Juraat:
2025-04-15@09:23:19 GMT

برکتوں و فضیلتوں والا مہینہ شعبان المعظم

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

برکتوں و فضیلتوں والا مہینہ شعبان المعظم

مولانا قاری محمد سلمان عثمانی

یہ وہ قابل قدر مہینہ ہے جس کی نسبت حضور اکرمؐ نے اپنی طرف فرمائی اور اس میں خیرو برکت کی دعا فرمائی چونکہ شعبان کا مہینہ رمضان کا مقدمہ ہے، جیسا کہ شوال کا مہینہ رمضان کا تتمہ ہے، اسی وجہ سے اس مہینے کو خاص فضیلت حاصل ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا کہ‘‘شعبان کے چاند کا شماررکھو، رمضان کے لیے’’(سنن ترمذی)یعنی جب ماہ شعبان کی تاریخ صحیح ہو گی تورمضان میں غلطی نہیں ہوگی، چنانچہ‘‘رسول اللہ ﷺشعبان کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ کسی ماہ (کے چاند) کا اتنا خیال نہ فرماتے تھے’’(سنن ابوداؤد)خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اس مہینے کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے، اس سلسلے میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا شعبان میرا مہینہ ہے ۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ماہ رجب کے آغاز پر آپﷺ یہ دعا فرماتے تھے ‘‘اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینے میں ہمارے لیے برکت پیدا فرما اور (خیر و عافیت کے ساتھ) ہمیں رمضان تک پہنچا’’(ابن عساکر)رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شعبان کی عظمت اور بزرگی دوسرے مہینوں پر اسی طرح ہے، جس طرح مجھے تمام انبیاءؑ پر عظمت اور فضیلت حاصل ہے۔

آپ ﷺنے فرمایا:شعبان کا مہینہ آئے تو اپنے نفس کو رمضان کے لیے پاک کرلو۔فرمایا کہ تمام مہینوں میں شعبان کی فضیلت ایسی ہے،جیسے میری فضیلت تم لوگوں پر۔نبی اکرم ﷺ کاارشاد گرامی ہے شعبان میرامہینہ ہے،رجب اللہ کا اوررمضان میری امت کامہینہ ہے۔آپ ﷺنے فرمایا:شعبان گناہوں کومٹانے والا اوررمضان المبارک پاک کرنے والا مہینہ ہے۔

چنانچہ ماہ شعبان کی فضیلت کااندازہ سرکار دوعالم ﷺکے اس ارشاد سے لگایا جاسکتا ہے،جس میں آپﷺ نے فرمایا‘‘تمام مہینوں میں شعبان کی فضیلت ایسی ہے،جیسی میری فضیلت تمام لوگوں پر ہے’’حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:شعبان کوشعبان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ماہ رمضان کے لیے اس سے خیرکثیر پھوٹ کرنکلتی ہے۔

امّ المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپﷺ کامحبوب ترین مہینہ شعبان کا تھا۔آپﷺ اس ماہ مبارک کے روزوں کو رمضان سے ملادیا کرتے تھے۔آپ ﷺسے نفل روزوں سے متعلق دریافت کیاگیاتورحمت دو عالم ﷺ نے فرمایا:رمضان کی تعظیم کے لیے شعبان کے روزے رکھنا۔ شعبان محبوب رب جلیل کامہینہ ہے۔اس میں فضیلتیں توہوں گی۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کی ایک شب کو‘‘شب برأت’’ قراردیااورگناہوں سے چھٹکارے کی رات کے ساتھ اس شب کو نزول عطائے رب بھی بنا دیا۔

رسول رحمتﷺ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان(15 شعبان المعظم) کی رات اپنی تمام مخلوق کی طرف توجہ خاص فرماتا ہے، مگر اس شب رحمت باری تعالیٰ ان لوگوں کی طرف متوجہ نہ ہو گی۔جوشرک کرتے ہوں گے۔بے رحم اورشرابی ہوں گے۔والدین کے نافرمان ہوں گے،سوائے ان لوگوں کے سب پر بخشش و عطاعام ہوگی۔

