مسلم طالبات حجاب پہن کر امتحان دینا چاہتی ہیں تو پاکستان چلی جائیں، بی جے پی لیڈر
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
مہاراشٹرا کے سماجوادی پارٹی کے صدر ابو عاصم اعظمی نے کہا کہ یہ ملک کو تقسیم کرنے والا بیان ہے، وہ نفرت کے پجاری ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مہاراشٹرا کے بی جے پی شدت پسند لیڈر نتیش رانے نے مسلم طالبات کے حجاب (برقعہ) کو لیکر متنازعہ و اشتعال انگیز بیان دیا ہے۔ ریاست مہاراشٹرا کی حکومت میں وزیر نتیش رانے نے امتحانی مراکز میں حجاب پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے حجاب پہننے والوں کو پاکستان چلے جانے کو کہا ہے۔ نتیش رانے ریاست میں منعقد ہونے والے دسویں اورر بارہویں کے امتحان میں نقل نویسی کو روکنے کے لئے طالبات کے حجاب پر پابندی لگانے کا انتہائی نامناسب و غیر جمہوری مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے وزیر تعلیم دادا بھوسے کو ایک خط لکھ کر ہندو اور مسلم طالبات کے لئے یکساں ضوابط کا مطالبہ کیا۔ نتیش رانے نے کہا کہ ہماری حکومت ہندوتوا نظریہ کی پیروی کرتی ہے، ہندو طلباء پر لاگو ہونے والے اصول مسلم طلباء پر بھی لاگو ہونے چاہئیے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ حجاب پہننا چاہتے ہیں وہ گھر پر پہن سکتے ہیں، لیکن امتحانی مراکز میں انہیں دوسرے طلباء کی طرح شریک ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے تیار کردہ آئین کی پیروی کرتے ہیں کسی شریعت کی نہیں۔
اس دوران آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے لیڈر وارث پٹھان نے نتیش رانے کے بیان پر سخت تنقید کی۔ کانگریس لیڈر حسین دلوائی نے بھی اس بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ مہاراشٹرا کے سماجوادی پارٹی کے صدر ابو عاصم اعظمی نے کہا کہ یہ ملک کو تقسیم کرنے والا بیان ہے، وہ نفرت کے پجاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مہا کمبھ حادثہ کو چھپانے کے لئے اس طرح کے بیانات دیے جا رہے ہیں۔ رضا اکیڈمی ممبئی کے سکریٹری مولانا محمد سعید نوری نے بھی اشتعال انگیز بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ نتیش رانے کو سماج کو باٹنے والے بیانات سے گریز کرنا چاہیئے۔ سوشل میڈیا پر بھی نتیش رانے کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نتیش رانے نے کہا کہ انہوں نے
پڑھیں:
جوڈیشری کوئی شاہی دربار نہیں، اگر کیسز نہیں سن سکتے تو گھر جائیں، اعظم نذیر تارڑ
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کی سب سے خوبصورت بات عدلیہ کا احتساب ہے، یہ عدالتیں شاہی دربار نہیں بلکہ آئینی ادارے ہیں۔ اگر ججز مقدمات کی سماعت نہیں کر سکتے تو انہیں گھر چلے جانا چاہیے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق اور موجودہ چیف جسٹس کا شکر گزار ہوں جنہوں نے وکلا سے متعلق قانون کے مطابق فیصلے دیے۔ انہوں نے وکلا کے حالیہ احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ وکلا کے احتجاج کو دہشت گردی سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟ ایسا تو مشرف دور میں بھی نہیں ہوا تھا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وہ کبھی کسی بار سے بیک ڈور رابطے کے ذریعے حمایت حاصل نہیں کرتے، اور ان کا ماننا ہے کہ حکومت کو بار کونسلز کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور وکلا کے درمیان جو معاہدہ ہے، اس میں کبھی کوئی دھوکہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کا خیال ان کا اپنا نہیں تھا، اور یہ واضح کیا کہ ججز کی ٹرانسفر کا فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان کریں گے جس کے بعد وزیراعظم پاکستان اس پر غور کریں گے اور پھر صدر مملکت کے دستخط سے دوسرے صوبوں کے ججز وفاق میں تعینات کیے جائیں گے۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچستان اور سندھ سے آنے والے ججز نے عدالت میں تنوع پیدا کیا ہے۔ انہوں نے 1973 کے آئین کو تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ آئین قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم سب اسی آئین کو مانتے ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وکلا کا میگا سنٹر پراجیکٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اور حکومت کا مقصد صرف عوام کی خدمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ آئندہ بھی استقامت کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت جاری رکھیں گے۔
انہوں نے واضح کیا کہ وہ وکلا کے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہے ہیں اور جب بھی کوئی وکیل دوست ان سے ملنے آتا ہے تو وہ ملاقات ضرور کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں مزید مثبت خبریں سامنے آئیں گی۔
مزیدپڑھیں:شاہ رخ خان کا ارب پتی پڑوسی، جس کے 29 بچے ہیں