Nai Baat:
2025-01-31@07:51:10 GMT

کون بنے گا کروڑ پتی؟

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

کون بنے گا کروڑ پتی؟

بھارتی ٹی وی پر ایک پروگرام بیحد مقبول ہے جس کا نام ہے "کون بنے گا کروڑ پتی”۔ یہ پروگرام جولائی 2000 سے مسلسل نشر ہورہا ہے۔ شروع میں اِس کا سب سے بڑا اِنعام ایک کروڑ روپے تھا۔ پھر وہ بڑھ کر پانچ کروڑ ہوا۔ اَب سب سے بڑا اِنعام سات کروڑ روپے ہے۔ بھارت کے مشہور فلم اسٹار امیتابھ بچن اِس پروگرام کے میزبان ہیں۔ شروع سے وہ ہی اِس پروگرام کو چلا رہے ہیں۔

میں سوچتا ہوں کہ ہمارے ملک میں اِس قسم کا کوئی پروگرام کیوں ٹی وی پر نہیں چلتا جس میں لوگوں کو اْن کی معلومات جانچ کر اِنعامات دیے جائیں؟ ہمارے یہاں جس قسم کے اِنعامی پروگرام چلتے ہیں اْنھیں کوئی ذی ہوش اِنسان سنجیدہ پروگرام نہیں کہے گا۔ وہ ہلڑ بازی، دھوم دھڑکا والے پروگرام تو ہوسکتے ہیں لیکن ایک سنجیدہ ذہنی آزمائش کا پروگرام کوئی بھی نہیں چل رہا۔ کسی زمانے میں ذہنی کی آزمائش کے سنجیدہ پروگرام ہوا کرتے تھے جو پاکستان ٹیلی وژن پر چلتے تھے۔ اِس کی ایک مثال پروگرام کسوٹی تھا۔ لیکن وہ بھی کوئی اِنعامی پروگرام نہیں تھا۔ اِس کے باوجود وہ بیحد مقبول تھا۔ اْس کے بعد مختلف مواقع پر مختلف پروگرام چلے لیکن بہت تھوڑی مدت کے لیے۔ پھر وہ ختم ہوگئے۔ اب ایک طویل عرصے سے پاکستان کے پچاس سے زائد ٹی وی چینلوں پر ایک پروگرام بھی اِنعامی معلوماتی پروگرام نہیں ہے۔ اِس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے یہاں کسی کو یہ شوق نہیں ہے کہ قوم کے اَندر جاننے کے جذبے کو جگایا جائے۔ قوم خود بھی سوئی ہوئی ہے۔ چنانچہ معلوماتِ عامہ یا جنرل نالج کا ہمارے یہاں جنازہ نکل گیا ہے۔ وہ باتیں جو ہمیں ہمارے بچپن میں معلوم تھیں وہ آج کل کے بچوں کو گریجویشن کے بعد بھی معلوم نہیں ہوتیں۔ میں نے اپنی نوکری کے دوران بیشمار اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے انٹرویو کیے۔ اْنھیں مندرجہ ذیل سوالوں کے جوابات نہیں آتے تھے۔ یارِ غار کس کو کہا جاتا ہے؟ دریائے فرات کہاں ہے؟ سعودی عرب کے ساتھ کون سے سمندر لگتے ہیں؟ ڈاؤننگ اسٹریٹ کہاں واقع ہے؟ وال اسٹریٹ کہاں واقع ہے؟ USAکس براعظم میں واقع ہے؟ (اِس کا جواب اکثر نے یہ دیا کہ یورپ میں)۔ Scandinavianممالک کون سے ہیں؟چاند پر سب سے پہلے کس نے قدم رکھا تھا؟وغیرہ۔ یاد رہے کہ یہ تمام لوگ وہ تھے جن کے پاس کم از کم سولہ سال کی تعلیم تھی۔اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں معلوماتِ عامہ جاننے کا کوئی رجحان نہیں ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے یہ نوجوان جب دِیگر ممالک میں جاتے ہیں اَور وہاں اْن کا مقابلہ بھارتی، بنگلہ دیشی یا دیگر ایشائی ممالک کے نوجوانوں سے ہوتا ہے تو ہمارے نوجوان اْن کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔ چنانچہ باہر کے ممالک میں بھی ہمارے نوجوان اچھی نوکریاں نہیں لے پاتے یا اْن نوکریوں میں اْس تیزی سے ترقی نہیں کرپاتے جس تیزی سے دیگر ممالک کے لوگ ترقی کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں پڑھنے اَور جاننے کا وہ رواج ہی پیدا نہیں ہوا جو دیگر ممالک میں ہے۔

