قومی کرکٹ ٹیم کے آل رائونڈر محمد وسیم جونیئر کی شادی کی تقریبات کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
مکہ مکرمہ میں نکاح کرنے والے قومی کرکٹ ٹیم کے آل رائونڈر محمد وسیم جونیئر کی شادی کی تقریبات کا آغاز ہو گیا۔ فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹاگرام پر کھلاڑی نے اپنی مہندی و ڈھولک کی خوبصورت تصاویر شیئر کر دی ہیں۔سوشل میڈیا پر کھلاڑی کی جانب سے شیئر کی گئی تصاویر اور ویڈیوز میں محمد وسیم جونیئر مہندی کے اعتبار سے سبز کرتے پاجامے میں نظر آ رہے ہیں۔مختلف سوشل میڈیا پیجز پر وائرل ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز سے معلوم ہوتا ہے کہ کھلاڑی کی دلہنیا کا نام اسما ہے۔ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پہلے قومی کرکٹر کی مہندی اور ڈھولک کی تقریب کا انعقاد اسلام آباد میں ہوا ہے، جس میں ان کے اہلِ خانہ سمیت قریبی عزیز و اقارب نے شرکت کی۔وائرل ویڈیو میں کھلاڑی کے گھر کی جھلک بھی نظر آ رہی ہے جسے برقی قمقموں سے سجایا گیا ہے، جبکہ مہندی و ڈھولک کے اعتبار سے سجاوٹ میں پیلا اور سبز رنگ نمایاں ہے، اس کے ساتھ ساتھ سجاوٹ میں گیندے کے پھولوں کا بھی کثرت سے استعمال کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ شیئر کرتے ہوئے وسیم جونیئر نے کیپشن میں صرف مہندی کی تقریب کی تاریخ درج کی ہے، جس کے مطابق ان کی مہندی 29 جنوری 2025 کو منعقد ہوئی۔سوشل میڈیا پر تصاویر اور ویڈیوز منظرِ عام پر آنے کے بعد ساتھی کھلاڑیوں اور مداحوں کی جانب سے اس جوڑے کے لیے نیک تمنائوں اور مبارک باد کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس انجری کا شکار ہونے والے محمد وسیم جونیئر تینوں فارمیٹ میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا
پڑھیں:
ویلے مصروف
کچھ دن پہلے ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کی حیرت انگیز کارکردگی کا ذکر ہو رہا تھا۔ احباب کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ ان کے ویوز کئی ملین ہوتے ہیں۔ اس خبر نے مجھے خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا کہ ایک نوجوان کا کنٹنٹ کم از کم ایسا ہے کہ کئی ملین لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر سکتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جب ہمارے آس پاس کے سارے لوگ بڑے مصروف ہیں۔ گھروں میں بیٹھ کر بزرگوں کی بات سننا تو دور کی بات ہے یہاں بڑے بڑے دانشوروں اور فنکاروں کو اپنے پروگرامز میں اتنے لوگ نہیں ملتے۔ اس لحاظ سے یہ نوجوان غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ضرور ہیں جو عوام و خواص کو نہ صرف اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں پسندیدگی کی سند بھی حاصل کرتے ہیں۔
میں نے تجسس ختم کرنے کے لیے ان سے خواہش کا اظہار کہ مجھے بھی یہ اعلیٰ مواد دکھایا جائے کیا تا کہ ایسے کمالات ِ فکر و فن کا بذات خود مشاہدہ کر سکوں جو جدید دور کے لاکھوں افراد میں پذیرائی حاصل کرتے ہیں۔ جواب میں میرے سامنے کچھ ریلز رکھی گئیں۔ ریل کا احوال کچھ یوں تھا۔ ایک ریل میں دو لڑکیاں سلو موشن میں چلتی آ رہی ہیں اور اچانک ماتھے پر ہاتھ رکھ کر رک جاتی ہیں۔ ریل کا بیگراؤنڈ میوزک اسی پوز پر رکتا ہے اور ریل ختم ہو جاتی ہے۔ مجھے گمان گزرا کہ مرزا غالب کے سہلِ ممتنع کی طرح اس ریل میں بھی بڑی حکمت آفرین بات بڑی سہولت سے کہہ دی گئی ہو گی اور ہم جیسے سادہ لوح ان رموز سے واقفیت نہ ہونے کے باعث کھوج نہیں پاتے ۔
