جنگ بندی ڈیل کے تحت مزید تین یرغمالیوں کی رہائی ہفتے کو
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 31 جنوری 2025ء) غزہ پٹی کے جنگجو گروہ حماس کے نمائندوں نے تصدیق کی ہے کہ مزید تین یرغمالیوں کو اسرائیل کے حوالے کیا جا رہا ہے۔غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے تحت حماس نے یرغمالیوں کی رہائی سے چوبیس گھنٹے قبل اسرائیلی حکام کو مطلع کرنا تھا۔ یرغمالیوں کی آزادی کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید درجنوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق غزہ پٹی میں اب بھی 82 یرغمالی حماس کی حراست میں ہیں۔ جنگ بندی ڈیل کے تحت جمعرات کے دن بھی آٹھ یرغمالیوں کو رہا کیا گیا تھا، جن میں دو جرمن اسرائیلی، ایک اسرائیلی فوجی اور پانچ تھائی مزدور شامل تھے۔
امریکہ، مصر اور قطر کی جانب سے متحارب فریقین کے درمیان ثالثی کی کئی ماہ کی کوششوں کے بعد تین مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی کا معاہدہ جنوری کے وسط میں طے پایا تھا۔
(جاری ہے)
جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں اسرائیلی جیلوں میں قید 1904 فلسطینی قیدیوں کے بدلے غزہ میں قید 33 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی متوقع ہے جبکہ اسرائیلی فوج کو غزہ پٹی کےگنجان آباد علاقوں سے مکمل طور پر نکلنا ہے۔
یورپی یونین کا مانیٹرنگ مشن بحالیورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس نے جمعے کے روز کہا کہ یورپی یونین نے غزہ اور مصر کے درمیان رفح کے مقام پر سرحدی گزرگاہ کی نگرانی کے لیے اپنا سویلین مشن دوبارہ شروع کر دیا ہے۔
کالاس نے پیر کے روز اعلان کیا تھا کہ یونین کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ میں وسیع پیمانے پر اتفاق رائے تھا کہ یورپی یونین کا سرحدی معاونتی مشن (ای یو بی اے ایم) اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کی حمایت میں ''فیصلہ کن کردار‘‘ ادا کر سکتا ہے۔
یورپی یونین کا یہ سویلین سرحدی مشن فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی درخواست پر رفح کراسنگ پر فلسطینی سرحدی اہلکاروں کی مدد کرے گا اور ایسے افراد کو غزہ سے باہر منتقل کرنے کی اجازت دے گا، جنہیں فوری طبی دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔
فلسطینی حکام اور حماس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس کراسنگ کو اب فلسطینی اتھارٹی کے ارکان اور یورپی نمائندگان چلائیں گے۔
یورپی یونین کے ایک سویلین مشن نے سن 2005 میں نگرانی کا یہ کام شروع کیا تھا لیکن حماس کے غزہ پٹی پر قبضے کے نتیجے میں جون سن 2007 میں اسے معطل کر دیا گیا تھا۔
ادارے یو این آر ڈبلیو اے پر پابندی پر عالمی تشویشبرطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کے فلسطینیوں کے لیے امدادی ادارے یو این آر ڈبلیو اے پر پابندی پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیلی حکومت نے ایک قانون کے تحت اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے کے ساتھ کسی بھی قسم کے رابطے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ ادارہ غزہ میں امدادی کاموں کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دیا جاتا ہے۔
ان تینوں یورپی ممالک کی طرف سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے، ''ہم اسرائیلی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرے تاکہ امدادی کارروائیوں کے تسلسل کو یقینی بنایا جا سکے۔
‘‘یو این آر ڈبلیو اے پر پابندی عائد کرنے کا متنازعہ قانون اسرائیلی پارلیمان میں گزشتہ اکتوبر میں منظور کیا گیا تھا، جس پر عملدرآمد جمعرات 30 جنوری سے شروع ہوا۔
اس قانون کی بنا پر اب اسرائیلی حکام اس ایجنسی کے ساتھ کسی بھی طرح کی رابطہ کاری نہیں کر سکیں گے۔
اسرائیلی حکام نے یو این آر ڈبلیو اے کے کچھ ملازمین پر حماس کے سات اکتوبر 2023 کے دہشت گردانہ حملے میں ملوث ہونے اور اس فلسطینی عسکریت پسند گروپ کے ارکان ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
