Express News:
2025-02-01@01:07:18 GMT

لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کیجیے!

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

کرسٹینا کی عمر صرف چوبیس برس تھی۔ نیویارک کا ایک علاقہ ہے، جس کا نام، ایسٹ ولیج (East Village) ہے۔ یہاں ارب پتی افراد کے دفاتر اور گھر بھی ہیں۔ اور اختتامی حصے میں متوسط سطح کے افراد بھی مقیم ہیں۔ ایسٹ ولیج میں درجنوں نہیں، سیکڑوں ریسٹورنٹ موجود ہیں۔ ہر رنگ اور نسل کے لوگ وہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔

اَن گنت ہوٹلوں میں ایک چھوٹا سا کیفے بھی ہے۔ کرسٹینا اس ایک معمولی سے ریسٹورنٹ میں ویٹرس تھی۔ ادنیٰ شکل وصورت کی لڑکی، ان لاکھوں خواتین میں شامل تھی جو سارا دن محنت کر کے اپنا گزارا مشکل سے ہی کر پاتے ہیں۔ دراصل نیویارک ایک حددرجہ مہنگا شہر ہے۔ مین ہیٹن تو خیر انسانی عقل سے بھی زیادہ مہنگا ہے۔ ایسٹ ولیج مین ہیٹن ہی میں واقع ہے۔

کرسٹینا کی ذاتی زندگی دکھوں سے معمور تھی۔ والد، نشہ کرتا تھا اور والدہ ایک امیر آدمی کے گھر باورچن تھی۔ ظلم یہ بھی تھا کہ کرسٹینا ابھی صرف دس برس کی تھی کہ والدہ نے اپنے شوہر سے تنگ آ کر طلاق لے لی۔ کرسٹینا نے اپنے بچپن میں صرف خانگی لڑائی جھگڑا اور مار پیٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیکھا تھا۔ مگر اس کی فطرت میں ایک بہت بڑی خوبی تھی۔ گھریلو تلخی نے اس کی زندگی میں زہر گھولنے کے بجائے، اسے مسکرانا سکھا دیا تھا۔

وہ ہر ایک کی مدد کرنا چاہتی تھی مگر اس کے اپنے وسائل اتنے کم تھے کہ کسی کی مالی مدد کرنا ناممکن سا تھا۔ ویٹرس کے طور پر کرسٹینا اپنا کام حددرجہ تندہی سے کرتی تھی۔ مسکرا کر لوگوں سے کھانے کا آرڈر لیتی تھی اور خوشگوار طریقے سے اپنے کام کو نپٹاتی تھی۔ بہرحال، یہ اس کا ذاتی رویہ تھا اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اکثر اوقات اپنے گھر سے بس کے ذریعے کام پر آ جاتی تھی۔ ایک دن بارش میں کرسٹینا ڈیوٹی پر جا رہی تھی۔ بس اسٹاپ پر اتری تو وہاں اسے ایک سات آٹھ برس کا بچہ نظر آیا۔ معصوم بچے کے سارے کپڑے پانی سے شرابور تھے اور وہ سخت سردی کی وجہ سے کانپ رہا تھا۔

کرسٹینا نے بچے کو دیکھا تو وہ اس کی طرف چلی گئی۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے مکمل اجنبی تھے۔ کرسٹینا نے چھتری کھولی، بچے کو ساتھ لیا اوراپنے کیفے کی طرف چل پڑی جو نزدیک ہی تھا۔ وہاں پہنچ کر اس نے بچے کے لیے گرم سوپ بنوایا اور اسے اپنے ہاتھوں سے پلایا۔ بچے نے کہا کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں اور وہ یتیم ہے۔

کرسٹینا کا جواب تھا کہ یہ سوپ تمہارے لیے بالکل مفت ہے۔ کرسٹینا نے بچے کے گیلے کپڑوں کو بھی خشک کیا۔ بچہ بہتر ماحول کی بدولت کھلکھلا اٹھا۔ وہ بہت خوش تھا۔ جب بارش ختم ہوئی تو کرسٹینا نے بچے کو اپنی جیب میں سے پچاس ڈالر دیے اور اسے کہا کہ جب بھی کھانے کی ضرورت ہو، وہ کیفے میں آ جائے۔

