Nai Baat:
2025-01-31@07:42:46 GMT

لاہور پولیس کی کارکردگی: حقائق کی روشنی میں

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

لاہور پولیس کی کارکردگی: حقائق کی روشنی میں

بلاشبہ وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز ، جس طور پر پنجاب کے عوام کی خدمت میں مصروف عمل اور انتہائی متحرک ہیں ، وہ قابل تعریف و لائق تحسین ہے ۔ جس طرح وہ شہر شہر جا کر ہر آدمی کا مسئلہ حل کر ہی ہیں ، میرے نزدیک وہ خدمت کے میدان میں اپنے والد گرامی سے بھی آگے نکل چکی ہیں۔ دوسری جو اہم قابلیت ان کے اندر موجود ہے وہ اداروں کی بہتری کے لئے بھی کوشاں رہتی ہیں اور اداروں میں بگاڑ بننے کی وجوہات اورکرپشن میں ملوث افراد کی تمام رپورٹس سے باخبر بھی ہوتی ہیں اور اس بارے بغیر کسی کا خیال کئے کھری کھری بھی سنا دیتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے بیوروکریسی ان کے چچا جان اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف سے ڈرتی تھی، ان سے بھی اسی طرح خوفزدہ ہے ۔ لیکن ایک مسئلہ جو بطور تحقیقاتی صحافی میں سمجھتا ہوں اور جس کا مشورہ میں نے سابقہ وزیر اعظم عمران خان کو بھی اپنے کالموں کے ذریعے پہنچانے کی کوشش کی تھی اور اب محترمہ وزیر اعلیٰ تک بھی پہنچانا چاہوں گا کہ اپنے مشیروں پر اندھا اعتماد نہ کریں۔ مشیران بھی انسان ہی ہوتے ہیں اور ان کے بھی ذاتی فائدے، محبتیں اور نفرتیں ہوتی ہیں ۔ ان کے سینوںمیں بھی دل ہوتے ہیں جو حسد، نفرت اور دشمنی جیسی جبلتوں میں گھرا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ادارے یا محکمے کی کارکردگی رپورٹ بناتے ہوئے مشیروں یا سپیشل برانچ کے افسران وملازمین کی ذاتی پسند یا نا پسند بھی آڑے آتی ہے اور یوں بہترین کارکردگی اور اپنے معاملات کو بہتر سے بہتر بنا نے والے محکمے کسی مشیر کے حسد کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور پھر وہی سب کچھ ہوتا ہے جو وزیر اعلیٰ کی میٹنگ میں لاہور پولیس کے ساتھ ہوا۔ جس کی وجہ سے بہتر پرفارمنس دینے والے افسران مایوسی میںمبتلا ہیں۔

قارئین کرام ! یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پولیس کو جتنے فنڈز اور بااختیار مسلم لیگ ن کی حکومت نے بنایا شاید ہی کسی نے بنایا ہو۔ لیکن اس سب کے باوجود کلی طور پر پولیس وہ کار کردگی نہ دکھا سکی جس کی امید اور توقع کی جارہی تھی ۔ لیکن حقائق کی روشنی میں موازنہ کیا جائے تو باقی پوری پنجاب پولیس ایک جانب کرائم میں کمی لانے میںلاہور پولیس کا پلڑا پھر بھی بھاری ہے ۔پنجاب سے ہٹ کر لاہور میں جرائم کی اپنی ایک کیمسٹری ہے اور اگر اس کیمسٹری کی وضاحت کی جائے تو یہ کالم کم پڑ جائے لیکن لاہور کے کرائم ڈیٹا کو سمجھنے والے اس سے بخوبی واقف ہیںلیکن افسوس کے ساتھ یہ بات لکھنا پڑ رہی ہے کہ مشیران اور دیگر اداروں کے ذمہ داران اس سے نا واقف ہیں جنہوں نے لاہورپولیس کی کارکردگی رپورٹ بنا کر پیش کی ہے ۔ 99فیصد کیسز میں یہاں کسی بھی صورت 15کال پر تاخیر نہیں کی جا سکتی ۔ کال کا تمام ڈیٹا افسران سے ہوتے ہوئے آئی۔جی تک پہنچتا ہے اور پھر کال پر رسپانس اور فیڈ بیک اور اس پر کوتاہی کی صورت میں افسران کی جانب سے معطلی کا پروانہ جاری ہو جا تا ہے ۔

لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ ، ایک پیشہ ور ، نڈر اور قابل افسر ہیں۔لاہور میں وقوع ہونے والا کرائم ان کی فنگر ٹپس پر ہوتا ہے ۔ یہ ایک اعلیٰ افسر ہونے کے ساتھ انتہائی ذمین آدمی بھی ہیں اور میں ذاتی طور پر گواہ ہوں کہ کرائم میٹنگز میں ایس۔ ایچ۔ اوز تو بہت دور کی بات بڑے بڑے پھنے خان ایس۔پیز کانپ رہے ہوتے ہیں ۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کرائم بڑھنے پر احتساب پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہ ہوگا اور شاید یہی وجہ ہے کہ لاہور جیسے بڑے شہر میں کرائم کو کنٹرول کر نے کی خاطر نہ صرف سی۔ سی۔ پی۔او بلکہ تمام ڈی۔آئی۔ جیز، ایس۔ ایس۔پیز اور ڈویژنل ایس۔پیز کو بھی راتوں کو جاگتے دیکھا ہے ۔

