رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ میں اپنی جان دے سکتا ہوں لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس سے کبھی سمجھوتہ نہیں کرسکتا ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین نیشنل کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی نے کہا کہ اروند کیجریوال اور مودی میں کوئی فرق نہیں، دونوں ہی جھوٹے وعدے کرتے ہیں اور عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جیسے نریندر مودی نے ہر ہندوستانی کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپے ڈالنے کا وعدہ کیا تھا جو آج تک پورا نہیں ہوا، اسی طرح کیجریوال نے بھی دہلی کے عوام سے کئی جھوٹے وعدے کئے۔ انہوں نے کہا تھا کہ جمنا کا پانی اتنا صاف کریں گے کہ خود اس میں نہائیں گے اور پانی پی سکیں گے، لیکن آج بھی جمنا کی حالت بدتر ہے اور عوام کو آلودہ پانی پینے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ راہل گاندھی نے آج دہلی کے بوانا اسمبلی حلقے میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب میں اروند کیجریوال کی حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کیا۔

راہل گاندھی نے کہا کہ جب بی جے پی کے لوگوں نے اقلیتوں کے خلاف تشدد کیا تب کیجریوال کہاں تھے۔ دہلی میں خراب پانی کی سپلائی کا معاملہ اٹھاتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ دہلی میں پانی کا مسئلہ اہم ہے، لوگوں کو مہنگا پانی خرید کر پینا پڑتا ہے لیکن میڈیا اس کے بارے میں کبھی نہیں دکھاتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کا میڈیا عوام کی آواز اٹھاتا ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا "آپ کو ٹی وی پر امبانی کی شادی نظر آ جائے گی، لیکن کسانوں، مزدوروں و بے روزگاروں کے مسائل نظر نہیں آئیں گے، ٹی وی میں 24 گھنٹے بس نریندر مودی کا چہرہ اور نفرت کی باتیں دیکھنے کو ملیں گی"۔

انہوں نے اس بات کو دہرایا کہ اس وقت بھارت میں نظریات کی لڑائی چل رہی ہے جس میں کانگریس کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں سبھی لوگ یکساں ہونے چاہئیں، ہر مذہب، ذات اور زبان کا احترام ہونا چاہیئے۔ کانگریس رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی نے بادلی میں بھی ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کیا۔ اس دوران انہوں نے کہا کہ نریندر مودی اور اروند کیجریوال میں کوئی فرق نہیں ہے، دونوں ریزرویشن اور دلت مخالف ہیں، دونوں ہی اقتدار کی طاقت صرف اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتے ہیں۔ راہل گاندھی نے مزید کہا کہ "میں اپنی جان دے سکتا ہوں لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس سے کبھی سمجھوتہ نہیں کر سکتا ہوں"۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اروند کیجریوال راہل گاندھی نے انہوں نے کہا نے کہا کہ

پڑھیں:

