کراچی:

 گارڈن سے پراسرار طور پر لاپتہ ہونے والے کمسن بچوں عالیان اور علی رضا کے لواحقین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ، پولیس کی ناقص کارکردگی کے خلاف لواحقین نے اہل محلہ کی بڑی تعداد کے ہمراہ سندھ اسمبلی کے باہر احتجاج کرتے ہوئے ٹریفک معطل کر دیا۔

 دونوں کمسن پڑوسی بچے 5 سالہ عالیان اور 6 سالہ علی رضا گزشتہ ماہ 14 جنوری کی دوپہر گھر کے باہر سے کھیلتے ہوئے لاپتہ ہوئے تھے جس کے بعد گارڈن پولیس نے دونوں بچوں کی گمشدگی کا مقدمہ نمبر 12 سال 2025 کمسن بچے عالیان کی والدہ کی مدعیت میں درج کیا تھا تاہم 18 دن سے لاپتہ کمسن بچوں کو پولیس تاحال بازیاب کرانے میں بری طرح سے ناکام دکھائی دے ری ہے۔

پولیس کی ناقص کارکردگی پر لاپتہ بچوں کے لواحقین کا صبر جواب دے گیا اور انھوں نے اہل محلہ کی بڑی تعداد کے ہمراہ سندھ اسمبلی کے باہر جمع ہو کر لاپتہ بچوں کی بازیابی کے لیے احتجاجی مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوگئی۔

اس موقع پر احتجاج میں شریک خواتین اور بچے لاپتہ ہونے والے دونوں کمسن پڑوسی بچوں کی تصاویر اور پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے جس پر ان کے مطالبات کے حق میں نعرے درج تھے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے صرف اندھیرے میں تیر چلایا جا رہا ہے ، 18 روز گزر جانے کے باوجود پولیس تاحال ہمارے لخت جگروں کا سراغ لگانے میں ناکام دکھائی دیتی ، پولیس صرف زبانی جمع خرچ سے کام لے رہی ہے ، ہم ارباب اختیار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے بچوں کا فوری طور پر سراغ لگایا جائے اب تک کسی کے بھی کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے باہر بچوں کی

پڑھیں:

ریاست لاپتا افراد کی بازیابی میں ناکام ہوگئی‘ ہم جہاں سے چلے تھے وہیں کھڑے ہیں‘ اسلام ہائی کورٹ

