والدین خوفزدہ،کراچی سے اغوا ، لاپتا بچوں کی تعداد14 ہوگئی
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
کراچی (رپورٹ /محمد علی فاروق) کراچی میں بچوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات نے شہر میں خوف کی فضا کی قائم کردی۔ پولیس کا ناقص تفتیشی نظام، سیف سٹی پروجیکٹ کی تکمیل میں تاخیر اور گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار ان کے واقعات میں اضافہ کی بڑی وجہ ہے۔ کراچی کے کم آمدنی والے علاقوں سے لاپتا ہونے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ واقعات کی روک تھام کے لیے تھانوں کی سطح پر کمیٹیاں اور اسپیشل برانچ انٹیلی جنس یونٹ کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ تفصیلات کے مطابق دسمبر 2024ء سے اب تک مجموعی طور پر کراچی سے14 بچے اغوا اور لاپتا ہوچکے ہیں‘ ویسٹ زون سے 3 بچے لاپتا ہوئے، بلال کالونی سے مبینہ اغوا ہونے والے بچے کو قتل کیا گیا۔ گلبہار سے لاپتا ہونے والابچہ بازیاب کیا گیا جبکہ منگھو پیر سے لاپتا بچہ خود گھر آیا۔ ایسٹ زون سے6 بچے لاپتا ہوئے تھے، گلستان جوہر کی 2 سالہ کنیز تاحال لاپتا ہے جبکہ مبینہ ٹائون سپرہائی وے سے لاپتا 2 بچوں اور زمان ٹائون اور شاہ لطیف سے لاپتا 3 بچوں کو بازیاب کرایا گیا۔ سائوتھ زون سے 3 بچے لاپتہ ہوئے تھے جبکہ سعیدآباد سے لاپتا 4 سالہ بچے کا تاحال کچھ پتہ نہ چل سکا۔ سعودآباد میں پولیس نے اغوا کی گئی 8 سال کی بچی کو چند گھنٹوں میں بازیاب کروا لیا تھا ،کورنگی نمبر ڈھائی سے 2 سگے بھائی4 سالہ زین علی اور7 سالہ اعظم لاپتا ہوگئے، والدہ کا کہنا ہے کہ بچوں کو نامعلوم موٹرسائیکل سوار شخص اغوا کر کے لے گیا۔ نارتھ کراچی میں مدرسہ جانے والے بچہ صارم کی لاش اپارٹمنٹ کے ٹینک سے برآمد ہوئی تھی۔ پولیس اب تک بچے کے قاتلوں کی گرفتاری سے قاصر ہے۔ اگر نومولود بچے سے لیکر چار سال کا بچہ گمشدہ ہے تو وہ گروپ انہیں اٹھانے میں ملوث ہو رہے ہیں جو بچوں سے گداگری کراتے ہیں یا پھر بے اولاد جوڑوں کو فروخت کردیتے ہیں۔ اگر 5 سے 10 سال کی عمر کا بچہ لاپتا ہے تو اس کو گداگری میں ملوث گروپ لے جا سکتا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے خاندانی مسائل ہوں یعنی والدین میں سے کوئی ایک سوتیلا ہو یا والدین میں علیحدگی ہو رہی ہو۔ بچے اس وجہ سے بھی غائب ہو جاتے ہیں جو بعد میں مل بھی جاتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ 12 سے 18 سال کی عمر کے بچے رن اوے کیٹگری میں آتے ہیں جن اگر کوئی خواہش پوری نہیں ہوئی یا گھر میں تشدد ہوا تو وہ نکل گئے۔ ان میں کئی جرائم پیشہ افراد کے ہاتھ بھی چڑھ جاتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر فوری بچوں کی گمشدگی کی رپورٹس درج ہوتیں اور پولیس تحقیقات کرتی تو کسی نہ کسی طرح وہ ملزمان تک پہنچ جاتی اور اتنے بچے ہلاک نہیں ہوتے۔ ادھر شہر قائد میں والدین اغوا کے پے درپے واقعات کے بعد اپنے بچوں کی حفاظت کے حوالے سے سے تشویش کا شکار ہیںجبکہ والدین بچوں کے اغوا کے خطرات اور واقعات کی فوری اطلاع دینے کی اہمیت سے بھی لاعلم ہیں۔ شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے تھانوں کی سطح پر کمیٹیاں اور اسپیشل برانچ انٹیلی جنس یونٹ کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
