معروف اداکار نصیرالدین شاہ نے بالی وڈ میں بڑھتی ہوئی "زہریلی مردانگی" اور "عورتوں کی تذلیل" پر مبنی فلموں پر سخت تنقید کی ہے۔ 

کیرالہ لٹریچر فیسٹیول میں گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ ایسی فلموں کی کامیابی ہمارے معاشرے کی خطرناک حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے۔

اداکارہ پاروَتی کے سوال پر نصیرالدین شاہ نے کہا، "یہ فلمیں معاشرے کی اصل سوچ کو ظاہر کرتی ہیں یا پھر اس کی پوشیدہ خواہشات کی نمائندگی کرتی ہیں، یہ کہنا مشکل ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "یہ فلمیں مردوں کی اندرونی خواہشات کو پورا کرتی ہیں جو عورتوں کو کمتر سمجھتے ہیں۔ یہ بہت خوفناک بات ہے کہ ایسی فلموں کو عام ناظرین کی اتنی بڑی حمایت ملتی ہے، اور یہی وہ سوچ ہے جو معاشرے میں خواتین کے خلاف مظالم کو بڑھاوا دیتی ہے۔"

نصیرالدین شاہ نے اعتراف کیا کہ انہوں نے بھی کچھ فلمیں صرف پیسوں کے لیے کیں، جن پر اب انہیں افسوس ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا، "اچھی بات یہ ہے کہ لوگ آپ کے برے کام کو بھول جاتے ہیں اور صرف اچھا کام یاد رکھتے ہیں۔"

نصیرالدین شاہ حال ہی میں سونُو سود کی فلم "فتح" میں نظر آئے تھے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نصیرالدین شاہ انہوں نے

پڑھیں:

ٹی وی پر جو دکھایا جا رہا ہے وہ معاشرے کو سراسر بگاڑ رہا ہے ، فریال علی گوہر

تعارف، محترمہ فریال علی گوہر، پاکستان کی میڈیا انڈسڑی اور ڈیویلپمینٹ سیکٹرکا ایک معروف اور معتبر نام ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ ہیں، کینیڈا کی میکگل یونیورسٹی سے پولیٹیکل اکانومی میں گریجویشن کی، بعد ازاں امریکہ سے فلم میکنگ کی تعلیم بھی حاصل کی، بی بی سی کی ورلڈ سروس سے بطورانٹرن وابستگی رہیں، ریڈیو ہالینڈ کے لیے نیوز اینڈکرنٹ افئیرز کے پروگرام بھی پروڈیوس کیے، اداکاری بھی کی ، یو این کی خیر سگالی سفیر بھی رہی ہیں۔ انگلش میں تین ناول لکھ چکی ہیں۔ فریال خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے ایک توانا او ر موثر آواز ہیں۔ اپنی رائے اور موقف کے اظہار میں کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہوئیں۔ 

سوال: آپ نے خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے بہت کام کیا ہے۔ پاکستان میں بچوں اور خواتین کو ان کے حقوق کس حد تک مل رہے ہیں؟

جواب: کچھ حد تک مل رہے ہیں، لیکن ابھی بہت کام باقی ہے۔ اس طرح کے جو دن منائے جاتے ہیں خواہ وہ خواتین کے حوالے سے ہوں ،مزدوروں کے حوالے سے ہوں، ان کی ایک اپنی اہمیت ضرور ہے کہ لوگوں کے شعور میں ایک چیز بیٹھ جاتی ہے کہ، ہاں یہ ایک مسئلہ ہے۔ ہماری جو جدوجہد ہے وہ جاری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی کہوں گی کہ ہمارا روزکا دن ہمارا دن ہے۔ ہرروز ہمارا دن ہے۔ ہر انسان کا دن ہے۔ہر جانور کا دن ہے۔ ہر مزدور کا ، ہر عورت کا ، بچے کا۔ وہ دن جس طرح سے گزرتا ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ جس کو ہم Nations Civilized of Comityکہتے ہیں۔

آپ خود دیکھیں کہ پاکستان کے جی ڈی پی میں خواتین کی پروڈکٹویٹی (Productivity ) یا کنٹری بیوشن کتنی گنی جاتی ہے، اور اصل میں کتنی ہوتی ہے، جس کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ آپ دیکھیے، جو دیہی علاقے کی خواتین ہیں، وہ صبح اپنے مرد سے پہلے اٹھیں گی، گھر کا سارا کام کریں گی، جانوروں کو وہ سنبھالیں گی، مردکا ناشتہ بنائیں گی، اگروہ کھیتوں میں جارہا ہے تو گیارہ بجے تک وہ کھیت میں کام کر کے کیکر کے نیچے چارپائی ڈال کر وہ سو جاتا ہے، عورت کا کا م رکتا نہیں ہے، وہ سارا دن لگی رہتی ہے۔ اگر وہ شادی شدہ ہے، تو اس کے سسرال کے لوگ ہیں، اس کو سنبھالنا ہے، اپنے بچے ہیں، اورجب کپاس کا سیزن آتا ہے تو وہ کپاس چْنتی ہے ، جب گندْم کی کٹائی ہوتی ہے توا س کا دانہ نکالنا۔ کیونکہ میرے والد زمینداری کرتے تھے تو یہ سب کچھ میں بچپن میں دیکھ چکی ہوں۔ یہ ساری Labour Unacknowledgedہے، پاکستان میں خواتین کی لیبرفورس میں شمولیت 17 سے 19 فیصد تک ہے۔

اس کو گنا جاتا ہے۔ آپ دیکھیے، کہ پاکستان کی آبادی میں اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی ہے تو اس میں کم از کم پچاس فیصد سے کم خواتین کا ہے۔ آبادی میں خواتین کا تناسب دیکھا جائے تو لڑکیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔ ایک سو چھ لڑکیوں کے مقابلے میں سو بچے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ایک قدرت کا نظام ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ہمارے جیسے ممالک جو جنوبی ایشیا میں ہیں مثلاً ہندوستان ہے، ہم(پاکستان) ہیں۔ بنگلہ دیش ہے اب ان کے ہاں حالات بہتر ہوئے ہیں۔  آپ دیکھیں خواتین کا نام نہاد غیرت کے نام پر قتل، بچی کا پتہ لگ جانے پر حمل کو ضائع کروا دینا۔ جو ایک Norm Biological Global تھا، ایک سو چھ بچیوں اور سو لڑکوں کا ،وہ اب الٹ (Reverse)ہو گیا ہے۔