احتساب کو مئوثر بنانے کے تقاضے

پاکستان میں دانشوروں کاایک طبقہ ایسا پیدا ہوچکا ہے جنہیں ملک میں ہر چیز خراب نظر آتی ہے یہ سچ ہے کہ ہر ادارے میں برائیاں بھی ہوتی ہیں اور اچھائیاں بھی لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ بڑی بڑی اچھائیوں کونظر انداز کیاجاتا ہے جبکہ معمولی برائیوں کو بڑھاچڑھا کر اجاگر کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے بیشتر اداروں میں کرپشن ایک ناسور کی طرح پھیلتا رہا چونکہ سبھی اس سے مستفیض ہو رہے تھے اس لیے احتساب کی کوئی روایت نہ پڑسکی۔ رشوت کو کنٹرول کرنے کے لیے اینٹی کرپشن کا محکمہ قائم کیاگیاابتدائی برسوں میں اس محکمے کی کارکردگی بڑی اچھی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ کالی بھیڑوں نے اس محکمے کی کارکردگی کو بری طرح سے متاثر کیایوں اس کی افادیت کم ہوتی چلی گئی۔ اور یہ کہاوت مشہور ہوگئی لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا۔ جب رشوت کی بیماری اعلیٰ حکام تک پھیل گئی تو ایف آئی اے کومیدان میں اتارا گیا۔ جب کرپشن ایوانوں تک جاپہنچی اور زبان خلق بننا شروع ہوئی تو صاحب اقتدار لوگوں کو عوام کومطمئن کرنے کے لیے مجبوراً احتساب کاادارہ قائم کرنا پڑا۔ احتساب کا عمل تو شروع ہوگیا لیکن پہلے ہی دن سے اسے سیاسی دشمنی تک محدود کردیاگیا اس لیے اس پر سارے ملک میں کھل کر تنقید ہوتی رہی جب فوجی حکومت آئی تو انہوں نے قومی احتساب بیوروتشکیل دیا جسے حرف عام میں نیب کہا جاتا ہے نیب کو یہ الزام دیا جاتا رہا ہے کہ وہ بھی ایک حد تک جانبدار ہے اور ان پر بھی تنقید ہوتی رہی کیونکہ کچھ بااثر افراد جن کے خلاف نیب تحقیقات کررہاتھا وہ حکومت کا ساتھ دے کر اپنے خلاف تحقیقات رکوانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اصل میں یہ لوگ ضمانتوں پررہا ہوئے ہیں جس طرح سے ماضی میں لوگ جیل میں بند ہونے کے باوجود الیکشن میں حصہ لے کر کامیاب ہوتے رہے ہیں اور بعض حالتوں میں وزیر بھی بنے اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون میں سقم ہے اور کمزوری ہے یہ کام تو الیکشن کمیشن کا تھا کہ وہ ایسے لوگوں کو الیکشن کے لیے نااہل قرار دیتا اس حوالے سے نیب پر تنقید بلاجواز ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ نیب نے شروع میں بغیر ہوم ورک کے اندھا دھند گرفتاریاں کیں جس سے ملک میں خوف وہراس کی سی فضا پیدا ہوگئی ،مگر آج نیب صاف وشفاف ادارے میں تبدیل ہوچکاہے۔ رہا سوال نیب کے احتساب کا تو بے شمار ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی گئی ہے جو نیب میں ہوتے ہوئے گڑبڑ کی کوشش کررہے تھے۔ نیب نے اپنے اندر کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کرکے خود احتساب کی مثال قائم کی ہے جو لائق تحسین ہے۔ نیب کے حوالے سے ایک عام تاثر یہ ہے کہ سیاستدانوں نے بڑی کرپشن کی ہے۔ نیب سے جب رابطہ کیا گیاتو انہوں نے کہا یہ تاثر صحیح نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ماسوائے چند سیاست دانوں کے بیشتر کاتعلق بیوروکریسی اور دوسرے لوگوں سے ہے۔ یاد رہے 15کروڑ عوام کا رابطہ بیوروکریسی سے ہی پڑتا ہے۔ سیاستدان تووٹ لے کرگم ہوجاتے ہیں۔ ایک عام آدمی کرپشن سے نجات چاہتا ہے اسے اور کچھ نہیں چاہیے وہ کرپٹ مافیا کے درمیان چکی کی طرح پس کررہ جاتا ہے اوراس کی کوئی داد رسی نہیں ہوتی اس بات میںکوئی شک نہیں کہ اوپر کی سطح پر کرپشن کافی حد تک کنٹرول کی جاچکی ہے اس کاسہرا بھی نیب کوہی جاتا ہے کیونکہ کک بیکس لینے والوں کاحشر عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح انہیں کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا جاتا ہے لیکن یہ کافی نہیں نیب کو چاہیے کہ وہ اپنا دائر ہ کار وسیع کرکے تحصیل لیول سے شروع کرکے اوپر تک جائیں کیونکہ عام آدمی کا واسطہ اعلیٰ افسران سے کم ہی پڑتا ہے۔ جبکہ بسااوقات چھوٹے سرکاری افسران سے پڑتا ہے۔ اس حوالے سے عوام پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر سطح پرجہاں بھی ان کو کرپشن یا کرپٹ افسر نظر آئے اس کی نشاندہی کریں۔ نشاندہی کرتے وقت صرف اتنا کہہ دینا کہ فلاں شخص بڑا کرپٹ ہے اس نے بڑا مال بنایا ہے اس سے کوئی بات نہیں بنتی نشاندہی کامطلب یہ ہوتا ہے کہ کرپشن کی زیادہ سے زیادہ تفصیلات سامنے لائی جائیں ۔ پلاٹ کتنے ہیں‘ مکان کتنے ہیں‘ گاڑیاں کتنی ہیں‘ بے نام کھاتے کتنے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ نیب اس طرح کی اطلاعات دینے والوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ احتساب کس کا ہوکیااس زمرے میں صرف وزیراعظم ‘ وزرائے اعلیٰ ‘ وفاقی وصوبائی وزرا‘ اراکین سینیٹ‘ قومی وصوبائی اسمبلی اور اعلیٰ سرکاری ونیم سرکاری عہدیدار ہی آئیں گے یابات اس سے آگے بڑھے گی کیا بدعنوانی صرف یہ ہے کہ مال بنایا جائے ۔ رشتہ داروں اور دوستوں کو نوازا جائے۔ بے شک یہ سب بدعنوانی ہے لیکن ہم یہاں انٹلکچوئل کرپشن کاذکر کرنا چاہتے ہیں جس سے جہاں ایک طرف حقداروں کاحق مارا جارہا ہے دوسری طرف نااہل لوگوں کو نوازا جارہا ہے۔ مثلاً کسی ادارے میں سینئرافسر موجود ہے لیکن کسی جونیئر کو اس پرلگادیا جائے یہ بھی کرپشن کی ہی شکل ہے اس کے علاوہ یہ کہ شخص کو ایسا عہدہ دے دیاجائے جس کاوہ مستحق نہیں۔
آپ نے دیکھا ہوگا ایک نائب قاصد بھرتی کرنا ہوتاہے تو اس کے لیے اخبار میں اشتہار دیا جاتا ہے لیکن جب کسی ریٹائرڈ افسر کوملازم رکھنا ہوتا ہے تو یہ سب کچھ بغیر اشتہار کے ہوتا ہے۔ بعض حالتوں میں ادارے کی ملازمت کا کوئی سابقہ تجربہ یا پس منظر نہ رکھنے کے باوجود باقاعدہ سروس کے بڑے بڑے قابل لوگ پوری عمر بسر کرنے کے باوجود اس منصب تک نہیں پہنچ پاتے ‘ کیا یہ ان افراد کی حق تلفی اوران سے ناانصافی نہیں اور کیا یہ اخلاقی بدیانتی اور بدعنوانی نہیں۔ نیب کو چاہیے کہ ملک کے سبھی اداروں کی چھان بین کرے ان اداروں میں جائے متاثرہ لوگوں سے ملے اور اس طرح کی بددیانتی کے مرتکب اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف مقدمات قائم کرے اپنا دائرہ صرف کک بیکس تک محدود نہ رکھیں کک بیکس سے صرف مالی نقصان پہنچتا ہے لیکن کسی کم تر شخص کو جواس عہدے کااہل نہ ہو اس کو اعلیٰ عہدہ دے کر ادارے کو تباہ کرنے کے مترادف ہے اوراس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ قومی نقصان ہے اس طرح کے کاموں سے ملک کوناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتاہے۔
آخر میں یہ بتانا ضروری ہے کہ احتساب کو صرف بدعنوانی تک محدود نہیں رہنا چاہیے کرپشن کے خاتمے کے لیے ہر قسم کی بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہوگا جو سامنے نظر آتی ہے اور جو قدرے پوشیدہ ہے جسے عرف عام میں انٹلکچوئل بدعنوانی کہتے ہیں اس کاخاتمہ بھی ضروری ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ نیب کو اپنا نام تبدیل کرلینا چاہیے اس ضمن میں بعض لوگوں کاکہنا ہے کہ اسے اکائونٹ ایبیلیٹی بیورو آف پاکستان کانام بھی دیاجاسکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہم سے پانی چھین کر کیا 7 کروڑ عوام کو بھوکا ماروگے؟ شرجیل میمن
  • بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے ہر کال پر لبیک کہیں گے،عمر ایوب
  • اسرائیل حماس سے شکست کھا چکا، مسلم حکمران غیرت کا مظاہرہ کرکے خاموشی توڑیں، حافظ نعیم الرحمان
  • احتساب کو مئوثر بنانے کے تقاضے
  • وزیر خزانہ نے جعلی حکومت کے جھوٹے دعوؤں کی حقیقت عوام کے سامنے رکھ دی، بیرسٹر سیف
  • اس کا حل کیا ہے؟
  • ’سب کرکے دیکھ لیا آپ مان کیوں نہیں لیتے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے‘ میاں اسلم قبال کا مقتدرہ کو مشورہ
  • اعظم سواتی اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کی ذاتی کوشش کررہے ہیں، پی ٹی آئی کا اس سے تعلق نہیں: سلمان اکرم راجہ
  • ٹریجیڈی اور کامیڈی
  • تنہائی کا المیہ