قارئین کرام ! لاہور پولیس کی جانب سے دئیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 15کالز ڈیٹا کے مطابق شہر لاہور میں جرائم میں چالیس فیصد تک کمی آئی ہے ۔ اور یہ ڈیٹا اب سی۔سی۔پی۔او یاڈی۔آئی۔جی آپریشنز کے ہاتھوں سے نکل کر دیگر نجی کمپنیوں کے پاس مرتب ہوتا ہے ۔ اس میں تبدیلی کسی پولیس افسر کی خواہش کے مطابق ممکن ہی نہیں ہے ۔ان دو دنوں میں کہ واقعی لاہور پولیس کا مو قف درست ہے کو جانچنے کے لئے میں نے اپنے طور پر بھی لاہور کے مختلف تھانوں کی کرائم ہسٹری اور مقدمات کے اندراج کے حوالوں سے وزیرا علیٰ پنجاب کے انڈیکٹرز کی روشنی میں کارکردگی کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ نہ صرف جرائم میں بھی کمی واقع ہوئی ہے بلکہ اندارج مقدمات بھی انہی انڈیکٹرز کی روشنی میں ہو رہے ہیں۔ میں یہاں بالخصوص لاہور کے تھانہ چوہنگ ،جو آبادی اور محل و وقوع کے اعتبار سے ایک بڑا تھانہ سمجھا جا تا ہے اور ہر طرح کا کرائم یہاں رپورٹ ہوتا ہے ۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس تھانے میں اندراج مقدمہ کی کوئی بھی درخواست پینڈنگ نہ ہے ۔ روز کے روز ہی پیروی افسر درخواستوں کو سنتا ہے اور اس پر عملدرآمد کر دیا جاتا ہے ۔15کالز پر فوری رسپانس دیا جاتا ہے اور یہاں تعینات ایس۔ایچ۔او 24گھنٹے عوام کی خدمت کے لئے تھانے میں موجود رہتا ہے ۔

قارئین محترم ! یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دیگر محکموں کی طرح محکمہ پولیس میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں ۔ ان کی ایک حرام زدگی کی وجہ سے پورے محکمے کے روشن چہرے پر کالک مل دی جاتی ہے ۔ میں لاہور پولیس کے ایسے افسران کو بھی جانتا ہوں جو نیک نیتی اور ایمان داری کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور محکمے کی ساکھ کو بہتر بنا نے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ میں اس کالم کے ذریعے محترمہ وزیر اعلیٰ سے ملتمس ہوں کہ وہ دوبارہ بالخصوص لاہور پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے میٹنگ بلائیں اور مشیران کی بنائی رپورٹس پر نہیں بلکہ ذاتی طور پر معاملات خود دیکھیں تو اس نتیجے پر ضرور پہنچیں گی کہ حقیقی معنوں میں لاہور پولیس کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے ۔اور یہ شاباش کی مستحق ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پولیس کی کارکردگی لاہور پولیس کی کی روشنی میں وزیر اعلی ا ہے اور ہیں اور ہوتا ہے کے ساتھ

پڑھیں:

ٹک ٹاک بناتے ہوئے ایک اور نوجوان کی زندگی کا خاتمہ

لاہور میں ٹک ٹاک  بنانے کے شوق نے 17 سالہ  نوجوان کی زندگی نگل لی۔

پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے علاقے شاد باغ میں 17 سالہ عبدالرحمٰن نامی نوجوان ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے اچانک پستول سے گولی چلنے کے باعث جاں بحق ہو گیا۔

 حادثے کی اطلاع ملتے ہی پولیس موقع پر پہنچی اور مقتول کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کر دیا۔

پولیس کے مطابق عبدالرحمٰن اپنے ماموں کے گھر آیا تھا، جہاں اس دوران گولی چلنے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ نوجوان کو سینے میں ایک گولی لگی، جو جان لیوا ثابت ہوئی۔

پولیس نے موقع پر موجود افراد کے بیانات قلمبند کر کے مزید تحقیقات شروع کر دی ہیں تاکہ اس حادثے کی وجوہات کا پتہ چلایا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • مغلپورہ: پولیس اہلکاروں پر پان شاپ سے لاکھوں روپے چرانے کا الزام
  • لاہور: ٹک ٹاک کیلئے ویڈیو بناتے ہوئے نوجوان گولی چلنے سے جاں بحق
  • ٹک ٹاک بناتے ہوئے ایک اور نوجوان کی زندگی کا خاتمہ
  • پنجاب ،سی آئی اے ختم ’’آرگنائزڈ کرائم یونٹ‘‘ کیوں ؟
  • کرائم فائٹر VS ٹک ٹاک فائٹر!
  • پنجاب میں بڑھتے جرائم
  • حقائق مختلف ہیں
  • لاہور: شوہر نے جھگڑے کے بعد بیوی کو اسپرٹ چھڑک کر جلا دیا
  • لاہور میں غیرت کے نام پر قتل کا مقدمہ 14 سال بعد درج