غزہ کی تباہی، مظالم، انصاف اور بحالی کے چیلنجز
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
(گزشتہ سےپیوستہ)
وہ پڑھائی میں بہت اچھی تھی اورہمیشہ سب کابھلاچاہتی تھی‘‘۔جب اس علاقے میں جنگ بندی ہوئی تولیناالدبیع وہاں موجوداپنے رشتہ داروں کواپنی بیٹی کی قبردیکھنے کوکہااوروہاں سے انہیں جوخبرملی وہ دِل دہلادینے والی تھی۔’’ہمیں بتایاگیاکہ اس کاسرکہیں اور ہے،دھڑکہیں دوسری جگہ اورپسلیاں کہیں اور جو عزیز اس کی قبردیکھنے گئے تھے انہوں نے ہمیں یہ سب چیزیں تصویروں میں دکھائیں۔جب میں نے اسے دیکھا تو میں سمجھ ہی نہیں پائی کہ اس کاجسم قبرسے کیسے باہرآیا اورکتوں نے اسے کیسے کھالیا؟میں اپنے حواس پرقابو نہیں پاسکی‘‘۔ لیناالبدیح کے خاندان والوں نے ان کی بیٹی کی ہڈیاں سمیٹ لی ہیں اوراب آیاکی باقیات کوباقاعدہ ایک قبرمیں دفن کیاجائے گا۔
غزہ میں جنگ بندی توہوگئی ہے لیکن لیناالبدیح کے دکھ کاکوئی اختتام نہیں نظرآتا۔ان کاکہناہے کہ:میں اس کی لاش کوقبرسے نکال کراپنے ساتھ نہیں لے جاسکتی تھی۔بتامیں اسے کہاں لے کرجاتی؟تاہم اس حقیقت کوتسلیم کرناپڑرہاہے کہ پچھلے کئی مہینوں سے یہ لاشیں یہاں پڑی ہوئی ہیں لیکن سال سے زائدبے گوروکفن لاشوں کی سڑاندکی بدبوکی بجائے یہاں ایک عجیب قسم کی خوشبو دل وجاں کومعطرکررہی ہے۔یہ شہداء سے رب کاوعدہ پور ا ہو گیا ہے۔یہ سب کچھ نہ صرف غزہ کے عوام بلکہ پوری انسانیت کے لئے ایک کرب ناک منظر پیش کرتاہے۔بے گھرافراد، یتیم بچے،اورزخمی معذورافراد ان مظالم کاجیتاجاگتا ثبوت ہیں۔سوال یہ ہے کہ ان مظلوموں کوانصاف کب ملے گا؟
اس جنگ کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں۔نہتے عوام پربمباری، طبی مراکزاوراسکولوں کی تباہی،اورمعصوم بچوں کی ہلاکتیں ان مظالم کامحض ایک حصہ ہیں۔انسانی حقوق کے علمبرداروں اورعالمی برادری کی خاموشی نے مزید سوالات کو جنم دیا ہے۔اقوامِ متحدہ،یورپی یونین اوردیگربین الاقوامی ادارے اس جنگ میں غزہ کے عوام کوتحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔یہ خاموشی مظلوموں کی تکالیف میں اضافے کاباعث بنی اورجنگ کے بعدکے حالات نے ان کے زخموں پر مزید نمک چھڑک دیا ۔
اس انسانی المیے کے پیچھے براہ راست اور بالواسطہ کئی عناصرذمہ دارہیں۔سب سے پہلے،ان ظالم عناصر کو دیکھناہوگاجواس تباہی کے ذمہ دارہیں۔ جدید ترین اسلحے کے استعمال، شہری آبادیوں پرحملوں اور معصوم جانوں کے قتل میں ملوث افراداورریاستیں انصاف کے کٹہرے میں لائی جانی چاہئیں۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی طاقتورممالک،جوخودکو انسانی حقوق کے محافظ کہتے ہیں، درپردہ ان مظالم کے مرتکب افرادکو اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔
یہ ممالک نہ صرف غزہ کے عوام کے خلاف ہونے والے جرائم پرخاموش رہتے ہیں بلکہ ظالم قوتوں کومالی اورعسکری مدد فراہم کرتے ہیں۔ان کی اسلحہ سپلائی اورسیاسی حمایت نہ صرف ان مظالم کوجاری رکھنے کاسبب بنتی ہے بلکہ انصاف کے قیام میں بھی رکاوٹ پیداکرتی ہے۔خودکودنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کہنے والا انڈیا تواس سفاکی میں برابرکاشریک رہا کہ اس نے باقاعدہ اپنے لوگوں کواسرائیلی فوج میں کرائے کے سپاہیوں کے طورپربھیجاجنہوں نے اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی عورتوں، بزرگوں اوربچوں کوہولناک طریقے سے مارنے میں پوراحصہ لیا۔یہ رویہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کومزیدہوادیتا ہے اورمظلوموں کے زخموں کوگہراکرتاہے۔
