اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 31 جنوری 2025ء) صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ٹروتھ' پر جمعرات کو پوسٹ ایک بیان میں کہا، "ہم بظاہرمخالف ملکوں سے یہ وعدہ حاصل کرنے جارہے ہیں کہ وہ نہ تو کوئی نئی برکس کرنسی بنائیں گے اور نہ ہی کسی ایسی دوسری کرنسی کی حمایت کریں گے جو کہ طاقت ور امریکی ڈالر کی جگہ لینے کی کوشش کرے، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو انہیں 100 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا۔

"

ٹرمپ اور مودی کی فون پر گفتگو، دو طرفہ تجارت بھی اہم موضوع

روس نے کچھ عرصے قبل کہا تھا کہ امریکہ کی طرف سے دیگر ملکوں کو ڈالر استعمال کرنے کے لیے مجبور کرنا اسے الٹا بھی پڑسکتا ہے۔

برکس گروپ برازیل، روس، بھارت، چین، اور جنوبی افریقہ اور چند دوسرے ممالک پر مشتمل ہے، جو پچھلے چند برسوں کے دوران اس میں شامل ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

اس گروپ کی کوئی مشترک کرنسی نہیں ہے لیکن اس موضوع پر طویل عرصے سے بات چیت جاری ہے۔ اور یوکرین میں جنگ کی وجہ سے مغربی ملکوں کی جانب سے روس پر پابندیاں عائد کرنے کے بعد اس معاملے میں تیزی آگئی ہے۔

ٹرمپ کی میکسیکو اور چین پر بھاری محصولات نافذ کرنے کی دھمکی

ٹرمپ نے کہا،"اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ بین الاقوامی تجارت میں، یا کہیں اور، برکس کی نام نہاد کرنسی امریکی ڈالر کی جگہ لے لے۔

لیکن اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو اسے امریکی ٹیرف کا خیرمقدم اور امریکہ کو الوداع کہنا پڑے گا۔" کینیڈا اور میکسیکو پر ٹیرف کا اعلان یکم فروری کو

ٹرمپ نے برکس ممالک کو اس تنبیہ سے قبل کینیڈا اور میکسیکو پر یکم فروری سے پچیس فیصد ٹیرف نافٓذ کرنے کا اعلان کیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے سے کینیڈا اور میکسیکو پر 25 فیصد محصولات عائد کرنے کی اپنی دھمکی کو دہرایا ہے لیکن تیل کی درآمدات کو اس سے مستثنیٰ رکھنے کے امکان کو کھلا رکھا۔

جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ وہ "ممکنہ طور پر آج رات تیل کو ٹیرف سے خارج کر سکتے ہیں یا نہیں بھی کر سکتے ہیں۔"

امریکہ: عدالت نے پیدائشی حق شہریت پر ٹرمپ کے حکم کو روک دیا

ٹرمپ نے کہا، ''ہم شاید آج رات تیل پر یہ فیصلہ کرنے جا رہے ہیں۔ "کیونکہ وہ ہمیں تیل بھیجتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے، یہ اس پر منحصر ہے کہ ان کی قیمت کیا ہے۔

"

ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ درآمدات میں ہونے والی کسی بھی کمی کو "بہت جلد" پورا کر سکے گا۔ "ہمیں ان کی مصنوعات کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے پاس وہ تمام تیل ہے جس کی آپ کو ضرورت ہے۔"

اٹلانٹک کونسل کے جیو اکنامکس سینٹر کی طرف سے گزشتہ سال کیے گئے ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی ڈالر کو دنیا کی بنیادی ریزرو کرنسی کی حیثیت حاصل ہے۔

اور نہ تو یورو اور نہ ہی نام نہاد برکس ممالک کی کرنسی ڈالر پر عالمی انحصار کو کم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

دریں اثنا کینیڈا اور میکسیکو نے امریکی ٹیرف کا جواب دینے کا اعلان کیا ہے تاہم واشنگٹن کو یقین دہانی کرائی کہ سرحدی سکیورٹی کے حوالے سے اس کے خدشات کا ازالہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ج ا ⁄ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکی ڈالر ٹرمپ نے کہا ٹیرف کا کرنے کے