اب ہمارے ہاں 89 لڑکیاں اور 100 لڑکے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہم وہ حمل ہی ضائع کردیتے ہیں جہاں بچی پیدا ہو رہی ہو۔ ایسا معاشرہ خونی معاشرہ ہوا نا، جس میں ہم قتل کو قبول کر رہے ہیں بلکہ لڑکوں کے لیے ہماری ترجیح اتنی زیادہ ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش پر ہی ماتم شروع ہوجاتا ہے۔

یہ چیزیں آہستہ، آہستہ اب ختم ہونا شروع ہوئی ہیں۔اب دیکھیں میرا تعلق ظاہر ہے ایک ایسے گھر سے ہے جس میں وسائل تھے اور ہیں۔ اور اس کا فائدہ میرے والدین نے ہم تک پہنچایا کہ ہم تعلیم یافتہ ہو گئے۔لیکن تعلیم کے علاوہ ایک تربیت ہوتی ہے جس میں آپ کو سوچ اور فکر کی ایک جو Sense ہوتی ہے، ایک Process Intellectualہوتا ہے، آپ Analyse کر سکتے ہیں۔ یہ پتہ چلتا ہے کہ وسطی طبقہ یا جو امیر گھرانے ہیں، ان میں بھی بر ابری نہیں ہے۔ جب تک پدرشاہی نظام برقرار رہے گا، تب تک عورت مظلوم رہے گی،تو میری جو جدوجہد ہے بطور وویمن رائٹس ایکٹوسٹ یا ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ وہ میں سمجھوں گی وہ ایک نظام کے خلاف ہے ، مرد کے خلاف نہیں ہے۔مرد ہمارے ساتھ ہیں، شانہ بشانہ ہیں۔

سوال : ہمارے پدر شاہی پر مبنی نظام میں صنفی امتیاز پر مبنی رویوں کو بہتر کیسے کیا جا سکتا ہے؟

جواب: دیکھیں یہ ذمے داری گھروں کی ہے، ریاست کی بھی ہے۔ ریاست کا ایک اور پیمانہ ہے ایک اور سطح ہے۔ لیکن ایک گھر میں ماں اور باپ کی پر ورش سے معاملہ یا تو بگڑ جاتا ہے یا حل ہو جاتا ہے۔ ماں جب بیٹے اور بیٹی میں فرق لاتی ہے تو وہیں وہ بیٹا سیکھتا ہے کہ میں بہتر ہوں۔ میرے زیادہ حقوق ہیں۔ باپ بھی اسی چیز کے پیچھے ہے۔ وہ ایک ڈگر چلی آرہی ہے کئی صدیوں سے ، ہزاروں سالوں سے۔ اب ہزاروں سالوں سے بہت سی چیزیں جو بہتر ہوئی ہیں۔ صحت کا نظام بہتر ہوا ہے۔ لیکن اگر ہم بہت سی دوسری چیزوں کو بہتر کر سکے ہیں تو ہم کیوں نہیں مساوی حقوق کی طرف چل سکے ہیں۔

یہ ذمہ داری اس ماں اور باپ کی گود کی ہے۔ وہاں سے یہ مسئلہ یا حل شروع ہو گا۔ جہاں ماں سکھاتی ہے اور بتاتی ہے۔ اکثر ہم سمجھتے ہیں کہ باپ کا کوئی رول ہی نہیں ہے بچوں کی پرورش میں۔ بھئی کیوں نہیں ہے۔ اگر نہیں ہے تو ہونا چاہیے۔ اگر باپ کا تعلق صرف باہر کی دنیا سے ہے اور ماں کا گھر کی دنیا سے۔ ایسی بھی تو فیمیلیز ہیں جہاں ماں ، باپ دونوں کام کر رہے ہیں۔آج میں بھی کہیں سڑک پر نکلوں ، دوائی لینے چلی جاؤں، ٹھیک ہے ، واک کے لیے چلی جاؤں، مجھے گھورا جائے گا ،مرد کو کوئی نہیں گھورتا۔ شاید اس لیے کہ شاید مرد اتنے خوش شکل نہیں ہوتے۔ لیکن مجھے ایک عورت یا بچی کو بطور Object کے دیکھا جاتا ہے۔

سوال: ہماری Conditioning Social ایسی ہوئی ہے کہ اس نے ہمارے رویے سیٹ کر دیے ہیں۔ اسے تبدیل کرنا ایک طویل پراسیس ہے۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ دن منانے سے صدیوں پرانی Social Conditioning Social تبدیل ہو سکتی ہے؟

جواب: نہیں ، دیکھیں ، یہ علامتی ہوتا ہے۔ جب 1977 میں یوا ین نے یہ طے کیا کہ 8 مارچ کو عالمی سطح پر خواتین کا دن منایا جائے گا۔ پاکستان میں تو 12 فروری کو منایا جاتا ہے عورتوں کا دن۔ اس میں بھی، میں شامل تھی۔ بارہ فروری کا جلوس تھا۔مارشل لا ء کے خلاف ، لاٹھیاں کھائیں۔ آنسو گیس پی، نگلنے کی کوشش کی۔ اس دن ، پاکستان کی عورتوں کا دن اس لیے منایا جاتا ہے، کہ شاید پہلی بار اتنا تشدد ہوا تھا خواتین کے ساتھ ۔ اور ہم اٹھ کھڑی ہوئی تھیں ،اور ایک موومنٹ چل پڑی تھی ڈیلیو اے ایف ( Forum Action Woman ) کی۔ لیکن جہاں تک سماج میں تبدیلی کی بات ہے۔ ایک دن میں تو کچھ نہیں ہونا۔ یہ ایک روزمرہ کی مشق ہے کہ آپ ہر وقت شعوری طور پر کوشش کریں کہ ایک لڑکی کو وہی حصہ ملے چاہے وہ تعلیم کا ہے، چاہے وہ کپڑوں کا ہے ، چاہے وہ مرغی کی ٹانگ کا ہو۔ 

