Islam Times:
2025-01-31@15:02:07 GMT

غزہ جنگ بندی، فتح و شکست کے مابین کشمکش

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

غزہ جنگ بندی، فتح و شکست کے مابین کشمکش

اسلام ٹائمز: رہائی کے وقت اسرائیلی خواتین کے چہروں کے تاثرات قابل ملاحظہ تھے۔ انکے چہرے پر خوف کا شائبہ تک نہیں تھا۔ حماس نے انکی رہائی سے کچھ ہی دیر بعد ایک ویڈیو بھی جاری کیا، جس میں چاروں خواتین عربی میں سلام کر رہی تھیں اور القسام کے جنگجوئوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ انہوں نے ہمیں باحفاظت رکھا اور اچھا سلوک کیا۔ یہی حماس کی کامیابی کی بڑی دلیل ہے۔ اسرائیلی جیلوں سے رہا شدہ افراد میں کسی نے اسکے فوجیوں کے حسن سلوک کی ستائش نہیں کی۔ اس سے نام نہاد امن پسند اسرائیل اور انکے درمیان دنیا جنہیں دہشتگرد کہہ رہی ہے، بنیادی فرق کیا ہے، یہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ اسرائیل جو پہلے حزب اللہ سے جنگ بندی پر مجبور ہوا اور اب حماس کیساتھ مذاکرات کی میز پر ہے، اسکی واضح شکست کا اعلان ہے۔ اس جنگ میں غزہ کے عوام نے جس استقامت اور بہادری کا مظاہرہ کیا، دنیا میں کم ہی اسکی نظیر ملے گی۔ انکے صبر اور حوصلے کو سلام کرنا چاہیئے۔ تحریر: عادل فراز
adilfarazlko@gmail.

com

غزہ میں جنگ بندی کا پہلا مرحلہ تیسرے ہفتے میں داخل ہوچکا ہے۔ انیس جنوری سے جنگ بندی کا آغاز ہوا۔ اس کے نفاذ کے پہلے دن اسرائیل نے خوب جارحیت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ انہیں اب تک حماس کی طرف سے رہا ہونے والے قیدیوں کی فہرست نہیں ملی۔ لہذا اسرائیل نے صبح ۹ بجے حملے بند کرنے کے بجائے گیارہ بجے دن تک جاری رکھے۔ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 42 دنوں پر محیط ہے۔ اسرائیلی فوجی رہائشی علاقوں سے نکل کر سرحدوں تک محدود ہو جائیں گے اور اہل غزہ کو اپنے گھروں کو لوٹنے کی اجازت ہوگی۔ اس دوران حماس اسرائیلی قیدی خواتین کو رہا کرے گا، جن میں خاتون فوجی، کچھ بچے، بوڑھے اور بیمار شامل ہیں، جن کی تعداد 33 ہوگی۔ ان کے بدلے اسرائیل تقریباً اُنیس سو فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ پہلے مرحلے کی جنگ بندی سولہ دنوں تک جاری رہے گی اور اس کے بعد دوسرے مرحلے کے لئے مذاکرات شروع ہوں گے۔ اس طرح یہ جنگ بندی تین مرحلے طے کرے گی اور ہر مرحلے کی شرائط مختلف ہوں گی۔

حماس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے نے نتن یاہو کو غلط ثابت کر دیا، جو مسلسل یہ کہہ رہے تھے کہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک حماس کا صفایا نہیں ہو جائے گا۔ جس حماس کے صفائے کے لئے وہ غزہ کو جہنم بنا رہے تھے، آج اسی حماس کے ساتھ مذاکرات کے لئے مجبور ہیں۔ نائب امریکی صدر کملا ہیرس اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اس معاہدے تک پہنچنا "آسان نہیں تھا اور ان کے تجربے کے مطابق یہ سب سے مشکل مذاکرات میں سے ایک تھے۔" البتہ جنگ بندی کے باوجود اسرائیل نے مغربی کنارے پر حملے شروع کر دیئے ہیں، جس سے اس کی نیت کا فتور سامنے آتا ہے۔ مسلم حکمرانوں نے فلسطین کی آزادی، قبلہ اول کی بازیابی اور غزہ کے تحفظ کے لئے کوئی مؤثر قدم اٹھایا یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے، مگر جنگ بندی میں وہ امریکہ کے ساتھ بطور ثالث شریک ہیں۔ قطر اور مصر سمیت پچاس سے زائد مسلم ملک مل کر غزہ کے عوام تک امدادی سامان کی ترسیل کے لئے رفح کراسنگ کو نہیں کھلوا سکے۔

