افغان نائب گورنر کے بیٹے یوسف کی ٹی ٹی پی دہشت گردوں کے ساتھ ہلاکت ثابت کرتی ہے کہ افغانستان کھلم کھلا پاکستان میں دہشت گردی کو سپورٹ کر رہا ہے۔ افغانستان میں ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپس کو ٹریننگ، اسلحہ اور محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ یہ کھلی جارحیت ہے، جسے مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے، افغان طالبان کے اعلیٰ عہدیدار کے بیٹے کی ٹی ٹی پی کے ساتھ ہلاکت اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔ 30 جنوری 2025ء کو افغان صوبہ بادغیس کے نائب گورنر مولوی غلام محمد کے بیٹے بدرالدین عرف یوسف سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں کلاچی، ڈیرہ اسماعیل خان میں ہلاک ہونے والے 3 دہشت گردوں میں شامل تھا، وہ فتنہ الخوارج (FAK) کے دہشت گردوں کے ساتھ مارا گیا۔ افغان نائب گورنر کے بیٹے یوسف کی ٹی ٹی پی دہشت گردوں کے ساتھ ہلاکت ثابت کرتی ہے کہ افغانستان کھلم کھلا پاکستان میں دہشت گردی کو سپورٹ کر رہا ہے۔ افغانستان میں ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپس کو ٹریننگ، اسلحہ اور محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ یہ کھلی جارحیت ہے، جسے مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپس نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ کابل کی حکومت ان گروہوں کو تحفظ دے کر کھلی جنگ چلا رہی ہے۔ افغانستان نے ہمیشہ دہشت گردوں کو پناہ دی اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ افغان طالبان کے روابط اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ جب بھی افغانستان پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کو استعمال کرے گا، پاکستان ان کا بھرپور جواب دے گا، افغانستان کی ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی اب مزید برداشت نہیں کی جائے گی۔ افغانستان کا دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا خطے کے استحکام کے لیے خطرناک ہے۔ پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردی برداشت نہیں کرے گا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: برداشت نہیں ٹی ٹی پی کے بیٹے کے ساتھ

پڑھیں:

