ٹیکس فراڈ اورجعلی رسیدیںجاری کرنے کاالزام ،وفاقی دارالحکومت میں29ریسٹورنٹس سیل
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)وفاقی دارالحکومت اسلام آبادمیں 29ریسٹورنٹس کوٹیکس فراڈ اورجعلی رسیدیں جاری کرنے پرسیل کردیاگیا۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں بتایا گیا کہ وفاقی دارالحکومت میں کل 29 ریستوران سیل کیے گئے ہیں۔ یکم جولائی 2024 سے 10 دسمبر 2024 تک 17 ریستوران سیل کیے گئے، جن میں ایٹلی ریستوران، شاہ جی فوڈز، مرچ 360، ال بیک، کابل ریستوران اور دیگر شامل ہیں۔ایف بی آر کی جانب سے جاری کی گئی سیل کیے گئے ریستورانوں کی فہرست میں ملنگ جان ریستوران، کے سی گرل، بشاہ استنبول، آداب ریستوران، ہوٹ این چلی، بٹ کڑاہی، بسم اللہ تکہ اینڈ چارغہ، سب وے، کرسٹیز ڈونٹس اور رومبا شامل ہیں۔اس کے علاوہ، 11 دسمبر 2024 سے 31 جنوری 2025 تک مزید 12 ریستوران سیل کیے گئے ہیں، جن میں واجد فش اینڈ تکہ، لانڈی کوٹہ شنواری، کف چائنا ہوٹ پٹ، رویات اور دی لاسٹ ٹرائب شامل ہیں۔مزید برآں، ایف بی آر نے خبردار کیا ہے کہ جو کاروبار ٹیکس چوری میں ملوث ہوں گے یا قوانین کی تعمیل میں ناکام رہیں گے، انہیں سخت سزائیں دی جائیں گی جن میں کاروباری مقامات کی مہر بندی اور جرمانے عائد کیے جائیں گے۔
مزیدپڑھیں:بھارتی سپر اسٹار بڑھاپے میں کیسا دکھیں گے؟ تصاویر پر مداحوں کا دلچسپ ردعمل
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سیل کیے گئے
پڑھیں:
آئی ایم ایف کا وفد فروری میں پاکستان کا دورہ کرے گا
اسلام آباد:عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا جائزہ وفد فروری کے آخر تک پاکستان کا دورہ کرے گا اور قرض کی اگلی قسط کے حوالے سے مختلف امور کا جائزہ لے گا۔
یہ بات وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے جمعرات کے روز پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے غیررسمی گفتگو میں کہی، ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا جائزہ وفد فروری کے آخر یا پھر مارچ کے آغاز میں پاکستان آئے گا تاہم ابھی وفد نے حتمی تاریخ طے نہیں کی ہے۔
دورے کے دوران آئی ایم ایف وفد معاہدے کے حوالے سے بعض امور کا جائزہ لے گا اور اپنے اطمینان کی صورت میں قرض کی اگلی قسط ایک ارب ڈالر جاری کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔
تاہم حکومت پاکستان معاہدے کے تحت بعض شرائط کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے جن میں زرعی ٹیکس کا نفاذ، خوردہ فروشوں سے ٹیکس کی وصولی اور شش ماہی محصولات کا ہدف حاصل کرنے میں ناکامی بھی شامل ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ زرعی ٹیکس کے نئے قوانین کی منظوری کے حوالے سے بلوچستان اور سندھ حکومتوں سے بات چیت جاری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت ایک نئے قانون پر بھی کام کررہی ہے جس کے تحت کوئی بھی جائیدار خریدنے سے قبل خریداروں کو چاہے وہ ٹیکس دہندہ ہو یا نہ ہو اسے ذرائع آمدنی ظاہر کرنا ہوگی تاہم اتحادی جماعتوں اور کاروباری حلقوں کی جانب سے دباؤ ہے کہ ایک کروڑ سے ڈھائی کروڑ روپے مالیت تک کی جائیدار کی خریداری پر اس شرط سے استثنیٰ دیا جائے۔
اس حوالے سے ایف بی آر کے پالیسی ساز رکن ڈاکٹر نجیب میمن نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ایف بی آر بھی اس استثنیٰ کے بارے میں غور کررہا ہے اور ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے استثنیٰ کی حد تجویز کرنے کے لیے بلال اظہر کیانی کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی قائم کر دی، کمیٹی کا جمعرات کو دوسرا اجلاس ہوا جو بھی بے نتیجہ رہا۔
ایسوسی ایشن آف دی بلڈرز اینڈ ڈیولپرز نے قائمہ کمیٹی کو سفارش کی کہ وہ پہلے ذریعہ ظاہر کیے بغیر 25 ملین روپے تک کی جائیداد کی اجازت دے اور گھر کی پہلی خریداری کی صورت میں 50 ملین روپے تک کی،نجیب میمن نے کہا کہ 50 ملین روپے کی چھوٹ کا مطلب ایک مستقل ٹیکس معافی ہے۔
بلال کیانی نے کہا کہ ذیلی کمیٹی مرکزی کمیٹی کو سفارش کرے گی کہ قانون پاس کرنے سے پہلے ایف بی آر کا تکنیکی حل دیکھیں۔ انھوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کسی بھی مجوزہ نظام کی جانچ کرے گی تاکہ عوام کو ایف بی آر کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