ارجن کپور اور راکول پریت سنگھ کی فلم ’میرے ہسبینڈ کی بیوی‘ کا پوسٹر جاری
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
بالی ووڈ اداکار ارجن کپور اور راکول پریت سنگھ کی نئی فلم ’میرے ہسبینڈ کی بیوی‘ کا پوسٹر جاری کر دیا گیا۔
بالی ووڈ انڈسٹری کے معروف اداکار ارجن کپور، بھومی پیڈنیکر اور راکول پریت سنگھ کی نئی رومانوی کامیڈی فلم ’میرے ہسبینڈ کی بیوی‘ کے میکرز نے پہلا پوسٹر جاری کر دیا ہے۔
پوسٹر میں ارجن کپور کو درمیان میں دکھایا گیا ہے، جبکہ بھومی پیڈنیکر اور راکول پریت گھوڑے پر بیٹھی ہوئی ہیں اور ارجن کو اپنی جانب کھینچ رہی ہیں۔ اس دلچسپ پوسٹر نے فلم کے شائقین میں بے حد تجسس پیدا کر دیا ہے۔
ارجن کپور نے انسٹاگرام پر فلم کا پوسٹر شیئر کرتے ہوئے مزاحیہ کیپشن بھی لکھا، ’’کھینچو۔۔۔ اور کھینچو۔ شرافت کی یہی سزا تو ہوتی ہے، کلیش ہو یا تصادم، پستا تو مجھ جیسا عام آدمی ہے۔‘‘
اداکار نے مزید انکشاف کیا کہ فلم 21 فروری کو سینما گھروں کی زینت بنے گی۔
واضح رہے کہ ارجن کپور کو آخری بار فلم ’سنگھم اگین‘ میں دیکھا گیا تھا، جس میں انہوں نے ایک منفی کردار نبھایا تھا۔
راکول پریت سنگھ اپنی 2019 کی ہٹ فلم کے سیکوئل ’دے دے پیار دے 2‘ کی ریلیز کی منتظر ہیں جس کی ہدایت کاری انشول شرما نے کی ہے۔
دوسری جانب، بھومی پیڈنیکر اپنی ویب سیریز کے آغاز کی تیاری میں مصروف ہیں جہاں وہ ایک پولیس اہلکار کے کردار میں نظر آئیں گی۔
فلم ’میرے ہسبینڈ کی بیوی‘ کی ریلیز کا انتظار اب شائقین بے صبری سے کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میرے ہسبینڈ کی بیوی ارجن کپور
پڑھیں:
متحدہ عرب امارات میں شادی، طلاق اور بچوں کی تحویل سے متعلق قوانین میں بڑی تبدیلی
ابوظہبی: متحدہ عرب امارات میں 15 اپریل سے وفاقی پرسنل اسٹیٹس قانون میں اہم تبدیلیوں کا اطلاق ہوگیا ہے، جن میں شادی، طلاق، بچوں کی تحویل اور ازدواجی زندگی سے متعلق کئی نئے اصول شامل کیے گئے ہیں۔
نئے قانون کے تحت خواتین کو اپنی پسند سے شادی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، اور اگر ان کے سرپرست انکار کریں تو وہ عدالت سے رجوع کر سکتی ہیں۔ اگر خاتون غیر ملکی مسلم ہو اور اس کے ملک کے قانون میں سرپرست کی اجازت لازمی نہ ہو تو شادی کے لیے سرپرست کی منظوری ضروری نہیں ہوگی۔
قانون کے مطابق شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے، اور اگر میاں بیوی کے درمیان عمر کا فرق 30 سال سے زیادہ ہو تو شادی صرف عدالت کی منظوری سے ہی ممکن ہوگی۔
منگنی کو ایک قانونی وعدہ تصور کیا گیا ہے، لیکن اسے شادی نہیں مانا جائے گا۔ اگر منگنی ختم ہو جائے تو 25 ہزار درہم سے زائد مالیت کے تحائف واپس کیے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ شادی کے وعدے سے مشروط ہوں۔
ازدواجی گھر کے حوالے سے بھی قانون میں وضاحت کی گئی ہے کہ بیوی کو مناسب رہائش فراہم کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے، اور شوہر اپنی بیوی کے ساتھ اپنے والدین یا دوسری شادی سے بچوں کو رکھ سکتا ہے اگر اس سے بیوی کو نقصان نہ ہو۔
بچوں کی تحویل کے معاملے میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے اب تحویل کی عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے، اور 15 سال یا اس سے زائد عمر کے بچے خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ والد یا والدہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
قانون میں ایسے افراد کے لیے بھی سخت سزائیں رکھی گئی ہیں جو بچوں کے ساتھ بغیر اجازت سفر کریں یا والدین کی ذمہ داریاں نظر انداز کریں۔ ایسی خلاف ورزیوں پر 5 ہزار سے ایک لاکھ درہم تک جرمانہ یا قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