شالیمار ٹرین حادثے کی ابتدائی رپورٹ جاری
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
سٹی42: شالیمار ایکسپریس ٹرین حادثے کی ابتدائی تحقیقات میں ڈرائیور کی غفلت کو حادثے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔
ریلوے ذرائع کے مطابق ڈرائیور نے ٹرین کو اوور سپیڈ کیا تھا، جس کے باعث ٹرین کی تین بوگیاں پٹڑی سے اُتر گئیں۔
ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایس او پیز کے مطابق ٹرین کی سپیڈ 15 کلومیٹر فی گھنٹہ ہونی چاہیے تھی لیکن ڈرائیور نے اس سے زیادہ رفتار رکھی جس کی وجہ سے کوچز ڈی ریل ہوئیں۔ تحقیقات کے مطابق اگر ڈرائیور بروقت بریک لگاتا تو حادثہ کم نقصان دہ ہوتا۔
لاہور سمیت پنجاب میں قومی انسداد پولیو مہم کا آغاز 3فروری سے ہوگا
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک بوگی کے اُترنے کے بعد ڈرائیور کو حادثے کا علم نہیں ہوا اور وہ ایک کلومیٹر تک ٹرین چلاتا رہا، جس سے مزید نقصان پہنچا۔ اس واقعے میں ٹریک کے سلیپرز کو بھی بھاری نقصان اُٹھانا پڑا۔
اُ ن کا مزید کہنا ہے کہ ٹرین ڈرائیور کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: سٹی42
پڑھیں:
طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
اقوام متحدہ نے طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان میں نافذ کیے گئے اخلاقی قوانین پر ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں ان قوانین کے نتیجے میں خواتین اور عام شہریوں کے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) کی رپورٹ کے مطابق، اگست 2024 سے طالبان حکومت کی جانب سے قائم کردہ وزارت "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے تحت افغان عوام پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس وزارت نے ملک کے 28 صوبوں میں 3,300 سے زائد اہلکار تعینات کیے ہیں اور ہر صوبے میں گورنر کی سربراہی میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ ان ضوابط کو زبردستی نافذ کیا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق، خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان کی نقل و حرکت، تعلیم، کاروبار اور عوامی زندگی میں شمولیت پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ صرف محرم کے بغیر سفر کرنے کی ممانعت سے خواتین کی آمدنی میں کمی، کاروباری روابط میں رکاوٹ اور فلاحی اداروں کی امدادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے انکشاف کیا کہ 98 فیصد علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم بند ہے جبکہ خواتین کی عوامی وسائل تک رسائی 38 فیصد سے بڑھ کر 76 فیصد تک محدود ہو چکی ہے۔ مزید برآں، 46 فیصد خواتین کو فیلڈ وزٹ سے روکا گیا اور 49 فیصد امدادی کارکنان کو مستحق خواتین سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کی یہ پالیسیاں نہ صرف عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ ایک مکمل ریاستی جبر کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ یہ سوال اب شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا عالمی برادری ان مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہے گی یا کوئی عملی اقدام کرے گی؟