سپریم کورٹ آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہیں کہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ٹو کالعدم قرار دینے سے کلبھوشن یادو کیس میں ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس میں کہا کہ ملک کے ڈھائی صوبے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں، ٹو ڈی ون ٹو کے کالعدم ہونے پر ملزمان کا ٹرائل کیسے ہوگا؟

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جاری ہے۔

جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 8(3) اے اگر میرے کیس میں محرک ہے تو پھر کوئی بنیادی حقوق نہیں رہیں گے، میری استدعا بس یہ ہے کہ سویلینز ملٹری ٹرائل میں نہیں آتے، میں پورے آرمی ایکٹ کو بلکل بھی چیلینج نہیں کر رہا، جسٹس منیب نے بھی اپنے فیصلے میں اس چیز کا حوالہ دیا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ گزشتہ روز ہمیں قائل کیا گیا کہ ملٹری ٹرائل فئیر ٹرائل ہوتا ہے۔

دوران سماعت وکیل لطیف کھوسہ نے پھر سیٹ پر بیٹھے بیٹھے بولنے کی کوشش کی جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کھوسہ صاحب یہ نا کیجیے، آپ سینیر وکیل ہیں۔

وکیل خواجہ جواد احمد حسین نے کہا کہ وفاق کے دلائل اس سے مختلف ہیں، پہلے وہ کہہ رہے ہیں کہ 8(3) اے کی بنیاد پر آپ نہیں دیکھ سکتے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کوئی ایسا رائیٹ جو کنسسٹنٹ ہو وہ چیلنج ہو سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ٹو ون ڈی 1967 میں ایڈ ہوا ہے، ڈی کی حد تک اوریجنل تھا، 1952 سے 1967 سے اج تک یہ ایکٹ چلا رہا ہے، ایف بی علی کیس میں متنازع ہوا تھا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے وہ بھی ہو سکتا یے، آج کل ہم اس میں بھی آ گئے ہیں کہ کوئی سیاسی جماعت اس طرح کی حرکت کرے تو کیا ہونا چاہیے، گزشتہ روز میں نے مہران بیس، اور مختلف واقعات کا ذکر کیا تھا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ٹو ون ڈی ون کے تحت سویلینز آرمی ایکٹ کے انڈر آتے ہیں یا نہیں؟ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 9 مئی اور 16 دسمبر والے سویلینز میں کیا فرق ہے؟

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ 16 دسمبر والے دہشتگردی کے واقعات میں ملوث تھے، ان کے ٹرائل کے لیے بعد میں ترمیم کرنا پڑی تھی پھر ان کے ٹرائل ہوئے تھے، عام سویلین ملٹری ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں، افواج پاکستان کے سول ملازمین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔

16 دسمبر اور 9 مئی والے سویلینز میں کیا فرق ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا ائیر بیسز پر حملہ کرنے پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملہ ہوا، 9 مئی کو احتجاج ہوا، دونوں واقعات کے سویلینز میں کیا فرق ہے؟

وکیل احمد حسین نے کہا کہ آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کا حملہ ہوا، اے پی ایس واقعہ کے بعد 21 ویں ترمیم کی گئی، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اے پی ایس میں سارے سویلین بچے مارے گئے۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ہمارا مقدمہ آئین سے باہر نہیں ہے، 9 مئی والوں کا ٹرائل ہو لیکن ملٹری نہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اس میں کوئی دوسری رائے کہ آئین سے منافی قانون برقرار نہیں راہ سکتا۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے 9 مئی پر افواج پاکستان کا اعلامیے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس پی آر نے 9 مئی واقعہ پر 15 مئی کو اعلامیہ جاری کیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو اعلامیے پر اعتراض ہے؟ خواجہ جواد نے کہا کہ میرا اعلامیے پر کوئی اعتراض نہیں، اعلامیے میں کہا گیا 9 مئی پر پورے ادارہ میں دکھ اور درد پایا جاتا ہے، اعلامیہ میں کہا گیا کہ 9 مئی کے نا قابل تردید شواہد موجود ہیں، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کور کمانڈر اجلاس کے اعلامیہ کے بعد ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کیسے مل سکتا ہے؟ خود متاثرہ فرد شفاف ٹرائل نہیں دے سکتا؟

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کیس کی مثال موجود ہے جس میں صرف افواج پاکستان ہی متاثرہ نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ٹو کالعدم قرار دینے سے کلبھوشن یادو کیس میں ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا۔

وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کلبھوشن یادو پر بات نہیں کی گئی۔

