کرم امن معاہدے کے فریقین کا جرگہ، معاہدے پر مکمل عمل درآمد کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
KOHAT:
خیبرپختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں کرم امن معاہدے کے فریقین کا جرگہ منعقد ہوا جہاں فریقین نے امن معاہدے پر مکمل عمل درآمد کا اعلان کردیا۔
جرگے کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ کوہاٹ میں کرم امن معاہدہ کے فریقین کا جرگہ ختم ہو گیا اور جرگے میں امن معاہدے پر مکمل عمل درآمد کا اعلان کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے دونوں فریقین کی کمیٹیاں بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور جرگے کی اگلی بیٹھک کا اعلان مشاورت کے بعد ہوگا۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے کہا کہ کرم مسٸلہ نفرت کا نتیجہ ہے، ہم نے اسلامی تعلیمات بھلا دی ہیں، ہم سب اپنا نقصان کر رہے ہیں، جرگہ تب کامیاب ہوگا جب ہم نفرتیں ختم کریں۔
بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہے، انسان کا قتل ناقابل معافی ہے، ہم اپنے بچوں اور عورتوں کو قتل کرتے ہیں، باہر سے کوٸی نہیں آسکتا اور ہم سب ایک دوسرے کے دشمن بنے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کا نفرت پھیلانے میں بڑا کردار ہے، کرم امن معاہدے پر پورے ملک نے سکھ کا سانس لیا لیکن شرپسنوں کو امن منظور نہیں لہٰذا شرپسندوں کو سامنے لانا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ امن معاہدے میں اسلحہ جمع کرانا اور بنکرز مسمار کرنا شامل ہے، حکومت کرم میں مکمل امن چاہتی ہے، حکومت اور عماٸدین کرم دونوں کو کردار ادا کرنا چاہیے۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ کرم میں امن ہر صورت قاٸم ہوگا، کرم کے لیے ریلیف پیکیج منظور کر رہے ہیں۔
چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا ندیم اسلم چوہدری نے کہا کہ شرپسند رکاوٹ ڈالیں تو قانون حرکت میں آٸے گا، امن میں سب کا فاٸدہ ہے اور دونوں فریقین امن کی بحالی میں حکومت کا ساتھ دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آپریشن کا آپشن موجود ہے لیکن آپریشن سے سب متاثر ہوں گے، اسسٹنٹ کمشنر پر فاٸرنگ کرانے والے امن دشمن ہیں اور شرپسندوں کا تعلق جس فریق سے بھی ہو حوالے کرنا ہوگا۔
چیف سیکریٹری نے کہا کہ امن معاہدے پر دونوں فریقین نے دستخط کیے ہیں اور پاسداری سب کی ذمہ داری ہے، حکومت اپنا کام خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہی ہے۔
کوہاٹ میں منعقدہ جرگے سے کرم کے عماٸدین نے بھی خطاب کیا اور معاہدے پرعمل درآمد کی یقینی دہانی کرادی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امن معاہدے پر نے کہا کہ کا اعلان
پڑھیں:
اسرائیلی فوج جنگ بندی معاہدے کے بعد بھی غزہ بفر زون اپنے پاس رکھے گی، وزیر دفاع
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہاہے کہ اسرائیلی افواج غزہ میں بنائی گئی بفر زون میں جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے کسی بھی معاہدے کے بعد بھی موجود رہیں گی تاہم جنگ ختم کرنے کے لیے جنگ بندی معاہدے کو بحال کرنے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔
گذشتہ ماہ آپریشن دوبارہ شروع کرنے کے بعد سے اسرائیلی افواج نے غزہ میں ایک وسیع ’سکیورٹی زون‘ قائم کر لیا جس کے نتیجے میں 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو جنوب اور ساحلی علاقوں میں محدود کر دیا گیا ہے۔
کاٹز نے فوجی کمانڈروں سے ملاقات کے بعد ایک بیان میں کہا کہ ماضی کے برعکس، آئی ڈی ایف ان علاقوں کو خالی نہیں کر رہی جو صاف اور قبضے میں لے لیے گئے ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’غزہ کے دسیوں فیصد کو اس زون میں شامل کر لیا گیا ۔
انہوں نے کہا کہ آئی ڈی ایف سکیورٹی زونز میں دشمن اور ہماری آبادیوں کے درمیان ایک بفر کے طور پر، کسی بھی عارضی یا مستقل صورتحال میں، غزہ میں موجود رہے گی، جیسا کہ لبنان اور شام میں ہے۔
صرف جنوبی غزہ میں اسرائیلی افواج نے تقریباً 20 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا ہے جس کے بعد رفح سرحدی شہر پر کنٹرول حاصل کیا ہے اور اندرونی علاقے میں ’مورگ کاریڈور‘ تک پہنچ چکی ہیں، جو رفح اور خان یونس کے درمیان مشرقی کنارے سے بحیرہ روم تک جاتا ہے۔