سوال : شعور کی ایک سطح ہے، انفرادی اور ایک ہے معاشرتی ۔ ہمارے ہاں خواتین کے ساتھ جو صنفی امتیاز پر مبنی سلوک کیا جاتا ہے، وہ اس کو قسمت کا لکھا سمجھتی ہیں یا انہیں اس چیز کا شعور ہی نہیں ہے کہ میرے بھی کچھ حقو ق ہیں۔ تو فرد کے اندر یہ احسا س اجاگر ہو جائے اور اس کو یہ احساس دلا دیا جائے کہ آپ بہتر سلوک کی مستحق ہیں، یہ کیسے ممکن ہے؟

جواب: دیکھیں ، اس میں بھی ریاست کا بھی ایک ہاتھ ہے۔ باقی اس میں جو ہمارے کنبے، گھرانے اور خاندان ہیں اس میں ایک چیز آپ سمجھ لیں ، ایک پٹی پڑھائی گئی ہے کہ تھپڑ مار دینا ڈسپلن کا ایک حصہ ہے جگہ دکھانے کا، کہ یہ تمہاری اوقات ہے، Women Against Violence یا عورتوں پر جو تشدد ہے اس کو گھریلو تناظر میں محدود کردیا گیا ہے۔ یعنی یہ ایک گھریلو معاملہ ہے، آپ ایف آئی آر کٹوانے جائیں گے تو پولیس والا کہے گا کہ آپ گھر جائیں اور اپنا معاملہ خود ہی حل کریں۔ حقیقت میں یہ معاملہ گھریلو تناظر میں رہ ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ بطور شہری آپ کے حقوق ہیں، آپ کا قانون آپ کو تحفظ فراہم کرتا ہے آپ کی زندگی اور آپ کو جسمانی نقصان پہنچانے کے خلاف۔ لہذا یہ ریاست کی بھی ذمہ داری ہے۔

اگر میں تجزیہ کروں ت تو خواتین کے خلاف ان کرائمز کی نوعیت اور شدید ہو گئی ہے۔ ٹھیک ہے، پہلے تو آپ سر ہی کاٹ دیتے تھے، اب اس کو جلانا بھی ہے، اب اس کو اس کے زندگی کے آخری وقت تک اذیت سے گزارنا ہے۔ دیکھیں یہ صرف عورت کا مسئلہ نہیں ہے، مرد کا بھی مسئلہ ہے، اس عورت کا بھی مسئلہ ہے جو دوسری عورت پر تشدد کر رہی ہے، تشدد ایک بیماری ہے جو قابل قبول نہیں۔ پہلے تو تحفظ کے لیے مقامی سطح پر جو ہمارے ہاں یونین کونسلز ہیں وہاں ایک کونسلر کا دستیاب ہونا ضروری ہے۔ ایک ہیلپ لائن کی دستیابی ضروری ہے جو ایسی خاتون، بچی یا بچے کی شکایت درج کرے۔اور پولیس کے پاس رپورٹ کا درج کروانا بہت ضروری ہے۔ یہ جو پنچایت یا جرگے ہیں ،یہ سارے مردوں پر مشتمل ہیں۔ میں نے فاٹا میں کام کیا ہے۔یہ اس وقت کی بات ہے جب فاٹا کو کے پی کے میں ضم نہیں کیا گیا تھا۔ تب ہم نے کوشش کی تھی اور ہم کامیاب رہے تھے۔ آپ سمجھ لیں کہ اتنی بڑی کامیابی پنجاب میں کیوں نہیں لائی جاسکتی۔ وہاں (فاٹا) کے جرگے میں عورت کی صرف نمائندگی کی جاتی تھی۔عورت کو بٹھایا نہیں جاتا تھا، اب جہاں ہم نے کام کیا ہے، وہاں عورت کی اپنی رضا مندی یا انکار ،اس کے اپنے منہ سے سنا جاتا ہے۔

ہمارے مذہب نے یہ اجازت بھی دی ہے کہ اگر (بیوی) کو اپنے شوہر کی شکل پسند نہیں ہے یا کوئی اور چیز اس کو پسند نہیں ہے تو وہ علیحدہ ہو سکتی ہے۔ ریاستی سطح پر جو ہمارا سلیبس ہے، وہاں کیا ہو رہا ہے۔ آپ اردو کا قاعدہ اٹھا لیں، ا س میں امی جان سر پر دوپٹہ لے کر ابھی تک روٹیاں بیل رہی ہیں۔ ابوجان سوٹ پہن کر ، ٹائی لگا کر ،بریف کیس پکڑ کر دفتر جارہے ہیں۔ حالانکہ ابھرتی ہو ئی مڈل کلاس میں خواتین نوکری پیشہ ہو گئیں۔ان گھروں میں اکثر کمائی لڑکی کر رہی ہے۔

لڑکا کرائے کی موٹر سائیکل لے کر دوسری لڑکیوں کو تنگ کرنے نکلا ہوا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ آپ دیکھیں لوئر مڈل کلاس محنت کر کے اپنے آپ کو اوپر کی سطح پر لے کر آئی ہے، وہاں ا کثر لڑکے، مرد نشے کا شکار ہیں۔ اور لڑکیاں اپنے پورے خاندان کو سنبھال رہی ہوتی ہیں لیکن ان کی Acknowledgement کہیں بھی نہیں ہے۔ ریڈیو ایک ایساادارہ ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر یا ساحل سمندر کے کنارے بھی آپ سن سکتے ہیں۔ اس کو استعمال کریں۔ خدارا، اس وقت جو ٹیلی ویڑن پر ہو رہا ہے ، یہ سراسر اس معاشرے کو مزید بگاڑ رہا ہے۔ کیونکہ ہم عام لوگوں کی کہانیاں نہیں سن رہے۔ ہم نے اپنے کان اور آنکھیں وہاں نہیں لگائیں جہاں ہماری اکثریت رہ رہی ہے۔ کیا دکھا رہے ہیں ، بڑ ے بڑے بنگلے دکھا رہے ہیں۔ ہم بڑی بڑی گاڑیا ں دکھاتے ہیں ،  اور جو ہماری فیشن ایبل ادا کارائیں ہیں ان کا جدید ترین میک اپ اور ہئیر سٹائل ہوتا ہے۔ آپ اس عورت کی کہانی بتائیں جو بھٹہ مزدور ہے، اس کی جدوجہد دکھائیں، تا کہ لوگوں میں یہ شعور بیدار ہو۔ 

