کیا سیف پر حملہ پکڑے جانے والے شخص نے کیا؟ ٹیکنالوجی نے معاملہ صاف کردیا
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
بالی ووڈ کے چھوٹے نواب اداکار سیف علی خان کے حملے کے کیس میں فیشل ریکگنیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے تصدیق کی گئی ہے کہ گرفتار ملزم، محمد شرف الاسلام، وہی شخص ہے جو جائے وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آ رہا تھا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق 16 جنوری کی صبح اسلام نے ممبئی کے علاقے باندرہ میں واقع سیف علی خان کی رہائش گاہ میں داخل ہو کر چوری کی نیت سے حملہ کیا۔ مزاحمت پر، ملزم نے اداکار کو چھ بار چاقو سے زخمی کیا اور فرار ہوگیا۔
سیف علی خان کو فوری طور پر لیلاوتی اسپتال لے جایا گیا، جہاں ان کی ایمرجنسی سرجری کی گئی۔ ایک زخم ریڑھ کی ہڈی کے قریب لگنے سے ان کے اسپائنل فلوئڈ میں رساؤ ہوا۔ پانچ دن اسپتال میں رہنے کے بعد انہیں چھٹی دے دی گئی۔
پولیس نے 19 جنوری کو شرف الاسلام کو ممبئی سے گرفتار کیا۔ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے شرف الاسلام کے والد محمد روح الامین نے دعویٰ کیا کہ ان کا بیٹا سیاسی وجوہات کی بنا پر ملک چھوڑنے پر مجبور ہوا۔ جبکہ پولیس نے اس کے بنگلہ دیشی شہریت کے دستاویزات بھی برآمد کیے تھے۔
عدالت نے پولیس کی مزید حراست کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ملزم کو عدالتی ریمانڈ پر بھیج دیا۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور دیگر شواہد ملزم کے جرم میں ملوث ہونے کو ثابت کرتے ہیں جبکہ اب میں فیشل ریکگنیشن ٹیکنالوجی سے اس بات کی بھی تصدیق ہوگئی ہے کہ سی سی ٹی وی میں موجود شخص وہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کراچی اسٹیڈیم کی خالی کرسیاں: ارسلان نصیر نے انوکھا حل پیش کردیا
کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہونے والے پی ایس ایل کے میچوں میں خالی کرسیاں اب ایک معمول بن چکی ہیں۔ حالیہ کراچی کنگز اور ملتان سلطانز کے درمیان کھیلے گئے ہائی وولٹیج میچ میں بھی یہی منظر دیکھنے کو ملا۔
سوال یہ ہے کہ آخر کراچی کے تین کروڑ شہری اپنی ہی ٹیم کے میچ دیکھنے اسٹیڈیم کیوں نہیں آتے؟
معروف کانٹینٹ کری ایٹر ارسلان نصیر نے اس مسئلے کا ایک انوکھا حل پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگر اسٹیڈیم میں ’جیتو پاکستان‘ کی طرز پر تین موٹرسائیکلیں رکھ دی جائیں، تو گراؤنڈ کھچاکھچ بھرجائے گا۔‘‘ یہ بات انہوں نے اپنے مخصوص طنزیہ انداز میں کہی، لیکن اس میں ایک کڑوا سچ بھی چھپا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کراچی والے انعامات والے شوز کےلیے تو قطار میں لگ جاتے ہیں، لیکن اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے اسٹیڈیم نہیں آتے۔ حالانکہ اس بار چیمپئنز ٹرافی کے دوران روڈ بند کرنے کی پابندی ختم کردی گئی تھی اور پارکنگ کی بھی مناسب سہولت فراہم کی گئی تھی، مگر یہ سب کچھ بے سود ثابت ہوا۔
ارسلان نصیر کی یہ تجویز دراصل کراچی کے کرکٹ شائقین کے رویے پر ایک طنز ہے۔ کیا واقعی ہمیں اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے کے لیے موٹرسائیکل جیتنے کا لالچ چاہیے؟ یا پھر ہمیں اپنے اس رویے پر نظرثانی کرنی چاہیے؟ فی الحال تو صورتحال یہی ہے کہ کراچی والے گھر بیٹھے چھوٹی اسکرین پر میچ دیکھنا ہی ترجیح دیتے ہیں، چاہے اسٹیڈیم میں ان کی اپنی ٹیم کھیل رہی ہو!