نہ جانے کتنے بچے، بوڑھے اور بے گھر سردی کی شدت، غذا اور دوائوں کی قلت سے دم توڑ گئے، مگر مسلم حکمران خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے۔ اب یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ مسئلۂ فلسطین پر مسلم حکمرانوں کا موقف کیا ہوگا۔ آیا وہ قبلۂ اول کی بازیابی اور فلسطین کی آزادی کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھانے کی ہمت کرسکیں گے یا نہیں، جس کو حماس نے خون دے کر زندہ کیا ہے۔ جنگ بندی کے پہلے مرحلہ مصر، قطر اور امریکہ کی ثالثی میں کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ 25 جنوری کو حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔ حماس نے چار فوجی خواتین کو رہا کرکے ہلال احمر کے حوالے کر دیا۔ اس کے عوض میں اسرائیل نے مختلف جیلوں سے دو سو فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا۔ معاہدے کے تحت ہر اسرائیلی قیدی کے بدلے پچاس فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، جن میں تیس قیدی ایسے ہوں گے، جو اسرائیلی جیلوں میں عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔ یہ معاہدہ کئی مرحلوں میں اختتام کو پہنچے گا۔

القسام بریگیڈ اور ہلال احمر (ریڈ کراس) آرگنائزیشن کے اہلکاروں نے اسکوائر میں لگائے گئے ایک اسٹیج پر قیدیوں کے تبادلے سے متعلق دستاویزات پر دستخط کئے۔ اسرائیلی حکام نے حماس کو انتباہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اگر اسرائیلی خاتون اربیل کی رہائی نہیں ہوئی تو یہ معاہدہ منسوخ کر دیا جائے گا۔ اب جبکہ معاہدے کے تیسرے مرحلے میں اربیل کو رہا کر دیا گیا ہے تو اس معاہدے کے استحکام کی امیدیں مزید بڑھ گئی ہیں، جبکہ نتین یاہو نے معاہدے کے وقت حماس کو دھمکاتے ہوئے کہا تھا کہ: "اگر ہمیں ضرورت محسوس ہوئی تو ہم دوبارہ جنگ شروع کریں گے اور نئے طریقے تلاش کریں گے۔‘‘ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ نتن یاہو کا جنگی جنون ابھی کم نہیں ہوا۔ وہ جنگ بندی پر راضی نہیں بلکہ مجبور ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی کنارے پر اسرائیلی فوجیں مسلسل حملے کر رہی ہیں، جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔

ڈونالڈ ٹرمپ کی امریکی صدارتی الیکشن میں فتح کے بعد غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ زور و شور سے کیا گیا۔ ٹرمپ نے حماس کو بھی دھمکایا اور مسلم حکمرانوں کو جنگ بندی میں پیش رفت کا حکم بھی دیا۔ ٹرمپ نے فتح سے پہلے اور بعد میں حماس کو مسلسل کو دھمکاتے ہوئے کہا کہ اگر ان کی حلف برداری تک قیدیوں کو رہا نہیں کیا گیا تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے جنگ بندی کی کوشش جوبائیڈن بھی کرچکے تھے، مگر انہیں کامیابی نہیں ملی۔ حماس کے ساتھ مسلسل مذاکرات ہو رہے تھے، مگر معاہدے کی شرائط پر طرفین راضی نہیں ہوئے، جس کی بنا پر جوبائیڈن کے زمانۂ اقتدار میں جنگ بندی ممکن نہیں ہوسکی۔ مگر جیسے ہی ٹرمپ فتح یاب ہوئے، جنگ بندی کی شرائط پر طرفین نے اتفاق رائے کا اظہار کر دیا۔ اس سے یہ تو ظاہر ہو جاتا ہے کہ عالمی سطح پر ڈونالڈ ٹرمپ کی کتنی اہمیت ہے، کیونکہ ٹرمپ استعماری اور استکباری نظام کے رکن ہیں اور اسی نظام کے افراد نے انہیں صدارتی انتخاب میں کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لئے جی توڑ کوشش کی تھی، اس لئے اسرائیل بھی ان کے فیصلے کے خلاف نہیں جاسکتا۔

