Express News:
2025-02-01@01:04:11 GMT

یہ کیسا قانون ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

نیا قانون پی ایچ ڈی اور پروفیسرزکو وائس چانسلر بننے سے نہیں روکتا بلکہ دیگر امیدواروں سے مقابلے کی ضرورت ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے وائس چانسلروں کے تقرر اورکنٹریکٹ پر اساتذہ ملازم رکھنے کی حکومتی فیصلوں کے خلاف یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے احتجاج کو مسترد کرتے ہوئے یہ بیانیہ اختیار کیا۔ اس بیان کے بعد سندھ کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ نے تدریس معطل کردی اور اساتذہ سڑکوں پر احتجاج پر مجبور ہوئے۔

پاکستان کی یونیورسٹیوں کے تعلیمی معیار اساتذہ اور وائس چانسلروں کے تقررکے لیے قواعد و ضوابط بنانے والے اعلیٰ تعلیم کے ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار نے سندھ حکومت کی نئی پالیسی کو یونیورسٹیوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا تو وزیر اعلیٰ نے اپنی ایک تقریر میں چیئرمین ایچ ای سی کے اس مؤقف کی شدید مذمت کی اور الزام عائد کیا کہ چیئرمین ایچ ای سی نے انھیں خط بھیجنے سے پہلے میڈیا کو جاری کر کے احتجاج پر اکتفاء کیا۔ مراد علی شاہ کا موقف ہے کہ پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں میں سنگین انتظامی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے یہ مفروضہ اخذ کیا کہ بعض وائس چانسلر اس احتجاج کو ہوا دے رہے ہیں۔ مراد علی شاہ نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ ان کی انتظامیہ اس بحران سے نمٹ لے گی۔

پاکستان میں خود مختار یونیورسٹی کا حتمی تصور پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں آیا۔ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1973میں یونیورسٹی قوانین میں بنیادی تبدیلیاں کیں۔ یونیورسٹی ایکٹ 1973کے تحت وائس چانسلرکا عہدہ وفاقی سیکریٹری کے برابر ہوا اور وائس چانسلرکے لیے اسپیشل گریڈ دینے کا فیصلہ ہوا تھا۔ اساتذہ کو ابتدائی گریڈ 17 تفویض کیا گیا جو سی ایس پی کیڈر کے افسر کا بنیادی اسکیل ہوتا ہے۔ اساتذہ کے لیے گریڈ 21 (پروفیسر کی حیثیت سے) تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ ختم کردی گئی۔

تعلیمی ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین کی میعاد 3 سال مقرر ہوئی اور Rotation کی بنیاد پر چیئرمین کا تقرر ہونے لگا۔ فیکلٹی کے اساتذہ کو خود اپنے ڈین کے انتخاب کا حق دیا گیا۔ منتخب طلبہ یونین کے عہدیداروں کی یونیورسٹی کے بنیادی اداروں سنڈیکیٹ اور سینیٹ میں نمایندگی کو قانونی تحفظ دیا گیا۔ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن قائم کیا گیا جو یونیورسٹیوں کو دی جانے والی گرانٹ کی فراہمی کو یقینی بنانے کا مجاز تھا۔ اس قانون کی بناء پر یونیورسٹی کے بنیادی اداروں میں طلبہ اور اساتذہ کی نمایندگی حقیقی شکل اختیار کر گئی۔ پہلی دفعہ دنیا بھر کی بڑی یونیورسٹیوں کی طرح پاکستانی یونیورسٹیوں میں علمی آزادی Academic Freedom کا ادارہ مستحکم ہوا۔ جب 1977 میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو معاشرے سے جمہوری رویے کی بیخ کنی کی گئی۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں یونیورسٹیوں کے قوانین میں یکطرفہ ترمیم کی گئی ۔ یونیورسٹی آرڈیننس میں من مانی ترامیم کی گئیں۔ طلبہ یونین کے نمایندوں کی یونیورسٹی کے بنیادی اداروں میں نمایندگی ختم کردی گئی۔ حکومت کو وائس چانسلرکے تقرر کے علاوہ ڈین اور ڈائریکٹر فنانس کے تقررکا اختیار مل گیا ۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے اساتذہ کو وائس چانسلروں کے بجائے غیر سویلین افسروں کے علاوہ بیوروکریٹ کی تقرری کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں یونیورسٹی کا علمی ماحول سخت متاثر ہوا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے یہ کوشش کی ہے کہ سب سے پہلے سرکاری یونیورسٹیوں کی خود مختاری کو ختم کیا جائے۔

سندھ حکومت کے اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے 2018 میں یونیورسٹیوں کے قوانین میں ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت یونیورسٹی رجسٹرار، ڈین اور ڈائریکٹر فنانس کے تقررکا اختیار سندھ حکومت کو مل گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی یونیورسٹی کے بنیادی ادارہ سنڈیکیٹ میں اساتذہ نمایندوں کے مقابلے میں سرکاری اراکین کی تعداد بڑھا دی گئی۔

