حکومت کا کیپٹو پاور پلانٹس کو نیشنل گرڈ میں ضم کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
صنعتی کیپٹو پاور پلانٹس (سی پی پیز) کو قومی گرڈ کی جانب راغب کرنے اور اضافی بجلی کی صلاحیت کو قابل استعمال بنانے کے لیے پاور ڈویژن نے جمعرات کو تمام سرکاری اور نجی بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو بجلی کی بہتر فراہمی کے لیے سروس لیول معاہدوں (ایس ایل ایز) پر دستخط کرنے کی ہدایت کی ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاور ڈویژن نے اپنے الگ الگ خطوط میں تمام سابق تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) اور کے الیکٹرک کے ساتھ ایک ٹیمپلیٹ ایس ایل اے بھی شیئر کیا ہے جس میں گرڈ میں اتار چڑھاؤ اور بجلی کی فراہمی میں مقررہ معیار سے زائد خلل ڈالنے پر سی پی پی صارفین کو واجب الادا جرمانے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔
پاور ڈویژن کا کہنا تھا کہ سروس لیول کے ان معاہدوں کا مقصد بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ٹرانسمیشن سسٹم پر انحصار بڑھانا ہے، ان معاہدوں میں ان صنعتوں کو مستحکم، قابل اعتماد اور اعلیٰ معیار کی بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کی شقیں شامل ہوں گی جو ان کی مخصوص ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔
پاور ڈویژن کا کہنا ہے کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی جانب سے خلاف ورزی کی صورت میں جرمانے عائد کیے جائیں گے۔
معاہدے کے مسودے کے تحت بجلی کمپنیوں کو بجلی کی فراہمی کو 99 فیصد قابل اعتمادبنانا ہوگا اور سی پی پی صارفین کو وولٹیج اور فریکوئنسی ٹالرنس کی خلاف ورزی کے ہر گھنٹے پر 10 ہزار روپے کے حساب سے معاوضہ دینا ہوگا۔
پاور کمپنیوں کو منصوبہ بند مرت یا بجلی کی فراہمی میں خلل کے لیے سی پی پی صارفین کے ساتھ پہلے سے باقاعدہ ملاقاتیں کرنے کی بھی ضرورت ہوگی، لیکن کمٹڈ ریلائیبلٹی ریٹ (فورس میجر کو چھوڑ کر) کی صورت میں پاور کمپنی صارفین کو بطور جرمانہ 50 ہزار روپے معاوضہ دے گی۔
اس کے علاوہ مقررہ مدت کے اندر بجلی کی بندش کی اطلاع دینے میں ناکامی پر پاور کمپنی 50 ہزار روپے کی ایک بار کی رعایت فراہم کرے گی، جرمانے کو باہمی رضامندی کے ساتھ سالانہ بنیاد پر ایڈجسٹ کیا جائے گا۔
پاور سیکٹر کے ایک تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ پاور ڈویژن کی جانب سے پاور کمپنیوں کو دی جانے والی ہدایات اس وقت موجود قانونی اور ریگولیٹری انتظامات سے ماورا ہیں کیونکہ نیپرا کی پیشگی منظوری کے بغیر کمپنیوں پر کوئی معاہدہ عائد نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس پر دستخط کیے جاسکتے ہیں۔
نیپرا خود اس طرح کے قانونی آلے کے لیے سماعت کے عمل سے گزرنے کا پابند ہے، ڈویژن نے کہا کہ یہ معاہدے ابتدائی طور پر 2 سال کے لیے قابل عمل ہوں گے۔
ان میں بجلی کی فراہمی میں تکنیکی خرابیوں کو دور کرنے اور ان کے حل کے میکانزم کا احاطہ کیا جائے گا، ان معاہدوں کے تحت پیدا ہونے والے تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک منظم میکانزم بھی فراہم کیا جائے گا۔
پاور ڈویژن نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو ہدایت کی کہ وہ سروس لیول کے ان معاہدوں کے لیے قانونی تقاضے فوری طور پر پورے کریں۔
مزید برآں، ہدایت میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ ایس ایل اے گرڈ کوڈ، ڈسٹری بیوشن کوڈ، کنزیومر سروس مینوئل، یا کسی بھی دوسرے مروجہ قانون کی شرائط اور پیرامیٹرز کو نظر انداز یا تبدیل نہیں کرے گا۔
بجلی کمپنیوں کو 50 ہرٹز فریکوئنسی برقرار رکھنے اور 0.