اسلام آباد(صباح نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ نے مسنگ پرسنز کی بازیابی کے کیسز کی سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی، عدالت نے اٹارنی جنرل منصور اعوان کو آئندہ سماعت پر معاونتکیلیے طلب کر لیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہے کہ ریاست لاپتا افراد کی بازیابی میں ناکام ہوگئی ہم جہاں سے چلے ہیں وہیں کھڑے ہیں، یہ کیس تب ختم ہوگا جب تمام بندے بازیاب ہوجائیں گے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے دائر درخواستوں پر لارجر بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں تین رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس ارباب محمد طاہر بینچ میں شامل ہیں۔ وکیل درخواست گزار ایمان مزاری اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت میں پیش ہوئے۔ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ میری عدالت سے استدعا ہے کہ حکومت کو مزید وقت نہ دیا جائے اور ذمہ داروں کا تعین کیا جائے، جس پر جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلیے ہی تو یہ تمام کارروائی کر رہے ہیں۔جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب ذہن میں رکھیں کہ اب پھر یہ لوگ ذمہ دار ہوں گے، ہو سکتا ہے ہم کمیٹی کو عدالت میں بلا لیں اور وہ آ کر ہمیں بریف بھی کریں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ میرا موقف تھا کہ خفیہ ایجنسیز کی کمیٹی ممبران کو اِن کیمرا بریفنگ کیلیے طلب کیا جائے، میرے ساتھی ججز کا موقف تھا کہ پہلے وفاقی حکومت کو ایک موقع دینا چاہیے، جبری گمشدہ افراد انکوائری کمیشن کے سربراہ ہمارے جج تھے جو انتقال کرگئے، جبری گمشدہ افراد کمیشن کام نہیں کر رہا، وفاقی حکومت کچھ نہیں کر رہی پھر کسی نہ کسی نے تو دیکھنا ہے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جبری گمشدہ افراد کمیشن اگر کام نہیں کر رہا تو میرا خیال ہے اسے بند کر دیا جائے، کابینہ کی جو سب کمیٹی بنائی گئی اس میں خفیہ اداروں کے لوگوں کو شامل ہی نہیں کیا گیا، میرے ساتھی ججوں کا موقف تھا کہ وفاقی کابینہ خفیہ ایجنسیز کو بلا کر خود پوچھے، یہ سب کام وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کر سکتے ہیں جو ہمارے سامنے نہیں ہیں۔عدالت اتنی بھی اندھی نہیں ہونی چا ہیے نہ ہی اسے اندھا کریں، میرا بڑا واضح موقف ہے کہ جو دہشت گرد ہو گا اس کو دہشت گرد کہوں گا، میں واضح ہوں کہ جو دہشت گرد نہیں ہو گا اسے پھر رہا کرنا ہو گا، اس سے یہ ہو گا کہ اسٹیٹ کی ساری ورکنگ ایکسپوز ہو جائے گی۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ میرے ساتھی ججز نے یہ معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجا، میں ان کی عقلمندی کو سراہتا ہوں، حساس اداروں کو بھی قانون کے تحت اختیار دے دیں، سی ٹی ڈی کو قانون میں تحفظ ہے تو دوسرے حساس اداروں کو کیوں نہیں؟۔عدالت نے استفسار کیا کہ جب ان اداروں کے پاس اختیار ہو گا تو پھر یہ مسنگ پرسنز والا ایشو حل ہو گا، آپ نے ہمیں ہر 15 دن میں اپنی کارکردگی کی رپورٹ دینی ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیٹی معاوضے کی ادائیگیوں کے حوالے سے بھی دیکھے گی، پانچ سال سے جو مسنگ ہیں کمیٹی پہلے ان کی فیملیز کو بلائے گی، آٹھ جنوری کو کابینہ کی سب کمیٹی کی میٹنگ ہوئی ہے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ عدالت آپ کو کیوں کہے یہ آپ کو خود بتانا ہے، جو دہشت گردی میں ملوث ہے اس کا بتائیں یا جو بھی ہے بتائیں، لیکن نتائج کچھ نہیں آرہے۔عدالت نے پوچھا کہ کیا گزشتہ سماعت کے بعد کوئی ریکور ہوئے ہیں؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور وزارت دفاع کے نمائندوں نے کہا کہ ہماری نالج میں نہیں ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے مہلت دینے کی استدعا کردی۔جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتا افراد کے کیسز میں تمام پیش رفت کو بے سود قرار دے دیا اور کہا کہ میری عدالت میں جتنی فیملیز بیٹھی ہیں مجھے ان کو جواب دینا ہے، ریاست لوگوں کو بازیاب کرنے میں ناکام رہی ہے، ہم جہاں سے شروع ہوئے تھے وہیں پر کھڑے ہیں، یہ کیس تب ختم ہوگا جب تمام بندے بازیاب ہو جائیں گے، یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا کیس ہے، یہ ملک کے لیے بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ اٹارنی جنرل اس عدالت کو یقین دہانی کروا گئے تھے، اٹارنی جنرل کی یقین دہانی کی بار بار خلاف ورزی ہوتی رہی، خضدار سے کل 15سال کے ایک بچے کو اغوا کرلیا گیا، اٹارنی جنرل عدالت کو یقین دہائی کراکے گئے تھے کہ مگر اس کے باوجود عدالتی احکامات کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ جبری گمشدہ افراد کی فیملیز کے آنسوئوں کا مداوا قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو ہی کرنا ہے، اگر کوئی گمشدہ شخص دہشت گرد ہے تو یہ بھی لا انفورسمنٹ ایجنسیز کو ہی بتانا ہے، فتنہ الخوارج کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر آپریشنز جاری ہیں، اگر کوئی لاپتا شخص دہشت گرد حملے میں مر گیا تو اس کا کوئی ڈیٹا اکٹھا کیا گیا؟ کوئی ایسا میکنزم ہے کہ جس میں ایجنسیز یہ سارا کام کرتی ہوں؟ جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ یہ بات بھی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے نہ ہوں تو ہمارا تو کوئی تحفظ ہی نہ کرسکے۔منور اقبال دوگل نے کہا کہ عدالت نے وفاقی حکومت کو احساس دلایا تو حکومت سنجیدگی سے اس مسئلے کو دیکھ رہی ہے۔جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ ایسا تو کہیں نہیں ہوا کہ کسی نے ذمہ داری لی، ناکام ہوگئے اور استعفادے کر گھر چلے گئے، جس طرح مہذب معاشروں میں ہوتا ہے ایسا کچھ یہاں تو نہیں ہوتا، چاہے جبری گمشدہ افراد کمیشن ہو، قانون نافذ کرنے والے ادارے یا وزیراعظم ہی ہو، جب تک کسی کا کوئی بندہ اغوا نہ ہو اسے تو یہ احساس ہی نہیں ہوسکتا آرام سے گھر جا کر سو جاتا ہے۔جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ کابینہ کی سب کمیٹی اور انٹیلی جنس افسران پر مشتمل کمیٹی آپس میں میٹنگ کریں، جو لوگ مسنگ ہیں دونوں کمیٹیاں ان کی فیملیز کو بلا کر سن تولیں، دس سال سے جو بندہ مسنگ ہے اس کے گھر والے کس طرح رہ رہے ہوں گے؟ اگر کوئی زندہ نہیں ہے تو اس کی فیملی کو معاوضہ تو دے دیا جائے، آپ نے کمیٹی بنا کر وزرا کو شامل کر دیا ہے وہ لوگوں کو جواب دہ ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو طلب کرلیا اور ہدایت دی کہ اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔بعدازاں لاپتا افراد کی بازیابی کے کیسز کی سماعت چھ مارچ تک ملتوی کردی گئی۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں 2 کمسن بھائی لاپتا
  • کورنگی سے دو کمسن بھائی لاپتا، نامعلوم شخص ساتھ لے گیا
  • کراچی میں ایک اور واقعہ ، 2 کمسن سگے بھائی لاپتہ
  • ریاست لاپتا افراد کی بازیابی میں ناکام ہوگئی‘ ہم جہاں سے چلے تھے وہیں کھڑے ہیں‘ اسلام ہائی کورٹ
  • شکرگڑھ: آٹے والی پیٹی میں دم گھٹنے سے 2 کمسن بچے جاں بحق
  • لاپتہ افراد کی بازیابی کے کیسز کی سماعت، منصور اعوان طلب
  • ریاست لاپتا افراد کی بازیابی میں ناکام ہوگئی ہم جہاں سے چلے ہیں وہیں کھڑے ہیں،اسلام آباد ہائیکورٹ
  • ریاست لاپتا افراد کی بازیابی میں ناکام ہوگئی ہم جہاں سے چلے ہیں وہیں کھڑے ہیں،عدالت
  • لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) فقیر کھوکھر انتقال کرگئے