یونیورسٹی کے طریقہ کار کے بارے میں جاننے والے اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ رجسٹرار وائس چانسلر کے نمایندے ہوتے ہیں اور وائس چانسلر کی ہدایات پر کام کرتے ہیں، اگر رجسٹرار وائس چانسلر کی ہدایات پر کام نہیں کرتے تو یونیورسٹی کا نظام مفلوج ہوجاتا ہے۔ سنڈیکیٹ میں سرکاری افسروں کی اقلیت ہوگئی جس سے سنڈیکیٹ کی ہیئت تبدیل ہوگئی۔ سندھ کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے اس ترمیم کے خلاف بھرپور مہم چلائی۔ سندھ حکومت نے اساتذہ کے مطالبات کو ماننے کا اعلان کیا مگر یہ قانون منسوخ نہیں کیا۔ صرف کراچی اور سندھ یونیورسٹی میں ابھی تک اس قانون کا اطلاق نہیں ہوا، باقی یونیورسٹیوں کے حالات کا بغور جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں وائس چانسلر کے تقرر کے لیے سرچ کمیٹی کا تصور آیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بڑی مشکل سے سرچ کمیٹی کی حیثیت کو تسلیم کیا مگر اب بھی حکومت سرچ کمیٹی کے اراکین کا تقرر کرتی ہے۔ حکومت نے وائس چانسلر کے تقرر کے لیے سرچ کمیٹی کے چیئرمین اور اراکین کی اہلیت کے بارے میں واضح قواعد نہیں بنائے۔ حکومت ہر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے تقرر کے لیے نئی سرچ کمیٹی بناتی ہے مگر سرچ کمیٹی کے کچھ مستقل اراکین بھی ہیں۔

سرچ کمیٹی طویل مشق کے بعد وائس چانسلروں کی اہلیت کا تعین کرتی ہے اور پھر سرچ کمیٹی جب کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے کے لیے تین ناموں کو حتمی شکل دیتی ہے تو کلیئرنگ سرٹیفکیٹ حاصل کیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ سرچ کمیٹی امیدواروں کی فہرست کو حتمی شکل دی مگر ان امیدواروں کو انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کلیئرنگ سرٹیفکیٹ نہیں دیا تو پھر یہ امیدوار نااہل قرار پاتے تھے۔ وزیر اعلیٰ خود امیدواروں کا انٹرویو کرتے اور امیدوار کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس طویل جانچ پڑتال کے بعد ایسا امیدوار منتخب ہوجائے جو اخلاقی برائی میں مبتلا ہو تو اس امیدوارکے انتخاب کی براہِ راست ذمے داری سندھ حکومت کے وائس چانسلر چناؤ کے طریقہ کار بنانے والے بیوروکریٹس پر عائد ہوتی ہے۔

سندھ حکومت کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی متفقہ رائے ہے کہ وائس چانسلر کے تقرروں کے لیے میرٹ پر عمل پیرا ہونے کے بجائے وہ سب کچھ ہوتا ہے جو کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ کو وائس چانسلروں کے غلط تقررکی تحقیقات اپنے دفتر سے شروع کرنی چاہیے۔ سندھ کے تعلیمی بورڈ براہِ راست سندھ کی حکومت کے کنٹرول میں ہیں مگر تمام تعلیمی بورڈ شدید انتظامی و تعلیمی بحران کا شکار ہیں۔ ہر سال جب میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات ہوتے ہیں تو نئے اسکینڈلز سامنے آتے ہیں۔ انٹر سائنس کے امتحانات میں کراچی بورڈ کے طلبہ کے ساتھ زیادتیوں کے بارے میں تو پارلیمانی کمیٹی کی تحقیقات اخبارات میں شایع ہوتی ہے۔

سندھ حکومت کی بری طرزِ حکومت کی سب سے بڑی مثال گزشتہ مہینہ کراچی کے انٹرمیڈیٹ بورڈ کے گزشتہ سال 6کے قریب چیئرمین تبدیل ہونے کی ہے مگر بورڈ کی کارکردگی اس کے باوجود بہتر نہ ہوسکی۔ ان بورڈز کا نظام تو پی ایچ ڈی سند یافتہ پروفیسر کے پاس نہیں ہے۔ یونیورسٹی، کالج اور اسکول میں بنیادی فرق علمی آزادی کا ہے۔