مگر یہ پورا واقعہ نہیں ہے۔ اس واقعہ کا ایک اور حصہ بھی ہے جو کرسٹینا کے علم میں نہیں تھا۔ جب بچہ بس اسٹاپ پر سردی کی بدولت ٹھٹھر رہا تھا، عین اسی وقت نیویارک کی ایک بہت بڑی کمپنی کا مالک اپنی قیمتی گاڑی لیے، بس اسٹاپ کے نزدیک موجود تھا۔ اس کا نام الیکس (Alex) تھا۔ گاڑی روک کر وہ خود بچے کی مدد کرنا چاہتا تھا مگر اس کے کار سے نکلنے سے پہلے ہی کرسٹینا پہنچ گئی اور بچے کو کیفے لے گئی اور وہاں اس کی بھرپور مدد کی۔ الیکس، کرسٹینا کے پیچھے پیچھے کیفے تک پہنچا اور اپنی گاڑی ہی میں سب کچھ دیکھتا رہا۔ الیکس، کرسٹینا سے حددرجہ متاثر ہوا کہ کیسے بغیر جان پہچان کے، نوجوان ویٹرس نے ایک معصوم بچے کی کتنی مؤثر مدد کی۔ ایک دن الیکس اپنے دفتر سے لنچ کے لیے نکلا اور اس کیفے میں چلا گیا جہاں کرسٹینا کام کرتی تھی۔ ویٹرس کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھا کہ الیکس جیسا انسان پورا واقعہ دیکھ چکا ہے۔

الیکس نے وہاں لنچ کیا اور جب کرسٹینا بل لے کر آئی تو اس نے حددرجہ احتیاط سے بل کے ساتھ پانچ ہزار ڈالر رکھے اور فوری طور پر کیفے سے باہر چلا گیا۔ کرسٹینا نے جب بل کے ساتھ ٹپ دیکھی تو حیران رہ گئی۔ اس کا خیال تھا کہ کوئی گاہک، غلطی سے اپنے پیسے یہاں بھول گیا ہے۔ کرسٹینا ششدر تھی کہ کون اسے پانچ ہزار ڈالر ٹپ کیوں دے گا مگر الیکس واپس نہیں آیا۔ مگر وہ کیفے کے سامنے سے گزرتا ضرور تھا۔ اور کرسٹینا کو مسکراہٹ سے کام کرتے دیکھ کر پرمسرت طریقے سے واپس چلا جاتا تھا۔

کرسٹینا کو بالکل علم نہیں تھا کہ کوئی اسے کام کرتے نوٹس کر رہا ہے۔ بہرحال وقت گزرتا چلا گیا۔ ایک دن شام کے وقت، کرسٹینا اپنے گھر واپس جا رہی تھی کہ ایک قیمتی گاڑی اس کے نزدیک آئی۔ الیکس باہر نکلا اور کرسٹینا کو کہا کہ وہ اس سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے۔ کرسٹینا اور الیکس، فٹ پاتھ پر لگے ہوئے ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔ الیکس نے بارش اور اس بچے کی مدد کی پوری کہانی تفصیل سے سنائی۔ یہ بھی بتایا کہ پانچ ہزار ٹپ بھی اس نے دی تھی۔ کرسٹینا مکمل طور پر حیران رہ گئی کہ کوئی اس کے انسانی مدد کے واقعہ کو اتنی تفصیل سے دیکھ رہا تھا۔ بہرحال الیکس نے کہا کہ وہ کرسٹینا کوایک کام دینا چاہتا ہے اور اس کے لیے اس نے دو لاکھ ڈالر رکھے ہوئے ہیں۔ کرسٹینا نے پریشانی سے کہا کہ وہ قطعاً دو لاکھ ڈالر نہیں لے سکتی۔