غزہ کے ملبے کوہٹانااوردوبارہ آبادکاری ایک بڑاچیلنج ہے،جس کے لئے ماہرین نے مختلف پہلوؤں پرزوردیاہے۔ماہرین کاکہنا ہے کہ ملبے کوہٹانے کے دوران ماحولیاتی اثرات کا خاص خیال رکھنا ہو گا۔ ملبے میں موجود خطرناک مواد،جیسے ایسبیسٹوس اوردیگر زہریلے اجزا،کومحفوظ طریقے سے ٹھکانے لگاناضروری ہے تاکہ عوام کی صحت پرمنفی اثرات نہ پڑیں۔ تعمیرنوکے عمل میں مقامی مواداورکاریگروں کااستعمال نہ صرف اقتصادی طورپرفائدہ مندہوگابلکہ اس سے روزگارکے مواقع بھی پیداہوں گے۔ماہرین کے مطابق غزہ کی مکمل بحالی کے لئے اربوں ڈالرزدرکارہوں گے۔50ہزارملین ٹن سے زائدملبہ ہٹانے کے لئے کئی دہائیوں کا وقت لگ سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ اوردیگربین الاقوامی امدادی ادارے اس حوالے سے اہم کرداراداکرسکتے ہیں لیکن ان کے موجودہ روئیے سے امیدکم ہے۔عالمی مالیاتی ادارے اور مسلم ممالک کواس بحران کے حل کے لئے خصوصی فنڈقائم کرناہوگا۔
جنگ کے متاثرین کی نفسیاتی بحالی بھی تعمیرنو کااہم حصہ ہے۔ماہرین تجویزکرتے ہیں کہ ایسے مراکز قائم کئے جائیں جہاں متاثرین کونفسیاتی معاونت فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنی زندگی کودوبارہ معمول پرلا سکیں۔جنگ کے نتیجے میں تمام اسکول اور ہسپتال تباہ ہوچکے ہیں۔ بچوں کی تعلیم اورصحت کی بحالی کے لئے ہنگامی بنیادوں پرکام کرنے کی ضرورت ہے۔ موبائل سکول اور عارضی طبی مراکزکاقیام اس وقت کی اہم ضرورت ہے۔ماہرین کا مانناہے کہ تعمیرنوکاعمل محض عمارتیں کھڑی کرنے تک محدودنہیں ہوناچاہیے بلکہ اسے ایک طویل مدتی منصوبہ بندی کے تحت کیاجاناچاہیے،جس میں تعلیم،صحت اور معیشت کی بحالی شامل ہو۔
غزہ کے عوام کے لئے انصاف کی فراہمی ایک مشکل لیکن ضروری عمل ہے۔جنگ کے دوران ہونے والے جرائم کی تحقیقات اور ذمہ داران کوکٹہرے میں لاناانتہائی اہم ہے۔جنگی جرائم کے مرتکب افرادکو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے عالمی سطح پرایک مضبوط اورغیر جانبدارنظام کی ضرورت ہے لیکن یہ عمل کئی چیلنجز سے گھراہواہے۔طاقتورممالک کے سیاسی مفادات، اقوامِ متحدہ کی کمزورحیثیت،اورانصاف کے عمل میں سست روی جیسے عوامل انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ان مظالم کی روک تھام اورغزہ کے عوام کو ایک محفوظ مستقبل دینے کے لئے ہمیں درج ذیل اقدامات پر غور کرنا ہوگا۔
پہلا کام عالمی برادری اس بات کویقینی بنائے کہ جنگ کے دوران ہونے والے مظالم کی شفاف تحقیقات ہوں اورجنگی جرائم کے مرتکب افرادکوسزادی جائے۔یہ اقوامِ متحدہ اوردیگر عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف کے عمل کویقینی بنائیں۔
دوسراکام جنگ کے بعدغزہ کی تعمیرنو اور متاثرین کی بحالی کے لئے عالمی سطح پرہنگامی بنیادوں پر امدادی سرگرمیوں کاآغازہونا چاہیے۔ بے گھرافراد کو رہائش فراہم کی جائے،اور صحت، تعلیم،اوربنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
اس جنگ کابنیادی مسئلہ فلسطین اوراسرائیل کے درمیان جاری تنازع ہے۔جب تک اس تنازع کومستقل طورپرحل نہیں کیاجاتا،جنگ اورخونریزی کایہ سلسلہ جاری رہے گا۔