9 مئی دہشت گردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟ سپریم کورٹ

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔ جبکہ جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا 9 مئی کا جرم دہشت گردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کی جانب سے گزشتہ کل بدھ کو دی جانے والی آبزرویشن پر وضاحت دی گئی کہ کل خبر چلی کہ 8 ججز کے فیصلے کو 2 ججز غلط کہہ دیتے ہیں، اس خبر پر بہت سے ریٹائرڈ ججز نے مجھ سے رابطہ کیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ مجھے میڈیا کی پروا نہیں لیکن درستگی ضروری ہے، میں نے یہ بات عام تاثر میں کی، میں نے یہ کہا تھا 8 ججز کے فیصلے کو 2 لوگ کھڑے ہوکر کہتے ہیں کہ غلط ہے، کل کی آبزرویشن میں ججز کا نہیں افراد کا ذکر کیا تھا، میڈیا کے کچھ ساتھیوں نے اسے غلط انداز میں رپورٹ کیا۔ دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، فوجی عدالتوں کا آرٹیکل 175 کے تحت عدالتی نظام میں ذکر نہیں، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے، اکیسویں ترمیم کے فیصلے میں واضح ہے کہ فوجی عدالتیں جنگی صورتحال میں بنائی گئی تھیں، سویلینز کے ٹرائل کیلئے آئین میں ترمیم کرنا پڑی تھی۔ وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ ٹرائل کے لیے ترمیم کی ضرورت نہیں تھی، ترمیم کے ذریعے آرمی ایکٹ میں مزید جرائم کو شامل کیا گیا تھا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ 21 ویں ترمیم فیصلے میں مہران اور کامرہ بیسز کا بھی ذکر ہے، جی ایچ کیو حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟۔ پاکستان کے اربوں روپے مالیت کے دو اورین طیارے تباہ ہوئے تھے، کیا 9 مئی کا جرم ان دہشت گردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ مہران بیس حملے کے تمام دہشت گرد مارے گئے تھے، جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا مارے جانے کے بعد کوئی تفتیش نہیں ہوئی کہ یہ کون تھے کہاں سے اور کیسے آئے؟۔ کیا دہشت گردوں کے مارے جانے سے مہران بیس حملے کی فائل بند ہو گئی؟۔ وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ تحقیقات یقینی طور پر ہوئی ہوں گی، جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوا تھا، جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل اکسیویں ترمیم سے پہلے ہوا تھا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ انہی تمام حملوں کی بنیاد پر ترمیم کی گئی تھی کہ ٹرائل میں مشکلات ہوتی ہیں، کامرہ بیس پر حملے کے ملزموں کا کیا ہوا؟ ان کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اس پر ہدایات لے کر آگاہ کروں گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ نیکسز کا مطلب کیا ہوتا ہے، نیکسز کا ایک مطلب تو گٹھ جوڑ، تعلق، سازش یا جاسوس کے ساتھ ملوث ہونا ہوتا ہے، نیکسز کی دوسری تعریف یہ ہوسکتی ہے کہ ایسا جرم جو فوج سے متعلقہ ہو، جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ نیکسز کا مطلب ورک آف ڈیفنس میں خلل ڈالنا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ورک آف ڈیفنس کی تعریف کو تو کھینچ کر کہیں بھی لے کر جایا جا سکتا ہے۔ جسٹس جمال  نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ سے ایک شخص کو 34 سال بعد رہائی ملی، کسی کو 34 سال بعد انصاف ملنے کا کیا فائدہ، ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں، جس پر وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ 34 سال بعد کسی کورہائی دینا انصاف تو نہیں ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اکیسویں ترمیم فیصلے میں کہا گیا 2002 سے لے کر ترمیم تک 16 ہزار مختلف حساس مقامات پر حملے ہوئے، ایسے واقعات میں حساس مقامات پر تعینات اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں، کیا ان واقعات کی شدت زیادہ نہیں تھی۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی ایچ کیو حملے میں مجرموں کا ٹرائل 21 ویں ترمیم سے قبل فوجی عدالت میں چلایا گیا۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ مہران ایئربیس پر حملہ کرنے والے تمام دہشت گرد موقع پر ہی ہلاک کردیے گئے تھے، اس لیے وہاں ملٹری ٹرائل کی ضرورت ہی نہیں پڑی، فوجی امور میں مداخلت کی تعریف میں نہ آنے والے جرائم کے لیے ترمیم کی گئی تھی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جواب الجواب میں دلائل کا حق رکھتے ہیں۔ بعدازاں آئینی بینچ نے کیس کی سماعت میں ساڑھے 11 بجے تک وقفہ کردیا، وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جمال مندوخیل نے سکندر بشیر مہمند سے استفسار کیا کہ آپ بلوچستان حکومت کی وکالت کیسے کرسکتے ہیں؟۔ نجی وکیل ہی کرنے ہیں تو ایڈووکیٹ جنرل آفس کو بند کردیں، پہلے تو بلوچستان حکومت کو اپنا حق دعوی ثابت کرنا ہوگا، صوبائی حکومت کا اس معاملے سے کیا لینا دینا ہے پہلے یہ بتانا ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم فیصلے کا پیراگراف 122 پڑھیں، فوجی تنصیبات پر حملوں کے جرائم کو چار سال کیلئے شامل کیا گیا، پہلے 2 سال کے لیے ملٹری کورٹس بنیں بعد میں 2 سال توسیع ہوئی، کیا آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی ٹو بھی ترمیم کے تناظر میں بحال ہے۔ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے جرائم کو شامل کرنے کے لیے ترمیم ہوئی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • ڈیرہ اسماعیل خان، افغان حکومت کے اعلیٰ عہدیدار کا بیٹا خوارج کے ساتھ ہلاک
  • افغان نائب گورنر کے بیٹے کی آپریشن میں ہلاکت،افغانستان کی ریاستی دہشت گردی کا ناقابلِ تردید ثبوت
  • افغانستان کا پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ہونے کا ایک اور واضح ثبوت سامنے آگیا
  • 9 مئی دہشت گردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟ سپریم کورٹ
  • افغانستان سے پاکستانی سلامتی کو خطرات
  • افغان طالبان سے مذاکرات کیلئے خیبر پختونخوا سے وفدکی چند روز میں افغانستان روانگی متوقع
  • ہم کمزور نہیں ‘ مذکرات ملک کی خاطر کر رہے تھے‘زرتاج گل
  • کتاب اور دہشت گردی
  • افغانستان میں امریکی اسلحہ دہشت گردوں نے پاکستان کیخلاف استعمال کیا، دفتر خارجہ