برصغیر میں بسنے والے لاکھوں اور اب کروڑوں مسلمانوں کے محبوب لیڈر قا ئداعظم محمد علی جناح کو اللہ رب العزت نے پیش بہا کر شماتی خوبیوں سے نوازا تھا۔ بیسویں صدی کے سب سے عظیم سیاسی رہنما ہونے کے باوصف قائداعظم کی شخصیت و کردار اس قدر شفاف اور متاثر کن تھی کہ آ ج پون صدی گزر جانے کے بعد بھی ان کا بڑے سے بڑا مخالف اور نا قد بھی انکے بارے کچھ منفی یا بے معنی و لا یعنی گفتگو کر نے سے پہلے سو بار سو چتا ہے ۔ ہمارے ہاں اپنے بڑے بزرگوں اور دنیا سے چلے گئے اکابرین کی بے توقیری کا ایک ناپسندیدہ و قبیح عمل کچھ لوگ فیشن کے طور پر اپنا لیتے ہیں اور بہتیرے ایسے بھی ہیں جن کی ذو معنی تکلیف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے ۔ یہ نسل در نسل حسد و بغض کے مارے ہوئے جب جب موقع پا تے ہیں محسنین ِ قوم کے بارے ہرزہ سرائی ضرور کر تے ہیں۔ چند روز قبل ایوان بالا کی انتہائی معزز و مقدس نشست پر براجمان صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان نے بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح کا ذکر کر تے ہوئے انتہائی عامیانہ زبان اور بازاری لب و لہجہ استعمال کیا۔ یقین کیجئے مجھے ذا تی طور پر انکی اس تقریر اور سیاسی فکر سے لیکر ریاست کے ساتھ ان کے تحفظات تک کسی بھی بات سے کچھ لینا دینا نہیں ۔ البتہ ان کے عامیانہ پن پر سوائے اظہار افسوس کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ تاہم سوشل میڈیا پر سابق وفاقی وزیر اور سینئر سیاسی رہنما خواجہ سعد رفیق کی جانب سے مدبرانہ اور معتدل جواب کے بعد مجھے اپنے اُستاد محترم معروف دانشور مرحوم ڈاکٹر صفدر محمود بہت یا د آئے جن کی پوری زندگی قائداعظم کی شخصیت‘ سیاست اور نظریاتی کا دفاع کرتے گزری۔ اگر ڈاکٹر صاحب حیات ہوتے تو سینٹ آ ف پاکستان میں کی گئی اس قابل مذمت گفتگو کی ایسی خبر لیتے کہ تسلی ہو جاتی ۔ بہر حال خواجہ سعد رفیق کا جاندار رد عمل دراصل انکے خون کا اثر ہے۔ یہ جرأت گولڈ میڈلسٹ کارکن تحریک پاکستان اور آگ و خون کے دریا عبور کر کے پاکستان حاصل کر نے والے خواجہ رفیق شہید کا بیٹا ہی کر سکتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اپنی اندرونی و بیرونی وابستگیوں اور محدود مفادات کے گھن چکر میں اسیری کی حد تک پھنسے ہوئے یہ نام نہاد سیاستدان پریشر گروپس کے طور پر کام کرتے ہیں انہوں نے اپنی ذات اور اپنی سوچ سے آ گے نہ کبھی سوچا اور نہ کبھی کچھ کیا۔
قیام پاکستان کی تاریخی جدوجہد کے دوران خائب و خاسر رہنے والا یہ گروہ آ ج بھی اسی خفگی کا شکار ہے۔ بھلا ان کی زبان سے بانیان پاکستان کی بابت کلمات خیر کیسے ادا ہو سکتے ہیں جنہوں نے 1947 کے تاریخی ریفرنڈم میں قائداعظم محمد علی جناح سے عبرتناک شکست کھائی اور دین و ملت سے بیزاری و لا تعلقی کی بنیاد پر بیرونی آ قا ئوں کی غلامی کو قبول کئے رکھا۔ آ ج یہ تیسری یا چوتھی نسل تک پہنچنے کے بعد بھی وہی گردان دہر ا رہے ہیں جو ان کے بڑے مسلسل کہتے اور پر چار کر تے رہے۔ لیکن یاد رہے کہ نصف النھار کے سو رج کو اشاروں کنایوں میں کچھ کہا جائے یا رات کے وقت چمکتے دمکتے چاند کی طرف منہ کر کے آ وازیں بلند کی جائیں ہر دو صورتوں میں نامرادی ہی مقدر رہتی ہے ۔ آ ج 77 سال گزرنے کے بعد ان کو قا ئداعظم کی شخصیت پر تحقیق کی فکر لاحق ہو ئی ہے تو یہ خود ساختہ مغالطوں کا شکار ہو کر قوم کو گمراہ کر نے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ۔ آ پ کو جہاں اور جن سے شکایت ہے براہ ِ راست ان سے بات کریں یا اُ ن کی بات کریں ۔ قا ئداعظم کی علالت اور سفر آ خرت کو بہا نہ بنا کر اپنا خُبث باطن ظاہر کر نا عجیب بھونڈا انداز ہے۔ ظاہر سی بات ہے اپنی گفتگو اور موقف میں وزن بڑھانے کیلئے بھی انہیں قا ئداعظم کی شخصیت کے سہارے کی ضرورت ہے۔ اپنی ضرورت پوری کر نے کے چکر میں کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں بسنے والے قائداعظم کا اہانت آ میز تذکرہ بالکل نا قابل برداشت اور نامناسب ہے۔ اب تو قائداعظم کی بصیرت کی حقیقت چار دانگ عا لم میں آ شکار ہو چکی ہے جب بھارت میں بسنے والے مسلمان اور بنگلہ دیشی مسلمان یک زبان ہو کر قا ئداعظم کی جدوجہد آ زا دی کو سلام پیش کر رہے ہیں۔ اور وہ زبان ِ حال سے پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ نہرو اور گاندھی سمیت ہر شاطر مزاج مسلمان دشمن سے مقابلہ کر کے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ خطہ زمین کاحصول اور پاکستان کا قیام وا قعی ایک معجزہ تھا جس کے لیے قدرت نے قائداعظم محمد علی جناح کو تمام تر صلاحیتیں عطا فرمائیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ انگریزوں‘ ہندوئو ں اور مسلمان دشمنوں سے بیک وقت لڑائی میں قائداعظم ایک مرتبہ بھی جیل نہیں گئے۔ بلکہ اصول اور دلیل کے ساتھ اپنا موقف منوایا۔ ہمیں ہرآزادی پسند کا احترام ضرور ہے مگر ایسا نہیں کہ ہم تاریخ کو مسخ کر ڈالیں اور کل کے مجروح کرداروں کو آج کے ہیرو بنا کر نسل نو کو گمراہ کرنے پر خاموشی اختیار کیے رکھیں۔ لہٰذا بات اصول سے ہو گی اور تاریخ کے حوالوں سے مزین بھی ہو گی۔
قائدعظم نے -16اکتوبر 1945ء کو بلوچستان کوئٹہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے واضح کر دیا تھا کہ ’’جو لوگ پاکستان کی مخالفت کر رہے ہیں وہ مسلمانوں کو ہندو راج کے ماتحت رکھنا چاہتے ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ مسلمان کبھی بھی ہندو راج میں نہیں رہ سکتے اور یہ کہ دو سو برسوں کا انگریز تسلط ہندو غلبے سے خوفزدہ کرنے کیلئے کافی ہے۔ اسی لیے ہم نے سوچ سمجھ کر پاکستان کا مطالبہ کیا ہے‘‘۔ میری دانست میں آج پاکستان میں بسنے والے بچے بچے کو قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے افکار کے متعلق درست آگاہی فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے بلکہ میں تو کہوں گا کہ فیاض ہاشمی کی یہ نظم نسل نو کو سبقاً پڑھائی جانی چاہئے از بر کرانی چاہئے۔
یوں دی ہمیں آزادی کے دنیا ہوئی حیران
اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: قائداعظم محمد علی جناح ئداعظم محمد علی جناح ئداعظم کی شخصیت میں بسنے والے قا ئداعظم کی رہے ہیں نے والے تے ہیں کے بعد
پڑھیں:
دہشت گردی، بڑا چیلنج
پاکستان کو قومی ترقی میں چند بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر مختلف حکمت عملیاں اختیار کی جاتی ہیں مگر اس کے باوجود بہتر نتائج حاصل نہیں ہو رہے ہیں۔اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ یا تو ہمیں مسائل کا حقیقی ادراک نہیں یا ہم ان مسائل کا ادراک رکھنے کے باوجود کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اگرچہ ہمیں سیاسی، انتظامی، معاشی، حکمرانی اور سیکیورٹی کے تناظر میں مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے۔پچھلے دنوں گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 کی رپورٹ میں پاکستان کو تجویز دی گئی ہے کہ اسے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے فوجی سیاسی، سماجی اور معاشی اقدامات لینے ہوں گے۔
اس رپورٹ کے بقول پاکستان دہشت گردی کے موجودہ خطرے سے نمٹنے کے لیے وقت پر بیدار نہ ہوا تو معاشی بحالی اور قومی ہم آہنگی کے خواب چکنا چور ہو سکتے ہیں۔اسی طرح متحرک حکمت عملی اور طویل مدتی اہداف پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ایک موثر انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی تیار کرنا ہوگا۔
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کی یہ رپورٹ ہماری قومی ترجیحات کے تعین میں بھی توجہ دلاتی ہے اور ہمارے داخلی سیاست کے مسائل کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست بالخصوص افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں بداعتمادی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی کے بحران کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کی لہر داخلی،علاقائی اور عالمی سیاست سے منسلک مسائل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
ہمیں دہشت گردی کے مسائل کو سیاسی تنہائی میں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کوبھی ایک بڑے قومی اور علاقائی فریم ورک میں دیکھ کر موثر حکمت عملی اختیار کرنا ہی ہمارے ریاستی مفاد میں ہوگا۔دہشت گرد جس بڑے اندازکو بنیاد بنا کر پاکستان کی ریاست کی رٹ اور اداروں کو چیلنج کر رہے ہیں وہ واقعی ہمارے لیے تشویش کا پہلو ہے۔گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں یہ بھی انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ 2023میں ہونے والے 517 دہشت گرد حملوں کے مقابلے میں 2024 میں ہمیں ایک ہزار 99 حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان ملک کے سب سے زیادہ متاثرہ حصے ہیں جہاں 96 فیصد دہشت گردی کے حملے ہوئے ہیںجو یقیناً ایک بڑا چیلنج ہے۔
