اسرائیل نے اونراسے تعلقات منقطع کر لیے
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
تل ابیب (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 31 جنوری2025ء)اسرائیل فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوامِ متحدہ کی ایجنسی سے تعلقات منقطع کر دے گا جس سے غزہ میں 15 ماہ کی جنگ کے بعد اس کی اہم خدمات کی فراہمی میں تعطل پیدا ہونے کا امکان ہے۔انروا کے اسرائیلی سرزمین پر کام کرنے پر پابندی ہو گی اور اس کے اور اسرائیلی حکام کے درمیان رابطہ بھی ممنوع ہو گا۔
غیرملکی خبرساں ادارے کے مطابق اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اورین مارمورسٹین نے پابندی سے قبل سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، انسانی امداد انروا کے اور انروا انسانی امداد کے برابر نہیں ہے۔ انروا حماس کی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے متاثرہ تنظیم کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 30 جنوری سے اور اسرائیلی قانون کے مطابق اسرائیل کا انروا سے کوئی رابطہ نہیں ہو گا۔(جاری ہے)
حکومت کے ترجمان ڈیوڈ مینسر نے صحافیوں کو بتایاکہ انروا میں حماس کے کارکنان سرایت کر گئے ہیں۔ اور مزید کہا، اگر کوئی ریاست انروا کی اعانت کرتی ہے تو وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کرتی ہے۔مینسر نے کہا، انروا نے حماس کے 1,200 ارکان کو ملازم رکھا ہوا ہے جن میں دہشت گرد بھی شامل ہیں جنہوں نے سات اکتوبر کو قتل عام کیا۔ یہ امداد نہیں، یہ دہشت گردی کے لیے براہِ راست مالی مدد ہے۔ اسرائیل کی سپریم کورٹ نے فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیم عدالہ کی جانب سے انروا پر پابندی کے خلاف دائر درخواست مسترد کر دی۔عدالت نے نوٹ کیا کہ یہ قانون انروا کی سرگرمی کو صرف اسرائیل کی خودمختار سرزمین پر روکتا ہی لیکن یہودیہ سامریہ اور غزہ کی پٹی کے علاقوں میں اس طرح کی سرگرمی پر پابندی نہیں لگاتا۔ مغربی کنارے کا بائبل میں نام یہودیہ سامریہ ہے۔تاہم پابندی کا اطلاق اسرائیل سے منسلک مشرقی یروشلم پر ہوتا ہے جہاں انروا کا مغربی کنارے میں کارروائیوں کے لیے فیلڈ ہیڈ کوارٹر ہے۔فیصلے پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک بیان میں عدالت نے کہا، یہ قانون تباہ کن انسانی نتائج کو نظر انداز کرتے ہوئی نافذ العمل ہو گا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
اسرائیل اور ترکی کے درمیان لفظی جنگ حقیقی جنگ بن سکتی ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) ایک سینئر اسرائیلی حکومتی اہلکار نے خبردار کیا کہ ترکی شام میں ایک ''نو عثمانی ریاست‘‘ کے قیام کی کوشش کر رہا ہے اور اگر اس نے ''سرخ لکیر‘‘ کو عبور کیا تو اسرائیل کارروائی کرے گا۔
اس کے جواب میں ترک حکومتی اہلکاروں نے کہا ہے کہ غزہ، لبنان اور شام پر جاری اپنے فضائی حملوں کے ساتھ، اسرائیل کی ''بنیاد اور نسل پرست حکومت‘‘ جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کے ساتھ ''ہمارے خطے کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ‘‘ بن گئی ہے۔
عالمی برادری اسرائیلی حکومت کی غیر قانونی سرگرمیوں کے خاتمے کو یقینی بنائے، انقرہ
یہ تازہ ترین غیر سفارتی تبصرے گزشتہ ہفتے کے آخر میں اسرائیل کیشامپر دوبارہ بمباری کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔
(جاری ہے)
