UrduPoint:
2025-01-31@17:46:49 GMT

سمندی معاملات کے لیے نئی اتھارٹی کا قیام، خرچے کے چرچے

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

سمندی معاملات کے لیے نئی اتھارٹی کا قیام، خرچے کے چرچے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 31 جنوری 2025ء) تفصیلات کے مطابق، وزیرِاعظم شہباز شریف نے ملک کے میری ٹائم سیکٹر کی مکمل اصلاحات کے منصوبے اور اس مقصد کے لیے پاکستان میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی کے قیام کی منظوری دے دی ہے، جو رواں سال مارچ کے آخر تک قائم کی جائے گی۔ اصلاحاتی منصوبے کے تحت حکومت کراچی پورٹ اتھارٹی، پورٹ قاسم اتھارٹی، اور گوادر پورٹ اتھارٹی کے سربراہان بھی تعینات کرے گی۔

حکومت کے دعوے کے مطابق، اس منصوبے میں کسٹمز کے کردار کو مزید مؤثر بنانا، کراچی پورٹ کی 24 گھنٹے کنیکٹیویٹی یقینی بنانا (جہاں عام طور پر سامان کی نقل و حرکت روزانہ صرف سات گھنٹے ہوتی ہے) بھی شامل ہے۔ نئی قائم کی جانے والی اتھارٹی پاکستان میں شپ بلڈنگ کا جائزہ لے گی تاکہ تجارتی جہاز سازی اور مرمت کو فروغ دیا جا سکے اور پاکستان شپنگ کارپوریشن کی جدید تشکیل میں بھی اپنا کردار ادا کرے گی۔

(جاری ہے)

کیا نئی اتھارٹی کی کوئی ضرورت ہے؟

نئی اتھارٹی کے قیام کے فیصلے کے ساتھ حکومت یہ خواب بھی دکھا رہی ہے کہ ملک کی میرین سیکٹر سے حاصل ہونے والی آمدنی، جو اس وقت 2610 ارب روپے ہے، بڑھ کر 8000 سے 9000 ارب روپے تک پہنچ جائے گی۔

تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت ریونیو میں اضافے کا خواب بیچ کر ایک نئی اتھارٹی قائم کر رہی ہے، جبکہ پہلے سے ہی ایک ادارہ موجود ہے جو یہ معاملات دیکھ رہا ہے۔

معروف ماہرِ معیشت قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ ملک میں پہلے سے ہی میری ٹائم ڈویژن موجود ہے، جس کی ذمہ داریاں وہی ہیں جو اس نئے منصوبے میں بیان کی گئی ہیں۔ حکومت صرف پرکشش خواب بیچ کر ایک نیا ادارہ بنانے اور اپنے من پسند افراد کے لیے نوکریاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

قیصر بنگالی نے مزید کہا کہ اس اتھارٹی کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہوگا اور اگر حکومت واقعی بندرگاہوں اور میری ٹائم سیکٹر کی کارکردگی کو بہتر بنانا چاہتی ہے، تو اسے صحیح افراد کو درست عہدوں پر تعینات کرنا چاہیے اور پہلے سے موجود اداروں کی صلاحیت بڑھانی چاہیے۔

بعض ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ بندرگاہوں اور سمندری معاملات جن میں سمندر کے ذریعے تجارت شامل ہے کے لیے ایک اتھارٹی بنانے میں کوئی حرج نہیں لیکن ملک میں ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی بھی نیا ادارہ کسی نہ کسی کو نوکریاں دینے یا کسی شعبے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق حسن ایک معروف معیشت دان ہیں کہتے ہیں، ''غالب امکان ہے کہ حکومت نئی اتھارٹی میں بھی اپنے پسندیدہ لوگوں کو ملازمتیں دے گی اور میرٹ کا خیال نہیں رکھا جائے گا۔

جب تک میرٹ پر لوگوں کی تعیناتی نہ ہو کوئی ادارہ نہیں چلا سکتا۔ آج کل یہ صورت حال ہے کہ جب حکومت کسی محکمے کی کسی بڑی پوسٹ کے لیے اشتہار دیتی ہے، تو بہت لوگ اپلائی بھی نہیں کرتے کیونکہ یہ پہلے سے پتا ہوتا ہے کہ کس کو رکھنے کے لیے اشتہار دیا گیا ہے۔ قومی خزانے پر بوجھ

ماہرین سمجھتے ہیں کہ ایک طرف تو رائٹ سائزنگ کی بات ہوتی ہے اور دوسری طرفحکومت نئے ادارے بنانے اور ایسے اخراجات کی بات کر رہی ہوتی ہے جن کی کوئی ضرورت سمجھ میں نہیں آتی۔

