آئی ایس پی آر اعلامیہ کے بعد ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کیسے مل سکتا ہے؟وکیل خواجہ احمد
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کے دوران وکیل خواجہ احمد نے 9مئی پر افواج پاکستان کے اعلامیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ آئی ایس پی آر نے 9مئی واقعے پر 15مئی کو اعلامیہ جاری کیا، آئی ایس پی آر کے 15مئی کے اعلامیے پر کوئی اعتراض نہیں،اعلامیہ میں کہا گیا 9مئی پر ادارے میں دکھ اوردرد پایا جاتا ہے، اعلامیہ میں کہا گیا 9مئی کے ناقابل تردیدشواہد موجودہیں،اعلامیہ کے بعد ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کیسے مل سکتا ہے؟
شعبان المعظم کی فضیلت
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی بنچ سماعت کررہا ہے، وکیل خواجہ احمد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شہری ملٹری ٹرائل میں نہیں آتے ، میں مکمل آرمی ایکٹ کو بالکل چیلنج نہیں کر رہا، جسٹس منیب نے بھی اپنے فیصلے میں اسی دلیل کا حوالہ دیا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ گزشتہ روز ہمیں قائل کیا گیا کہ فوجی ٹرائل فیئر ٹرائل ہوتا ہے،9مئی اور16دسمبروالے شہریوں میں کیا فرق ہے؟خواجہ احمد نے کہاکہ 16دسمبر والے افراد دہشتگردانہ واقعات میں ملوث تھے،ٹرائل کیلئے ترامیم کرنا پڑی تھی جس کے بعد 16دسمبر والے ملزمان کے ٹرائل ہوئے تھے،افواج پاکستان کے سول ملازمین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے،جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہاکہ کیا ایئر بیسز پر حملہ کرنے پر آرمی ایکٹ کاک اطلاق ہوتاہے؟جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ گزشتہ روز ہمیں قائل کیاگیاکہ فوجی ٹرائل فیئر ٹرائل ہوتا ہے۔
9مئی اور16دسمبروالے شہریوں میں کیا فرق ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی
اعتزاز احسن کے وکیل نے دوران سماعت کرسی پر بیٹھ کر بولنے کی کوشش کی تو جسٹس امین الدین نے اعتزاز احسن کے وکیل کو ہدایت کی کہ ایسے نہ کریں ، آپ سینئروکیل ہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ایف بی علی کیس میں تنازع ہوا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے ویسا بھی ہوسکتا ہے،آج کل ایسی بھی سوچ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت ایسی حرکت کرے تو کیا ہونا چاہئے، گزشتہ روز میں نے مہران بیس اور دیگر چند واقعات کا ذکر کیا تھا،جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ سانحہ آرمی پبلک میں شہریوں کے بچے شہید ہوئے،جسٹس امین الدین نے کہاکہ کوئی دوسری رائے کہ آئین سے منافی قانون برقرار نہیں رہ سکتا۔
نوجوان کی محبت میں کراچی آئی امریکن خاتون بیمار، فلاحی ادارے میں پہنچ گئی
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: جسٹس مسرت ہلالی خواجہ احمد فیئر ٹرائل نے کہاکہ سکتا ہے
پڑھیں:
جب تک جرم کو آرمی ایکٹ کے مطابق ثابت نہیں کریں گے، کیا وہ ملٹری ٹرائل میں آئے گا؟ جسٹس مندوخیل
ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے وزارت دفاع کے وکیل سے متعدد سوالات پوچھ لیے کہ آرمی ایکٹ میں انکوائری کون کرتا ہے؟ فرد جرم عائد کرنے کے بعد انکوائری کیسے کرتے ہیں؟ کیا دوران ٹرائل بھی چارج فریم ہوتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جب تک جرم کو آرمی ایکٹ کے مطابق ثابت نہیں کریں گے، کیا وہ ملٹری ٹرائل میں ہی آئے گا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں آرمی ایکٹ اور پولیس کی ایف آئی آر میں چارج فریم کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کر دیا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ میں انکوائری کون کرتا ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ چارج کے بعد انکوائری کمانڈنٹ آفیسر کرتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ فرد جرم عائد کرنے کے بعد انکوائری کیسے کرتے ہیں؟ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ الزام لگا دیتے ہیں، چارج لفظ اسی کے لیے استعمال ہوتا ہے، چارج کی بنیاد پر تفتیش کی جاتی ہے۔
دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا دوران ٹرائل بھی چارج فریم ہوتا ہے؟ جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ چارج الگ ہوتا ہے اور دوران ٹرائل چارج فریم ہوتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے اس موقع پر سوال اٹھایا کہ کیا فوجی عدالتوں میں ججز یونیفارم میں ہوتے ہیں؟ جس کے جواب میں وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کورٹ مارشل میں ججز فوجی یونیفارم میں ہی ہوتے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل وزارت دفاع سے استفسار کیا کہ یونیفارم فوجی افسر بطور جج کیسے غیر جانبدار ہو سکتا ہے؟
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ یونیفارم تو آپ ججز نے بھی پہنا ہوا ہے ان کے اس جواب پر عدالت میں قہقہے لگ گئے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کالی اور خاکی وردی میں کوئی فرق نہیں ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پہلے چارج ہوا چارج کی بنا پر تفتیش ہوئی، ایف بی علی کیس میں بھی یہی بات ہوئی ہے ، پہلے چارج فریم ہوتا ہے پھر تفتیش ہوتی ہے، جب تک جرم کو آرمی ایکٹ کے مطابق ثابت نہیں کریں گے، کیا وہ ملٹری ٹرائل میں ہی آئے گا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ چارج میں الزامات ثابت کروائے جاتے ہیں. جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ تفتیش میں چارج نہیں ہوتا، جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو آپ پڑھ رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ قانون ہے، یہ قانون جتنا بھی سخت ہو کیا یہ سویلین پر لاگو ہوگا؟ جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ تمام چیزیں عدالت کے سامنے رکھوں گا کہ کیسے لاگو ہوگا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ جو قانون آپ بتا رہے ہیں کیا ان پر واقعی عمل درآمد بھی ہوتا ہے؟ وکیل وزارت دفاع نے جواب دیا کہ ٹرائل سے قبل ملزم سے پوچھا جاتا ہے کہ جج پر اعتراض تو نہیں۔
دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ آج کل تو یہاں بھی ججز پر سوالات اٹھ رہے ہیں، جواباً خواجہ حارث نے کہا کورٹ مارشل کے فیصلے اکثریت سے ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث دلائل جاری رکھیں گے۔