حکومت آزادی رائے پر قدغن لگا رہی، پیکا ایکٹ مسترد کرتے ہیں: عمر ایوب
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
ویب ڈیسک: اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی و رہنما تحریک انصاف عمر ایوب نے کہا ہے کہ حکومت آزادی اظہار رائے پر قدغن لگا رہی ہے، پیکا ایکٹ کو مسترد کرتے ہیں۔
سرگودھا میں عدالت پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی عمر ایوب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آزادی کے صحافت یا آزادی کی بات کرنے کا معاملہ ختم ہو چکا ہے، میڈیا نمائندگان نہ کھل کر لکھ سکتے ہیں نہ ہی کھل کر بات کر سکتے ہیں ، پیکا ایکٹ کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں ، عوام اور میڈیا نمائندگان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
لاہور سمیت پنجاب میں قومی انسداد پولیو مہم کا آغاز 3فروری سے ہوگا
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوا ، تحریک انصاف کا امریکا میں اقتدار کی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی کوئی امید ہے، پیپلز پارٹی سندھ کے لوگوں کی لاشوں کا سودا کر کے پانی تقسیم کرنے پر راضی ہو جائے گی ۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ موجودہ سیاسی بحران کے ذمہ دار سکندر سلطان راجہ ہیں، ہم عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں لیکن ہمارا قصور کیا ہے؟ یہ ہمیں معلوم نہیں ، پارلیمانی کمیٹی بنانے کے لیے میرے خط کا ابھی تک وزیراعظم کی طرف سے جواب نہیں دیا گیا ،یہ معاملے کو لٹکانا چاہتے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، 8 فروری کو صوابی میں بھرپور جلسہ ہوگا۔
وکالت کے لائسنس حاصل کرنے کے خواہشمند طلبا کیلئے بار ووکیشنل کورس لازمی
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
آزادئ مذہب اور آزادئ رائے کا مغربی فلسفہ
مذہبی آزادی اور مذہبی مساوات کے حوالے سے ایک بات تو یہ کی تھی کہ وہ مذہب کو معاشرے سے لاتعلق قرار دیتے ہیں۔ بنیادی اور اصولی جھگڑا یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مذہب کا معاملہ شخصی ہے اور عقائد، عبادات، اخلاقیات تک مذہب محدود ہے۔ معاشرہ، سوسائٹی، سماج، قانون، عدالت اور سیاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب ہم مذہب کے معاشرتی احکام کی بات کرتے ہیں، مثلاً سیاست میں نمائندگی، یا عورت کی حکمرانی، یا حاکم کے لیے مسلمان ہونے کی شرط کی بات کرتے ہیں، یا ہم تجارت میں سودی بینکاری کی بات کرتے ہیں، یا جب ہم عدالت میں حدود شرعیہ کے نفاذ کی بات کرتے ہیں، یہ سارے مذہبی حوالے ہیں، تو ان حوالوں کو مغرب نہیں مانتا۔ اس کا کہنا ہے کہ معاشرے کے اجتماعی معاملات سوسائٹی نے خود طے کرنے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ذریعے طے کرے یا جو بھی اتھارٹی ہو وہ طے کرے۔ مذہب کی بنیاد پر معاشرے کے اجتماعی معاملات طے نہیں ہونے چاہئیں۔ جبکہ ہمارے تو سارے معاملات ہی مذہب کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں۔ تجارت، معیشت، سیاست، عدالت، سب معاملات میں ہم قرآن و حدیث سے رہنمائی لیتے ہیں۔ یہ ہمارا مذہبی حوالے سے مغرب کے ساتھ تنازعہ ہے اور ہم جہاں بھی مذہب کے حوالے سے بات کریں گے تو ان کا اعتراض ہوگا کہ یہاں مذہب کا حوالہ درست نہیں ہے۔
