سویلینز کا ملٹری ٹرائل: آئین سے منافی قانون برقرار نہیں رہ سکتا، جسٹس امین الدین
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی آئینی بینچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین عدالت کے روبرو دلائل پیش کررہے ہیں۔
گزشتہ روز وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کیے تھے، جبکہ حکومت پنجاب، حکومت بلوچستان، وزارت داخلہ، وزارت قانون اور شہدا فاؤنڈیشن کے وکلا نے خواجہ حارث کے دلائل کو اپنایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: آئین سب سے سپریم لا ہے جو سویلینز کو بنیادی حقوق کا تحفظ دیتا ہے، سپریم کورٹ
جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے آج اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عام سویلین ملٹری ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں البتہ افواج پاکستان کے سول ملازمین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا ایئر بیسز پر حملہ کرنے پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی بولے کہ آرمی پبلک اسکول پر دہشتگرد حملہ ہوا، 9 مئی پر احتجاج ہوا، دونوں واقعات کے سویلینز میں کیا فرق ہے۔ وکیل خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ آرمی پبلک اسکول پر دہشتگرد حملہ ہوا، اس واقعہ کے بعد 21ویں ترمیم کی گئی۔
’9 واقعہ پر آئی ایس پی آر اعلامیہ کے بعد ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کیسے مل سکتا ہے‘جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سانحہ اے پی ایس میں سارے سویلین بچے مارے گئے۔ وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ہمارا مقدمہ آئین سے باہر نہیں ہے، 9 مئی والوں کا ٹرائل ہوا، لیکن یہ ملٹری ٹرائل نہیں تھا۔
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ آئین سے منافی قانون برقرار نہیں رہ سکتا۔ وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ 9 مئی واقعہ پر آئی ایس پی آر نے 15 مئی کو اعلامیہ جاری کیا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: وزارت دفاع نے ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ آئینی بینچ میں پیش کردیا
عدالت نے سوال کیا کہ کیا آپ کو اعلامیہ پر اعتراض ہے۔ وکیل خواجہ احمد حسین نے جواب میں کہا کہ میرا اعلامیہ پر کوئی اعتراض نہیں، اعلامیہ میں کہا گیا کہ 9 مئی واقعہ پر پورے ادارے میں دکھ اور درد پایا جاتا ہے، اس واقعہ کے نا قابل تردید شواہد موجود ہیں۔
خواجہ احمد حسین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کور کمانڈر اجلاس اعلامیہ کے بعد ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کیسے مل سکتا ہے، سویلینز ملٹری ٹرائل میں نہیں آتے، ہم پورے آرمی ایکٹ کو چیلینج نہیں کررہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ روز بتایا گیا کہ ملٹری ٹرائل فئیر ٹرائل ہوتا ہے۔ اسی دوران وکیل لطیف کھوسہ نے کمرہ عدالت میں بولنے کی کوشش تو عدالت نے ان سے اظہار ناراضگی کیا۔ جسٹس امین الدین خان بولے، ’کھوسہ صاحب آپ سینیئر وکیل ہیں، ایسا نہ کیجیے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئینی بینچ انٹراکورٹ اپیل جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ جسٹس امین الدین جسٹس جمال مندوخیل سپریم کورٹ سماعت سویلینز کے ٹرائل فوجی عدالتیں.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انٹراکورٹ اپیل جسٹس ر جواد ایس خواجہ جسٹس امین الدین جسٹس جمال مندوخیل سپریم کورٹ سویلینز کے ٹرائل فوجی عدالتیں وکیل خواجہ احمد حسین نے جسٹس امین الدین ملٹری ٹرائل سپریم کورٹ
پڑھیں:
سیویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس: 9 مئی اور 16 دسمبر والے شہریوں میں کیا فرق ہے؟ آئینی بینچ کے جج کا سوال
سیویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس: 9 مئی اور 16 دسمبر والے شہریوں میں کیا فرق ہے؟ آئینی بینچ کے جج کا سوال WhatsAppFacebookTwitter 0 31 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس) فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل کیس میں جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ 9 مئی اور 16 دسمبر والے شہریوں میں کیا فرق ہے؟
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی جس دوران جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد نے دلائل دیے۔
وکیل خواجہ احمد نے کہا کہ شہری ملٹری ٹرائل میں نہیں آتے، میں مکمل آرمی ایکٹ کو بالکل چیلنج نہیں کر رہا، جسٹس منیب نے بھی اپنے فیصلے میں اسی دلیل کا حوالہ دیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں تنازع ہوا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے ویسا بھی ہو سکتا ہے، آج کل ایسی بھی سوچ ہےکہ کوئی سیاسی جماعت ایسی حرکت کرے تو کیا ہونا چاہیے، گزشتہ روز میں نے مہران بیس اور دیگر چندواقعات کا ذکر کیا تھا۔
جسٹس مسرت نے کہا کہ گزشتہ روز ہمیں قائل کیا گیا کہ فوجی ٹرائل فئیر ٹرائل ہوتا ہے، 9 مئی اور 16 دسمبر والے شہریوں میں کیا فرق ہے؟
اس پر وکیل خواجہ احمد نے کہا کہ 16 دسمبر والے افراد دہشتگردانہ واقعات میں ملوث تھے، ان کے ٹرائل کے لیے ترمیم کرنا پڑی تھی جس کے بعد ملزمان کے ٹرائل ہوئے تھے۔
وکیل خواجہ احمد نے کہا کہ افواجِ پاکستان کے سول ملازمین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، اس پر جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کہ کیا ائیر بیسز پر حملہ کرنے پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے؟
دوران سماعت وکیل خواجہ احمد نے 9 مئی پر افواج پاکستان کے اعلامیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس پی آرنے 9 مئی واقعے پر 15 مئی کو اعلامیہ جاری کیا، ہمیں اعلامیے پر کوئی اعتراض نہیں، اعلامیے میں کہا گیا کہ 9 مئی پر ادارے میں دکھ اور درد پایا جاتا ہے، کہا گیا 9 مئی کے نا قابل تردید شواہد موجود ہیں، اعلامیے کے بعد ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کیسے مل سکتا ہے؟