ملک دشمن جاسوس کا ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہوگا،وکیل
جسٹس حسن اظہر نے استفسار کیا کہ اگر مستقل میں کوئی ملک دشمن جاسوس پکڑا جائے تو ٹرائل کہاں ہوگا؟ وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ملک دشمن جاسوس کا ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہوگا۔

جسٹس حسن اظہر نے وکیل احمد حسین کے جواب پر مسکرائے ہوئے ریمارکس میں کہا’اچھا جی’۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ عجیب بات ہے، قانون کی شق کالعدم بھی قرار دی جائے اور کہا جائے کہ اسپیشل ریمیڈی والوں کو استثنیٰ ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ مستقبل میں کیا افواج پاکستان آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی ٹو استعمال کر سکتی ہے؟ وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ مستقبل میں ٹو ون ڈی ٹو کا استعمال نہیں ہو سکے گا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے روز سننے میں آتا ہے کہ انتے جوان شہید ہو گئے، حملہ آور سویلیز ہوتے ہیں، آپ کے مطابق سویلیز کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں نہیں انسداد دہشتگردی عدالت میں ہونا چاہیے، ٹو ڈی ون ٹو کے کالعدم ہونے پر ملزمان کا ٹرائل کیسے ہو گا؟ اس وقت ملک کے ڈھائی صوبے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں، ملک میں مکتی باہنی کی تحریک نہیں حملہ آور سویلینز ہی ہیں۔

دہشتگردی روکنا انتظامیہ کا کام ہے، جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے دہشتگردی روکنا انتظامیہ کا کام ہے، ان کی ذمہ داری ہے کہ شواہد اکٹھے کرے، عدالت کے سامنے جب شواہد نہیں ہونگے تو فیصلے کیسے دیں گے؟ سو گنہگاروں کو چھوڑنے سے زیادہ ایک بے گناہ کو سزا دینا غلط ہے، ہم نے صرف فیصلہ کرنا ہے، انصاف اللہ ہی کر سکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں مزید کہا کہ میں خود دہشت گردی کا شکار ہوا، ہمارا ججز کا ایک قافلہ جا رہا تھا، 5 منٹ قبل بم دھماکا ہوا، خدانخواستہ اگر حملہ کامیاب ہوتا تو 6 ججز چلے جاتے، اگر ہماری عدالتوں کے سامنے شواہد نہیں ہوں گے تو ملزمان بری ہی ہوں گے، بغیر شواہد کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی، پھر کہتے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 130ویں نمبر پر ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے انسداد دہشتگردی عدالت ہو یا کوئی بھی عدالت، بہتری کے لیے اصلاحات ضروری ہوتی ہیں، یہاں کوئی گواہی دینے نہیں آتا، کسی کے سامنے قتل ہو جائے پھر بھی وہ گواہی نہیں دیتا، گواہان کو تحفظ نہیں دیا جاتا، قتل کیس میں 25،25 تاریخیں تو وکیل لے جاتا ہے اور مقدمہ ملتوی ہوتا رہتا ہے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا 21 ویں آئینی ترمیم 4 سال کے لیے ہوئی جس کے تحت خصوصی عدالتیں بنیں، بتائیں 21 ویں ترمیم کا کوئی فائدہ ہوا؟ عدالت نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت 3 فروری تک ملتوی کردی، پیر کو بھی سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: خواجہ احمد حسین نے کہا کہ وکیل خواجہ احمد حسین نے جسٹس امین الدین خان نے انسداد دہشتگردی عدالت جسٹس حسن اظہر رضوی نے جسٹس محمد علی مظہر نے جسٹس مسرت ہلالی نے نے ریمارکس دیے افواج پاکستان نہیں ہو سکے گا ملٹری ٹرائل ٹو ون ڈی ٹو ٹرائل نہیں آرمی ایکٹ جسٹس جمال کا ٹرائل کے ٹرائل میں کہا ایکٹ کا میں کیا کیس میں سکتا ہے ہیں کہ

پڑھیں:

9 مئی حملوں کے مقدمات  4 ماہ میں نمٹانے کا حکم،  سپریم کورٹ نےہر پندرہ دن بعد رپورٹ مانگ لی

سٹی42:  سپریم کورٹ نے 9 مئی  2023 کو ریاست کی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر حملوں سمیت تمام متعلقہ مقدمات کا ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے ریاستی تنصیبات پر حملہ کے ملزم کو بیماری کی وجہ سے رعایت دینے سے انکار کر دیا۔

سپریم کورٹ میں 9 مئی کو ریاستی تنصیبات پر حملوں کے کیس میں ضمانت منسوخی کے  کیس کی سماعت  پیر کے روز ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