پڑھیں:

ٹرمپ کی آمد : پاکستان سمیت کئی دیگر ممالک پریشان؟

نئے امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، کے بارے کہا جاتا ہے کہ جو وہ کہتے ہیں، اس پر عمل بھی کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ٹرمپ نے انتخابات جیتتے ہی کہا تھا:’’ اقتدار سنبھالتے ہی مَیں کئی ممالک کی امداد بند کردوں گا۔‘‘اپنے کہے پر موصوف نے یوں عمل کیا ہے کہ صدر بننے کے چند روز بعد(26جنوری کو) اپنے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت اُنھوں نے کئی ممالک کی امداد فوراً بند کر دی ہے ۔

مبینہ طور پر اِن ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے اور یوکرائن، تائیوان ، اُردن اور کئی دیگر ممالک بھی ۔امریکی حکام نے اِس امر کی تصدیق کی ہے کہ ٹرمپ کے اِس حکم سے پاکستان میں امریکی امداد سے چلنے والے تقریباً 22منصوبے(تعلیم، زراعت ، صحت اور گورننس) متاثر ہوں گے ۔ ساتھ ہی یہ بھی اُمید دلائی گئی ہے کہ امداد کا یہ تعطل ابتدائی طور پر90ایام کے لیے ہے ۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک نامزد مشیر، رچرڈ گرینل، نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی بارے پہلے جو ٹویٹ کیا اور پھر امریکی میڈیا کو جو انٹرویو دیا، یہ بھی اِس امر کا مظہر ہے کہ ٹرمپ حکومت کے بعض حکام کے پاکستان حکومت بارے کیا خیالات ہیں ۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے رچرڈ گرینل کے بیان پر بجا ردِ عمل دیا ہے ۔

یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ جس روز ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے کچھ اداروں کی امداد بند کی، اُسی روز امریکا سے ایک ہائی پاور بزنس وفد پاکستان اُترا۔ اِس وفد ، جس کی سربراہی ٹرمپ خاندان کے ایک قریبی فردGentry Beachکررہے تھے، نے جناب شہباز شریف سے بھی مثبت ملاقاتیں کی ہیں اور پاکستانی میڈیا سے بات چیت کے دوران حوصلہ افزا پیغام دیا ہے ۔ وفد کے سربراہ نے یہ حیران کن بیان بھی دیا ہے کہ رچرڈ گرینل کا بیان دراصل گمراہ کن تھا۔

 ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ کی ایک خبر کے مطابق وزیر خارجہ ، اسحاق ڈار ، کے زیر صدارت پاکستان کے 6سفیروں کا ایک اہم اجلاس ہُوا ہے ۔ اِس میں اِس امر پر غور کیا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد آمد پر نئی امریکی انتظامیہ سے کیسے معاملہ کیا جائے ؟ ٹرمپ انتظامیہ اور ٹرمپ کابینہ میں اکثریتی طور پراسرائیل نواز اور بھارت نواز عناصر شامل ہیں ۔ اور یہ قدم ٹرمپ صاحب نے دانستہ اُٹھایا ہے ۔اِس اقدام سے یہ بھی عیاں ہے کہ ٹرمپ نے’’ سریر آرائے سلطنت‘‘ ہونے سے قبل ہی اپنا ذہن بنا لیا تھا ۔

بھارت نواز وزرا اور پرو انڈیا منتظمین کے انتخاب کا صاف مطلب یہ بھی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان اور چین کے ساتھ کیا معاملات کرنے والے ہیں ۔ اِس کا اظہار ممتاز برطانوی جریدے’’دی اکانومسٹ‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والے مضمون بعنوانXiJingping has much to worry about in 2025 میں بھی یوں کیا گیا ہے کہ ٹرمپ کس طرح چین کو پریشان کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔

بھارتی وزیر خارجہ، جئے شنکر،کی ٹرمپ کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ، مایئکل والز، سے تفصیلی ملاقات پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔ اِس پیش بندی کی موجودگی میں پاکستان اور شہباز حکومت کے لیے از بس ضروری ہوگا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتی شخصیات ٹرمپ انتظامیہ کے اُبھرتے متوقع طوفانوں کا مقدور بھر مقابلہ کر سکیں ۔ ایسے میں پاکستان کو واشنگٹن میں اپنی نئی لابیاں بھی تشکیل دینا ہوں گی جو پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ کر سکیں ۔

اقتدار میں آنے سے قبل ہی ڈونلڈ ٹرمپ شام ، حماس ،لبنان اور حزب اللہ کے مسائل سے تقریباً نمٹ چکے تھے ۔یوکرائن بارے ٹرمپ کی خاص توجہ مبذول ہوگی۔ اِس کا واضح اظہار ’’فارن افیئرز‘‘ کے تازہ شمارے میں Alina Polyyakovaکا لکھا آرٹیکل خاصا چشم کشا ہے ۔ مصنفہ لکھتی ہیں کہ ٹرمپ اپنے اقتدار کے ابتدائی ایام ہی میں یوکرائن جنگ کو جائز و ناجائز طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔

اِس وسیع تر اور دُور تک پھیلے عالمی کینوس میں ٹرمپ، پاکستان بارے کیا سوچ رکھتے ہیں، واضح طور پر کچھ کہنا فی الحال دشوار ہے۔ ٹرمپ صاحب مگر اپنے پہلے دَورِ اقتدار میں پاکستان بارے جو سنگین کلمات ادا کر چکے ہیں، وہ تو حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ وہ الفاظ اگر پوری معنویت کے ساتھ ہماری مقتدرہ کے ذہنوں میں محفوظ ہیں تو ہم سب قرائن سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ میں پاکستان کو کن خاص نظروں سے دیکھا جارہا ہوگا ۔

لیکن پاکستان کسی بھی طرح امریکا سے دُوری افورڈ نہیں کر سکتا۔ امریکا اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے ۔ 2024 میں امریکا واحد ملک رہا جسے پاکستان نے سب سے زیادہ برآمدات کیں :5 بلین ڈالرز سے زائد ۔ اگلے روز ہمارے اخبارات میں پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے ترجمان (جوناتھن لالی) کا جو آرٹیکل شائع ہُوا ہے، اِس سے بھی مترشح ہوتا ہے کہ پاکستان کی تجارت و ٹریڈ کے لیے امریکا کسقدر اہمیت رکھتا ہے۔ اگر صرف ٹریڈ کی مَد کو ہی پیشِ نگاہ رکھ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ہم اِس ضمن میں بھی امریکا کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔

ہماری کمزور معیشت میں ہمیں جس شدت سے ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف اور فیٹف کی ضرورت ہے، اِس میدان میں بھی ٹرمپ کا امریکا (ناراضی کی صورت میں) پاکستان کے لیے کئی رکاوٹیں اور مسائل ، بآسانی، پیدا کر سکتا ہے ۔ پاکستان کے انتشاری عناصر اور بانی پی ٹی آئی کے پچھلے ڈیڑھ برس سے پسِ دیوارِ زنداں رہنے کو بھی ٹرمپ حکومت سہل انداز میں ایکسپلائیٹ کر سکتی ہے ۔بانی پی ٹی آئی کو احتساب عدالت کی طرف سے14سال کی سزا سنائے جانے کے بعد امریکا میں بروئے کار پی ٹی آئی حکومت کے خلاف زیادہ متحرک ہو چکی ہے ۔

ڈونلڈ ٹرمپ ایسے امریکی صدر ہیں جنھوں نے اپنی پہلی صدارتی شکست ( جو بائیڈن کے مقابل) سے بچنے اور بائیڈن کو اقتداری حلف نہ لینے کی کوشش میں Self Coupکا رسک بھی لے لیا تھا ۔ ٹرمپ کو اُمید تھی کہ وہ اپنے سیاسی حامیوں اور وٹروں کی Capitol Hillپر یلغار کروا کر امریکی فوج اور امریکی عدلیہ کی حمائت حاصل کرلے گا۔