سن 1949 میں قائم کی جانے والی اقوام متحدہ کی ایجسنی یو این آر ڈبلیو اے فلسطینی علاقوں اور ہمسایہ عرب ممالک شام، لبنان اور اردن میں لاکھوں فلسطینیوں کو امداد، صحت اور تعلیم کی خدمات فراہم کرتی ہے۔
یہ تنازعہ کب اور کیسے شروع ہوا؟سات اکتوبر 2023ء کو حماس کے عسکریت پسندوں نے غزہ پٹی سے اسرائیلی سرزمین میں داخل ہو کر اچانک ایک دہشت گردانہ حملہ کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں تقریباﹰ 1200 افراد مارے گئے تھے جبکہ یہ جنگجو 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی بھی لے گئے تھے۔
اس دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں حماس کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے خصوصی عسکری آپریشن شروع کر دیا تھا، جو حالیہ سیز فائر تک جاری رہا۔
غزہ پٹی میں حماس کے طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دوران اب تک مجموعی ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 47 ہزار چار سو ساٹھ ہو چکی ہے، جن میں بہت بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی تھی۔
ع ب/ع ت، م م (ڈی پی اے، اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یرغمالیوں کی اقوام متحدہ یورپی یونین پر پابندی حماس کے غزہ پٹی کے تحت کر دیا
پڑھیں:
حماس کی جانب سے صہیونی قیدیوں کی رہائی کے لیے شرائط
حماس کے ایک رہنما نے کہا کہ تحریک کا مسئلہ رہا کیے جانے والے قیدیوں کی تعداد نہیں ہے، بلکہ اسرائیل کا جنگ روکنے کے عزم کا فقدان ہے۔ اسلام ٹائمز۔ حماس کے ایک رہنما نے کہا ہے کہ اس تحریک کو قیدیوں کی تعداد سے کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ اصل مسئلہ اسرائیل کی جنگ روکنے کے وعدے پر عدم عملدرآمد ہے۔ فارس نیوز کے مطابق، فلسطینی حماس کے رہنما طاہر النونو نے آج ہفتہ کے روز اعلان کیا کہ فلسطینی مزاحمت تمام صہیونی قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ غزہ میں جنگ بند ہو اور تعمیر نو کا عمل شروع کیا جائے۔ النونو نے مزید کہا کہ صہیونی حکومت صرف اپنے قیدیوں کی رہائی کی کوشش کر رہی ہے، لیکن جنگ بندی کے معاہدے پر عمل نہیں کرنا چاہتی۔ کچھ گھنٹے قبل حماس کے عسکری ونگ، شہید عزالدین قسام بریگیڈز نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں ایک امریکی شہریت رکھنے والا صہیونی قیدی عیدان الکساندر نظر آتا ہے۔
اس قیدی نے ویڈیو میں کہا کہ تین ہفتے پہلے اسے معلوم ہوا کہ حماس اسے رہا کرنے کو تیار ہے لیکن نیتنیاہو کی کابینہ نے اس پیشکش کو رد کر دیا اور ہمیں تنہا چھوڑ دیا۔ عیدان الکساندر نے مزید کہا کہ میں روزانہ دیکھتا ہوں کہ نیتنیاہو نے اسرائیل کو ایک آمریت میں بدل دیا ہے۔ اسرائیلی عوام، نیتنیاہو کی کابینہ، امریکی حکومت اور اسرائیلی فوج – سب نے مجھ سے جھوٹ بولا۔ اس قیدی نے ٹرمپ سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں یقین رکھتا تھا کہ تم مجھے زندہ یہاں سے نکالنے میں کامیاب ہو جاؤ گے، لیکن اب سمجھ گیا ہوں کہ تم نیتنیاہو کے جھوٹ میں کیسے پھنسے۔ اس نے اسرائیل میں ہونے والے بے نتیجہ مظاہروں کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ روز بروز دیکھتے ہیں کہ جنگی طیاروں کی بمباری ہم سے قریب تر ہوتی جا رہی ہے، جو کہ انتہائی مشکل صورت حال ہے۔
النونو نے غزہ پٹی کی حکمرانی کے بارے میں بھی کہا کہ یہ ایک فلسطینی داخلی مسئلہ ہے اور ہم کسی بھی بیرونی طاقت کی موجودگی کو قبول نہیں کریں گے۔ حماس کے اس رہنما نے مزاحمتی ہتھیاروں کو غیر قابلِ گفتوگو قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب تک اسرائیلی قبضہ جاری ہے، یہ ہتھیار مزاحمت کے پاس رہیں گے۔ النونو نے آخر میں کہا کہ حماس کا مسئلہ قیدیوں کی تعداد نہیں، بلکہ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کے وعدے پر عمل نہ کرنا ہے۔