اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدمات کی سماعت سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل کیس کی کارروائی میں جسٹس مسرت ہلالی نے ایک اہم سوال اٹھایا کہ 9 مئی اور 16 دسمبر کے واقعات میں شامل شہریوں کے درمیان کیا فرق ہے؟

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین مقدمات کی سماعت کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیل پر غور کیا۔ اس دوران وکیل خواجہ احمد، جو کہ جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کی نمائندگی کر رہے ہیں، نے اپنے دلائل پیش کیے۔

خواجہ احمد نے کہا کہ سویلینز کو ملٹری ٹرائل میں شامل کرنا غیر قانونی ہے، تاہم انہوں نے پورے آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا۔ اس دوران جسٹس منیب نے اپنے فیصلے میں اسی نکتہ نظر کی طرف اشارہ کیا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ایف بی علی کیس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں یہ بحث ہوئی تھی کہ حالات میں بدلاؤ کے ساتھ کچھ نئے پہلو سامنے آ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کل یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت کسی مخصوص عمل میں ملوث ہو تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ گزشتہ روز مہران بیس اور دیگر واقعات کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔

اسی دوران جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ فوجی عدالتیں ایک منصفانہ ٹرائل فراہم کرتی ہیں، تو پھر 9 مئی اور 16 دسمبر کے واقعات میں ملوث شہریوں میں کیا فرق ہے؟

اس پر وکیل خواجہ احمد نے جواب دیا کہ 16 دسمبر کے واقعات میں ملوث افراد دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے، اور ان کے ٹرائل کے لیے قانونی ترامیم کی گئیں تھیں، جس کے بعد ان ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے گئے تھے۔

خواجہ احمد نے مزید کہا کہ فوجی عدالتوں کا دائرہ صرف افواج پاکستان کے سول ملازمین پر ہوتا ہے، جس پر جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کہ کیا ائیر بیسز پر حملہ کرنے پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے؟

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فوجی عدالتوں خواجہ احمد میں ملوث کہا کہ

پڑھیں:

اسلام آباد ہائیکورٹ ججز سینیارٹی تنازع، سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ سماعت کرے گا

اسلام آباد:

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے رکن جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ کل ساڑھے گیارہ بجے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی سینیارٹی پر ہونے والے تنازع  سے متعلق درخواست پر سماعت کرے گا۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ کے سامنے جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا سینئر جج قرار دینے، تین ججوں کی دوسرے ہائی کورٹس سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر اور ٹرانسفر ہونے والے ججوں کو کام سے روکنے کے لیے دائر 7 آئینی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کردی گئی ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی آئینی بنچ کل ساڑھے گیارہ بجے سماعت کرے گا، بینچ میں جسٹس نعیم اخترافغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس صلاح الدین پہنور اور جسٹس شکیل احمد شامل ہیں۔

سپریم کورٹ میں جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا سینئر جج قرار دینے کے خلاف مخلتف درخواستیں دائر کی گئی ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی سمیت پانچ ججوں نے سینارٹی لسٹ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین ججوں کے ٹرانسفر کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی ہے، آئینی درخواستوں میں جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا سینئر جج قرار دینے کی سینارٹی لسٹ کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ میں اس حوالے سے مجموعی طور پر سات آئینی درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • 9مئی واقعات میں نامزد ملزمان کا ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کا فیصلہ چیلنج کریں گے، بابر اعوان
  • سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں مزید 2 ججز شامل کرنے کا فیصلہ
  • آئینی بینچ میں مزید دو ججز شامل کرنے کیلیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب
  • آئینی بینچ میں مزید دو ججز شامل کرنے کا فیصلہ،چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کر لیا
  • آئینی بینچ میں مزید دو ججز شامل کرنے کا فیصلہ
  • آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنےکی استدعا مستردکردی
  • خط ملتے ہی انسداد دہشت گردی عدالتیں فوجی عدالتوں میں تبدیل ہو گئی ہیں. فواد چوہدری
  • خط ملتے ہی انسداد دہشتگردی عدالتیں فوجی عدالتوں میں تبدیل ہو گئیں، فواد چوہدری کا شکوہ
  • سپریم کورٹ کی 9مئی واقعات سے متعلق کیسز کا ٹرائل چار ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت
  • اسلام آباد ہائیکورٹ ججز سینیارٹی تنازع، سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ سماعت کرے گا