دوسری طرف ٹرمپ صہیونی مفاد کے محافظ رہے ہیں اور "صدی معاہدہ" کا مسودہ انہیں کے دور اقتدار میں پیش کیا گیا تھا۔ یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت منوانے کے لئے ٹرمپ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا اور مسلم حکمرانوں کو بھی مسئلہ فلسطین پر اپنے موقف کا حامی بنا لیا تھا۔ اس پر ان کا داماد جارڈ کشنز ایک صہیونی سرمایہ کار ہے، جس نے "صدی معاہدہ" تشکیل دیا تھا۔ اس لئے صہیونی ٹرمپ کو ہرگز ناراض نہیں کرسکتے۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ امریکہ نے 7 اکتوبر2023ء طوفان الاقصیٰ کے بعد اسرائیل کی ہر سطح پر مدد کی اور لاکھوں ڈالر کی امداد پہنچائی۔ اب جبکہ ٹرمپ اقتدار میں آگئے ہیں تو اس امداد میں مزید اضافے کا امکان ہے، لہذا ٹرمپ کو خفا کرکے اسرائیل کبھی اس جنگ میں کھڑا نہیں رہ سکتا۔

جنگ بندی پر حماس کا راضی ہونا تعجب خیز نہیں ہے۔ انہوں نے دشمن سے اپنی شرائط منوائیں۔ معاہدے کی میز پر حماس فتح یاب تھا اور اسرائیل مسلسل ناکامیوں کا شکار۔ طوفان الاقصیٰ کے بعد غزہ پر حملے کے وقت نتن یاہو نے جتنے بلند بانگ دعوے کئے تھے، سب ہوائی ثابت ہوئے۔ حماس جس کو ختم کرنے کے لئے غزہ کو ملبے میں بدل دیا گیا، اب بھی اپنی پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے۔ اسرائیل دعویٰ کر رہا ہے کہ اس نے حماس کے بیس ہزار جنگجوئوں کو مارا ہے۔ دوسری طرف حماس مزید بیس ہزار نئے جنگجوئوں کی بھرتی کی تصدیق کرچکا ہے۔ جنگ میں فوجیوں کا مرنا کوئی نئی بات نہیں۔ شہادتیں مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ بغیر شہادتوں کے انقلاب کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوتے۔ لہذا حماس نے بیس ہزار شہید دیئے ہوں یا اس سے کچھ کم، اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ حماس نے اسرائیل کو گھٹنوں پر جھکا دیا ہے اور معاہدے کی میز پر فتح یاب ہے۔ اس کے بعد غزہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنا حماس کا اگلا ہدف ہوگا۔ کیونکہ غزہ سے دست بردار ہوکر یہ جنگ ہرگز جیتی نہیں جاسکتی۔

رہائی کے وقت اسرائیلی خواتین کے چہروں کے تاثرات قابل ملاحظہ تھے۔ ان کے چہرے پر خوف کا شائبہ تک نہیں تھا۔ حماس نے ان کی رہائی سے کچھ ہی دیر بعد ایک ویڈیو بھی جاری کیا، جس میں چاروں خواتین عربی میں سلام کر رہی تھیں اور القسام کے جنگجوئوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ انہوں نے ہمیں باحفاظت رکھا اور اچھا سلوک کیا۔ یہی حماس کی کامیابی کی بڑی دلیل ہے۔ اسرائیلی جیلوں سے رہا شدہ افراد میں کسی نے اس کے فوجیوں کے حسن سلوک کی ستائش نہیں کی۔ اس سے نام نہاد امن پسند اسرائیل اور ان کے درمیان دنیا جنہیں دہشت گرد کہہ رہی ہے، بنیادی فرق کیا ہے، یہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ اسرائیل جو پہلے حزب اللہ سے جنگ بندی پر مجبور ہوا اور اب حماس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر ہے، اس کی واضح شکست کا اعلان ہے۔ اس جنگ میں غزہ کے عوام نے جس استقامت اور بہادری کا مظاہرہ کیا، دنیا میں کم ہی اس کی نظیر ملے گی۔ ان کے صبر اور حوصلے کو سلام کرنا چاہیئے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: قیدیوں کو رہا حماس کے ساتھ جنگ بندی کا اسرائیل نے معاہدے کے کی میز پر کو رہا کر رہی تھیں ظاہر ہو حماس کو حماس کی سلام کر کہہ رہی سلوک کی غزہ کے کے وقت کر دیا کے لئے کے بعد اور اس

