آرمی ایکٹ کی شق کالعدم قرار دی تو کلبھوشن کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا، جسٹس محمد علی مظہر
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
سپریم کورٹ آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہیں کہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ٹو کالعدم قرار دینے سے کلبھوشن یادو کیس میں ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس میں کہا کہ ملک کے ڈھائی صوبے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں، ٹو ڈی ون ٹو کے کالعدم ہونے پر ملزمان کا ٹرائل کیسے ہوگا؟
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جاری ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 8(3) اے اگر میرے کیس میں محرک ہے تو پھر کوئی بنیادی حقوق نہیں رہیں گے، میری استدعا بس یہ ہے کہ سویلینز ملٹری ٹرائل میں نہیں آتے، میں پورے آرمی ایکٹ کو بلکل بھی چیلینج نہیں کر رہا، جسٹس منیب نے بھی اپنے فیصلے میں اس چیز کا حوالہ دیا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ گزشتہ روز ہمیں قائل کیا گیا کہ ملٹری ٹرائل فئیر ٹرائل ہوتا ہے۔
دوران سماعت وکیل لطیف کھوسہ نے پھر سیٹ پر بیٹھے بیٹھے بولنے کی کوشش کی جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کھوسہ صاحب یہ نا کیجیے، آپ سینیر وکیل ہیں۔
وکیل خواجہ جواد احمد حسین نے کہا کہ وفاق کے دلائل اس سے مختلف ہیں، پہلے وہ کہہ رہے ہیں کہ 8(3) اے کی بنیاد پر آپ نہیں دیکھ سکتے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کوئی ایسا رائیٹ جو کنسسٹنٹ ہو وہ چیلنج ہو سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ٹو ون ڈی 1967 میں ایڈ ہوا ہے، ڈی کی حد تک اوریجنل تھا، 1952 سے 1967 سے اج تک یہ ایکٹ چلا رہا ہے، ایف بی علی کیس میں متنازع ہوا تھا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے وہ بھی ہو سکتا یے، آج کل ہم اس میں بھی آ گئے ہیں کہ کوئی سیاسی جماعت اس طرح کی حرکت کرے تو کیا ہونا چاہیے، گزشتہ روز میں نے مہران بیس، اور مختلف واقعات کا ذکر کیا تھا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ٹو ون ڈی ون کے تحت سویلینز آرمی ایکٹ کے انڈر آتے ہیں یا نہیں؟ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 9 مئی اور 16 دسمبر والے سویلینز میں کیا فرق ہے؟
خواجہ احمد حسین نے کہا کہ 16 دسمبر والے دہشتگردی کے واقعات میں ملوث تھے، ان کے ٹرائل کے لیے بعد میں ترمیم کرنا پڑی تھی پھر ان کے ٹرائل ہوئے تھے، عام سویلین ملٹری ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں، افواج پاکستان کے سول ملازمین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔
16 دسمبر اور 9 مئی والے سویلینز میں کیا فرق ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا ائیر بیسز پر حملہ کرنے پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملہ ہوا، 9 مئی کو احتجاج ہوا، دونوں واقعات کے سویلینز میں کیا فرق ہے؟
وکیل احمد حسین نے کہا کہ آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کا حملہ ہوا، اے پی ایس واقعہ کے بعد 21 ویں ترمیم کی گئی، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اے پی ایس میں سارے سویلین بچے مارے گئے۔
خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ہمارا مقدمہ آئین سے باہر نہیں ہے، 9 مئی والوں کا ٹرائل ہو لیکن ملٹری نہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اس میں کوئی دوسری رائے کہ آئین سے منافی قانون برقرار نہیں راہ سکتا۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے 9 مئی پر افواج پاکستان کا اعلامیے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس پی آر نے 9 مئی واقعہ پر 15 مئی کو اعلامیہ جاری کیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو اعلامیے پر اعتراض ہے؟ خواجہ جواد نے کہا کہ میرا اعلامیے پر کوئی اعتراض نہیں، اعلامیے میں کہا گیا 9 مئی پر پورے ادارہ میں دکھ اور درد پایا جاتا ہے، اعلامیہ میں کہا گیا کہ 9 مئی کے نا قابل تردید شواہد موجود ہیں، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کور کمانڈر اجلاس کے اعلامیہ کے بعد ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کیسے مل سکتا ہے؟ خود متاثرہ فرد شفاف ٹرائل نہیں دے سکتا؟
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کیس کی مثال موجود ہے جس میں صرف افواج پاکستان ہی متاثرہ نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ٹو کالعدم قرار دینے سے کلبھوشن یادو کیس میں ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا۔
وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کلبھوشن یادو پر بات نہیں کی گئی۔