اسرائیل پہلے ہی نیٹزاریم کے وسطی علاقے میں ایک وسیع کوریڈور پر قابض ہے اور اس نے سرحد کے اردگرد کئی سو میٹر اندر تک ایک بفر زون قائم کیا ہے، جس میں شمال میں غزہ شہر کے مشرق میں واقع شجاعیہ علاقہ بھی شامل ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی افواج نے حماس کے سینیئر کمانڈروں سمیت سینکڑوں جنگجو مار دیے ہیں، لیکن اقوام متحدہ اور یورپی ممالک اس آپریشن پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہیومینیٹیرین ایجنسی اوچا کے مطابق 18 مارچ کو دوبارہ لڑائی شروع ہونے کے بعد سے چار لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں، اور اسرائیلی فضائی حملوں اور گولہ باری سے کم از کم 16 سو 30 افراد مارے جاچکے ہیں۔
طبی فلاحی تنظیم ایم ایس ایف نے کہا ہے کہ غزہ ایک ’اجتماعی قبر‘ بن چکا ہے اور انسانی امدادی تنظیمیں کو امداد کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ایم ایس ایف کی ایمرجنسی کوآرڈینیٹر امانڈے بازیرول نے کہا کہ ’ہم حقیقت میں غزہ کی وری آبادی کی تباہی اور زبردستی بے دخلی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز نے کہا کہ اسرائیل، جو علاقے میں امداد کی ترسیل کو روک چکا ہے، مستقبل میں شہری کمپنیوں کے ذریعے امداد کی تقسیم کے لیے انفراسٹرکچر بنا رہا ہے۔ تاہم ان کے مطابق امداد پر عائد پابندی بدستور برقرار رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل ایک منصوبے کو آگے بڑھائے گا جس کے تحت غزہ کے باشندوں کو علاقہ چھوڑنے کی اجازت ہوگی۔ تاہم ابھی تک واضح نہیں کہ کون سے ممالک بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو قبول کرنے پر تیار ہوں گے۔
کاٹز کے یہ بیانات، جس میں انہوں نے حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ دہرایا، اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ فریقین جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے سے ابھی تک دور ہیں، حالانکہ مصری ثالث جنگ بندی معاہدہ بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حماس نے بارہا ہتھیار ڈالنے کے مطالبے کو خود کے لیے ’سرخ لکیر‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اسے کبھی قبول نہیں کرے گی۔ حماس کا کہنا ہے کہ کسی بھی مستقل جنگ بندی کے تحت اسرائیلی فوج کو غزہ سے نکلنا ہو گا۔
حماس نے کہا کہ ایسی کوئی بھی جنگ بندی جس میں جنگ کو روکنے، مکمل انخلا، محاصرہ ختم کرنے اور تعمیر نو کے آغاز کی حقیقی ضمانتیں شامل نہ ہوں، ایک سیاسی جال ہو گی۔
دو اسرائیلی حکام نے اس ہفتے کہا کہ مذاکرات میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے گوکہ میڈیا رپورٹس میں ممکنہ جنگ بندی کا ذکر کیا گیا تھا۔
اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ فوجی دباؤ میں اضافے سے حماس یرغمالیوں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گی، لیکن حکومت کو اسرائیلی مظاہرین کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہے جو لڑائی ختم کرنے اور یرغمالیوں کی واپسی کے لیے معاہدہ چاہتے ہیں۔
اسرائیل نے غزہ پر اپنی مہم اکتوبر 2023 میں حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے ردعمل میں شروع کی تھی، جس میں 1,200 افراد مارے گئے اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
اس حملے میں اب تک کم از کم 51 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں اور ساحلی علاقے کو تباہ کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے بیشتر آبادی کو بار بار نقل مکانی کرنا پڑی ہے اور وسیع علاقے ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔
بدھ کے روز فلسطینی طبی حکام نے کہا کہ ایک فضائی حملے میں 10 افراد ہلاک ہوئے، جن میں مشہور مصنفہ اور فوٹوگرافر فاطمہ حسونہ بھی شامل تھیں، جو اس جنگ کو دستاویزی شکل دے رہی تھیں۔ ایک اور گھر پر حملے میں مزید تین افراد ہلاک ہوئے۔
غزہ کی وزارت صحت نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے مارچ کے اوائل سے ایندھن، ادویات، اور خوراک کی ترسیل معطل کرنے کے باعث چند باقی رہ جانے والے ہسپتالوں کا کام متاثر ہو رہا ہے اور طبی سامان ختم ہو رہا ہے۔
وزارت نے کہا ہے کہ سینکڑوں مریض اور زخمی افراد ضروری ادویات سے محروم ہیں، اور بارڈر کراسنگز کی بندش کے باعث ان کی مشکلات اور تکالیف میں اضافہ ہو رہا ہے۔