Daily Ausaf:
2025-04-15@08:00:37 GMT

…..اور اب کشمیریوں کی نقل وحرکت پر پابندی

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

قابض بھارتی حکام نے دفعہ 370کی غیر قانونی منسوخی کے بعد منظم طریقے سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا ہے جس سے ان کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کو مزید سلب کیا گیا ہے۔05اگست 2019کے بعد قانون نافذ کرنے والے بھارتی اداروں نے ان بہت سے افراد کے پاسپورٹ ضبط کر لیے جن کا مبینہ طور پر تحریک آزادی کشمیر سے کوئی تعلق تھا۔ تقریبا پانچ سال تک ان افراد کو پاسپورٹ دینے سے انکار کیا گیا جن پر مقامی تحریک آزادی کے ساتھ تعلق کا الزام تھا۔حال ہی میںبڑھتے ہوئے عوامی دبائو کے بعدبھارتی حکومت کشمیری مسلمانوں کے حوالے سے اپنی سفری پالیسی پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوئی۔بھارتی حکومت نے ایک غیر معمولی اقدام کے تحت حال ہی میں مقبوضہ جموں وکشمیرکے باشندوں کو پانچ سال کے وقفے کے بعد پاسپورٹ جاری کرنا شروع کردیا۔ ابتدائی طور پر جاری کیے گئے کچھ نئے پاسپورٹوں پریہ مہر لگائی گئی تھی جس میں لکھا تھا کہ” یہ پاسپوٹ پاکستان کے سوا تمام ممالک کے لیے قابل عمل ہے”۔ اس پابندی کا اطلاق علاقے میں کشمیری مسلمانوں کو جاری کیے گئے بہت سے پاسپورٹوں پر کیا گیا۔یہ اقدام بھارتی وزیر داخلہ کے حکم پر کیاگیا جس کا مقصد کشمیری مسلمانوں کے پاکستان سے روابط کو منقطع کرنا ہے۔ اگرچہ بھارتی حکومت ان اقدامات کو قومی سلامتی کے حصے کے طور پر جائز قرار دیتی ہے، پاکستان کے لئے سفری پابندی کشمیری مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے جس سے ان کی نقل و حرکت کی آزادی کوبہت حد تک محدود کیا گیا ہے۔انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سفر پر یہ پابندیاں نہ صرف بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون میں درج آزادانہ نقل و حرکت کے حق کی خلاف ورزی ہیں بلکہ یہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں مسلمانوں کے انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پرخلاف ورزیوں کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ اقدامات علاقے کی مسلم آبادی کی خودمختاری اور آزادیوں کو نمایاں طور پر نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس سے مقبوضہ جموں وکشمیرکے طلبا ء خاص طور پر متاثر ہوئے ہیں کیونکہ سفری پابندیاں انہیں پاکستان میں تعلیمی مواقع حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔ اس سے نہ صرف ان کے تعلیم کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ ان کی تعلیمی ترقی اور صلاحیت کو بھی محدود ہوتی ہے۔ کشمیری صحافیوں کو بھی اسی طرح کی سفری پابندیوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ بین الاقوامی ایوارڈز اور دیگرتقریبات میں شرکت نہیں کرسکتے۔سیاسی ماہرین ان سفری پابندیوں کو دفعہ370کی یکطرفہ اور غیر قانونی منسوخی کے بعد کشمیریوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تسلسل کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ بھارت نے کشمیریوں کے بنیادی حقوق کو منظم انداز میں سلب کرنے کے لئے کئی ظالمانہ پالیسیاں متعارف کرائی ہیں جن میں مناسب نمائندگی کے حق سے انکار، اختلاف رائے کو دبانا اور خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا شامل ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارتی حکومت متنازعہ علاقے کے مسلم اکثریتی تشخص کو مٹانے کے لیے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں غیر کشمیریوں کو بسانے میں سہولت فراہم کر رہی ہے۔بھارت اختلاف رائے کو دبانے اور متنازعہ علاقے پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی خاطر صحافیوں، سیاسی رہنمائوں اور عام لوگوں کو نشانہ بنانے کے لئے شہری آزادیوں کو سلب اورجمہوری اداروں کا استحصال کررہا ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ جمہوری اصولوں کے بھی منافی ہیں،جس
سے مقبوضہ جموں وکشمیرکے باشندوں کو حق رائے دہی سے محروم کیا جارہا ہے۔ بنیادی آزادیوں میں مسلسل کمی کے ساتھ ساتھ کشمیری مسلمانوں پر سفری پابندیاں عائد کرنا اختلاف رائے کو دبانے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے بھارتی حکومت کی کوششوں کاحصہ ہے۔ ان اقدامات سے بھارتی قبضے میں کشمیریوں کو درپیش منظم جبر کی عکاسی ہوتی ہے۔
دوسری جانب بھارت کے غیر قانونی زیرقبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے اعدادوشمارنے2019میں دفعہ 370کی منسوخی کے بعد صورتحال میں بہتری کے بی جے پی کی بھارتی حکومت کا دعوئوں کو بے نقاب کر دیاہے۔ کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے جاری اعداد و شمار کے مطابق 2019سے اب تک 955کشمیریوں کو شہید کیاگیا ہے جن میں 18خواتین اور 31 نوجوان بھی شامل ہیں۔ اس دوران 251کشمیریوں کو جعلی مقابلوں یا دوران حراست قتل کیاگیاجبکہ 2ہزار480کشمیریوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بناکر زخمی اور 25ہزار591کو گرفتار کیاگیا۔ اس عرصے کے دوران مکانوں یا دکانوں سمیت ایک ہزار127املاک کو نذر آتش کیاگیا۔ بھارتی فوجیوں کی طرف سے شہادتوں کی وجہ سے72خواتین بیوہ، 199 بچے یتیم ہوئے جبکہ 145خواتین کی اجتماعی عصمت دری یا آبروریزی کی گئی ۔بھارتی قابض انتظامیہ کی طرف سے 326کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط اور 198سرکاری ملازمین کو معطل یا برطرف کیا گیا۔ اس عرصے کے دوران بھارتی فوجیوں نے مقبوضہ علاقے میں 20ہزار869تلاشی اور محاصرے کی کارروائیاں کیں ۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے مقبوضہ کشمیرمیں اسرائیلی فوج کی طرز پر بھارتی حکومت کے ظالمانہ اقدامات کی مذمت کی ہے جبکہ مبصرین نے مقبوضہ علاقے کے موجودہ منظر نامے کو سوویت یونین کے قید خانون کے جابرانہ دور سے تشبیہ دی ہے ۔انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ سنگین صورتحال کا فوری نوٹس لے اور مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پربھارت کوجواب دہ ٹھہرائے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: انسانی حقوق کی بھارتی حکومت خلاف ورزیوں مسلمانوں کے کشمیریوں کو ا زادیوں کیا گیا کے بعد