ملک دشمن جاسوس کا ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہوگا،وکیل
جسٹس حسن اظہر نے استفسار کیا کہ اگر مستقل میں کوئی ملک دشمن جاسوس پکڑا جائے تو ٹرائل کہاں ہوگا؟ وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ملک دشمن جاسوس کا ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہوگا۔
جسٹس حسن اظہر نے وکیل احمد حسین کے جواب پر مسکرائے ہوئے ریمارکس میں کہا’اچھا جی’۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ عجیب بات ہے، قانون کی شق کالعدم بھی قرار دی جائے اور کہا جائے کہ اسپیشل ریمیڈی والوں کو استثنیٰ ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ مستقبل میں کیا افواج پاکستان آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی ٹو استعمال کر سکتی ہے؟ وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ مستقبل میں ٹو ون ڈی ٹو کا استعمال نہیں ہو سکے گا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے روز سننے میں آتا ہے کہ انتے جوان شہید ہو گئے، حملہ آور سویلیز ہوتے ہیں، آپ کے مطابق سویلیز کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں نہیں انسداد دہشتگردی عدالت میں ہونا چاہیے، ٹو ڈی ون ٹو کے کالعدم ہونے پر ملزمان کا ٹرائل کیسے ہو گا؟ اس وقت ملک کے ڈھائی صوبے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں، ملک میں مکتی باہنی کی تحریک نہیں حملہ آور سویلینز ہی ہیں۔
دہشتگردی روکنا انتظامیہ کا کام ہے، جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے دہشتگردی روکنا انتظامیہ کا کام ہے، ان کی ذمہ داری ہے کہ شواہد اکٹھے کرے، عدالت کے سامنے جب شواہد نہیں ہونگے تو فیصلے کیسے دیں گے؟ سو گنہگاروں کو چھوڑنے سے زیادہ ایک بے گناہ کو سزا دینا غلط ہے، ہم نے صرف فیصلہ کرنا ہے، انصاف اللہ ہی کر سکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں مزید کہا کہ میں خود دہشت گردی کا شکار ہوا، ہمارا ججز کا ایک قافلہ جا رہا تھا، 5 منٹ قبل بم دھماکا ہوا، خدانخواستہ اگر حملہ کامیاب ہوتا تو 6 ججز چلے جاتے، اگر ہماری عدالتوں کے سامنے شواہد نہیں ہوں گے تو ملزمان بری ہی ہوں گے، بغیر شواہد کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی، پھر کہتے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 130ویں نمبر پر ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے انسداد دہشتگردی عدالت ہو یا کوئی بھی عدالت، بہتری کے لیے اصلاحات ضروری ہوتی ہیں، یہاں کوئی گواہی دینے نہیں آتا، کسی کے سامنے قتل ہو جائے پھر بھی وہ گواہی نہیں دیتا، گواہان کو تحفظ نہیں دیا جاتا، قتل کیس میں 25،25 تاریخیں تو وکیل لے جاتا ہے اور مقدمہ ملتوی ہوتا رہتا ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا 21 ویں آئینی ترمیم 4 سال کے لیے ہوئی جس کے تحت خصوصی عدالتیں بنیں، بتائیں 21 ویں ترمیم کا کوئی فائدہ ہوا؟ عدالت نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت 3 فروری تک ملتوی کردی، پیر کو بھی سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: خواجہ احمد حسین نے کہا کہ وکیل خواجہ احمد حسین نے جسٹس امین الدین خان نے انسداد دہشتگردی عدالت جسٹس حسن اظہر رضوی نے جسٹس محمد علی مظہر نے جسٹس مسرت ہلالی نے نے ریمارکس دیے افواج پاکستان نہیں ہو سکے گا ملٹری ٹرائل ٹو ون ڈی ٹو ٹرائل نہیں آرمی ایکٹ جسٹس جمال کا ٹرائل کے ٹرائل میں کہا ایکٹ کا میں کیا کیس میں سکتا ہے ہیں کہ
پڑھیں:
ملٹری ٹرائل کیس: 9 مئی اور 16 دسمبر والے شہریوں میں کیا فرق ہے؟ آئینی بنچ
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئین سے منافی کوئی قانون برقرار نہیں رہ سکتا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کررہا ہے۔
سماعت کا آغاز ہوا تو سابق چیف جسٹس، جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عام سویلین ملٹری ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں، افواج پاکستان کے سول ملازمین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا ایئر بیسز پر حملہ کرنے پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آرمی پبلک سکول پر دہشت گرد انہ حملہ ہوا اور 9 مئی پر احتجاج ہوا دونوں واقعات کے سویلین میں کیا فرق ہے؟
9 مئی والوں کا ٹرائل ہو لیکن ملٹری نہیں: ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین
وکیل احمد حسین نے جواب دیا کہ آرمی پبلک سکول پر دہشت گردی کا حملہ ہوا، اے پی ایس واقعہ کے بعد 21 ویں ترمیم کی گئی جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ اے پی ایس میں سارے سویلین بچے مارے گئے ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ ہمارا مقدمہ آئین سے باہر نہیں ہے، 9 مئی والوں کا ٹرائل ہو لیکن ملٹری نہیں۔