بنیادی طور پر اس طرح کی عالمی سطح پر جاری ہونے والی رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان میں سیکیورٹی کے حالات پیچیدہ اور سنگین ہیں۔یہ معاملات پاکستان کی داخلی اور خارجی سطح پر جو تصویر پیش کرتے ہیں اس پر مختلف نوعیت کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ ہم اپنی تمام تر حکمت عملیوں اور کوششوں کے باوجود دہشت گردی کی جنگ سے باہر نہیں نکل رہے اور دہشت گرد ہماری ریاست کو کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان حکومتی اور معاشرتی سطح پر سیاسی تقسیم کا شکار ہے۔سیاسی اور معاشی استحکام نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ بھی ہماری داخلی سطح پر سیاسی فیصلہ سازی کا عمل ہے اور ہم داخلی سیاست میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
اگرچہ ہمارے حکمران بضد ہیں کہ ہم سیاسی اور معاشی طور پر درست سمت میں ہیں اوراعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ہم نے ترقی کی طرف اپنا سفر شروع کر دیا ہے۔ان کے بقول دہشت گردی پر بھی کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے اور آنے والے دنوں میں دہشت گردی کا ہر سطح پر خاتمہ ہوگا اور اس پر کوئی سیاسی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔یہ حکمرانوں کا بیانیہ ہے جب کہ ہمارے حقیقی مسائل حکمرانوں کے پیش کردہ ترقی پر مبنی خیالات سے مختلف ہیں۔دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر جو بھی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہیں اس میں اتفاق رائے کا فقدان ہے۔دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کی سیاسی قیادت حکومت کے مقابلے میں مختلف جگہ پر کھڑی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے کے لیے ہمیں جو قومی اتفاق رائے درکار ہے اس میں کئی طرح کی سیاسی مشکلات کا سامنا ہے۔ افغانستان مسلسل ہمارے لیے درد سر بنا ہوا ہے اور پاکستان میں جو بھی دہشت گردی ہو رہی ہے اس کے ایک بڑے تانے بانے عملاً افغانستان سے جڑتے ہیں۔لیکن افغانستان سے ٹی ٹی پی کے حوالے سے جو ہمیں معاونت درکار تھی وہ نہیں مل رہی۔ایک اچھی پیش رفت حالیہ دنوں میں یہ ہوئی ہے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی طور پر کچھ مثبت پہلو اور بات چیت کا عمل سامنے آیا ہے۔بات چیت اور مکالمے کی بنیاد پر مسائل کے حل کے لیے یہ دو طرفہ دروازہ بند نہیں ہونا چاہیے۔
سیاست کرنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے اور تمام تر اختلافات کے باوجود سیاسی جماعتوں کو سیاست سے دور رکھنے کی پالیسی سے ہر سطح پر گریز کیا جانا چاہیے۔اسی طرح سیاسی جماعتوں کو بھی اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ ان کی سیاست اپنی جگہ مگر ریاستی مفاد زیادہ اہم ہوتا ہے، اس لیے سیاسی جماعتوں کو بھی ریڈ لائن کراس نہیں کرنی چاہیے ۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہمیں بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں سیاسی یا غیر سیاسی فریقین کو اعتماد میں لینا ہوگا ان سے بات چیت کرنی ہوگی ۔دہشت گردی کی یہ جنگ پاکستان کی جنگ ہے اور پاکستان میں ہر فریق چاہے وہ حکومت کا حصہ ہو یا حکومت سے باہر ہو اسے مل کر لڑنی ہے۔اگر ہم دہشت گردی کی اس جنگ میں خود باہمی ٹکراؤ یا تضادات کا شکار ہو جائیں گے تو پھر اس جنگ میں کامیابی کے امکانات بھی اور زیادہ محدود ہوں گے۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں دہشت گردی کی جنگ کے تناظر میں غیر معمولی حالات کا سامنا ہے تو پھر ہماری حکمت عملی بھی غیر معمولی اقدامات پر مبنی ہونا چاہیے۔علاقائی صورتحال میں بھی افغانستان سمیت بھارت کے ساتھ میں اپنے معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری اسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے جب یہ دونوں ممالک بھی پاکستان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں اور تعلقات کو بہتر بنائیں۔کیونکہ علاقائی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی بہتری کا عمل محض ان ملکوں تک محدود نہیں بلکہ اس کے مجموعی بہتر اثرات خطے کی سیاست پر بھی پڑیں گے۔