شام، ٹرمپ کا تل ابیب کو تحفہ
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ڈونلڈ ٹرمپ اس نعرے کے ساتھ وائٹ ہاوس واپس آیا ہے کہ وہ مشرق وسطی میں امریکہ کی فضول جنگوں کا خاتمہ کرے گا اور اپنی پوری توجہ چین سے مقابلے پر مرکوز کر دے گا۔ خبررساں ادارے ایگزیاس کی رپورٹ کے مطابق امریکی جرنیلوں نے اسرائیلی فوجی اور سیکورٹی ذمہ داران کو اطلاع دے دی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ عنقریب شام میں امریکہ کی فوجی موجودگی بہت حد تک کم کر دے گا۔ درحقیقت امریکی حکمران شام کی سرپرستی اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے سپرد کر دینا چاہتے ہیں۔ اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ غاصب صیہونی فوج نے بدستور شام کے جنوبی مغربی علاقوں پر فوجی قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ دوسری طرف سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام میں اسرائیل کی فوجی موجودگی، امریکہ کے دیگر اتحادی ملک ترکی کے مفادات سے ٹکراتی ہے۔ تحریر: سید رضا حسینی
نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ سیاست سے متعلق ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ دنیا کے مختلف خطوں میں مطلوبہ آرڈر برقرار کرنے کی خاطر اس کام کی ذمہ داری اسی خطے کے قابل اعتماد اتحادیوں کو سونپ دینا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد عالمی سطح پر امریکہ کے فوجی اور مالی اخراجات میں کمی لانا ہے۔ یوں امریکہ دنیا بھر میں بالواسطہ تسلط قائم کرنے کے درپے ہے۔ امریکہ نے ماضی میں مشرق وسطی میں ایسی پالیسی ابھی تک نہیں آزمائی۔ 1960ء کے عشرے میں جب ویت نام جنگ کے باعث امریکہ کو بھاری اخراجات کا سامنا کرنا پڑا تھا جو اس وقت کے امریکی صدر نیکسن نے سابق سوویت یونین کے زیر اثر ممالک جیسے عراق، شام اور مصر کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلوی سلطنت کے حامل ایران اور سعودی عرب کو چنا۔ لہذا ایران اور سعودی عرب خطے میں امریکی خارجہ سیاست کے دو ستون جانے جاتے تھے۔
1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایک ستون گر گیا۔ اس کے بعد کارٹر نے خلیج فارس میں ریپڈ ری ایکشن فورس بھیج کر مشرق وسطی میں امریکی خارجہ سیاست کا نیا باب کھول دیا۔ اس وقت امریکی رائے عامل بین الاقوامی سطح پر امریکہ کی وسیع فوجی موجودگی کے شدید خلاف ہے جس کی بنیادی وجہ 2001ء میں افغانستان اور 2003ء میں عراق پر امریکہ کی ناکام فوجی چڑھائی اور اس میں خرچ ہونے والے لاحاصل کھربوں ڈالر کے اخراجات ہیں۔ لہذا امریکہ نے مشرق وسطی خطے میں مطلوبہ آرڈر برقرار کرنے کی ذمہ داری اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے سپرد کر دی ہے اور اسی وجہ سے امریکہ غاصب صیہونی رژیم کی بھرپور سیاسی، فوجی اور اقتصادی مدد کرنے میں مصروف ہے۔ تل ابیب تزویراتی گہرائی کے فقدان کا شکار ہے اور اب اس امریکی پالیسی کے تحت وہ اپنا وجود شام، لبنان اور مغربی کنارے تک پھیلانا چاہتا ہے۔
شام میں صدر بشار اسد کی حکومت سرنگون ہو جانے کے بعد اسرائیل نے اس عرب ملک پر فوجی چڑھائی کر دی اور اب وہ شام کے وسیع علاقوں پر فوجی قبضہ برقرار کر چکا ہے۔ مجدل الشمس اور جبل الشیخ کی چوٹیوں پر قبضے سے شام کا دارالحکومت دمشق بھی اسرائیلی توپ خانے کی زد میں آ چکا ہے جو ان دنوں الجولانی کے نام سے معروف احمد الشرع کے زیر تسلط ہے۔ شام میں جیسے ہی بشار اسد کی حکومت ختم ہوئی تو امریکہ نے اس ملک میں اپنے فوجیوں کی تعداد 900 سے بڑھا کر 2000 کر دی۔ پینٹاگون نے اپنے بیانیے میں دعوی کیا تھا کہ شام میں مزید فوجیوں کی موجودگی کا مقصد داعش کے دوبارہ سرگرم ہو جانے کو روکنا اور صوبہ حسکہ میں امریکہ کے حمایت یافتہ کرد باشندوں اور گروہوں کی مدد کرنا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اس نعرے کے ساتھ وائٹ ہاوس واپس آیا ہے کہ وہ مشرق وسطی میں امریکہ کی فضول جنگوں کا خاتمہ کرے گا اور اپنی پوری توجہ چین سے مقابلے پر مرکوز کر دے گا۔ خبررساں ادارے ایگزیاس کی رپورٹ کے مطابق امریکی جرنیلوں نے اسرائیلی فوجی اور سیکورٹی ذمہ داران کو اطلاع دے دی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ عنقریب شام میں امریکہ کی فوجی موجودگی بہت حد تک کم کر دے گا۔ درحقیقت امریکی حکمران شام کی سرپرستی اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے سپرد کر دینا چاہتے ہیں۔ اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ غاصب صیہونی فوج نے بدستور شام کے جنوبی مغربی علاقوں پر فوجی قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ دوسری طرف سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام میں اسرائیل کی فوجی موجودگی، امریکہ کے دیگر اتحادی ملک ترکی کے مفادات سے ٹکراتی ہے۔
ترکی نے شام میں جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے اس کا مقصد ترک مخالف کرد گروہ پی کے کے کو کچلنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ترکی نے کرد علاقوں میں فوجی آپریشن بھی شروع کر رکھا ہے جبکہ دوسری طرف شام کی نئی حکومت سے سیاسی، اقتصادی، فوجی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے میں بھی مصروف ہے۔ 2017ء میں آستانہ مذاکرات کے بعد ھیئت تحریر الشام ترکی کی زیر سرپرستی آ گیا تھا اور اس وقت دمشق کے اعلی سطحی سیاسی اور فوجی رہنماوں کے ساتھ ترکی کے انتہائی قریبی تعلقات استوار ہیں۔ یہ علاقہ جو آج شام کہلاتا ہے، 1516ء سے 1918ء تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا ہے اور انقرہ کے ہمیشہ سے خاص طور پر حلب شہر کے ذریعے شام سے مستحکم اقتصادی تعلقات رہے ہیں۔ شام کی موجودہ حکومت زرمبادلہ ذخائر کی شدید قلت، انفرااسٹرکچر کی تباہی اور تیل کی پیداوار میں کمی جیسے مسائل کا شکار ہے۔
پہلی نظر میں علاقائی کھلاڑیوں پر انحصار کی نئی امریکی پالیسی شاید فوجی اخراجات میں کمی کا باعث بنے لیکن حقیقت یہ ہے کہ علاقائی کھلاڑیوں کے مفادات میں باہمی تضاد اور ٹکراو پایا جاتا ہے جس کے باعث عالمی سطح پر امریکہ کو سیاسی اور سیکورٹی شعبوں میں شدید دھچکہ پہنچے گا۔ صیہونی اسٹریٹجک ماہر آوے میلامد اس بارے میں لکھتا ہے: "علاقائی اتحاد میں تل ابیب کا کردار بہت اہم ہے اور اسے اسلامی مزاحمتی محاذ اور اخوان المسلمین سے خطرہ ہے۔ اسرائیل سے سازباز کرنے والے عرب ممالک اسرائیل کو ایک مستحکم، قیمتی اور اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسرائیل خلیج فارس، افریقی شاخ، بحیرہ احمر اور بحیرہ روم میں ترکی اور ایران کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس طرح نئے مشرق وسطی کا زمینہ فراہم ہو سکے۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: غاصب صیہونی رژیم کی فوجی موجودگی میں امریکہ کی ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی امریکہ کے پر امریکہ فوجی اور یہ ہے کہ کر دے گا پر فوجی ہے اور اور اس کے بعد شام کی
پڑھیں:
امریکہ کا اب تارکین وطن کو گوانتانامو بے میں رکھنے کا فیصلہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جنوری 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیوبا کی گوانتانامو بے میں تارکین وطن کے حراستی مرکز کی تعمیر کا حکم دیا ہے، جس میں ان کے بقول ایسے 30 ہزار افراد کو رکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کیوبا میں امریکی بحریہ کے اڈے کی یہ نئی سہولت اس کی اعلیٰ حفاظتی فوجی جیل سے الگ ہو گی اور یہ "امریکی عوام کے لیے خطرہ بننے والے بدترین غیر قانونی اجنبی مجرموں" کی رہائش ہو گی۔
ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی افغان شہریوں کے لیے بڑا دھچکہ
امریکی صدر نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ وہ ملک بدر کیے گئے تقریباﹰ تیس ہزار غیر قانونی تارکین وطن کو گوانتانامو بے میں رہائش فراہم کرنے کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرنے جا رہے ہیں۔
(جاری ہے)
بعد میں شام کو ہی ٹرمپ نے محکمہ دفاع اور ہوم لینڈ سکیورٹی کو اس کی تیاری شروع کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔
ٹرمپ کے پہلے ایگزیکٹو آرڈرز ان کی ترجیحات کے مظہر