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نفلی روزے (کبھی) مسلسل رکھنے شروع کرتے، یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوتا کہ اب ناغہ نہیں کریں گے اور (کبھی) بغیر روزے کے مسلسل دن گزارتے، یہاں تک کہ ہمیں خیال ہونے لگتا کہ اب آپﷺ بلا روزہ ہی رہیں گے۔ نیز فرماتی ہیں کہ میں نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا پورا روزہ رکھتے نہیں دیکھا، اسی طرح کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (مشکوٰۃ:178)

بعض روایتوں میں ہے کہ شعبان کے مہینے میں بہت کم ناغہ کرتے تھے، تقریباً پورے مہینے روزے رکھتے تھے۔ (الترغیب والترہیب117/2)

احادیث کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ نفلی روزوں کے سلسلے میں آپﷺ کا کوئی لگا بندھا دستور ومعمول نہیں تھا، کبھی مسلسل روزے رکھتے، کبھی ناغہ کرتے،تاکہ امت کو آپ ﷺ کی پیروی میں زحمت، مشقت اور تنگی نہ ہو، وسعت وسہولت کا راستہ کھلا رہے، ہر ایک اپنی ہمت، صحت اور نجی حالات کو دیکھ کر آپ ﷺ کی پیروی کرسکے، اسی لیے کبھی آپﷺ ایامِ بیض (13.

14.15 تاریخوں) کے روزے رکھتے، کبھی مہینے کے شروع میں ہی تین روزے رکھتے، کسی مہینے میں ہفتہ، اتوار اور پیر کے روزے رکھتے تو دوسرے مہینے میں منگل، بدھ اور جمعرات کے روزے رکھتے، کبھی جمعہ کے روزے کا اہتمام کرتے، اسی طرح عاشورہ اور شوال کے چھ روزے رکھنا بھی آپ ﷺ سے ثابت ہے۔

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: شعبان کا مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان کا مہینہ ہے، لوگ اس کی فضیلت سے غافل ہیں؛ حالانکہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال پروردگارِ عالم کی جانب اٹھائے جاتے ہیں، لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتاہوں کہ میرا عمل بارگاہِ الٰہی میں اس حال میں پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔ (شعب الایمان حدیث3820، فتح الباری253/4)

شعبان کے مہینے میں آپ ﷺکے کثرت سے روزے رکھنے کی علماء نے کئی حکمتیں بیان کی ہیں: چوں کہ اس مہینے اللہ رب العزت کے دربار میں بندوں کے اعمال کی پیشی ہوتی ہے؛ اس لیے سرکاردو عالمﷺ نے ارشاد فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال کی پیشی ہوتو میں روزے کی حالت میں رہوں، یہ بات حضرت اسامہ بن زیدؓ کی روایت میں موجود ہے(نیل الاوطار246/4) (معارف الحدیث551/4)

ہر دانش مند مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مبارک مہینے میں غافل نہ رہے بلکہ ماہ رمضان کی تیاری شروع کردے،گزشتہ اعمال سے توبہ کرکے گناہوں سے پاک ہوجائے،اسی ماہ میں اللہ کی بارگاہ میں گریہ وزاری کرے تاکہ دل کی خرابیاں دور ہوجائے اور دل کی بیماری کا علاج ہوجائے۔ اس سلسلہ میں تاخیر ولیت ولعل سے کام نہ لے،یہ نہ کہے کہ کل کرلوں گااس لیے کہ دن تو صرف تین ہیں،ایک کل جو گزر گیا، ایک آج جوعمل کا دن ہے اور ایک آنے والاکل جس کے آنے کی امید ہے یقین سے کہا نہیں جا سکتا کہ وہ اس کے لیے آئے گا یا نہیں۔ اسی طرح مہینے تین ہیں،رجب تو گزر گیا وہ لوٹ کر نہیں آئے گا، ماہ رمضان کا انتظار ہے معلوم نہیں کہ اس مہینے تک زندہ رہے یانہ رہے۔ بس شعبا ن ہی ان دونوں کے درمیان ہے اس لیے اس میں طاعت وبندگی کوغنیمت سمجھنا چاہیے۔

