چینی قوم ہمیشہ سے خاندان کی اہمیت کو تسلیم کرتی آئی ہے، چینی صدر
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
بیجنگ : چین کے صدر شی جن پھنگ نے کہا ہے کہ چینی قوم ہمیشہ سے خاندان کی اہمیت کو تسلیم کرتی آئی ہے۔ بزرگوں کا احترام، بچوں سے محبت، اور خاندانی ہم آہنگی جیسی روایتی چینی خاندانی اقدار، چینی قوم کی تسلسل اور ترقی کے لیے اہم روحانی قوت ہیں، اور خاندانی تہذیب کی تعمیر کے لیے بیش بہا روحانی دولت ہیں۔جمعہ کے روز چینی میڈ یا نے بتا یا کہ یکم فروری کو شائع ہونے والے “چھیوشی” میگزین کے تیسرے شمارے میں چینی صدر شی جن پھنگ کا 16 دسمبر 2016 کو قومی سیولائزڈ فیملیز کے نمائندوں سے پہلی ملاقات کے دوران کیا گیا ایک خطاب شائع کیا گیا، جس کا عنوان ہے “خاندان، تعلیم اور خاندانی روایات پر توجہ دیں”۔
مضمون میں زور دیا گیا ہے کہ چاہے زمانہ کتنا ہی بدل جائے، یا معیشت اور معاشرہ کتنا ہی ترقی کر لیں، کسی بھی معاشرے کے لیے خاندانی زندگی کی بنیاد، اس کے معاشرتی افعال، اور اس کی تہذیبی اہمیت ناقابل تبدیل ہے۔ خاندانی تہذیب کی تعمیر پر توجہ دینا ضروری ہے، اور یہ کوشش کرنی چاہیے کہ لاکھوں خاندان ملک کی ترقی، قوم کی پیشرفت، اور معاشرتی ہم آہنگی کے اہم مراکز بنیں، اور لوگوں کے خوابوں کا ابتدائی مقام بنیں۔
مضمون میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ لوگ خاندان پر توجہ دیں گے۔ خاندان معاشرے کا بنیادی یونٹ ہے۔ خاندان کا امن معاشرے کے استحکام کا باعث بنتا ہے، خاندان کی خوشحالی معاشرے کے سکون کا باعث بنتی ہے، اور خاندان کی تہذیب معاشرے کی تہذیب کا باعث بنتی ہے۔ خاندان کی تقدیر اور ملک و قوم کی تقدیر آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ جب تک ہر خاندان خوشحال نہیں ہوگا، ملک اور قوم بھی خوشحال نہیں ہو سکتے۔ ملک کی طاقت، قوم کی نشاۃ الثانیہ، اور عوام کی خوشحالی محض تصوراتی نہیں ہے، بلکہ اس کا اظہار لاکھوں خاندانوں کی خوشحالی اور کروڑوں لوگوں کی بہتر زندگی سے ہوتا ہے۔ اسی طرح، جب ملک اور قوم بہتر ہوں گے، تب ہی خاندان بہتر ہو سکتا ہے۔ صرف چینی قوم کی عظیم نشاۃ الثانیہ کے چینی خواب کو پورا کرنے سے ہی خاندانی خواب پورے ہو سکتے ہیں۔ تمام خاندانوں کو اپنے گھر اور ملک سے محبت کو یکجا کرنا چاہیے، اور خاندانی خواب کو قومی خواب میں شامل کرنا چاہیے، تاکہ چینی قوم کی عظیم نشاۃ الثانیہ کے چینی خواب کو پورا کرنے کے لیے زبردست قوت یکجا کی جا سکے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے، وکیل وزارت دفاع
فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے، وکیل وزارت دفاع WhatsAppFacebookTwitter 0 30 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل خواہ حارث نے مؤقف اپنایا ہے کہ فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج میں اپنے دلائل ختم کرلونگا، آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے، گزشتہ روز میری بات سے کنفیوژن پیدا ہوئی، میڈیا کی فکر نہیں لیکن کچھ ریٹائرڈ ججز نے مجھے فون کرکے رابطہ کیا، وضاحت کرنا چاہتا ہوں کل فیصلہ نہ ماننے کے حوالے سے ججز کا نہیں افراد کا ذکر کیا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کہنا چاہ رہا تھا آٹھ ججز فیصلے کو دو افراد کسی محفل میں کہ دیتے ہیں کہ ایسا ہے ویسا ہے، کچھ میڈیا کے ساتھیوں نے اسے غلط انداز میں رپورٹ کیا، 21ویں آئینی ترمیم اس لیے ہوئی کیونکہ ملک حالت جنگ میں تھا۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ اکیسویں ترمیم اس لیے ہوئی کیونکہ ان واقعات میں جرائم آرمی ایکٹ میں نہیں آتے تھے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ نیکسز کا مطلب کیا ہوتا ہے، نیکسز کا ایک مطلب تو گٹھ جوڑ، تعلق، سازش یا جاسوس کیساتھ ملوث ہونا ہوتا ہے، نیکسز کی دوسری تعریف یہ ہو سکتی ہے کہ ایسا جرم جو فوج سے متعلقہ ہو۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ نیکسز کا مطلب ورک آف ڈیفنس میں خلل ڈالنا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ورک آف ڈیفنس کی تعریف کو تو کھینچ کر کہیں بھی لیکر جایا جا سکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ سے ایک شخص کو 34 سال بعد رہائی ملی، کسی کو 34 سال بعد انصاف ملنے کا کیا فائدہ، ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں،
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ 34سال بعد کسی کو رہائی دینا انصاف تو نہیں ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ میں نے پہلے بھی آپ سے ایک سوال پوچھا تھا، ماضی میں جی ایچ کیو اور مہران ایئر بیس جیسے حساس مقامات پر بھی حملے ہوئے، اکیسویں ترمیم فیصلے میں کہا گیا سن دو ہزار دو سے لیکر ترمیم تک سولہ ہزار مختلف حساس مقامات پر حملے ہوئے، ایسے واقعات میں حساس مقامات پر تعینات اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں، ایک واقعہ میں دو کورین طیارے تباہ ہوئے جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کے کا نقصان ہوا، کیا ان واقعات کی شدت زیادہ نہیں تھی، ایسے تمام واقعات کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا یا انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ہوا،
وکیل وزارت دفاع نے استدلال کیا کہ جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا تھا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل 21ویں ترمیم سے قبل ہوا تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ جی ایچ کیو حملے میں مجرمان کا ٹرائل 21ویں ترمیم سے قبل فوجی عدالت میں چلایا گیا، وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ مہران ایئربیس پر حملہ کرنے والے تمام دہشت گرد موقع پر ہی ہلاک کردیے گئے تھے، اس لیے وہاں ملٹری ٹرائل کی ضرورت ہی نہیں پڑی، فوجی امور میں مداخلت کی تعریف نہ آنے والے جرائم کیلئے ترمیم کی گئی تھی۔