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ گوانتانامو بے میں "تارکین وطن کی سہولت" کا استعمال ان "بدترین مجرموں اور غیر قانونی بیرونی افراد کو حراست میں لینے کے لیے کیا جائے گا، جو امریکی عوام کے لیے خطرہ ہیں۔"
ٹرمپ نے مزید کہا، "ان میں سے کچھ تو اتنے برے ہیں کہ ہم ان کے ممالک پر بھی بھروسہ نہیں کرتے کہ وہ انہیں روک پائیں گے، کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ وہ واپس آئیں۔
"امریکہ اور افغان طالبان میں قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت، رپورٹ
کیوبا کی منصوبے پر تنقیدبدھ کی شام کو سرحد سے متعلق ٹرمپ کے خاص عہدیدار ٹام ہوم نے کہا کہ گوانتنامو بے پر موجود سہولت میں توسیع کی جائے گی اور امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) کے ذریعے اسے چلایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ تارکین وطن کو امریکی کوسٹ گارڈ کے ذریعے سمندر میں روکے جانے کے بعد ہی براہ راست وہاں پہنچایا جا سکتا ہے اور یہ کہ اس کے لیے "اعلیٰ ترین" حراستی معیار نافذ کیے جائیں گے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس سہولت کی تیاری پر کتنی لاگت آئے گی اور یہ کب مکمل ہو گی اور یہ کہ "اعلیٰ ترین" حراستی معیار کیا ہو گا۔
ادھر کیوبا کی حکومت نے اس منصوبے کی مذمت کی اور امریکہ پر "مقبوضہ" زمین پر تشدد اور غیر قانونی حراست کا الزام لگایا۔
امریکہ نے گوانتانامو بے میں قید گیارہ یمنی شہریوں کو رہا کر دیا
ٹرمپ کا مہاجرین کی ملک بدری میں اضافے کا وعدہانتخابی مہم کے دور ٹرمپ نے امیگریشن کو کافی حد تک کم کرنے اور سرحدی کنٹرول کو مضبوط کرنے کا وعدہ کیا تھا اور عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد ہی انہوں نے اس سلسلے میں سرحد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانے والے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے ہیں۔
ان کی انتظامیہ بھی ان کے ان احکامات اور اس پر عمل کو کافی نمایاں کر کے پیش کر رہی ہے، جیسے وسطی امریکہ میں تارکین وطن کو لے جانے والے امریکی فوجی طیاروں کی تصاویر کو خوب شیئر کیا جا رہا ہے۔
لاکھوں افراد کی ممکنہ ملک بدری امریکی معیشت کے لیے خطرہ بھی
اگرچہ بائیڈن انتظامیہ کے دوران بھی تارکین وطن کی اسی طرح کی ملک بدری ہوئی تھی، تاہم اس وقت امریکہ نے اس کے لیے فوجی طیارے استعمال نہیں کیے تھے۔
ٹرمپ نے بدھ کے روز امیگریشن سے متعلق بل پر دستخط کے موقع پر کہا کہ کچھ لوگوں کو ان کے آبائی ممالک میں واپس بھیجا جا رہا ہے، جن کے وہاں رہنے پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
ٹرمپ نے کہا، "ان میں سے کچھ اتنے برے ہیں کہ ہم ان ممالک پر بھروسہ نہیں کرتے کہ وہ انہیں روک سکیں گے، کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ وہ پھر واپس آئیں، اس لیے ہم انہیں گوانتانامو بے بھیجنے والے ہیں۔
" گوانتانامو بے، ایذا رسانی اور تشدد کے لیے بدنامگوانتانامو بے ایک فوجی جیل ہے، جو جنوری 2002 میں جنوب مشرقی کیوبا میں واقع امریکی بحریہ کے اڈے پر قائم کی گئی تھی۔
اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے، 11 ستمبر 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو انجام دینے کے دوران، امریکہ کی طرف سے پکڑے گئے افراد کو حراست میں رکھنے کے لیے اس جیل کا انتخاب کیا تھا۔
بش انتظامیہ نے اس بدنام زمانہ جیل کا انتخاب اس کی منفرد حیثیت کی وجہ سے کیا تھا، کیونکہ یہ علاقہ امریکی کنٹرول میں تو ہے، تاہم تکنیکی طور پر یہ امریکہ کے اندر نہیں ہے۔
لیکن جن سینکڑوں افراد کو گوانتانامو بے میں رکھا گیا وہ ایسے علاقے میں داخل ہوئے جہاں ان کے پاس کسی طرح کے کوئی بھی قانونی حقوق نہیں تھے۔
برسوں اس جیل میں بند قیدیوں کے ساتھ جسمانی زیادتیوں کے سلوک، تشدد اور ایذا کے ذریعے پوچھ گچھ کے الزامات بھی لگتے رہے اور امریکی حکومت نے سینکڑوں افراد کو بغیر کسی الزام اور مقدمہ چلائے تقریباﹰ دو دہائی تک قید میں رکھا، جس پر اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی سطح پر احتجاج بھی کیا گیا۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)