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: نے ارشاد فرمایا فرمایا شعبان رسول اللہ ﷺ ﷺ نے فرمایا روزے رکھتے مہینے میں شعبان کی رمضان کے کا مہینہ شعبان کا مہینہ ہے شعبان کے اس مہینے کے روزے کے لیے

پڑھیں:

میرا نام ہے فلسطین، میں مٹنے والا نہیں

اسلام ٹائمز: فلسطین کی تاریخ ایک مسلسل جدوجہد کی داستان ہے۔ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا استعارہ اور ایک ایسی قوم کی کہانی جو صدیوں سے اپنی شناخت اور زمین کے تحفظ کے لیے لڑ رہی ہے۔ لاکھوں فلسطینی آج بھی جلاوطنی، محاصرے، اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہیں مگر ان کا عزم کمزور نہیں ہوا۔ فلسطین ایک خطہ نہیں, انصاف کے لئے انسانیت کی اجتماعی آزمائش ہے. جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، دنیا کے ضمیر پر ایک داغ رہے گا۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ (سید رحمان شاہ)

فلسطین، ایک ایسا نام جو سننے والے کے ذہن میں قدیم تہذیبوں کی خوشبو، روحانی ورثے کی گونج اور ایک مظلوم قوم کی جدوجہدِ آزادی کی طویل داستان کو تازہ کر دیتا ہے۔ یہ محض ایک خطۂ زمین نہیں بلکہ ایک تہذیبی وراثت، ایک قومی شناخت اور ایک ناقابلِ تسخیر عزم کی علامت ہے۔ فلسطین کا شمار دنیا کے ان قدیم ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی تہذیب نے بہت ابتدا میں قدم جمائے۔ آثارِ قدیمہ اور تاریخی روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہاں سب سے پہلے کنعانی قوم نے سکونت اختیار کی، جو سامی نسل سے تعلق رکھتی تھی۔

کنعانیوں نے زراعت، تعمیرات، تجارت اور مذہبی نظام میں خاصی ترقی کی اور فلسطین کو ایک تہذیبی اور اقتصادی مرکز بنایا۔ ان کے بعد یبوسی، اموری اور دیگر اقوام نے اس خطے کو اپنا وطن بنایا۔ بعد ازاں یہ خطہ مصری، بابلی اور سمیری تہذیبوں کے زیرِ اثر رہا۔ بعد کے ادوار میں یہی سرزمین انبیائے کرامؑ جیسے حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے پیغام کی آماجگاہ بنی، جس نے اس کی روحانی حیثیت کو مزید بلند کیا۔ زیرِ نظر تحریر میں ہم فلسطین کی تاریخی ارتقا سے لے کر موجودہ سیاسی و انسانی بحران تک کا تحقیقی و تجزیاتی جائزہ پیش کریں گے۔

قدیم فلسطین: کنعان سے اسلامی فتوحات تک
فلسطین کی قدیم تاریخ کا آغاز کنعانیوں سے ہوتا ہے، جنہوں نے یہاں اولین شہر آباد کئے۔ ان میں یروشلم (جسے اس وقت یبوس کہا جاتا تھا) خاص اہمیت رکھتا ہے۔ بعد ازاں بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں اس سرزمین میں قدم رکھا۔ یہودی روایات کے مطابق یہ خطہ انہیں الٰہی وعدے کے تحت عطا کیا گیا، تاہم تاریخی طور پر یہ علاقہ مختلف اقوام کے درمیان مسلسل تنازعات کا مرکز رہا۔ رومی دور میں یہودیوں کو بغاوت کے بعد جلاوطن کر دیا گیا اور یروشلم کو عیسائیت کا مرکز بنا دیا گیا۔

ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے دوسرے خلیفہ کی خلافت کے دور میں اس خطے کو فتح کیا۔ مسجد اقصیٰ، جو پہلے سے ایک مقدس مقام تھی، اسلامی تاریخ کا تیسرا مقدس ترین مقام قرار پائی۔ صلیبی جنگوں کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کو دوبارہ اسلامی ریاست میں شامل کیا۔ 1517ء سے 1917ء تک فلسطین عثمانی سلطنت کے زیرِ انتظام رہا، جس نے یہاں امن، رواداری، اور کثیرالمذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا۔

برطانوی استعمار اور صیہونی تحریک کا آغاز
پہلی عالمی جنگ کے بعد عثمانی سلطنت کے انہدام کے ساتھ ہی فلسطین برطانوی انتداب کے تحت آ گیا۔ 1917ء میں برطانوی حکومت نے اعلانِ بالفور کے ذریعے یہودیوں کے لیے فلسطین میں ایک "قومی وطن" کے قیام کی حمایت کا اعلان کیا۔ یہ اعلان صیہونی تحریک کی سیاسی کامیابی تھا، جس نے یورپ سے یہودی آبادکاری کے دروازے کھول دیے۔ اس آبادکاری نے مقامی عرب آبادی کو سیاسی، معاشی اور ثقافتی خطرے میں ڈال دیا، جس کے نتیجے میں شدید کشیدگی پیدا ہوئی۔

1948ء کا المیہ: اسرائیل کا قیام اور النکبہ
1947ء میں اقوامِ متحدہ نے فلسطین کو ایک یہودی اور ایک عرب ریاست میں تقسیم کرنے کی قرارداد منظور کی مگر فلسطینیوں اور عرب ریاستوں نے اسے غاصبانہ سمجھ کر مسترد کر دیا۔ 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا، جس کے فوراً بعد عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اسرائیل نے 78 فیصد فلسطینی سرزمین پر قبضہ کر لیا اور سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔ یہ جبری ہجرت تاریخ میں النکبہ (یعنی المیہ) کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔

1967ء کی جنگ: قبضے کا نیا باب
جون 1967ء کی 6 روزہ جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ، غزہ کی پٹی، گولان کی پہاڑیاں، اور سینائی کے وسیع علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس جنگ نے فلسطینی عوام کی جدوجہد کو نیا رخ دیا۔ فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (PLO) نے یاسر عرفات کی قیادت میں مزاحمت کو منظم کیا، اور مسلح جدوجہد کو اپنایا۔ 1987ء میں حماس نے پہلی انتفاضہ کے دوران مزاحمت کی عوامی لہر کو جنم دیا، جس نے فلسطینی شناخت کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔ یہ بتایا کہ بے سر و سامانی کے با وجود فلسطینی اپنے حقوق کیلئے لڑ سکتے ہیں اور پھر 2000ء کے دوسرے انتفاضہ نے مزاحمت کو نئی جہت دی

اوسلو معاہدہ: دھوکہ یا امید؟
1993ء میں اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی قائم کی گئی، جسے بعض علاقوں میں محدود خودمختاری دی گئی۔ اگرچہ اس معاہدے سے امن کی امیدیں وابستہ کی گئیں مگر اسرائیل نے مشرقی یروشلم، غیر قانونی یہودی آبادکاری اور فوجی نگرانی جیسے حساس امور پر اپنا قبضہ برقرار رکھا غزہ کو جیل بنا دیا گیا بلکہ 2006ء میں حماس کی انتخابی فتح کے بعد غزہ پر اسرائیلی محاصرہ عائد کر دیا گیا، جس نے انسانی المیے کو جنم دیا۔