بچوں کے جھوٹ بولنے کی وجوہات کیا ہو سکتی ہے؟عادت کیسے چھڑائی جائے، جانیں
بچوں کے جھوٹ بولنے کی عادت اکثر والدین کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن جاتی ہے، اور انہیں اس بات کا شکوہ ہوتا ہے کہ ان کے بچے جھوٹ کیوں بولتے ہیں۔ حالانکہ کئی بار والدین خود ہی بچوں کے جھوٹ بولنے کی عادت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
اس کے باوجود، والدین اگر مناسب طریقے سے رہنمائی فراہم کریں تو کچھ چھوٹی چھوٹی کوششوں کے ذریعے والدین اپنے بچوں کو اس عادت سے نجات دلانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
بچوں کے ماہرہن کے مطابق، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بچوں میں جھوٹ بولنا کوئی پیدائشی عادت نہیں ہوتی، ان کو یہ عادت اس دنیا میں ملتی ہے۔ یہ ماحول اور والدین کی تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ بچے خاص طور پر بعض حالات میں جھوٹ بولتے ہیں، جیسے:
اپنے دفاع کے لیے
چھوٹے بچے جب یہ سوچتے ہیں کہ انھوں نے کچھ غلط کیا ہے اور اس کی سزا مل سکتی ہے، تو وہ خود کو بچانے کے لیے جھوٹ بول سکتے ہیں۔
تصور اور حقیقت میں فرق نہ ہونا
چھوٹے بچے عموماً اپنے تخیل اور حقیقت میں فرق نہیں کر پاتے، اور جو کچھ وہ تصور کرتے ہیں، وہ ان کے لیے سچ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ حقیقت کے برعکس باتیں کہہ سکتے ہیں۔
توجہ حاصل کرنے کے لیے
بعض اوقات بچے پنے والدین یا دوستوں کی توجہ حاصل کرنے کی خاطر بھی جھوٹ بولتے ہیں خاص طور پرجب وہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں کم اہمیت دی جا رہی ہے۔
جھوٹ کو ازراہ مذاق یا کھیل سمجھ کر بولنا
کچھ بچے جھوٹ بولنے کو مذاق یا کھیل کے طور پر لیتے ہیں۔ وہ دوسروں کو حیران کرنے یا ہنسانے کے لیے جھوٹ بول سکتے ہیں، اور وقت کے ساتھ یہ ان کی عادت بن جاتی ہے۔
عمر کے حساب سے جھوٹ بولنے کی عادت
امریکی محکمہ صحت کی ایک رپورٹ میں بچوں کے جھوٹ بولنے کے طریقے اور وجوہات کو ان کی عمر کے مطابق تقسیم کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچپن میں بچوں کے جھوٹ بولنے کے طریقے مختلف ہوتے ہیں اور وہ اپنی عمر کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔
2 سے 4 سال کی عمر کے بچوں میں یہ جھوٹ زیادہ تر غیر ارادی اور تخیلاتی ہوتا ہے۔
4 سے 5 سال کے بچے جان بوجھ کر جھوٹ بولنے لگتے ہیں، خاص طور پر جب وہ سزا سے بچنا چاہتے ہیں یا کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
6 سے 12 سال کے بچے زیادہ ہوشیار ہو جاتے ہیں اور اتنی مہارت سے جھوٹ بولنے لگتے ہیں، جنہیں پکڑنا تھوڑا مشکل ہو سکتا ہے۔ جب بچے 12 سال کے قریب پہنچتے ہیں، تو وہ راز رکھنے کے لیے جھوٹ بول سکتے ہیں۔
نظم و ضبط اور سزا