قیصر بنگالی کہتے ہیں، ''یہ حکومت نے نیا وطیرہ بنا لیا ہے۔ نئے نئے ادارے قائم کیے جا رہے ہیں۔ سول ایوی ایشن اور پیمرا کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان اتھارٹیز کو تین تین اتھارٹیز میں تقسیم کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہر ایک ادارے کا علیحدہ سے سربراہ لگانا پڑتا ہے اور مزید اسٹاف بھی رکھنا پڑتا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس نئی اتھارٹی کا بھی یہی ہے کہ بہت سے لوگ رکھے جائیں گے، گاڑیاں خریدی جائیں گی اور اربوں روپے کا ایک نیا خرچہ قرض کے پیسوں کے ساتھ شروع کر دیا گیا ہے۔

عجیب معاملات ہیں کہ ایک ملک جو پیسے پیسے کو ترس رہا ہے وہاں ایف بی آر ایک ہزار گاڑیاں خریدنے کی بات کر رہا ہے اور بغیر ضرورت نئے ادارے بنانے کی بات ہو رہی ہے۔ حکومت کا نئی اتھارٹی کے قیام سے جہاز بنانے کی صنعت کے فروغ کا دعویٰ

ماہرین کا ماننا ہے کہ جہاز بنانا پاکستان کے ہے بہت ضروری ہے۔ پہلے پاکستان میں بحری جہاز بنا کرتے تھے لیکن عرصہ دراز سے یہ صنعت زبوں حالی کا شکار ہے۔

ڈاکٹر اشفاق کہتے ہیں، ''انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے کہ پاکستان کے پاس پہلے سو بحری جہاز تھے اور اب صرف آٹھ ہیں، اس سے بہت مالی نقصان ہوتا ہے۔‘‘

لیکن ڈاکٹر اشفاق سمجھتے ہیں کہ شپ بلڈنگ کی صنعت کے زوال کی وجہ بھی مختلف حکومتوں کی منظور نظر افراد کو نوکریاں دینے کی پالیسی ہے۔

ماہرین اس بات پر بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ایک اتھارٹی کے قیام سے ملک دوبارہ بحری جہاز بنانے لگے گا۔

قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ کراچی شپ یارڈ اینڈ انجنئیرنگ ورکس ایک پبلک سیکٹر ادارہ ہے اور تقریبا دو دہائیوں سے بیکار پڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر شپ بلڈنگ کی صلاحیت نہیں رکھتا اور پبلک سیکٹر کے ادارے حکومت بیچنا چاہتی ہے تو اتھارٹی کیا خود جہاز بنائے گی۔ جہاز بنانے کے لیے ادارے کو درست کرنے کی ضرورت ہے اور قابل افراد کو اس کا انتظام سونپنے کی ضرورت ہے نہ کہ اتھارٹی بنائے گی۔‘‘.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اتھارٹی کے قیام نئی اتھارٹی قیصر بنگالی میری ٹائم کہتے ہیں پہلے سے ہے اور رہی ہے کی بات ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

جوڈیشل کمیشن نہ بنانے سے واضح ہو گیا کہ چور کی داڑھی میں تنکا ہے۔بیرسٹرسیف

مشیرِ اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز مذاکرات کی ناکامی کے مشن میں کامیاب ہوگئے۔ایک بیان میں بیرسٹر سیف نے کہا کہ نواز شریف نے عرفان صدیقی کو مذاکرات کی ناکامی کا ہدف دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عرفان صدیقی اور رانا ثنا اللہ کے بیانات سے حکومت کی غیرسنجیدگی واضح تھی۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن نہ بنانے سے واضح ہو گیا کہ چور کی داڑھی میں تنکا ہے۔مشیرِ اطلاعات خیبر پختونخوا نے کہا کہ وفاقی حکومت کو خدشہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن سے حقیقت سامنے آجائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • ضلع کرم میں قیام امن میں مسلسل ناکامی کیوں؟
  • شام: عبوری صدر الشرع کا شمولیتی حکومت بنانے کا عزم
  • کے پی حکومت کا 9 مئی واقعات کی تحقیقات پر پھر جوڈیشل کمیشن بنانے پر غور
  • حکومتی کمیٹی :پی ٹی آ ئی کے چارٹر آف ڈیمانڈ کا جواب اسپیکر کے حوالے
  • سوشل میڈیا پروٹیکشن ریگولیٹری اتھارٹی کو کون کون سےاختیارات حاصل ہوںگے؟جانیں
  • سوشل میڈیا پروٹیکشن ریگولیٹری اتھارٹی کو کون کون سےاختیارات حاصل ہوں گے؟
  • آن لائن مواد کی کڑی نگرانی:پیکا ایکٹ 2025ء کیا ہے؟
  • جوڈیشل کمیشن نہ بنانے سے واضح ہو گیا کہ چور کی داڑھی میں تنکا ہے۔بیرسٹرسیف
  • ابو محمد الجولانی سے فلسطینی اتھارٹی کے وفد کی ملاقات