پڑھیں:

غزہ میں جنگ بندی فلسطینیوں کی مزاحمت کی فتح ہے‘سراج الحق

لاہو ر (نمائندہ جسارت)سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی فلسطینیوں کی مزاحمت کی فتح ہے ،صیہونی فوج حماس کو ختم کرنا چاہتی تھی، بالآخر اسی حماس سے معاہدہ کر کے اسرائیل کو پوری دنیا میں ندامت کا سامنا کرناپڑا۔ انھوں نے کہا کہ امریکی صدر کے اس احمقانہ بیان کی مذمت
کرتے ہیں کہ جس میں انھوں نے کہا کہ فلسطینی غزہ کو خالی کریں اور کسی اور جگہ آباد ہو جائیں، یہ دراصل صہیونیت کا غزہ پر قبضے کا سازشی ایجنڈا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ جس قوم نے 15 ماہ امریکا کی سرپرستی میں قابض اسرائیل کا مقابلہ کیا وہ خود اس کو بہتر بنا سکتے ہیں،مسلم حکمران اب غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بھائیوں کی مدد کریں اور غزہ کی تعمیر نو میں حصہ لیں۔ ان خیالات کا اظہار سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے فرینڈز آف فلسطین کے ڈائریکٹر بلال اسطل سے ان کے دفتر میں ملاقات کے موقع پر گفتگوکرتے ہوئے کہا۔سراج الحق نے کہا کہ فلسطینی عوام کی جرأت و بہادری کو سلام پیش کرتے ہیں، غزہ میں فلسطینی عوام نے اسرائیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، ہم ان بہادر ماؤں کو بھی سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے امت مسلمہ کو بہادر سپوت دیے، اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں46 ہزار سے زاید فلسطینی شہید ہوئے، ایک لاکھ 10 ہزار 265 زخمی ہوئے، ہزاروں بچے اور خواتین بھی اسرائیل کی درندگی کا نشانہ بنے، لیکن ان کے حوصلے بلند رہے ۔فلسطینی عوام کے ساتھ جماعت اسلامی شانہ بشانہ کھڑی ہے اور ان کی قربانی کو سلام پیش کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جنگ بندی ڈیل کے تحت مزید تین یرغمالیوں کی رہائی ہفتے کو
  • غزہ جنگ بندی، حماس نے 5تھائی باشندوں سمیت 8یرغمالی رہا کردیے
  • غزہ جنگ بندی: حماس نے اسرائیل کی خاتون فوجی اہلکار کو رہا کردیا
  • امریکی ایلچی کی جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد اور اگلے مرحلے پر اسرائیل سے بات چیت
  • امریکی خصوصی ایلچی کا دورۂ اسرائیل؛ جنگ بندی معاہدے پر تبادلۂ خیال ہوگا
  • آیت اللہ خامنہ ای نے غزہ جنگ بندی کو اسرائیل کی شکست قرار دے دیا
  • غزہ میں جنگ بندی فلسطینیوں کی مزاحمت کی فتح ہے‘سراج الحق
  •  افغانستان کے بعد غزہ میں اسرائیل کی شکست بھی دراصل امریکہ کی ہی شکست ہے، حافظ نعیم الرحمن 
  • غزہ پٹی کے مستقبل کی منصوبہ بندی کا وقت آ چکا، چانسلر شولس