سوال: آپ میڈیا سے بھی منسلک رہی ہیں اور ڈیویلپمینٹ سے بھی آپ کا تعلق ہے ، آپ کے خیال میں کیا میڈیا کو ہیومن ڈیویلپمینٹ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے؟

جواب: بالکل بھی نہیں، یہ میرا اصل Passion ہے میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنانا،۔ مجھے ابھی بھی 65 سال کی عمر میں پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیوں نہیں کر رہی ، چینلز سے آفر زبھی آتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں دو، تین آفرز آئی ہیں۔ دو کو میں نے انکار کردیا، ایک کو بڑی خوشی سے ہاں کی۔ اور پتہ نہیں کتنے طویل عرصے بعد میں ٹی وی پر واپس آ رہی ہوں۔ اور وہ ایک میں نے اس لیے ہاں کی ، وہ چھوٹا سا رول ہے۔ ایک عورت کا، وہ ایک بچے کو پالتی ہے جو اس کا بھانجا ہوتا ہے۔جو ٹیکسی ڈرائیور بن جاتا ہے اور وہ عام لوگوں کا ہیرو ہوتا ہے اور یہ ایک عام بستی میں رہتے ہیں۔ اس عورت نے اس لڑکے کو اتنا پختہ بنایا ہوتا ہے۔

اس کی جو بھی اقدار ہیں، جس چیز کے لیے وہ کوشش کرنا چاہتا ہے، انصاف کے لیے ، سچ کے لیے ،وہ (اقدار) اس عورت کے ذریعے اس میں آئی ہیں۔ اب وہ ہیرو بنا ہے۔ اس کردار کو کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا کہ شاید دیکھنے والوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ عام لوگوں میں جو ہیروازم ہیاور بہادری ہے اس کی قدر کی جائے۔ زیادہ تر جودولت اس ملک میں ہے ، وہ ناجائز ہے۔ میرا چونکہ اکنامکس کا پس منظر ہے ، تو آپ اس کو دیکھ لیں کہ یہ دولت کہاں سے آئی ہے۔ تو جتنی دولت اکٹھی ہوئی ہے، ہم ناجائز دولت کی کہانیاں لوگوں کو بتا رہے ہیں۔ حالانکہ کہ اُن لوگوں کو نمایاں کرنا ضروری ہے جو جائز ہیں، جو اصل لوگ ہیں۔ جو مستند ہیں۔ جو اس دھرتی کے بیٹے بیٹیاں ہیں۔ 

سوال: آپ جہاں بھی ہوتی ہیں ، وہاں اپنی موجودگی سے مثبت اثر ڈالتی ہیں۔ آپ نے جامعہ بلوچستان میں فائن آرٹ کا شعبہ قائم کیا، بلوچستان میں تھیٹر کا آغاز کیا، آپ بڑے ڈیمز کی تعمیر کے معاملے میں حکومتی مشیر ہیں۔ آپ اپنی رائے کے اظہار میں کبھی متامل نہیں ہوئیں۔ یہ قدرتی صلاحیت ہے یا آپ نے اس کو سیکھا ہے؟۔

جواب: یہ سب کچھ ہے، یہ بیوقوفی بھی ہے، حماقت بھی ہے، جس معاشرے میں منافقت کوٹ کوٹ کر بھری ہو، وہاں سچائی کو اچھی نظرسے نہیں دیکھا جاتا۔ سچائی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ سچائی تلخ ہوتی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ایک ایسی با ت ہے جو منہ پر لانا اتنا آسان نہیں ہے۔ جس گھر میں ، میں پیدا ہوئی۔ظاہر ہے میرے والدین کا بہت بڑا اثر ہے۔ جو خون میری رگوں میں بہہ رہا ہے، وہ سید زادوں کا ہے۔ حقیقی معنوں میں جو سید زادہ ہے یا سید زادی ہے ،اس کا کام ہی یہی ہے کہ وہ سچ بولے۔وہ اور کچھ بھی نہ کرے۔ وہ سچ بولے اور معاشرے کے سامنے آئینہ لے کر کھڑا ہو جائے۔ کیونکہ آپ کو سچ میں جو طاقت ملتی ہے۔

مرنا ہم سب نے ہے، اگر نصیب میں ہوا تو قبرمیں دفن ہو جائیں گے۔ بہت سے نہیں بھی ہوتے۔ ، ہمارے سامنے مثالیں ہیں۔ جو وقت آپ کے بنانے والے نے دیا ہے۔ پیدائش سے لے کر موت تک، یہ مختصر بھی ہو سکتا ہے ، طویل بھی ہو سکتا ہے۔ اس وقت میں ، آپ نے اپنے ایمان کو کس طرح سے واضح کیا۔ آپ نے اپنے ارد گرد کے لوگوں میں تھوڑی بہت بہتری لانے کی کوشش کی، نہیں کی۔ آپ نے اپنے اصولوں پر چلنے کی کوشش کی کہ نہیں، وہ چیزیں سب سے اہم ہیں۔ ابھی بھی میری ہم عمر جو ہیں ،وہ بیوٹی پارلر میں پائی جاتی ہیں، میں انہیں کہتی ہوں کہ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ سارا اندر کا معاملہ ہے۔ آپ جو ہیں وہ اندر سے ہیں،جو چہرے پر آتا ہے وہ سب اندر سے آتا ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کے چہرے روحانی ہوتے ہیں۔ دِکھ رہا ہوتا ہے، اور کچھ لوگ پگ باندھ کر، سرمہ ڈال کر ، عطرلگا کر بھی روحانی نہیں لگ رہے ہوتے۔ 

سوال: یہ تو عرفانِ نفس کی بات ہو گئی۔ وہ جیسے کہتے ہیں کہ ’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘ ، جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا ، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ یہ شعور یا عرفان آپ کو کیسے نصیب ہو ا؟