پڑھیں:

طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری

اقوام متحدہ نے طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان میں نافذ کیے گئے اخلاقی قوانین پر ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں ان قوانین کے نتیجے میں خواتین اور عام شہریوں کے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) کی رپورٹ کے مطابق، اگست 2024 سے طالبان حکومت کی جانب سے قائم کردہ وزارت "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے تحت افغان عوام پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس وزارت نے ملک کے 28 صوبوں میں 3,300 سے زائد اہلکار تعینات کیے ہیں اور ہر صوبے میں گورنر کی سربراہی میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ ان ضوابط کو زبردستی نافذ کیا جا سکے۔

رپورٹ کے مطابق، خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان کی نقل و حرکت، تعلیم، کاروبار اور عوامی زندگی میں شمولیت پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ صرف محرم کے بغیر سفر کرنے کی ممانعت سے خواتین کی آمدنی میں کمی، کاروباری روابط میں رکاوٹ اور فلاحی اداروں کی امدادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ نے انکشاف کیا کہ 98 فیصد علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم بند ہے جبکہ خواتین کی عوامی وسائل تک رسائی 38 فیصد سے بڑھ کر 76 فیصد تک محدود ہو چکی ہے۔ مزید برآں، 46 فیصد خواتین کو فیلڈ وزٹ سے روکا گیا اور 49 فیصد امدادی کارکنان کو مستحق خواتین سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کی یہ پالیسیاں نہ صرف عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ ایک مکمل ریاستی جبر کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ یہ سوال اب شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا عالمی برادری ان مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہے گی یا کوئی عملی اقدام کرے گی؟

 

متعلقہ مضامین

  • عالمی برادری فیکٹ فائنڈنگ مشن مقبوضہ کشمیر بھیجے، زاہد ہاشمی
  • اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنر ل مقبوضہ کشمیر میں فوری مداخلت کریں، محمود ساغر
  • ترکیہ: کردستان ورکرز پارٹی کے یکطرفہ اعلان جنگ بندی کا خیرمقدم
  • سزائے موت اسلامی قانون کا حصہ ہے، طالبان رہنما کا موقف
  • کل جماعتی حریت کانفرنس کا مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی ہوئی بھارتی ریاستی دہشت گردی پر اظہار تشویش
  • عالمی برادری مقبوضہ جموں و کشمیر میں ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ بند کروائے، علی رضا سید
  • عالمی برادری نظربند کشمیریوں کی رہائی کیلئے اقدامات کرے
  • طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
  • بھارت, وقف ترمیمی بل کے خلاف جھارکھنڈ میں احتجاجی مظاہرہ
  • مقبوضہ کشمیر, وقف ترمیمی قانون کیخلاف ایم ایم یو کی قرارداد