عالمی رہنماؤں کواس مسئلے کے پائیدارحل کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔دنیابھر کے عوام کوغزہ میں ہونے والے مظالم کے بارے میں شعور دینا ضروری ہے۔
میڈیا کواپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ان مظالم کودنیا کے سامنے لاناہوگاتاکہ عوامی دبائوعالمی برادری کوحرکت میں لاسکے۔مسلم دنیاکومتحدہوکر فلسطین کے مسئلے کوعالمی سطح پراجاگر کرنا ہوگا۔یہ اتحاد نہ صرف سیاسی بلکہ اقتصادی اورسفارتی سطح پربھی ضروری ہے تاکہ عالمی برادری کواس مسئلے کے حل کی طرف راغب کیاجاسکے۔
غزہ کے عوام کی حالت زاراورجنگ کے بعد کے مناظرہمیں انسانی حقوق،انصاف، اور عالمی ضمیرکے حوالے سے کئی سوالات پر غورکرنے کی دعوت دیتے ہیں۔یہ وقت ہے کہ عالمی برادری اس ناانصافی کے خلاف متحدہواورایک مضبوط اورمؤثر لائحہ عمل اختیارکرے تاکہ مستقبل میں ایسے مظالم کی روک تھام ہوسکے۔
انصاف کی فراہمی صرف ایک اخلاقی ضرورت نہیں بلکہ انسانی وقاراورامن کے قیام کی بنیاد ہے۔ جب تک غزہ کے مظلوموں کوانصاف نہیں ملتا،عالمی امن کاخواب شرمندہ تعبیرنہیں ہو سکتا۔ہمیں مل کران مظالم کے خاتمے کیلئے جدوجہدکرنی ہوگی تاکہ آنے والی نسلیں ایک پرامن اورمحفوظ دنیامیں جی سکیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: عالمی برادری غزہ کے عوام ہونے والے کے دوران انصاف کے بحالی کے ان مظالم جنگ کے کے لئے
پڑھیں:
برطانیہ کے لیے پی آئی اے کی پروازوں کی بحالی سے پاکستان کو کتنا فائدہ پہنچے گا؟
پی آئی اے کی پروازوں کی بحالی کے لیے برطانیہ کی ایوی ایشن آڈٹ ٹیم پاکستان میں ہے اس ٹیم میں برطانیہ کے محکمہ ٹرانسپورٹ اور سول ایوی ایشن کے حکام شامل ہیں جو 6 فروری تک پی آئی اے سمیت پاکستان کی بین الاقوامی ایئرلائنز کی جانب سے پروازوں کی بحالی کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا آڈٹ کرے گی۔
ترجمان پی آئی اے عبداللہ حفیظ خان نے وی نیوز کو بتایا ہے کہ اس وقت برطانوی ٹیم کا جائزہ 6 فروری تک جاری رہے گا، جس کے بعد یہ ٹیم اپنی تمام تر معلومات کے ہمراہ برطانیہ جاکر اپنی رپورٹس حکومت کو پیش کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: یورپ کے لیے پروازیں بحال ہونے کے بعد پی آئی اے کی پہلی پرواز پیرس پہنچ گئی
انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستانی ایئر لائنز کو بہت جلد برطانیہ کے لیے پروازوں کی اجازت مل جائے گی، برطانوی ٹیم کا ہدف سول ایوی ایشن ہے جس کی معلومات اکھٹا کی جا رہی ہیں، جائزہ ٹیم کی سفارشات کی روشنی میں فیصلہ کا اعلان برطانوی حکومت کرے گی۔
ترجمان پی آئی اے کے مطابق پی آئی اے کی حالیہ کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اعلان مثبت ہوگا، انہوں نے بتایا کہ یہ روٹ پاکستان کے لیے زر مبادلہ کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔
مزید پڑھیں: پی آئی اے کو برطانیہ کے لیے پروازیں آپریٹ کرنے کی اجازت جلد مل جائےگی، خواجہ آصف
’اس روٹ سے ہمیں بہت زیادہ زرمبادلہ ملتا تھا، لندن ، برمنگھم اور مانچسٹر ہمارے روٹس تھے جن کے لیے پاکستان کے پاس ایک ہفتے میں 3 پروازیں ہوا کرتی تھیں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آڈٹ ٹیم بحالی برطانیہ برمنگھم پاکستان پی آئی اے ترجمان پی آئی اے زرمبادلہ سول ایوی ایشن عبداللہ حفیظ خان لندن مانچسٹر محکمہ ٹرانسپورٹ