جواب: دیکھیں، میں یہ نہیں کہتی، کہ مجھ میں یہ سب صلاحیتیں ہیں۔ لیکن اگر آپ مجھے سوچنے پر مجبور کریں تو میں اتنا کہہ سکتی ہوں کہ میں تنہائی پسند ہوں۔ مجھے لوگ بھی بہت پسند ہیں۔ میں لوگوں کے ساتھ بیٹھتی بھی ہوں، میں ہر کسی کیساتھ مذاق بھی کرتی ہوں، میرا تو بچپن سے یہ SOP تھا کہ جتنے دکاندار تھے ،وہ میرے دوست تھے اور میں بہت چھوٹی سی ہوا کرتی تھی۔ اس حد تک جہاں سے ہم سبزی لیا کرتے تھے۔ لاہور کینٹ میں پیدا ہوئی ، جم سیٹھ جی کی ایک دکان ہوا کرتی تھی۔ پارسی فیملی تھی۔ بہت سال ہو گئے۔اب تو وہ سارے لوگ چلے بھی گئے ہیں۔وہاں سبزی والا تھا اور اس کا گھوڑا تھا۔

وہ گھوڑے پر سبزی لاتا تھا۔ گھوڑے تک کے لیے ہمیشہ میرے ہاتھ میں گڑ، گاجر یا کوئی سیب ہوتا تھا۔ تو میں اسی سبزی والے کے پاس اسی لیے جاتی تھی کہ ایک تو وہ گھوڑا اور دوسرا اب تو ہر چیز پلاسٹک کی اور مصنوعی ہو گئی ، پرانے زمانے میں ٹوکریا ں ہوتی تھیں اور اس میں سبزی رکھتے تھے۔ دکانوں میں تہہ در تہہ چیزیں رکھی ہوتی تھیں۔ ایک بلی تھی جو اپنے بلونگڑے وہیں جا کر پیدا کرتی تھی، وہ اس لیے پیدا کرتی تھی کہ سبزی والا اس کے ساتھ نیکی کرتا تھا کیونکہ ساتھ ہی ایک دودھ والی دکان تھی اور دودھ والا اس بلی کے لیے دودھ وہاں رکھتا تھا۔ میرے بچپن میں دیواریں نہیں ہوتی تھیں حالانکہ جس گھر میں ، میں پیدا ہوئی تھی وہ پینتیس کنال کاگھر تھا۔ اس کی دیواریں نہیں تھیں، واڑیں(Hedges) ہوتی تھیں۔تو ادھر ہی میری ایک چھوٹی سے دنیا تھی۔

وہ گھوڑا، ایک واڑ میں ایک کتی جس نے سات بچے دیے ہوئے تھے، اور اس سبزی والے کی ٹوکری کے پیچھے ایک بلی ،جس کے اپنے بلونگڑے تھے۔ تو یہ میری دنیا تھی۔ میرے والد کو بہت شوق تھا۔ 300 پرندے تھے ہرطرح کے ، گھوڑے بھی تھے۔ بھینسوں کو چارہ دینا، ان کو گتاوہ دینا، میں ابھی بھی آپ کو بتا سکتی ہوں کہ توْڑی کتنی ڈالنی ہے، بنولہ کتنا ڈالنا ہے، جو حاملہ بھینس ہے، اس کی پنجیری کیسے بنتی ہے، یہاں تک کہ بھینسیں جب بچہ جنتی تھیں تو ان کا ڈلیوری پراسیس میری نگرانی میں ہوا ہے۔ جب آپ دنیا کا وہ حصہ دیکھتے ہیں ، جس کو ہم نظرانداز کرتے ہیں یعنی جانور، تو آپ کو پتہ لگتا ہے کہ آپ بہت بڑی کائنات کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ میرا جو تیسرا ناول ہے، اس میں ہر چیپٹر سے پہلے ایک چھوٹا چیپٹر آتا ہے، جو جانوروں کی آواز میں ہے ،جو اپنی کہانی بتا رہے ہوتے ہیں، مختلف جانور ،وہ شمالی علاقہ جات کی کہانی ہے، وہاں کے جوآئبیکس ہے ، مارخور ہے، جو برفیلا شیر ہے ، وہ اپنی آپ بیتی سنا رہے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت وہ اگلا چیپڑ جو انسانوں کی کہانی ہوتی ہے ، اس کی پیشن گوئی کرتا ہے۔ وہ جو کہانی ہے نا، تو وہ اس کو Foresee کرتا ہے، میرا جو مطالعہ ہے انسانوں کے بارے میں وہ جانوروں کے ذریعے ہے۔ وہ اعتماد تب کریں گے جب آپ ان سے نیکی سے پیش آئیں گے۔میری سوچ تنہائی میں ابھی بھی بن رہی ہے۔میں بہت سال اکیلی رہی ، اس تنہائی سے جب میری دوستی ہو گئی، تو مجھے اندازہ ہوا کہ ہم خود، خود ساختہ ولنز ہیں ، اور خود ساختہ ہیروز ہیں۔ ہم خود اپنے آپ کو بہتر بھی کر سکتے ہیں اور برا بھی کر سکتے ہیں۔ یہ ہمارے اندر طاقت ہے، اس چیز کو کسی طریقے سے ہم ہربندے تک پہنچانا ہے۔

یہ جو ہم اللہ کی مرضی کہتے ہیں، وہ ایک بڑے پیمانے پر ہے۔ لیکن میں جس طریقے سے آپ سے یا کسی دوسرے سے پیش آؤں گی ، وہ میری مرضی ہے۔ ا س مرضی کو ہم نے اس طریقے سے کرافٹ کرنا ہے، آپ کے ساتھ پیش آنا ایسا ہونا چاہیے کہ آپ ہمیشہ مجھ سے ملنا چاہیں اور میں بھی آپ سے ملنا چاہوں۔ ایک دوسرے کی انسانیت کو آپ پہچانیں گے تو ایسا ہو گا۔ ہم ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھتے نہیں ہیں۔ خاص طور سے ان گھروں میں جہاں ہم نے ملازم رکھے ہوں۔ آپ کو پتہ ہے ہم ان کوکبھی اس طرح سے دیکھتے ہی نہیں ہیں کہ ان کی بھی ایک زندگی ہے۔ میرے گھر میں ہم (ملازمین سمیت )اکٹھے روٹی(کھانا) کھاتے ہیں اور اکثر جو آلو ، انڈہ ، سبزی وغیرہ بنا ہوتا ہے ، وہ ہم سب مل کر کھاتے ہیں۔