کون بنے گا کروڑ پتی کے قسم کے پروگراموں نے اپنے ممالک میں لوگوں میں علم حاصل کرنے کی پیاس جگائی ہے۔ ایک ہزار روپے سے لے کر سات کروڑ روپے تک کے اِنعامات دے کر اِس پروگرام میں بھارت میں خاص طور پر نوجوانوں میں معلومات حاصل کرنے کی ایک دوڑ لگا دی ہے۔ آپ اْس پروگرام کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اِس میں نہایت غریب طبقے کے افراد بھی آئے۔ اْنھوں نے دِن رات محنت کرکے اِس کی تیاری کی اَور اچھی خاصی رقم جیت کر وہاں سے گئے۔ یہ بات یاد رہے کہ بھارت کے سات کروڑ ہمارے اکیس کروڑ سے بھی زیادہ بنتے ہیں۔ گویا یہ پروگرام ایک بہت بڑی رقم اِنعام کے طور پر پیش کررہا ہے۔

اِس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں بھی ذہنی آزمائش کے اِنعامی مقابلوں کے پروگرام شروع کیے جائیں۔ یہ ایک طریقہ ہے لوگوں میں معلومات کو حاصل کرنے کی پیاس پیدا کرنے کا۔ ہمارے نوجوان سارا وقت سوشل میڈیا، فلمیں اَور گپیں لگانے میں ضائع کر رہے ہیں۔ جواِن سے بچ گئے ہیں وہ جرائم میں ملوث ہیں علم کی طرف رجحان تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ اِس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔ اور اگر اِس پر توجہ نہ دی گئی تو وہ دِن دْور نہیں جب ہمارے نوجوان بالکل ردی مال بن چکے ہوں گے۔ ہمارے حکمرانوں کو کسی قسم کی کوئی فکر نہیں ہے۔ لیپ ٹاپ تقسیم کرنے سے قوم پڑھی لکھی نہیں ہوجاتی۔ پڑھنے لکھنے سے ہوتی ہے۔ لیپ ٹاپ یا موبائل فون معلومات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تو بن سکتے ہیں لیکن صرف تب جب کوئی اِنھیں اِس کام کے لیے اِستعمال کرے۔ اگر نوجوانوں کا دھیان علم حاصل کرنے کی طرف ہے ہی نہیں تو یہ لیپ ٹاپ کیا کرلیں گے؟

ذہنی آزمائش کے وہ پروگرام جو بہت بڑے اِنعام پیش کررہے ہوں لوگوں کو مجبور کریں گے کہ وہ اِس کے ذریعے بڑی رقم جیتنے کی خواہش اَپنے اَندر پیدا کریں۔ یوں روپے کا لالچ اْنھیں پڑھنے پر مجبور کردے گا۔ بھارت میں بھی یہی ہوا ہے۔ دْوسرے ممالک میں بھی لوگوں نے اِس طرح لوگوں کو پڑھنے پر مجبور کیا۔ اِس پروگرام پر ایک مشہور برطانوی فلم بھی بنی جسے آٹھ آسکر ایوارڈ ملے تھے۔ اِس سے اِس سارے سلسلے کی مقبولیت کا اَندازہ کیا جاسکتا ہے۔
کون بنے گا کروڑ پتی کی مقبولیت کا ایک اور سبب امیتابھ بچن بھی ہیں۔ جو مقبولیت اْنھیں بھارت میں حاصل ہے، جس طرح بھارتی لوگ اْنھیں پیار کرتے ہیں اَور اْن کی عزت کرتے ہیں، ہمارے پاس بدنصیبی سے اْس طرح کا کوئی شخص موجود نہیں ہے۔ اگر ہے تو کم از کم میرے علم میں نہیں ہے۔ اِس سے قحط الرجال کی سنگین نوعیت کا اَندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ امیتابھ بچن نے یہ مقبولیت اَور پیار مفت میں حاصل نہیں کرلیے۔ اِس کے لیے اْنھوں نے برسوں لگاتار محنت کی ہے اَور آج تک کررہے ہیں۔