اُن کے حامیوں نے امریکی دارالحکومت کی مرکزی عمارت پر حملہ کیا تو سہی مگر ناکام رہے ۔ ٹرمپ کو ’’اندر‘‘ سے مطلوبہ اور متوقع حمائت بھی نہ ملی ۔ اُلٹا امریکی عدالتوں نے ٹرمپ کے حملہ آور حمائتیوں کو سزائیں دے کر جیلوں میں ٹھونس دیا۔ ایسے ڈونلڈ ٹرمپ سے ہم کسی بھی منفرد اور پُر خطر اقدام کی اُمید اور توقع رکھ سکتے ہیں ؛ چنانچہ ٹرمپ کی قصرِ ابیض میں پھر سے آ جانے کے بعد دُنیا کے کئی ممالک اگر مشوش ہیں تو یہ بعید از قیاس نہیں ہے ۔

ڈونلڈ ٹرمپ ایسی عالمی صورتحال میں امریکی صدر بنے ہیں جب اسرائیل نے غزہ کو برباد کر ڈالا ہے اور 50ہزار کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے ہیں ۔ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے سے قبل ہی غزہ و اسرائیل میں سیز فائر تو ہو چکا ہے، لیکن اِس فائر بندی کو مستقل کیے جانے کی ضرورت ہے۔ آج شام تباہ اور لاوارث ہے ۔ شام کی یہ صورت اسرائیل کے لیے آئیڈیل ہے ۔ ایران درست ہی کہتا ہے کہ شامی حکومت کا خاتمہ اسرائیل اور امریکا کے گہرے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے ۔ عالمِ عرب میں رُوس اپنے اکیلے دوست ملک، شام، سے محروم ہو چکا ہے ۔لبنان میں بروئے کار ’’حزب اللہ‘‘ کی اسرائیل کے خلاف شمشیر زنی تقریباً ختم ہو چکی ہے ۔

یورپ پریشان ہے کہ ٹرمپ صاحب یوکرائن جنگ سے تعلق منقطع کرنا چاہتے ہیں ۔ ٹرمپ کی لاتعلقی سے اگر یوکرائن میں رُوس کی جیت ہو گئی تو یورپی یونین کی کمر ٹوٹ جائے گی ۔ ڈونلڈ ٹرمپ مگر ایسا کبھی نہیں چاہیں گے۔ ٹرمپ جب یہ کہتے ہیں کہ’’ اگر امریکا نے کسی ملک کا تحفظ کرنا ہے تو اُسے جنگی اخراجات کے لیے امریکا کو ادائیگیاں کرنی چاہیے‘‘ تو یہ الفاظ ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنیت اور سوچ کی عکاسی کر جاتے ہیں ۔ مسائل و پریشانیوں کا ایک طومار ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد آمد پر ہر ملک کو درپیش ہے ۔پاکستانی حکام کو مگر دانشمندی اور حکمت کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ نئی راہیں اُستوار کرنی ہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • میٹا ٹرمپ کو ڈھائی کروڑ ڈالر ادا کرنے پر رضامند
  • ٹرمپ کی آمد : پاکستان سمیت کئی دیگر ممالک پریشان؟
  • حوالہ ہنڈی کے خلاف کریک ڈاؤن، ایف آئی اے نے کراچی سے ملزم کو گرفتار کرلیا، 40 ہزار ڈالر برآمد
  • برطانیہ و کینیڈا میں بھارت ’’ناپسند‘‘ ملک قرار دیدیا گیا
  • ٹرمپ کا حماس سے ہمدردی اور حق میں مظاہرے کرنے والے طلباء و شہریوں کے خلاف سخت اقدام کا فیصلہ
  • ٹرمپ کا حماس کے حق میں مظاہرے کرنے والے طلبہ کے خلاف بدترین اقدام کا فیصلہ
  • افغانستان میں امریکی اسلحہ دہشتگردوں نے پاکستان کے خلاف استعمال کیا، دفتر خارجہ
  • امریکا کو پھر دنیا کی طاقتور ترین معیشت بنانا چاہتے ہیں‘ ٹرمپ
  • ٹیرف میں اضافہ؛ ٹرمپ نے بھارت، چین اور برازیل کیلیے خطرے کی گھنٹی بجا دی