یونیورسٹی میں طلبہ اور اساتذہ تحقیق کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور تحقیق کی بنیاد پر ہی یونیورسٹی کی حیثیت کا تعین ہوتا ہے۔ تحقیق کی باریکیوں کو صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے خود تحقیق کی ہو۔ تحقیق کرنے والا وائس چانسلر طلبہ و اساتذہ کو تحقیق کے لیے موضوعات کی طرف راغب کرسکتا ہے۔ یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے نوجوانوں میں غصہ ہوتا ہے، وہ مختلف طریقوں سے اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک استاد جس کی ساری زندگی کلاس روم میں اور لیب میں گزری ہو وہ نوجوانوں کی نفسیات کو زیادہ بہتر سمجھ سکتا ہے۔

 سندھ یونیورسٹی میں اساتذہ کو منظم کرنے کے لیے زندگی وقف کرنے والے استاد ڈاکٹر بدر سومرو کا کہنا ہے کہ اساتذہ اس ڈریکولا قانون کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ سندھ حکومت کو عقل کے ناخن لینے چاہئیں۔ تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر سندھ حکومت نے اپنا فیصلہ تبدیل نہ کیا تو اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کا فرق مٹ جائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یونیورسٹی کے بنیادی وائس چانسلر کے تقرر وائس چانسلروں کے میں یونیورسٹی یونیورسٹی میں کی یونیورسٹی پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ حکومت کے تقرر کے اساتذہ کو وزیر اعلی سرچ کمیٹی حکومت کی ہوتا ہے کو وائس کے لیے کی گئی

پڑھیں:

 بیوروکریٹس کو وائس چانسلر بنانےکا ترمیمی بل  منظور

سندھ اسمبلی نے اساتذہ کو نظراندازکرکےسندھ کی جامعات میں بیوروکریٹس کو وائس چانسلر بنانےکا ترمیمی بل منظورکرلیا، اپوزیشن ارکان نے بل کے خلاف شدید احتجاج کیا۔
  سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیرپارلیمانی امورضیا الحسن لنجار نے جامعات کے حوالے سے سندھ یونیورسٹی اینڈ انسٹیوٹ ترمیمی بل پیش کیا تو اپوزیشن نے شدید نعرے بازی کی۔
 ایوان میں اپوزیشن نے شورشرابہ کیا اوراسپیکر کے ڈائس کا گھیراؤکرتے ہوئے بل کی کاپیاں ہوا میں اڑا دیں۔
 وزیرپارلیمانی امورضیا الحسن لنجارنے سندھ سول کورٹ ترمیمی بل پیش کیا تواپوزیشن نے ایک بارپھراحتجاج شروع کیا، اپوزیشن لیڈرعلی خورشیدی کہا کہ بل کی منظوری کے لیے قوائد وضوابط پرعمل کیا جائے۔
 وزیرپارلیمانی امورضیا الحسن لنجارکا کہنا تھا کہ اپوزیشن ارکان اپنا مؤقف پیش کرسکتے ہیں۔
 سندھ اسمبلی میں ہائی ایجوکیشن ٹیکنیکل ترمیمی بل بھی منظورکرلیا گیا، ڈپٹی اسپیکرانتھونی نوید نے اپوزیشن کے شدید احتجاج کے دوران اجلاس پیرکی صبح 10 بجے تک ملتوی کردیا۔
 سندھ میں بیورو کریٹ وائس چانسلر بنانے کے فیصلے کے خلاف گزشتہ پندرہ دنوں سے جامعات میں تدریس معطل کرکے احتجاج کیا جارہا ہے۔
 اساتذہ کی نمائندہ تنظیم فپواسا کا کہنا ہے اس فیصلے سے جامعات کے انتظامی اموربری طرح متاثر ہوں گی۔

متعلقہ مضامین

  • جامعات میں بیوروکریٹس کو وائس چانسلر بنانے کا ترمیمی بل سندھ اسمبلی میں منظور
  • بیوروکریٹ کے وائس چانسلربننے کی راہ ہموار: سندھ اسمبلی میں ترمیمی بل منظور
  • بیوروکریٹ سندھ میں وائس چانسلر بن سکے گا، سندھ اسمبلی میں ترمیمی بل منظور
  •  بیوروکریٹس کو وائس چانسلر بنانےکا ترمیمی بل  منظور
  • بیوروکریٹ وائس چانسلر کی تعیناتی، سندھ اسمبلی کے سامنے اساتذہ کا مظاہرہ
  • جامعات میں بیوروکریٹس کو وائس چانسلر مقرر کرنیکا مجوزہ قانون سندھ اسمبلی میں پیش کیے جانے کا امکان
  • صدر تنظیم اساتذہ پاکستان پروفیسر ڈاکٹر الطاف حسین لنگڑیال آج سے سندھ کا 5 روزہ دورہ کریں گے
  • انٹر کے متنازع نتائج؛ اسمبلی کمیٹی نے انکوائری وائس چانسلر این ای ڈی یونیورسٹی کے سپرد کردی
  • ٹنڈوجام ،سندھ یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی تقرری کیخلاف اساتذہ کا احتجاج