2023ء کے حالات: ظلم، محاصرہ اور مزاحمت تا حال جاری
2023ء میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر شدید فضائی حملے، مسجد اقصیٰ پر چھاپے، اور مغربی کنارے میں صیہونی آبادکاروں کے مظالم جاری رہے۔ اکتوبر 2023ء میں حماس نے آپریشن طوفان الاقصی لانچ کیا اور اس کے  بعد سے اسرائیل و حماس کے درمیان شدید لڑائی شروع ہوگئی حالات بگڑتے چلے گئے اسرائیل نے وسیع پیمانے پر بے گناہ انسانوں کا قتل عام شروع کردیا۔ بوڑھے، بچے، خواتین، صحافی، ڈاکٹرز ہر طبقے کے افراد کو اپنی بندوق اور میزائل سے شکار کیا، یہ انسانی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ امریکہ کی مدد کے ساتھ تا حال جاری ہے۔

درجنوں اسپتال، اسکول اور پناہ گاہیں تباہ ہوئیں، اور سینکڑوں معصوم فلسطینی، بالخصوص بچے اور خواتین، شہید ہوئے۔ عالمی برادری کی جانب سے اسرائیل پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کیے گئے لیکن اقوامِ متحدہ اور بڑی طاقتوں کی خاموشی نے فلسطینیوں کو مزید مایوس کیا ہے۔ دنیا کے منافقانہ رویہ یعنی امریکہ و یورپ کی غیر مشروط حمایت، عرب لیگ کی خاموشی و دوغلی پالیسی اور اقوامِ متحدہ کی مجرمانہ بے عملی فلسطین میں انسانی المیہ کو جنم دینے میں ملوث ہیں.

فلسطینی شناخت: مزاحمت کا استعارہ
فلسطین آج بھی ظلم کے خلاف مزاحمت کی ایک شناخت، ایک خواب اور ایک استعارہ ہے۔ فلسطینی قوم آج بھی "میرا نام ہے فلسطین" کے نعرے کے ساتھ اپنی زمین، ثقافت اور مقدس مقامات کے دفاع میں ڈٹی ہوئی ہے۔ اگرچہ اقوامِ متحدہ نے 2012ء میں فلسطین کو "غیر رکن مبصر ریاست" کا درجہ دیا، مگر تاحال دو ریاستی حل کا عملی نفاذ ایک جھوٹ ہی ہے اور فلسطین تو دراصل پورے کا پورا ہی (نہر تا بحر) فلسطینیوں کا ہے۔

ایک زندہ، سلگتی تاریخ
فلسطین زندہ باد جیسا کہ محمود درویش نے کہا کہ ’’ہم اس سر زمین پر مریں گے، ہماری جڑیں اتنی گہری ہیں کہ کوئی ہمیں اکھاڑ نہیں سکتا‘‘۔ فلسطین کی تاریخ ایک مسلسل جدوجہد کی داستان ہے۔ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا استعارہ اور ایک ایسی قوم کی کہانی جو صدیوں سے اپنی شناخت اور زمین کے تحفظ کے لیے لڑ رہی ہے۔ لاکھوں فلسطینی آج بھی جلاوطنی، محاصرے، اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہیں مگر ان کا عزم کمزور نہیں ہوا۔ فلسطین ایک خطہ نہیں, انصاف کے لئے انسانیت کی اجتماعی آزمائش ہے. جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، دنیا کے ضمیر پر ایک داغ رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کیخلاف کتنے مقدمات درج ہیں؟ تفصیلات سامنے آ گئیں
  • جہادی فتویٰ غامدی، موم بتی مافیا میں صف ماتم
  • پشاور ہائیکورٹ سے عمر ایوب کو ایک مہینے کی حفاظتی ضمانت مل گئی
  • عمر ایوب کو ایک مہینے کی حفاظتی ضمانت مل گئی
  • ہر مہینے اگلے مہینے سے زیادہ ترسیلات زر آ رہی ہیں، قیصر شیخ
  • میرا نام ہے فلسطین، میں مٹنے والا نہیں
  • خان اور پارٹی اللہ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیے گئے ہیں، شیر افضل مروت
  • فطرت،انسانیت اور رحمتِ الٰہی
  • سرینگر میں رکن پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ مہدی کی اہم پریس کانفرنس
  • استقامت کا پہاڑ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