سوال: آپ نے اپنے ناولز کا ذکر کیا، آپ نے تین ناولز لکھے ہیں۔

The scent of Wet Earth, An Abundance of Wild Roses, No Space for Further Burials

آپ ایک بھرپور زندگی گزار رہی ہیں، آپ کی میڈیا کی ذمہ داریاں ہیں، آپ کی گھر کی ذمے داریاں ہیں، پھر آپ کے جانور اور پرندے ہیں، ان کی دیکھ بھال ہے، تو یہ لکھنے پڑھنے کا کام ہے ، یہ بڑا سنجیدہ نوعیت کا ہے ، اس کے لیے آپ وقت کیسے نکال پاتی ہیں؟

جواب: تنہائی سے دوستی۔۔۔۔۔، تنہائی سے دوستی بڑی ضروری ہے، اگر آپ نے کوئی بھی مثبت کام کرنا ہے۔ سوچ اور غور و فکر والا۔کتابیں، مجھے لگتا ہے کہ جیسے آپ کسی کے لیے وسیلہ بنتے ہیں نا، کسی کے لیے بہتری لانے کے لیے، اسی طرح میں شاید اس کہانی کا وسیلہ بنتی ہوں، مجھے نہیں پتہ وہ کیسے لکھی جاتی ہے، میری جو دوسری کہانی تھی ، وہ افغانستان کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ حالانکہ اس ملک کا ذکر نہیں ہوتا۔ جب امریکی فوجیں وہاں آئیں، اور اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ تین ہفتوں میں لکھی گئی تھی، وہ ایک پاگل پن کی کیفیت تھی۔ میں امریکہ میں رہ رہی تھی اس وقت، اور مجھے بالکل پسند نہیں تھا وہاں رہنا، مجھے لگ رہا تھا کہ میری روح کا سانس بند ہو ر ہا ہے، کیونکہ وہ ایک کنزیومر سوسائٹی ہے، ایک ignorant سوسائٹی ہے، انہیں باہر کی دنیا کا کوئی ہوش نہیں ہے، اور مجھے اپنی دنیا جوتھی وہ یاد آتی تھی۔ان تین ہفتوں میں ، میں نے وہ دنیا بسا لی جو میرے اندر تھی، اور یہ کہانی خود بخود ہی لکھی گئی، مجھے نہیں پتہ میرے پاس یہ کہانی کہاں سے آئی۔ لیکن وہ آئی، وہ خود ہی بتاتی تھی اور میں لکھتی جاتی تھی۔تیسرا ناول Roses Wild of abundance An ہے۔ بلتی زبان میں لفظ ہے اس کو " سیاچن" کہتے ہیں، سیاچن کو ہم جانتے ہیں کہ یہ دنیا کا سب سے بلند جنگی محاذ ہے، جس پر ہماریفورسز کے جوان اور بھارت کے جوان سے نہیں بلکہ وہاںکی کنڈیشنز کی وجہ سے مر رہے ہیں۔

کیونکہ وہاں کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا،۔ خدارا! ہم وہاں کیوں ہیں۔ یہ جیو پالیٹیکس ہے، مجھے جنگ سے سخت تکلیف ہے، 65 کی جنگ میں جو میں نے پہلی لاشیں دیکھیں، تب میں پانچ سال کی تھی۔ میرے والد زمینداری کرتے تھے بارڈر پر اور ہمارے اکثر مزارعوں کو مار دیا گیا تھا اور کنووں میں ان کی لاشیں پھینکی گئی تھیں۔ وہ پھولی ہوئی لاشیں میں نے دیکھی تھیں۔ یہ چیزیں آ پ کے ذہن میں سما جاتی ہیں۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ کہانیوں کے ذریعے ان حالات کو سامنے لایا جائے۔ تیسرا جو ناول ہے، وہ باقاعدہ مجھے بلاوہ آیا تھا ، چیف منسٹر گللگت بلتستان سے دوہزار چودہ میں ، کہ ہمارے ہاں ایک سنگین معاملہ ہے، س کا ہم حل ڈھونڈنا چارہے ہیں۔ لیکن پہلے اس کو سمجھنا ضروری ہے کہ وہ ہو کیوں رہا ہے، وہ کیا تھا خواتین کی خود کشیاں سب سے زیادہ اس علاقے میں ہوتی ہیں،گلگت بلتستان، چترال، شمالی علاقہ جات، ان کو Region Mountain کہتے ہیں۔

اس کی تحقیق کے لیے میں گئی اور میں وہاں گاؤں میں رہی، اور لوگوں کے ساتھ رہی اور وہ بھی رمضان کے دن تھے۔ میرے کمرے کے باہر بھوکے کتے آتے تھے، وہاں اتنی شدید غربت تھی کہ وہ جو جوتی میں باہر اتارتی تھی اندر جانے کے لیے وہ کتے اس کو چبا رہے ہوتے تھے کیونکہ ان کو کچھ ملا نہیں ہوتا تھا۔ ان حالات میں مجھے یہ خیال آیا کہ ان لوگوں کی اور ان جانوروں کی کہانی مجھے بیان کرنی ہے، وہ لفظ کہاں سے آتے ہیں، مجھے نہیں پتہ، یہ کہیں سے آ جاتے ہیں اور مجھے کہا جاتا ہے کہ اس کو لکھو۔ میری اپنی کوئی اس میں سکل نہیں ہے

سوال: آپ یو این کی خیر سگالی سفیر بھی رہی ہیں۔ ہمارے ہاں تو جس کے ساتھ یو این کا ٹیگ لگ جاتا ہے، وہ تو پھولے نہیں سماتا، آپ نے اس کو چھوڑ دیا۔ یہ بتائیں کہ یہ سیلیکشن کیسے ہوئی اور آپ نے اس کو چھوڑا کیوں؟ 