حکومت کا مقصد پائیدار سرمایہ کاری پر مبنی، برآمدات کو فروغ دینے والی اقتصادی ترقی کو یقینی بنانا ہے؛ وزیر خزانہ 

ملزم فواد چوہدری نے مؤقف اپنایا  کہ میرا کیس سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوا۔  چیف جسٹس  یحیٰ آفدیدی نے ہدایت کی  کہ جو کیسز رہ گئے ہیں وہ آئندہ دو روز میں مقرر کر رہے ہیں۔

فواد چوہدری  نے کہا، انسداد دہشت گردی کی عدالتیں ہمارے لیے ملٹری کورٹس بن چکی ہیں، سپریم کورٹ سے کوئی لیٹر بھی جاری ہوا ہے۔

سپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے حقائق کی وضاحت کی  کہ ایسا کوئی لیٹر جاری نہیں ہوا۔ 

گوجر خان میں شادی کا کھانا کھانے سے سینکڑوں افراد کی حالت غیر

 نامزد ملزم رضوان مصطفیٰ کے وکیل ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے اور استدلال کیا کہ 143 گواہ ہیں،چار ماہ میں ٹرائل مکمل نہیں ہوسکے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ زرا اونچی آواز میں پڑھیں، قانون کیا کہتا ہے، ایک ماہ اضافی دیکر چار ماہ کا وقت اسی لیے دیا تاکہ ٹرائل مکمل ہو جائے۔

لاہور میں جناح ہاؤس اور کور کماندر کے گھر پر حملہ کی ملزمہ خدیجہ شاہ کے وکیل سمیر کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے اور میری مؤقف اپنایا کہ موکلہ تین کیسز میں نامزد ہے، عدالت آبزرویشن دے مزید کیسز میں نامزد نہ کیا جائے۔ ہمارے حقوق متاثر نہ ہوں۔

لاہور272 ٹریفک حادثات، ایک شخص جاں بحق، 356 افراد زخمی 

چیف جسٹس پاکستان نے ملزمہ خدیجہ شاہ کے وکیل سے  کہا بے فکر رہیں آپ کے حقوق متاثر نہیں ہونگے، ہم آرڈر میں خصوصی طور پر لکھ دیں گے۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ تمام کیسز میں یہ آبزرویشن دے دیں، بعض کیسز میں چالان کی کاپیاں نہیں فراہم کی جاتیں،  چیف جسٹس پاکستان نے سپیشل پراسیکیوٹر کو ہدایت کہ تمام ریکارڈ فراہم کیا جانا چاہیے۔

ریاستی تنصیبات کے ملزم  خضر عباس کی میڈیکل گراؤنڈ پر ضمانت کی درخواست کی بھی اسی موقع پر  سماعت ہوئی۔ ملزم کے وکیل  نے کہا کہ میرے موکل کی عمر بیس سال ہے،  وہ بیمار ہے، اس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اگر بیماری کی وجہ سے رعایت کریں گے تو جیل میں موجود تمام بیمار رہا ہو جائیں گے۔

میڈیکل کالجزمیں پاسنگ مارکس اورحاضری کی شرح پھرتبدیل

عدالت نے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو چار ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے اور متعلقہ ہائی کورٹس کو ہر پندرہ روز میں عمل درآمد رپورٹس بھی پیش کرنے کی ہدایت کی اورنوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت پرسوں تک ملتوی کردی۔

Waseem Azmet

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ:آرمی ایکٹ میں بھی کچھ بنیادی حقوق دیے گئے ہیں، جسٹس محمد علی مظہر
  • سپریم کورٹ: سپر ٹیکس کا ایک روپیہ بھی بے گھر افراد کی بحالی پر خرچ نہیں ہوا، وکیل مخدوم علی خان کا دعویٰ
  • 9 مئی حملوں کے مقدمات  4 ماہ میں نمٹانے کا حکم،  سپریم کورٹ نےہر پندرہ دن بعد رپورٹ مانگ لی
  • سپریم کورٹ نے 9 مئی سے متعلق مقدمات کا ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کردی
  • 9 مئی کیسز، اے ٹی سی کو 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت
  • ججز تبادلہ، سنیارٹی کیس: سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے 3 ججز کو نوٹس جاری کردیے
  • صدر مملکت کے پاس ججز کے تبادلوں کا اختیار ہے، جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس
  • جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین اور جسٹس آصف سعید کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد
  • اسلام آباد ہائیکورٹ ججز سینیارٹی کیس: جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین اور جسٹس آصف سعید کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد
  • کراچی: سولجز بازار سے کالعدم تنظیم کا دہشت گرد گرفتار