اس سے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ قدرتی آفات جیسی بیرونی وجوہات کو چھوڑ کر 0.4 کے وی، 11 کے وی اور 132 کے وی کے کنکشنز کے لیے بجلی کی فراہمی میں غیر منصوبہ بند طویل مدتی تعطل کا سالانہ دورانیہ بالترتیب 88 گھنٹے، 44 گھنٹے اور 26 گھنٹے سے زیادہ نہ ہو۔
بجلی کمپنیاں صارفین کو کم از کم 48 گھنٹے پہلے منصوبہ بند لوڈشیڈنگ کے بارے میں مطلع کریں گی اور اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ منصوبہ بند لوڈشیڈنگ فی مثال 8 گھنٹے سے زیادہ نہ ہو، وہ شکایات کے ازالے کے لیے عام پلیٹ فارمز کے علاوہ سی پی پیز کے لیے وقف ون ونڈو ڈیسک بھی قائم کریں گے۔
بجلی کمپنیوں کو معمولی خرابیوں کی صورت میں 2 گھنٹے کے اندر اور بڑے نقائص کی صورت میں چ6 گھنٹے کے اندر غیر متوقع لوڈشیڈنگ کو دور کرنے کے لیے ریئل ٹائم مانیٹرنگ اور سپورٹ فراہم کرنے کی ضرورت ہوگی اور گرڈ میں وولٹیج ریگولیشن یا اسی طرح کے آلات نصب اور برقرار رکھنے کی ضرورت ہوگی تاکہ زیادہ سے زیادہ طلب کے دوران مستحکم وولٹیج کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔
سی پی پی صارفین کو ہنگامی سپلائی کٹ آف کی صورت میں کم از کم 30 منٹ پہلے مطلع کیا جائے گا۔
پاور کمپنیاں سسٹم کی کارکردگی اور بھروسے کو بہتر بنانے کے لیے ڈسٹری بیوشن انفرااسٹرکچر کو جدید بنانے اور اپ گریڈ کرنے میں سرمایہ کاری کرنے کا عہد کریں گی ، جو سستی گیس کے علاوہ سی پی پیز کی جانب سے قومی گرڈ کی مخالفت کی ایک کلیدی وجہ ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بجلی کی فراہمی میں تقسیم کار کمپنیوں سی پی پی صارفین کیا جائے گا کی صورت میں ان معاہدوں کمپنیوں کو پاور ڈویژن ضرورت ہوگی صارفین کو کو یقینی ڈویژن نے کے وی کے کی جانب کے لیے
پڑھیں:
پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سولر پینلز درآمد کرنے والا ملک بن گیا۔
ملک میں مہنگی بجلی اور بجلی مسائل کے باعث پاکستان نے سولر پینلز درآمد کرنے میں پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔برطانوی توانائی تھنک ٹینک "ایمبر" کی عالمی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سولر پینلز درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ اِس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نہ کوئی بڑی قانون سازی ہوئی، نہ عالمی سرمایہ کاری کی یلغار اور نہ ہی وزیرِاعظم نے سبز انقلاب کا اعلان کیا، اس کے باوجود 2024 کے آخر تک پاکستان نے دنیا کے تقریباً تمام ممالک سے زیادہ سولر پینلز درآمد کیے۔ پاکستان نے صرف 2024 میں ہی 17 گیگا واٹ کے سولر پینلز درآمد کیے، جس سے وہ دنیا کی صفِ اول کی سولر مارکیٹس میں شامل ہو گیا ہے، یہ اضافہ 2023 کی نسبت دوگنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سولر درآمدات کی یہ وسعت خاص طور پر اِس لیے حیران کن ہے کیونکہ یہ کسی قومی پروگرام یا بڑے پیمانے پر منظم منصوبے کے تحت نہیں ہوا بلکہ صارفین کی ذاتی کوششوں سے ہوا ہے۔ زیادہ تر مانگ گھریلو صارفین، چھوٹے کاروباروں اور تجارتی اداروں کی طرف ہے جو مہنگی اور غیر یقینی سرکاری بجلی کے مقابلے میں سستی اور قابلِ اعتماد توانائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سولر پر منتقلی اُن لوگوں اور کاروباروں کی بقاء کی کوشش ہے جو غیر مؤثر منصوبہ بندی اور غیر یقینی فراہمی کے باعث قومی گرڈ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، یہ پاکستان میں توانائی کی سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کی علامت ہے۔ صرف مالی سال 2024 میں ہی پاکستان کی سولر پینلز کی درآمدات ملک بھر میں بجلی کی کُل طلب کا تقریباً نصف بنتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب قومی گرڈ کو اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لیے خود کو ڈھالنا پڑے گا کیونکہ موجودہ انفرااسٹرکچر اس تیز رفتار تبدیلی کے ساتھ قدم نہیں ملا پا رہا، اس منتقلی کو پائیدار اور منظم بنانے کے لیے نظام کی اپڈیٹڈ منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ریگولیٹرز نے نیٹ میٹرنگ کی اجازت دی ہے اور درآمدات پر کچھ نرمی بھی کی گئی ہے، لیکن پاکستان کی سرکاری گرڈ سے منسلک سولر پیداوار اب بھی بہت کم ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ زیادہ تر نئی تنصیبات گرڈ سے باہر کام کر رہی ہیں اور قومی بجلی کے اعدادوشمار میں شامل نہیں ہو رہیں۔