آئینی بنچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ آئین سے منافی قانون برقرار نہیں رہ سکتا۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے 9 مئی پر افواج پاکستان کے اعلامیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس پی آر نے 9 مئی واقعہ پر 15 مئی کو اعلامیہ جاری کیا جس پر عدالت نےا ستفسار کیا کہ کیا آپ کو اعلامیہ پر اعتراض ہے؟
ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ میرا اعلامیہ پر کوئی اعتراض نہیں، اعلامیہ میں کہا گیا 9 مئی پر پورے ادارہ میں دکھ اور درد پایا جاتا ہے، 9 مئی کے نا قابل تردید شواہد موجود ہیں، کور کمانڈر اجلاس اعلامیہ کے بعد ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کیسے مل سکتا ہے؟ جو خود متاثرہ ہو وہ شفاف ٹرائل نہیں دے سکتا۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے سامنے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی مثال موجود ہے، کلبھوشن یادیو کیس میں صرف افواج پاکستان ہی متاثرہ نہیں ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ٹو کو کالعدم قرار دینے سے تو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو جیسے واقعات میں ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا۔
مستقبل میں کوئی ملک دشمن جاسوس پکڑا جائے تو اسکا ٹرائل کہاں ہوگا؟ جسٹس حسن اظہر رضوی
ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کلبھوشن یادیو پر بات نہیں کی گئی جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ مستقبل میں اگر کوئی ملک دشمن جاسوس پکڑا جائے تو اسکا ٹرائل کہاں ہوگا؟ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ اس کا ٹرائل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوگا۔
اس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اچھا جی، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے قانون کی شق کو کالعدم بھی قرار دیا جائے اور یہ بھی کہا جائے سپیشل ریمیڈی والوں کو استثناء ہے۔
وکیل جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ نے کہا کہ میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ مستقبل میں کیا افواج پاکستان آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی ٹو استعمال کر سکتی ہیں؟ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ یہ حقیقت ہے مستقبل میں ٹو ون ڈی ٹو کا استعمال نہیں ہو سکے گا، میں اپنے دلائل کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔
ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں پسند کا وکیل کرنے کی اجازت نہیں، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا آپ ملزمان کا مقدمہ یہاں پر لڑ رہے ہیں جو ہمارے سامنے نہیں۔
اس پر خواجہ احمد حسین نے کہا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں وکیل آرمی چیف کی اجازت سے ملتا ہے، آرمی چیف اجازت نہ دیں پسند کا وکیل نہیں ملتا، فیصلہ کوئی کرتا فیصلہ کو کنفرم دوسری اتھارٹی کرتی ہے، ایسے تو کنفرمنگ اتھارٹی ناٹ گلٹی کو گلٹی بھی کر سکتی ہے۔
ایف بی علی سمیت عدالتی فیصلوں سے کیسے انحراف کر سکتے ہیں؟: جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ ایف بی علی سمیت عدالتی فیصلوں سے کیسے انحراف کر سکتے ہیں؟ ایف بی علی کیس میں قانونی شقوں کو برقرار رکھا گیا، ایف بی علی فیصلے کی کئی عدالتوں میں توثیق کی گئی، 21 ویں ترمیم کا فیصلہ سترہ ججز کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سو گنہگاروں کو چھوڑنے سے زیادہ ایک بے گناہ کو سزا دینا غلط ہے، ہم نے صرف فیصلہ کرنا ہے، انصاف اللہ ہی کر سکتا ہے، میں خود دہشت گردی کا شکار ہوا، ہمارا ججز کا ایک قافلہ جا رہا تھا پانچ منٹ قبل بم دھماکا ہوا، خدانخواستہ اگر حملہ کامیاب ہوتا تو چھ ججز چلے جاتے، اگر ہماری عدالتوں کے سامنے شواہد نہیں ہونگے تو ملزمان بری ہی ہونگے، پھر کہا جائے گا عدلیہ کا نمبر 250 نمبر پر آگیا ۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ بغیر شواہد کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی، یہاں کوئی گواہی دینے نہیں آتا، کسی کے سامنے قتل ہو جائے پھر بھی وہ گواہی نہیں دیتا، گواہان کو تحفظ نہیں دیا جاتا، قتل کیس میں پچیس پچیس تاریخیں تو وکیل لے جاتا ہے اور مقدمہ ملتوی ہوتا رہتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ 21ویں آئینی ترمیم چار سال کیلئے ہوئی جس کے تحت خصوصی عدالتیں بنیں، بتائیں اکیسویں ترمیم کا کوئی فائدہ ہوا؟
بعدازاں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت سوموار تک ملتوی کردی، جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین سوموار کو بھی دلائل جاری رکھیں گے۔