جواب: جی ، میں سمجھتی ہوں بہت اہم سوال ہے۔ واقعی لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ یو این میں گھس گئے تو ا ن کو ایک تمغہ مل جاتا ہے۔ حقیقت بہت مختلف ہے۔ میں اکیس یا بائیس سال کی تھی جب میں میکگل یونیورسٹی میں تھی۔ اور میرا ا یک تھیسس تھا ، ایک تو فلسطین پر تھا ، ویسٹ بینک کی پولیٹیکل اکانومی پر تھا اور اس کا میں نے تقابل کیا تھا ساؤتھ افریقہ سے، کیونکہ ساؤتھ افریقہ میں بھی Apartheid تھا اور فلسطین میں ویسٹ بینک میں تھا۔ فلسطینیوں کو کہیں نقل و حرکت کے لیے ایک پاس بک رکھنا پڑتی تھی۔ تو اس وقت جب میں نے اپنی انویسٹی گیشن کی تو مجھے پتہ چلا ساؤتھ افریقہ ( میری والدہ کا تعلق ساؤتھ افریقہ سے تھا، ان کی پیدائش وہاں کی تھی) وہاں یو این نے سرمایہ کاری کی ہوئی تھی ان کی سونے کی کانوں میں۔ گولڈ مائینز میں سیاہ فام افریقنز کا استحصال ہوتا تھا جن کا وہ ملک تھا۔

اس زمانے میں 18 ملین سیاہ فام باشندے تھے اور 3 ملین سفید فام۔اور کون کس پر حکمرانی کر رہا تھا وہ ہمیں پتہ ہی ہے۔ جب مجھے پتہ چلا کہ یو این کی پینشنز (Pensions) افریقہ کی گولڈ مائینز میں سرمایہ کاری سے دی جاتی ہیں۔ تو مجھے جو نیویارک سے پیشکش آئی تھی یو این میں انٹرن شپ کی ، اس وقت میں اکیس برس کی تھی۔وہ پیشکش اس لیے آئی تھی کہ میرا جو فلسطین کے حوالے سے پیپر تھا ،اس حوالے سے میری یونیورسٹی میں کوئی تھا ہی نہیں جس کے پاس یہ expertise ہو، تو میرا وہ تھیسس یو این بھیجا گیا تھا۔ جہاں ڈاکٹر زْہدی تھے ، فلسطینی تھے جنہوں نے اس کو پڑھا۔ اس کے بعد انہوں نے آفر کہ آپ یو این میں انٹرن شپ کریں۔ تو میں نے انہیں یہ جواب دیا۔ اس وقت تو ای میل بھی نہیں ہوتی تھی۔ میں 1982 کی بات کررہی ہوں۔ میں نے کہا کہ 

I am sorry, i cannot join an organization which has invested in gold mines of the most racist country in the world.، تو میری ہسٹری یو این کے ساتھ 21 سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے۔ بہت سے لوگوں سے میرا تعلق ہی ختم ہو گیا ہے جن کے ذہن میں یہ ہے کہ ورلڈ بینک اور یو این کی نوکری آپ کو بہت elevate کر دیتی ہے۔میں نے یوا ین گڈول ایمبیسڈرشپ اس لیے قبول کی جب مجھے ڈاکٹرنفیس صادق کی طرف سے آفر ہوئی جو یو این پاپولیشن فنڈ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر تھیں۔ اس میں تنخوا ہ نہیں ، کوئی پیسے کا لین دین نہیں۔ میری والدہ نے اپنی زندگی کے آخری بیس سال ماں اور بچے کی صحت کے لیے وقف کر دیے تھے اور میں ان کیساتھ کا م کرتی تھی۔ میرا جب انٹر ویو کیا گیا ڈاکٹر نفیس صاد ق کی طرف سے تو انہوں نے کہا کہ board on you want We۔ میں آن بورڈ آ گئی، تو میں جب نیویارک سے واپس آئی،تویہاں حالات کچھ اور تھے۔ میرا خاص طور پر کیونکہ کمیونیکیشن سے تعلق ہے تو میں حیران ہو گئی کہ کیسے لوگوں کو رکھا گیا ہے۔ مثلاً جس شخص نے اپنی بیٹی سامعہ سرور کو غیرت کے نام پر قتل کروایا حنا جیلانی کے دفتر میں۔ اس کی خدمات یو این حاصل کر رہا تھا۔ غلام محمد سرور، جو پشاور چیمبر آف کامرس کے صدر بھی تھے۔

ان کی بیگم ایک معروف گائنا کالوجسٹ تھیں۔ بہت امیر گھرانے کے تھے۔ انہوں نے اپنی بیٹی سامعہ سرور کو مروا دیا تھا۔ گن مین گئے تھے حنا جیلانی کے دفتر میں، حنا جیلانی بچ گئی تھیں عین وقت پر وہ جھک گئی تھیں الارم بیل بجانے کے لیے۔ اس شخص کو یواین ڈیویلپمینٹ پروگرام نے Consultation Gender کے لیے اس شخص یعنی غلام محمد سرور کو بلایا تھا۔ اس وقت میں نے خط لکھا تھا اس وقت کے یو این سیکرٹری جنرل کوفی عنان کو۔ میں نے لکھا کہ یہ کیاحماقت ہے۔اور میں نے کہا کہ میں اپنے آپ کو پہلے ایک عورت اورپھر ایک پاکستانی سمجھتی ہوں، یو این کا سفیر ہونا میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ انہی دنوں کولن پاول نے یو این میں ایک بڑی پریزنٹینشن دی کہ ہم Destruction Mass of Weapon کے پیچھے جار ہے ہیں۔ جو بالکل برآمد نہیں ہوئیا۔ لیکن لاکھوں لوگ مروائے گئے۔ امریکی اور نیٹو فورسز کے ہاتھوں،انہوں نے افغانستان پر بھی حملہ کردیا۔ تب میں نے سوچا کہ اگر میں افغانستان کے حالات پر کتاب لکھ رہی ہوں تو میں ،یو این کا حصہ نہیں رہ سکتی۔ میں پابند ہو جاؤں گی، میں پابند نہیں ہو سکتی، سچ پابند نہیں ہو سکتا، تو میں نے خدا حافظ کہہ دیا۔ 