اس کی ایک چھوٹی سی مثال ذکر کرتا ہوں۔ چھوٹے چھوٹے واقعات ہوتے ہیں جن سے نفسیات کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابھی دو سال پہلے کی بات ہے کہ امریکہ کی ایک لوکل کونسل میں ایک مسلمان رکن بن گیا تو اس نے کہا میں تو کارروائی کا آغاز بسم اللہ سے کروں گا، قرآن پاک کی تلاوت سے کروں گا۔ دوسروں نے کہا کہ ہمارا بھی حق ہے کہ ہم بائبل سے اور گاڈ سے اور جیسس سے آغاز کیا کریں گے۔ اس پر اتفاق رائے سے فیصلہ ہو گیا کہ ٹھیک ہے، جس دن یہ شروع کریں گے بائبل سے شروع کریں گے، اور جس دن مسلمان شروع کریں گے وہ قرآن کی تلاوت سے شروع کریں گے۔ لیکن یہ فیصلہ چیلنج ہو گیا کہ یہ چونکہ مذہب کے حوالے سے ہے، اس لیے یہ ملکی قوانین کے خلاف ہے۔ یہ ان کی حساسیت کی بات کر رہا ہوں کہ معاشرتی اور اجتماعی معاملات میں ایک چھوٹی سی بات بھی ان کے ہاں قابل برداشت نہیں ہے جو مذہب کے حوالے سے کی جائے۔ یہ مغرب کے ساتھ ہمارا دوسرا بنیادی تنازعہ ہے۔
ہمارا تیسرا تنازعہ آزادی رائے کے حوالے سے ہے۔ آزادئ رائے کی حدود کیا ہیں اور اس کا کہاں کہاں کیا کیا دخل ہے؟ انسانی حقوق کے چارٹر میں لکھا ہوا ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے قائم کرنے کا، رائے تک رسائی حاصل کرنے کا، رائے کو لوگوں تک پہنچانے کا، رائے کے لیے لابنگ کرنے کا، اور اس کی لوگوں کے سامنے وضاحت کرنے کا حق حاصل ہے۔ آپ رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن رائے کے حق سے اختلاف نہیں کر سکتے۔ ان کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس آدمی کی رائے ٹھیک نہیں ہے، لیکن یہ بات کہ اسے رائے دینے کا حق نہیں ہے، یہ بات آپ کسی بھی معاملے میں نہیں کہہ سکتے۔ یہ آزادئ رائے کا ایک مستقل ٹائٹل ہے۔ اس پر ہمارا بڑا تنازعہ ہوتا ہے۔
جب ہم مذہب کی توہین، انبیاء کرامؑ، مذہبی کتابوں، یا مذہبی شخصیات کی توہین کو جرم قرار دیتے ہیں اور ان پر سزا کی بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ رائے سے اختلاف کریں، لیکن کسی کو رائے کے حق سے محروم نہ کریں۔ اگر کسی کی رائے قرآن کے خلاف ہو گئی ہے تو اس کی اپنی رائے ہے، اسے اس کا اظہار کرنے دیں۔ اگر کسی کی رائے اللہ کے خلاف یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو گئی ہے تو اسے کہنے دیں۔ آپ کسی کو رائے اختیار کرنے سے، رائے کا اظہار کرنے سے روکنے کا حق نہیں رکھتے۔ یہ ہے بنیادی تنازعہ۔ اس پر جو ہمارے پریکٹیکل معاملات اور عملی مسائل ہوئے ہیں، ان میں سے وہ مقدمات جو پچھلے دس پندرہ سال میں میرے سامنے ہوئے، میں مغرب کا موقف سمجھانے کے لیے دو تین بیان کر دیتا ہوں۔
آپ جانتے ہیں کہ سلمان رشدی انڈین شہری ہے، اب بھی زندہ ہے، برطانیہ میں رہتا ہے، اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتا ہے۔ اس نے ایک کتاب لکھی ’’دی سیٹینک ورسز‘‘ (شیطانی آیات) اس کا اردو ترجمہ بھی ہوا۔ یہ ناول طرز کی کتاب ہے جس میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور کو، وحی کے نزول کو، جبریلؑ کی آمد کے واقعہ کو ناول کے انداز میں بیان کیا ہے۔ اور اس میں اس نے جناب نبی کریمؐ، حضرت جبریلؑ کے حوالے سے بھی اور قرآنی آیات کے حوالے سے بھی بہت توہین آمیز لہجہ اختیار کیا ہے۔ آپ اس کتاب کے ٹائٹل ’’شیطانی آیات ‘‘ سے ہی اس کا اندازہ کر لیں۔ لہجہ اس قدر توہین آمیز ہے کہ میں اپنی بات آپ سے کرتا ہوں کہ میں اس کے اردو ترجمے کا انتظار کرتا رہا۔ جب مجھے میسر آیا تو میں تین چار صفحے سے زیادہ نہیں پڑھ سکا۔ اسے پڑھنے کی میری ہمت نہیں پڑی، حالانکہ میں بڑا ٹھنڈا بندہ شمار ہوتا ہوں کہ سنتا بھی ہوں اور برداشت کرتا ہوں۔
چنانچہ اس پر احتجاج ہوا، لندن میں بہت بڑی ریلی نکالی گئی۔ دنیا بھر میں احتجاج ہوا، پاکستان میں بھی ہوا، اسلام آباد میں تو فوج اور مظاہرین کی لڑائی ہوئی۔ مطالبہ یہ تھا کہ کتاب پر پابندی لگائی جائے اور اس کو توہین رسالت کے الزام میں گرفتار کیا جائے۔
(جاری ہے)