میرے دوست میر صاحب قوم کا بڑا درد رکھتے ہیں۔ اْنھوں نے ساری عمر بیرونِ ملک ملازمت کے سلسلے میں گزاری۔ خلیجی ممالک میں ہمارے نوجوانوں کی جو حالت ہے وہ اْن سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اْنھوں نے بڑے دردِ دِل سے یہ کوشش کی کہ ملک میں ذہنی آزمائش کا ایک پروگرام شروع کیا جائے۔ وہ اِس کے لیے مفت میں محنت کرنے کے لیے بھی تیار تھے لیکن کسی نے اْن کی نہ سنی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔ اگر میر صاحب ایک سیاسی ٹاک شو کرنا چاہیں، ہلڑ بازی کا پروگرام کرنے کی خواہش رکھیں، وہ پروگرام کرنا چاہیں جس میں لوگوں کو ذلیل کرکے یا گھٹیا قسم کی جگت بازی کے ذریعے لوگوں کو ہنسایا جائے تو سب اْن کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ علمی پروگرام کرنے اَور اْن پر بڑے اِنعامات دینے کا کسی میں حوصلہ نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں کتنے ہی ارب پتی لوگ موجود ہیں۔ کیا ایک شخص بھی اَیسا نہیں ہے جو یہ کہے کہ میں دو ارب روپے دیتا ہوں، آپ یہ پروگرام شروع کریں؟ جب یہ مقبول ہوجائے تو پھر اِشتہارات کے ذریعے اِسے آگے چلا لیا جائے۔ کیا ہم اپنی دولت صرف اپنے آپ پر یا اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے ہی اِستعمال کرسکتے ہیں اَور کسی کو ملک کا کوئی خیال نہیں ہے؟

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ہمارے نوجوان حاصل کرنے کی ا س پروگرام ہے کہ ہمارے ہمارے یہاں ممالک میں ا نھوں نے ہمارے یہ لوگوں کو کا کوئی نہیں ہے میں بھی ملک میں ا نھیں کے لیے

پڑھیں:

ہمارے پاس ڈی چوک کی طرف احتجاجی مارچ کا آپشن موجود ہے، جنید اکبر

نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا 26 نومبر واقعے کو مدنظر رکھ کر پوری تیاری کے ساتھ جائیں گے، اگر اسلام آباد نہ گئے تو گلگت اور خیبرپختونخواہ کی تمام قومی شاہراہیں بند کر دیں گے، پہلی قیادت کی طرح اب کسی سے کوئی رابطہ یا بات نہیں کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ قومی اسمبلی میں چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور رہنماء پی ٹی آئی جنید اکبر نے کہا ہے کہ ہمارے پاس اسلام آباد ڈی چوک کی طرف احتجاجی مارچ کا آپشن موجود ہے، 26 نومبر واقعے کو مدنظر رکھ کر پوری تیاری کے ساتھ جائیں گے، اگر اسلام آباد نہ گئے تو گلگت اور خیبرپختونخواہ کی تمام قومی شاہراہیں بند کر دیں گے، پہلی قیادت کی طرح اب کسی سے کوئی رابطہ یا بات نہیں کریں گے۔ انہوں نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں کہ علی امین سے عمران خان ناراض ہیں، اگر ناراض ہوتے تو وزارت اعلیٰ سے ہٹا دیتے، صوبائی عہدے کی نسبت وزیر اعلیٰ شپ بڑا عہدہ ہے، علی امین نے پارٹی میں سب سے زیادہ محنت کی۔   ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کو اب لگ رہا ہے کہ ہم دوبارہ احتجاج میں جا رہے ہیں، کیونکہ مذاکرات میں حکومت کا رویہ دیکھ لیا، حامد رضا کے گھر میں چھاپے مارے گئے، مجھے لگ رہا ہے کہ ہماری مذاکرات کی خواہش کو کمزوری سمجھا گیا۔ عمران خان کا ڈیڑھ مہینہ پہلے بھی مجھے پیغام ملا کہ آپ کو صوبائی صدر بنانا ہے، میں پریشان ہوا کہ اتنی بڑا ذمہ داری کیسے اٹھاؤں گا، میں خان کو اپنی مجبوریاں بھی بتائیں، لیکن عمران خان نے کہا کہ آپ کو صدر بنانا ہے۔ 1996ء میں سیاست کا آغاز گاؤں کی صدارت سے کیا تھا، پھر حلقے تک رہا۔ عمران خان نے میری قربانیوں کو دیکھ کر صوبائی صدر بنایا۔ 9 مئی کے بعد مجھ پر ایف آئی آرز کاٹی گئیں، ایف آئی آر بھی وہاں کاٹتے جہاں سردی زیادہ ہو۔ سونے بھی نہیں دیتے، ہر تھوڑی دیر بعد تصویر بناتے،    جنید اکبر کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے بعد احتجاج میں سب سے زیادہ مالاکنڈ کے کارکنان گئے۔ 8 فروری کو صوابی جلسے کیلئے زیادہ جذبے سے نکلیں گے، ارکان اسمبلی کو اعتماد میں لوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اندازہ تھا حکومت مذاکرات میں آگے نہیں بڑھ سکتی، کیونکہ فیصلے کسی اور نے کرنے ہیں، ہم کوشش کر رہے تھے کہ ڈائیلاگ کامیاب ہوں گے، لیکن آثار نظر نہیں آرہے۔ 8 فروری کے بعد تنظیم سازی کریں گے، 9 مئی کے بعد مزاحمت کرنے والوں کو آگے لائیں گے، مرکزی اور صوبائی ہومیو پیتھک قیادت سائیڈ پر ہو جائے گی، حالات ایسے لگ رہے کہ آئندہ دنوں حکومت اور اپوزیشن میں کشیدگی بڑھے گی۔ پہلے احتجاج کیلئے نکلتے تھے تو قیادت کے رابطے ہوتے تھے، اب حکومت سے کوئی رابطہ یا بات نہیں کریں گے۔   انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس احتجاج کے تین آپریشن موجود ہیں، ہمارے پاس اسلام آباد ڈی چوک کی طرف احتجاجی مارچ کا آپشن موجود ہے، 26 نومبر واقعے کو مدنظر رکھ کر اسلام آباد پوری تیاری کے ساتھ جائیں گے، اگر اسلام آباد کی طرف نہ بھی گئے تو ہم گلگت اور خیبرپختونخواہ کے تمام راستے بند کر سکتے ہیں، عمران خان نے پیغام دیا کہ ہم حکومت اور وزیرآعظم بننے سے بہت آگے سوچنا ہے، یہ دل سے نکال دیں کہ ہم نے پارلیمنٹ میں آنا ہے یا دوبارہ ایم این اے بننا ہے، یہ بہت چھوٹی چیزیں ہیں، اب ریاست کو فیصلہ کرنا ہے، ہمارے ورکرز پر ایف آئی آرز کاٹی گئیں، تشدد سے ہماری خواتین کو بھی نہیں توڑا جا سکا۔

متعلقہ مضامین

  • میٹا ٹرمپ کو ڈھائی کروڑ ڈالر ادا کرنے پر رضامند
  • مسلمانوں کی زبوں حالی کا مجرم کون؟
  • صدرکی جانب سے دستخطوں سے بہت افسوس ہوا،افضل بٹ
  • نئے ٹیکس قوانین: کیا پراپرٹی کی خریداری پر ٹیکس چھوٹ حاصل ہوگی؟
  • ارکان پارلیمنٹ کی سکیموں کیلئے 50 ارب روپے جاری کرنے کی منظوری
  • ہمارے پاس ڈی چوک کی طرف احتجاجی مارچ کا آپشن موجود ہے، جنید اکبر
  • ڈیجٹل کانٹنٹ بنانے والوں کیلئے گولڈن ویزا، بڑی خبر آ گئی
  • پی ٹی آئی کو مذاکرات کی میزپرآناپڑے گاان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں، راناثناء اللہ
  • وزیراعلیٰ، وزراء یا کسی سے کوئی شکایت ہو تو مجھے بتائیں کسی اور جگہ چغلی کرنے کی ضرورت نہیں، بلاول بھٹو