ماہرین کے مطابق، اگر بچوں کو ہر چھوٹی غلطی پر سزا دی جائے تو یہ انہیں جھوٹ بولنے کی طرف مائل کر سکتا ہے۔ جب بچے یہ محسوس کرتے ہیں کہ سزا سے بچنے کے لیے جھوٹ بولنا ایک آسان راستہ ہے، تو وہ اکثر ایسا کر لیتے ہیں۔ یہ عادت وقت کے ساتھ یہ ایک مستقل رویہ بن سکتی ہے۔ خاص طور پر جب بچے ڈرتے ہیں کہ سچ بولنے پر انہیں سخت سزا ملے گی، تو وہ جھوٹ بول کر اپنی حفاظت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ابلاغ کی کمی
والدین اور بچوں کے درمیان کمیونیکیشن کی کمی بھی بچوں میں جھوٹ بولنے کی عادت کے پیچھے ایک اہم وجہ ہو سکتی ہے۔ اکثر بچے یہ سوچتے ہیں کہ ان کے والدین ان کی باتوں کو نہیں سمجھیں گے یا ان کی ضروریات کو نظر انداز کریں گے، اس لیے وہ جھوٹ بولنے کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ وجہ نہ صرف بچے کو والدین سے جذباتی طور پر دور کردیتی ہے بلکہ ان کے اندرجھوٹ بولنے کی عادت بھی جڑ پکڑنے لگتی ہے۔
مثال قائم کرنا
بچے اپنے والدین کو سب سے بڑا رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ اگر والدین خود جھوٹ بولتے ہیں یا کچھ چھپاتے ہیں، تو بچے بھی اسی رویے کو اپنا لیتے ہیں۔ اس لیے، بچوں کی بہترین تربیت کے لیے والدین کو اپنی مثال سے سچائی کا پیغام دینا ضروری ہے۔1بچوں کو مناسب
ماہرین والدین کو بچوں کی درست پرورش کے لیے مختلف تجاویز دیتے ہیں۔
وضاحت کریں کہ سچ بتانا کیوں ضروری ہے
بچوں کو سمجھانا ضروری ہے کہ جھوٹ بولنے کے بجائے سچ بولنا کیوں بہتر ہے۔ انہیں واضح انداز میں بتائیں کہ سچ بولنے سے ان کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں اور صرف جھوٹ ہی لوگوں کو ان سے دور کر سکتا ہے۔ جب بچہ جھوٹ بولتا ہے تو اسے پیار سے سمجھانا چاہیے نہ کہ ڈانٹ ڈپٹ سے تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ جھوٹ بولنے میں کیا حرج ہے۔
سچ بولنے پر ان کی حوصلہ افزائی کریں
جب بچہ سچ کہے تو اس کی تعریف کریں۔ اس سے بچہ سمجھ جائے گا کہ سچ بولنے کے ہمیشہ اچھے نتائج ہوتے ہیں۔ ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ والدین سب سے پہلے بچوں کو بتاتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ تو پہلے انہیں اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔
بچوں کو تحفظ کا احساس دیں
بچوں کو محسوس ہونا چاہیے کہ وہ گھر میں محفوظ ہیں اور ان کی غلطیوں کے باوجود ان سے پیار کیا جائے گا۔ جب بچے خوفزدہ نہیں ہوں گے تو وہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے میں آسانی محسوس کریں گے اور جھوٹ نہیں بولیں گے۔
غلطی پر نہیں، وجہ پر توجہ دیں۔
جب بچہ جھوٹ بولتا ہے تو یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ایسا کیوں ہوا۔ یہ ممکن ہے کہ وہ خوف یا شرمندگی سے جھوٹ بول رہا ہو۔ صرف اس کی غلطی پر توجہ دینے اور اسے سزا دینے کے بجائے صورتحال کو سمجھ کر اس کی رہنمائی کریں۔
عمر کے مطابق سمجھانے کا طریقہ اختیار کریں
بچوں کی سمجھ ان کی عمر کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔ چھوٹے بچوں سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ ہمیشہ سچ بولیں لیکن انہیں آہستہ آہستہ سکھایا جا سکتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں، سچ بولنے کی اہمیت اور اس کے نتائج انہیں بہتر انداز میں سمجھائے جا سکتے ہیں۔