دسمبر 2024 ء میں شام کے آمر صدر بشار الاسد کی معزولی کے بعد، اسرائیل نے شام میں متعدد اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ شام کے نئے حکام، جو 14 سال کی تفرقہ انگیز خانہ جنگی کے بعد ملکی عوام کو متحد کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، کہتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کوئی تنازعہ نہیں چاہتے۔
اس کے باوجود اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ اسے شام میں بمباری پر مجبور کیا گیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ نئی حکومت اس کے خلاف پرانی حکومت کے ہتھیاروں کا استعمال نہ کرے۔
شامی مہاجرین ترکی میں ’سیاسی فٹ بال‘ کیسے بنے؟
ایک اسرائیلی اہلکار نے مقامی میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ شام پر گزشتہ ہفتے کے فضائی حملے مختلف تھے۔
ان کا مقصد ترکی کو ایک پیغام دینا تھا۔حملے کے اہداف کیا تھے؟
اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے حما میں ایک فوجی ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ حمص میں طیاس، حمص کے ایئربیس ٹی 4 اور دمشق میں سائنسی مطالعات اور تحقیقی مراکز کی برانچوں کو نشانہ بنایا۔
ترکی کی حکمت عملی کیا ہے؟
ترکی کئی مہینوں سے خاموشی سے شام کی نئی حکومت کے ساتھ دفاعی معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے۔
اس میں شامی فوجیوں کو تربیت دینا اور ان شامی ہوائی اڈوں کا استعمال کرنا شامل ہے، جن پر اسرائیل نے حملہ کیا۔ ترکی کا استدلال یہ ہے کہ ایران اور روس، جو کہ شام کی معزول حکومت کے سابق فوجی حامی رہے ہیں، نے شام میں جو خلا چھوڑ دیا ہے، وہ اسے پُر کرتے ہوئے شام میں استحکام لانے اور شدت پسند ''اسلامک اسٹیٹ‘‘ گروپ کے خلاف کارروائیاں کرنے میں مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ترکی، عراق، شام اور اردن کا داعش کے خلاف مشترکہ کارروائی کا فیصلہ
اسرائیل اسے کیسے دیکھ رہا ہے؟
اسرائیل کے دفاعی نامہ نگار رون بین یشائی نے مقامی آؤٹ لیٹ، Ynet نیوز کے لیے لکھا، ''مرکزی شام کے ہوائی اڈوں پر فضائی دفاعی نظام اور ریڈار متعارف کرانے کا ترکی کا ارادہ شام میں اسرائیل کی آزادی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔
ترکی کی شام میں موجودگی کی وجہ سے اسرائیل آزادانہ طور پر ایران کی طرف بڑھنے کے لیے شام کی فضائی حدود استعمال نہیں کر سکتا۔‘‘ اسد حکومت کے دور میں شام کی فضائی حدود کے استعمال پر زیادہ پابندیاں عائد تھیں۔دریں اثناء اسرائیلی میڈیا نے سکیورٹی بجٹ اور فورس کی تعمیر کا جائزہ لینے سے متعلق 'ناگل کمیشن‘ کی رپورٹ کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
یہ کمیشن اگست 2024 ء میں قائم مقام اسرائیلی سکیورٹی مشیر جیکب ناگل کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا، تاکہ اسرائیل کے مستقبل کے دفاعی بجٹ کے لیے سفارشات پیش کی جاسکیں۔ جنوری میں جب کمیشن کی رپورٹ جاری کی گئی تو اسرائیلی ذرائع نے کہا کہ اس نے ترکی کے ساتھ آنے والی جنگ سے انتباہ کیا ہے۔یورپی یونین کا ’ایئر برج‘ کے ذریعے شام کو امداد کی فراہمی کا اعلان
تاہم اسرائیل اور ترکی کے درمیان براہ راست تصادم کا امکان نہیں ہے۔
کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بات چیت اس ہفتے شروع ہوئی ہے کیونکہ اگر اسرائیل نے غلطی سے بھی ترک فوج کو نشانہ بنایا تو اس سے سنگین تنازعہ کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔اس بات کا امکان بھی نہیں ہے کہ اسرائیل کا اتحادی اور دیرینہ دوست امریکہ ترکی کے ساتھ تصادم کی منظوری دے گا۔
ادارت عاطف بلوچ