الیکس نے سنجیدگی سے کہا کہ پہلے کام کی نوعیت کو تو سن لیجیے پھر انکار کر دینا۔ الیکس نے کہا کہ وہ ایک ارب پتی انسان ہے مگر پیسے نے اسے کبھی اندرونی خوشی نہیں دی۔ جس دن، آپ بچے کی مدد کر رہی تھی، اسی دن مجھے پتہ چلا کہ اصل خوشی تو دوسروں کی بے لوث مدد کرنے میں ہے اور اس جذبہ کی بدولت ہے جس کی وجہ سے انسان لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔

میں ایک چھوٹا سا کیفے چلانا چاہتا ہوں جس کی مالک آپ ہوں گی۔ شرط صرف یہ ہے کہ کوئی بھی انسان پیسے نہ ہونے کی بدولت وہاں سے بھوکا واپس نہ جائے۔ کرسٹینا سوچ میں پڑگئی۔ الیکس نے کہا کہ آپ یہ نیا کیفے ضرور کھولیں اور انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر کام کیجیے۔ کرسٹینا بہت سوچ بچار کے بعد مان گئی۔ اور مین ہیٹن میں ہی ایک چھوٹا ساکیفے خرید کر کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ آفاقی مسکراہٹ کے ساتھ آرڈر لیتی تھی، کھانا پہنچاتی تھی، ٹیبل صاف کرتی تھی اور ہر ایک سے خوش اخلاقی سے پیش آتی تھی۔ ہاں، بندہ اگر کھانے کے پیسے نہیں دے سکتا تو وہ اس سے کوئی بھی پیسوں کا تقاضا نہیں کرتی تھی۔

یہ سچا واقعہ، دس برس پرانا ہے مگر یہ ہم سب لوگوں کے لیے ایک نصیحت ضرور چھوڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسانی خوشی کی بنیاد کیا ہے۔ خوش ہونے کا مطلب کیا ہے۔ خوشی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔ کیا یہ بناوٹ یا تصنع یا نیکی کے پروپیگنڈے سے منسلک ہے۔ جناب، بالکل نہیں، قطعاً نہیں۔ دراصل انسان کو اندرونی مسرت صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ عام لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ کسی جزا کے بغیر اجنبی افراد کی بے لوث مدد کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ خدا نے جو وسائل اسے مہیا کیے ہیں، وہ انھیں صرف اور صرف اپنے لیے استعمال نہیں کرتا بلکہ اس پر دوسرے مستحق لوگوں کا حق بھی مانتا ہے۔

سبق تو یہی ہے کہ لوگوں کے لیے آسانیاں در آسانیاں پیدا کی جائیں مگر یہاں سے کچھ ذہنی الجھنیں بھی شروع ہوتی ہیں۔ اگر انسان امیر نہیں ہے تو پھر وہ لوگوں کی کیسے مدد کر سکتا ہے۔ بالکل درست بات ہے کہ اگر ذاتی وسائل محدود ہیں تو آپ بذات خود عسرت کا شکار ہیں۔ تو پھر آپ کیونکر دوسروں کے کام آ سکتے ہیں۔

اس کا بہت سادہ سا حل ہے، جس پر کوئی پیسہ بھی خرچ نہیں ہوتا۔ آپ، جو بھی کام کر رہے ہیں، آپ اسے خوشگوار طریقے سے سرانجام دینا شروع کر دیجیے۔ لوگوں سے مسکرا کر بات کریں۔ درشت اور غصہ کے رویہ کو بھول جایئے۔ مثبت رویہ سے، قدرت کسی ایسے غیبی دروازہ کے کواڑ آپ کے لیے کھولے گی جس کا تصور بھی آپ نہیں کر سکتے۔ کسی بھی جزا کے بغیر، اپنے رویہ کو انسان دوست رکھیے۔ آپ کی زندگی بدل جائے گی۔ بذات خود، خوش رہنا شروع کر دیں گے۔

مشکلات اگر آتی بھی ہیں تو آپ کے اس رویہ کی بدولت، سرنگوں ہو جائیں گی۔ ذرا آگے چلیے۔ زندگی کا مقصد یہی ہے۔ زندگی ہے کیا؟ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مشکل امر یہ ہے کہ اس کے مقصد کو سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ دراصل زندگی دوسروں میں آسانیاں تقسیم کرنے کا نام ہے اور انسانی خوشی بھی اسی امر میں پوشیدہ ہے۔ آپ کسی اجنبی کی معمولی سی مشکل کو حل کر کے دیکھیے، آپ کی روح تک خوش ہو جائے گی۔ شخصیت مکمل ہونے لگے گی۔ ہاں ایک اور بات، مسکرا کر کام کرنا بھی ایک نیکی ہے۔

صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ دوسرے انسان کو حوصلہ دینا بھی اس کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے۔ کرسٹینا کی مثال اپنے سامنے رکھیے۔ دوسروں کی مدد صرف اور صرف انسانی ہمدردی کے تحت کیجیے۔ اسے جزا سے منسلک نہ کریں۔ اگر الیکس جیسا ارب پتی، آپ کو چھپ کر نہیں دیکھ رہا، تو خدا تو ضرور دیکھ رہا ہے، اس سے آگے آپ کو مزید کیا چاہیے!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ا سانیاں پیدا کرسٹینا کو کرسٹینا نے کہا کہ وہ نے کہا کہ کی بدولت الیکس نے کرتی تھی نہیں تھا کہ کوئی بچے کی کی مدد کام کر تھا کہ اور اس بچے کو نے بچے

پڑھیں:

مذاکرات کے دروازے ان لوگوں نے بند کیے جوسیاسی حل نہیں چاہتے تھے، بیرسٹر گوہر

ABBOTTABAD:

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے مذاکرات کے خاتمے کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کے دروازے ان لوگوں نے بند کیے جو سیاسی حل نہیں چاہتےتھے۔

ایبٹ آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ مذاکرات کے دروازے ہم نے نہیں حکومت نے بند کیے، حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہی نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پہل کی اورکہا اپنے لیے ڈیل نہیں جمہوریت اور ملک کے لیے موقع دے رہا ہوں اور ہمارے سیاسی قیدیوں کی رہائی اور کمیشن کا قیام پر مشتمل صرف دو مطالبات تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک مہینہ مذاکرات ہوئے کوئی حل نہیں نکلا، حکومت نے جو کچھ لکھا ہوا تھا وہ ہمارے ساتھ شیئر کرتے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پیکا ایکٹ کالا قانون ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کرتے، مذاکرات کے دروازے ان لوگوں نے بند کیے جوسیاسی حل نہیں چاہتے تھے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ 8 فروری کو مینڈیٹ چوری کرنے والوں کے خلاف صوابی میں تاریخی جلسہ ہو گا۔

علی امین گنڈاپور کو پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹانے کے بعد زیرگردش خبروں  سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے، علی آمین پر مکمل اعتماد ہے۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں صوبے کی نمائندگی نہیں، فوری مخصوص نشستیں دے کر سینیٹ کا الیکشن کرایا جائے اورہم سب اپوزیشن جماعتوں سے ملیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پولیٹیکل ہرڈمینٹیلٹی
  • غزہ اور مغربی کنارے میں ان پٹھا گولہ بارود زندگی کے لیے مسلسل خطرہ
  • امپائر کی انگلی پر چلنے والا شخص بات چیت پر یقین نہیں رکھتا‘ عظمیٰ بخاری
  • مذاکرات کے دروازے ان لوگوں نے بند کیے جو سیاسی حل نہیں چاہتے ،بیرسٹر گوہر
  • مذاکرات کے دروازے ان لوگوں نے بند کیے جوسیاسی حل نہیں چاہتے تھے:بیرسٹر گوہر
  • مذاکرات کے دروازے ان لوگوں نے بند کیے جوسیاسی حل نہیں چاہتے تھے، بیرسٹر گوہر
  • 9 مئی کے دہشتگرد این آر او مانگنے کیلئے چور دروازے تلاش کر رہے ہیں، وزیر اطلاعات پنجاب
  • نوازشریف اور مریم نواز کا ذکر کیے بغیر کچھ لوگوں کی سیاست ادھوری ہے:عظمی بخاری
  • نواز اور مریم کا ذکر کئے بغیر آج بھی کچھ لوگوں کی سیاست نامکمل ہے: عظمیٰ بخاری