اور فخر کے جذبے کے ساتھ منانا ہو گا ۔ یہی مہذب ، متحد اور غیرت مند قوموں کا خاصا ہوتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • واشنگٹن کو بانی پی ٹی آئی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، سینئر وزیر
  • 22 اپریل کو ملک بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان
  • تاج محل کا حقیقی وارث ہونے کا دعویٰ، شہری نے سب کو حیران کر دیا
  • ملک میں گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان ،ٹریفک پلان بھی جاری
  • سوشل میڈیا، گلوبل سیفٹی انڈیکس اور پاکستان کی حقیقت
  • کراچی میں ’غزہ ملین مارچ:‘ جماعت اسلامی کا اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان
  • فیروز خان کے عالمی منصوبوں سے متعلق بیان پر سوشل میڈیا صارفین کی تنقید
  •  وزیراعلی پنجاب خاتون ہیں، انھیں احتجاج کرنے والی خواتین کا کیوں خیال نہیں؟ حافظ نعیم الرحمن 
  • سمیع خان کو سوشل میڈیا صارفین سے کیا ’’شکوہ‘‘ ہے؟
  • بیٹی حریم سہیل کی محبت کس طرح پروان چڑھی، بینا چوہدری نے بتا دیا