اصلاح معاشرہ کے بنیادی اصول
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے کسی بھی دور میں وقت، حالات اور ماحول کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اسلام کے وضع کردہ سماجی اور معاشرتی رہنما اصول انتہائی متاثر کن ہیں۔ خصوصی طور پر معاشرے کے تین ایسے ستون ہیں جو افراد کی تربیت میں حد درجہ موثر کردا ادا کرتے ہیں اور وہ ہیں مسجد، مسکن اور مکتب۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایک بچہ جب پروان چڑھ رہا ہوتا ہے اور اس کو ضرورت ہوتی ہے کہ حسن اخلاق اور روحانی بالیدگی کے موتیوں کی مالا اس کے گلے ڈال دی جائے تو اس دور میں اس کا 24/7 خاصہ تعلق انہیں تین مقامات سے ہوتاہے۔ اگر ہم گلے شکوے اور ایک دوسرے پر الزام تھوپنے کی بجائے آج سے ہی اخلاص نیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجائیں تو یقینا حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوں گے۔
مسجد: اگر ہم دورِ نبویﷺ میں مسجد کی افادیت اور معاشرتی کردار پر غوروخوض کریں تو پتہ چلتاہے کہ مسجد مسلمانوں کا پارلیمنٹ ہاؤس تھا جہاں سے اسلامی ریاست کے امور کو چلایا جاتا تھا۔ مسجد ایک سپریم کورٹ کا درجہ بھی رکھتی تھی جہاں بیٹھ کر آقائے نامدار ﷺ فیصلے فرمایا کرتے تھے۔ مسلمانوں کا جی ایچ کیو مسجد تھی جہاں سے طاغوتی طاقتوں کی سرکوبی کیلئے لشکروں کو روانہ کیا جاتا تھا۔ مزید برآں مسجد نبوی ﷺ سے ملحق صفہ کا چبوترہ پہلی اسلامی یونیورسٹی جہاں سے حضور اکرم ﷺ کی محبت اور سرپرستی میں تعلیم و تربیت اور تالیف وتدوین کے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے جاتے تھے۔ مسجد مسلمانوں کے لئے اتحاد و یکجہتی کی علامت اور مرکز ہے ۔ آج ہمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ مساجد کے نظام تعلیم و تربیت کی طرف بھرپور توجہ دیں۔ ان کو عظیم علمی اور روحانی بالیدگی کی آماجگاہ بنا دیں۔
مسجدوں کے انتظام و انصرام ہمارے اپنے ہاتوھں میں ہیں لہٰذا اگر ہم چاہیں تو نسل نو کی علمی آگہی اور فکری اصلاح کے لئے ان مساجد کو احسن انداز میں استعمال کرسکتے ہیں۔ فکر آخرت کی بیداری اور اتحادِ امت کے لئے مسجد سے زیادہ موزوں جگہ کون سی ہوسکتی ہے لیکن اس تلخ حقیقت کا اعتراف ہمیں بہر کیف کرنا ہی پڑے گا کہ آج مسلم کمیونٹی میں مساجد اپنا حقیقی کردار کھوتا ہوا نظر آتی ہیں۔ کہیں کمیونٹی میں اختلاف اور جھگڑوں کو سبب مسجد تو کہیں دنیا کی جھوٹی عزتوں کی لالچ میں دھنگا فساد اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے مسجد کا پلیٹ فارم استعمال ہوتا ہے۔ اسلام میں مسجد کی فضیلت کے حوالے سے ہمارے یہ کرتوت خدا کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف اور نسل نو کو مسجدوں سے متنفر کرنے کا سبب ہیں۔ علاوہ ازیں لوگوں کیلئے جگ ہنسائی کا بھی باعث ۔ اگر اس حوالے سے کہیں بھی کمزوریاں ہیں تو ہم کسی پر الزام تھوپ کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے بلکہ گریبانوں میں جھانک کر فکر آخرت کے ساتھ اصلاح احوال کی ضرورت ہے تاکہ یہ مراکز ہماری نسل نو کیلئے بہترین تربیت گاہ بن سکیں۔ بقول اقبال
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
رہ گئی رقم اذاں روحِ بلالیؓ نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی ؒ نہ رہی
مسکن: معاشرے کا ایک اہم ستون ہمارا مسکن یعنی گھر ہے جو کہ بچے کی پہلی درسگاہ کا درجہ رکھتا ہے۔ جو نقوش بچوں کے ذہنوں ک کوری پلیٹوں پر گھر کا ماحول ثبت کرتا ہے۔ بسا اوقات عمر بھر حوادثات زمانہ بھی اس کو مٹا نہیں سکتے۔ گھروں کے ماحول کو اسلامی روایات کے مطابق ڈھالنا ہماری بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے کیونکہ قرآن پاک نے حکماً ارشاد فرمایا ہے کہ ’’اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے بچالو‘‘ گھر کی چار دیواری کے اندر ہماری آزاد حکومت ہے۔ معاشرے کی اصلاح کیلئے اس ستون کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنا ازحد ضروری ہے۔ میاں بیوی سے ایک گھر کا آغاز ہوتا ہے اور اسلامی تعلیمات انہیں انتہائی ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کیتلقین کرتی ہیں۔ بچوں کو قابلِ رشک مسلمان بنانے کے لئے عمرہ اخلاق اور اچھی عادات کا درس دینے کی ابتدائی ذمہ داری والدین پر بھی عائد ہوتی ہے جس کیلئے کل وہ بارگاہِ الٰہی میں جوابدہ ہوں گے۔ سوشل میڈیا نے آج ہماری زندگی کو بہت آسان کردیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کا غلط استعمال بچوں کے اخلاق اور کردار کے بگاڑ کا سبب بھی بن رہا ہے لہٰذا گھروں میں اس کے صحیح استعمال پر توجہ دینے کی ذمہ داری بھی ماں باپ پر عائد ہوتی ہے۔ کہ کہیں اس کا غلط اور بے جا استعمال بچوں کے کچے ذہنوں کو خرافات اور فحاشی کی طرف مائل نہ کردے۔ بعض اوقات ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے بچے بگاڑ کا شکار ہوتے ہیں اور اس وقت ہماری یہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی پیر صاحب کے ایک تعویذ سے راتوں رات وہ بچہ اصلاح یافتہ ہوجائے۔ کوشش تو اچھی ہے لیکن اکثر و بیشتر غیر فطری کوششیں ثمر بار نہیں ہو اکرتیں۔ کیونکہ کبھی کبھی وہ مکافات عمل ہوتا ہے اور یہ جلتی آگے پر پانی کا دیگچہ رکھ کر اس کے برف بن جانے کے لئے تعویذ لینے کے مترادف ہوگا۔ تعویذ کے ہم قائل ہیں لیکن اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہونے کے لئے بہانہ کے طور پر نہیں۔
مکتب: بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے درسگاہ کی اہمیت واضح ہے۔ یہاں مختلف مذاہب کے لوگوں کو Faith Schools کی اجازت ہے۔ اس سے بہتر کیا ہوگا کہ یہاں کے Curriculum کے مطابق معیاری درسگاہوں کا قیام عمل میں لایا جائے لیکن ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہاں کی درسگاہوں میں بے شمار خوبیاں ہیں جو حقیقی معنوں میں اسلام کا تقاضا ہے مثلا ً حصول علم پر محبت، سچ بولنا، مذہبی اور نسانی حقوق کا تحفظ، قانون پر عملداری، امانت و دیانت، پھر ذرا سی غلطی کا بھی احساس کرتے ہوئے sorryاور چھوٹے سے چھوٹے احسان پر بھی Thank you۔ عورت اور مرد کے باہمی تعلق کے حوالے سے مغرب کا نظام سماج اسلامی تعلیمات سے کچھ پہلوؤں میں مختلف ضرور ہے لیکن اگر گھر اور مسجد کا ماحول انتہائی موثر ہو تو ہم نے دیکھا ہے کہ بے شمار بچے اس نظام تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے باوجود اپنے دامن کو فحاشی اور عریانی کے چھینٹوں سے داغدار نہیں ہونے دیتے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حوالے سے ہوتا ہے ہوتی ہے ہے لیکن کے لئے
پڑھیں:
پنجاب نے بڑا بھائی ہونے کا بہت نقصان اٹھایا، لیکن اف نہیں کی، سعد رفیق
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہاہے کہ پنجاب نے کبھی بھی کسی کا حق نہیں کھایا، پنجاب پر ہر دور میں الزام لگا، پنجاب نے بڑا بھائی ہونے کا بہت نقصان اٹھایا، لیکن اف نہیں کی، پنجاب نے ہر مرتبہ اپنا پیٹ کاٹ کر دوسرے صوبوں کی مدد کی، جب بٹوارہ ہوا، خون پنجابیوں کا بہا، افسوس کے ساتھ پنجاب کی بات کر رہا ہوں، ہمیشہ پاکستان کی بات کی، اب الزامات بند ہونے چاہیئے۔
اپنے حلقے میں خطاب کرتے ہوئے سعدرفیق نے کہا کہ پنجاب نے ہمیشہ بڑے بھائی کا کردار ادا کیا اور ہر دور میں الزامات برداشت کیے، مگر کبھی اف نہیں کی۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پنجاب نے کبھی کسی کا حق نہیں کھایا، بلکہ ہر بار اپنا حصہ کم کر کے دوسرے صوبوں کی مدد کی۔ پاکستان کو خراب کرنے میں صرف پنجاب نہیں بلکہ تمام صوبوں کے حکمران طبقے شامل رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ترقیاتی کام ہوتے ہیں، جبکہ بلوچستان میں لوٹ مار کی جاتی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک کی آمدن میں پنجاب کا حصہ 58 فیصد ہے، مگر وفاق سے واپسی صرف 51 فیصد کی ہوتی ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ قیامِ پاکستان کے وقت خون پنجابیوں کا بہا، گوادر کو بھی پنجاب کے رہنما ملک فیروز خان نون نے خرید کر پاکستان میں شامل کیا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ پاکستان کی بات کی، مگر بدقسمتی سے اب بھی پنجاب کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پنجاب کے خلاف الزامات کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اور حقائق کی بنیاد پر بات کی جائے۔ اب بھی اگر پنجاب قصور وار ہے تو پھر کیا کہوں۔