پی ٹی آئی کے بعد حکومت نے بھی مذاکراتی عمل ختم کردیا،حکومتی کمیٹی تحلیل،ترجمان کمیٹی کی تصدیق
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
پی ٹی آئی کے بعد حکومت نے بھی مذاکراتی عمل ختم کردیا،حکومتی کمیٹی تحلیل،ترجمان کمیٹی کی تصدیق WhatsAppFacebookTwitter 0 31 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس)پی ٹی آئی کے مذاکراتی عمل سے باہر نکلنے اور وزیراعظم کی جانب سے دوبارہ بات چیت کی پیشکش کو مسترد کیے جانے پر حکومت نے بھی مذاکراتی عمل ختم کر دیا۔ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی کے ترجمان اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے تصدیق کردی۔سعودی عرب کے ممتاز اخبار اردو نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے، تحریک انصاف والے جس تیزی کے ساتھ مذاکرات کے لیے آئے تھے اسی تیزی سے واپس چلے گئے ان کا واحد اور حقیقی مطالبہ عمران خان اور دیگر رہنماں کی فوری رہائی تھی جس کا راستہ یہی ہے کہ وہ وزیراعظم سے کہیں کہ وہ صدر کو ان کی سزا معاف کرنے کی سفارش کریں۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں اس وقت نہ تعطل ہے اور نہ ہی کوئی بریک ڈان ہے، یہ ختم ہو چکے ہیں، وزیراعظم کی پیشکش کے باوجود ان کی طرف سے جو جوابات آئے ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں آج 31 جنوری ہے، ان کی جانب سے جو ڈیڈ لائن دی گئی تھی وہ بھی آچکی ہے، انھوں نے اپنی کمیٹی بھی تحلیل کر دی ہے تو اب یہ ختم ہو چکے ہیں۔عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں بہت سے مطالبات ایسے تھے جن کی بنیاد پر اعتماد سازی ہو سکتی تھی، ان میں بہت سے پر ہم نے غور کر لیا تھا، جوڈیشل کمیشن بنانے کے مطالبے پر بھی ‘ریڈ کراس’ نہیں لگایا تھا، ہمارے وکلا کا مشورہ تھا کہ جب معاملات عدالتوں میں ہوں تو اس پر جوڈیشل کمیشن نہیں بن سکتا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود ہم نے دو ٹوک جواب دینے کے بجائے یہ سوچا تھا کہ ہم یہ جواب دیں گے کہ ہمارے وکلا کی یہ رائے ہے آپ اپنے وکلا کو بلا لیں جو اپنی رائے دیں۔ ہمیں قائل کریں اور ہم مل کر بیچ کا کوئی راستہ نکال لیں گے۔عرفان صدیقی نے کہا کہ اعتماد سازی کے حوالے سے بھی ہم نے اور بھی بہت سی چیزوں پر کام کر لیا تھا۔ کیا اقدامات کیے گئے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ ابھی تک خفیہ ہیں اور اگر وہ سامنے آنا تھے تو تحریک انصاف کے ذریعے ہی سب تک پہنچنا تھے، ہم نے جو دستاویز تیار کی تھیں وہ حرفِ آخر بھی نہیں بلکہ اس کو ورکنگ پیپر کا نام دیا گیا تھا جس کی تراش خراش ممکن تھی اور اگر وہ آتے اور بیٹھتے تو ان کے لیے اس میں کئی ایک اطمینان بخش چیزیں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر پی ٹی آئی کے ڈی این اے اور خمیر میں مذاکرات، بات چیت اور لین دین شامل ہی نہیں، وہ سڑکوں، چوراہوں، ڈنڈوں، غلیلوں، 9 مئی، 26 نومبر اور تشدد کے لیے بنی ہے۔
انھوں نے جب جب بھی مذاکرات کیے وہاں سے ایسے ہی نکلے، 28 جنوری کی صبح تک تو ہم کام کر رہے تھے، پی ٹی آئی نے چھ دن پہلے کہا کہ عمران خان نے کہہ دیا ہے تو اب مذاکرات نہیں ہوں گے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: مذاکراتی عمل پی ٹی آئی کے
پڑھیں:
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے شیخ حسینہ واجد کا اسرائیل سے جڑا فیصلہ ختم کردیا
ڈھاکا:بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کا ایک اور فیصلہ ختم کرتے ہوئے پاسپورٹ میں اسرائیل کے لیے کارآمد نہ ہونے کی شق بحال کردی ہے۔
ڈھاکا ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت نے عوامی دباؤ پر حکم جاری کیا ہے کہ بنگلہ دیش کے پاسپورٹ کے اوپر ‘سوائے اسرائیل’ کے دنیا کے تمام ممالک کے لیے کارآمد لکھا جائے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بنگلہ دیش کی امور داخلہ کی وزارت کی ڈپٹی سیکریٹری نیلیما افروز کے دستخط سے یہ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ مذکورہ احکامات کے تحت بنگلہ دیش کے پاسپورٹ کے اوپر سوائے اسرائیل کی شق بحال کردی جائے اور دیگر امور سابق طریقہ کے تحت پورے کیے جائیں۔
خیال رہے کہ بنگلہ دیش کے پاسپورٹ پر لکھا ہوتا تھا کہ یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے لیکن 2021 میں شیخ حسینہ واجد کی سربراہی میں اس وقت کی عوامی لیگ کی حکومت نے اسرائیل کے حوالے سے پابندی حذف کردی تھی۔
شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے اپنے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فیصلہ بین الاقوامی پاسپورٹ فارمٹنگ اسٹینڈرڈز پر عمل کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔
عوامی لیگ کی حکومت نے بنگلہ دیش کے پاسپورٹ پر تحریر کیا تھا کہ یہ پاسپورٹ دنیا کے تمام ممالک کے لیے ہے تاہم حکومت نے کہا تھا کہ اسرائیل کے حوالے سے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
بنگلہ دیش کے سابق وزیرخارجہ اے کے عبدالمومن نے اس وقت بیان میں کہا تھا کہ بنگلہ دیش سے کوئی بھی شہری اسرائیل کا سفر نہیں کرسکتا اور اگر کسی نے ایسا کیا تو اس شہری کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
بعد ازاں بنگلہ دیش کے شہریوں کو دوسرے ملک سے اسرائیل جانے کی اجازت دےدی گئی تھی تاہم ملک کے امیگریشن قواعد کے تحت سفری پابندیوں کے حوالے سے نافذ متعدد قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