سوال: آپ نے خود بتا یا کہ آپ کی عمر اس وقت 66 سال ہے لیکن آپ کے اندر ابھی تک کام کرنیکاجذبہ برقرار ہے۔ تو کام کرنیکے لیے یہ انرجی کہاں سے آتی ہے۔

جواب: پتہ نہیں کیوں، مجھے کبھی سمجھ نہیں آتی کہ یہ جو عمر ہے کیوں انسان کو تبدیل کر دیتی ہے۔ ہا ں! اب میر ے گھٹنوں میں وہ طاقت نہیں رہی۔ اب میں جب دوڑ لگانے کی کوشش کرتی ہوں تو اس طرح سے دوڑ نہیں لگا پاتی۔ایک زمانے میں ، میں Sprinter تھی۔ میں اور میرے بھائی ابھی بھی ہم ٹریک اینڈ فیلڈ میں امریکن سکول کے ریکارڈ ہولڈرز ہیں۔ لیکن اب ظاہر ہے کہ میں اس طریقے سے تو نہیں دوڑ سکتی۔ لیکن یہ تو ایک جسمانی سرگر می ہے۔ لیکن آپ کی سوچ کیوں بدلے۔ مطلب میرے اندر کا بچہ بہت زندہ ہے۔ اور آئس کریم کا پورا لٹر مجھے دے دیں ، میں ابھی بھی پورا کھا جاؤں گی۔ جس خاتون نے ہمیں پالا، وہ گاؤں کی ایک سکھ خاتون تھیں، ہماری امی کی ساتھی تھیں۔ 65 کی جنگ میں وہ اُجڑکر آئی تھیں، تیج کور نام تھا ان کا۔ ہم انہیں ماسی تیجو کہتے تھے۔ وہ پنجابی میں ایک بات کہا کتی تھیں جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ’بس بندے کو چلتے پھرتے چلے جانا چاہیے‘۔ تو چلتے پھرتے اپنی سو چ بھی برقرار رکھیں، اپنے گوڈے گٹے بھی برقرار رکھیں۔ اور چلتے جائیں۔

سوال: آپ کا انٹرنیشنل تجربہ ہے، یورپین اور امریکی معاشرے میں آپ رہی ہیں اوران کو قریب سے دیکھا ہے۔ ہمارے ملک میں بوجوہ ہر شخص ایک خوف کا شکار ہے۔ ہم اپنے معاشرے کو پرامن کیسے بنا سکتے ہیں؟

جواب: مشکل سوال ہے۔ یہ کوئی فارمولا نہیں ہے کہ اس کو کیسے پرامن بنایا جائے۔ سب سے پہلے تو تشدد کی جڑ دیکھنا ہوتی ہے۔ تجزیہ تبھی کامیاب رہتا ہے جب آپ اپنی ریسرچ کرتے ہیں کہ یہ آیا کہاں سے ہے تو یہ بہت پرانی کہانی ہے۔ ا س خطے میں رہنے والے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں،لیکن اس سے پہلے ہندوستان میں جولوگ اسلام کی طرف مائل ہوئے ، پہلے تو وہ ذات پات کے نظام کا حصہ تھے۔ ذات پات کا نظام ہی ایک تشدد ہے۔ سنسکرت میں کاسٹ کا جو لفظ ہے ، "ورنہ" اس کا مطلب ہے " رنگ" ۔ یعنی رنگت کی بنیاد پر آپ کا نظام تشکیل پایا۔ اور کہا گیا کہ " منو" کا جو سر ہے ، وہ برہمن ہے، " منو" جو ہے وہ God of Origin ہے۔پھراس کے بازو جو ہیں وہ شاید جنگجو ہیں۔ پاؤں جو ہیں وہ شودر ہیں۔

یعنی وہاں کی جو ہزاروں سال پرانی آبادیاں ہیں یعنی دراوڑ ، ان کو شودر بنا دیا گیا۔ جو بنانے والے تھے وہ صاف رنگت والے لوگ تھے جو نہ جانے کہاں سے آ ئے۔ ہندوستان جو اپنے آپ کو سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے، یہ تو مضحکہ خیز بات ہے کہ ابھی بھی وہاں ذات پات کے نظام کے تحت آپ کا داخلہ ہوتا ہے ، یا نہیں ہوتا۔ سب سے پہلے آپ کو اپنے دل کی میل کو صاف کرنا ہے، کیونکہ میں بھی ، آپ بھی، سب کسی نہ کسی پر تشدد کرتے ہیں، چاہے وہ انسان ہو یا جانور ، ہم انفراد ی حیثیت میں ایک معاشرے کا حصہ ہیں۔ معاشرہ ہم سے ہی بنتا ہے، معاشرہ کیسے بہتر ہو گاجب ہم اپنے آپ کو بہتر نہیں کر رہے۔

متعلقہ مضامین

  • ’آپ دوسروں کے خاندان بیچ رہے ہیں‘، رجب بٹ کی ایک بار پھر فہد مصطفیٰ پر تنقید
  • اسٹیبلشمنٹ رابطہ کرتی ہے تو مذاکرات کے لیے جائیں گے، بیرسٹر گوہر
  • کانگریس کسی مسلمان کو پارٹی کا صدر کیوں نہیں بناتی، نریندر مودی کی اپوزیشن پر تنقید
  • سابق کرکٹرز پر تنقید: شعیب اختر نے محمد حفیظ کو ایک بار پھر آڑے ہاتھوں لے لیا
  • نیپرا کو نظرثانی درخواست سے متعلق سخت پالیسی پر تنقید کا سامنا
  • ٹی وی پر جو دکھایا جا رہا ہے وہ معاشرے کو سراسر بگاڑ رہا ہے ، فریال علی گوہر
  • اپوزیشن اپنے لیڈر کیلیے امریکا میں لابنگ کرسکتی ہے تو اسرائیل کیخلاف لابنگ کیوں نہیں کرتی، حافظ نعیم
  • انمول بلوچ کا فلمی دنیا میں قدم رکھنے کا عندیہ شادی کی افواہوں کی بھی وضاحت کر دی
  • وقف بل پر پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر کی خاموشی سے مسلم معاشرے میں غصہ کا ماحول ہے، مایاوتی
  • بالی ووڈ اداکارہ نے سر منڈوا کر روایتی خوبصورتی کے معیار کو چیلنج کر دیا