میں نے کئی ملین ویوز رکھنے والی ایک اور ریل دیکھنا شروع کی۔ دو لڑکیاں مسکراتی ہوئی ایک دوسرے سے ٹکرا جاتی ہیں، میوزک آن ہوتا ہے پھر چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔.میں اس شاہکار سے بھی خاطر خواہ نتائج برآمد کرنے سے قاصر رہا۔ میں ان لاکھوں لوگوں پر رشک کرنے لگا جو ان سرگرمیوں کے حقیقی جوہر تک پہنچ جاتے ہیں۔اب ان سوشل میڈیائی فنکاروں کی عظمت کا سراغ تو میں نہ لگا پایا لیکن میں ایسے لاکھوں مصروف ترین افراد کے بارے میں آگاہی ضرور حاصل ہوئی جن کے پاس کوئی کام کرنے، پڑھنے لکھنے یا کسی ہنر کی جانب توجہ دینے کا بالکل وقت میسر نہیں ہو گا لیکن یہ لاکھوں تماشبین لا یعنی اور ہر طرح کی معنویت سے خالی سرگرمیوں پر پورے انہماک سے تفکر کرنے میں مصروف رہتے ہیں ان میں سے اکثریت ان شاہینوں کی ہے جو اپنے ہی گھر والوں سے بات کرنے کا وقت نہیں نکال پاتے۔ ریل بازی نے لوگوں کو مکالمے سے محروم کر دیا ہے۔ بیٹھکوں میں بات نہیں کی جاتی سب اپنے موبائل پر سر جھکا لیتے ہیں۔ ایسی منجمد سرگرمی جو محض وقت گزاری کا بہانہ ہو اس مصروف دور کا حصہ ہے۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ ہمارے دور کے مصروف لوگ کتنے اہم امور کی انجام دہی میں مگن رہتے ہیں۔ یہ اپنے بچوں کو کھیلنے کے لیے "پلے گروپ” میں چھوڑ آتے ہیں اور انہی چھوٹے بچوں کو بات چیت کے لیے اکیڈمی بھیج دیتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گھر کے افراد کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ عائلی مسائل اور معاشرتی امور پر بات چیت کی روایت اس لیے ختم ہو گئی ہے کہ لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے۔ اخبار کم ہو رہے ہیں، کتابیں ریکس سے فٹ پاتھ پر آ گئی ہیں اس کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ لوگوں کے پاس وقت میسر نہیں۔حال یہ ہے کہ آپ کسی بھی شعبہ زندگی سے متعلق کیوں نہ ہوں اگر تھوڑے مضحکہ خیز بن جائیں یا مسخرہ پن اختیار کر لیں تو آپ کی عوامی پذیرائی یقینی ہو گی۔ اس رجحان نے کئی بے سروں کو گلوکار، بھانڈوں کو اداکار، پاگلوں کو دانشور اور اخلاق باختہ افراد کو مقرر بنا دیا ہے۔ عامیانہ پن اس حد تک پھیل چکا ہے کہ کئی پروڈکشن کے ادارے اپنا معیار کم کرنے پر مجبور ہیں۔
سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی اثرات پر ہمارے ہاں بہت بحث کی جاتی ہے ہم اس کے معیاری اور ضروری استعمال کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ سوشل میڈیائی فنکاروں سے کوئی ہم رنجش نہیں رکھتے بلکہ سستی شہرت کے حربوں اور سطحی یا گھٹیا قسم کے کنٹنٹ کی پیداوار اور اس پر وقت گزاری کے خلاف ضرور ہیں۔ سوشل میڈیا کا استعمال تو ایک جانب ہے اور اس کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے کے لیے کئی سروے کیے گئے اور تحقیق بھی کی گئی۔ ایک تحقیق کے مطابق 2022 کے آغاز میں پاکستان میں فعال سوشل میڈیا صارفین کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹاگرام سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ ایک مطالعے کے مطابق، 90.8% شرکا سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، جن میں سے 74% واٹس ایپ، 22.8% فیس بک اور 3.2% انسٹاگرام استعمال کرتے ہیں۔ بعض تحقیقات مختلف اعدادو شمار
بھی پیش کرتی ہیں۔ ان میں سوشل میڈیا کے استعمال کی نوعیت پر بات نہیں کی گئی۔ زیادہ تر افراد کی توجہ انٹرنیٹ کی طرف ہے اور انٹرٹینمنٹ کے نام پر سستا اور سطحی مواد سامنے آ رہا ہے۔ مسخرے ہیرو بن رہے ہیں اور مسخرہ پن نوجوانوں کے وقت کا بڑا حصہ کھا رہا ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ سوشل میڈیا کی آزادی کے بعد تخلیقی رجحانات دیکھنے میں آتے، ہر شعبے خصوصاً ادب، شاعری، ڈرامہ، ڈاکومینٹری، تجزیے، تبصرے، تنقید اور تفریح کے جدید اور معیاری کام سامنے آتے۔ سوشل میڈیا نہایت با صلاحیت لوگوں کو آگے لانے کا سبب بنا اور معاشرے کا تخلیقی معیار اور بلند ہوتا جاتا۔ لیکن موجود صورت ذوق کی گراوٹ ہے ساتھ ساتھ عوام میں تخلیقی صلاحیتوں کی کمی کا باعث بھی بن رہی ہے۔ اب ایک اور المیہ سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات کی تیزی سے ترسیل کے ساتھ غلط معلومات کا پھیلاؤ بھی ہے۔ ایک سروے کے مطابق، 70% افراد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غلط معلومات پھیلانے کے لیے سب سے زیادہ فیس بک کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے، اور اس کے معیاری استعمال کی توجہ کرنا بہت ضروری ہے۔
ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے، اور اس کے معیاری استعمال کی توجہ کرنا بہت ضروری ہے۔