Nai Baat:
2025-01-31@06:49:50 GMT

پیکا ایکٹ اور ایف آئی اے کی کارکردگی

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

پیکا ایکٹ اور ایف آئی اے کی کارکردگی

پیکا ایکٹ کی حمایت اور مخالفت میں گرم ونرم گفتگو کا سلسلہ ملک بھر میں جاری ہے ۔ جس میں صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو سب سے زیادہ تحفظات ہیں ۔ میں غور سے اِس ایکٹ کو پڑھنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس ایکٹ کی مخالفت کرنے والے دراصل جھوٹ بولنے اور فیک نیوز پھیلانے کی اجازت مانگ رہے ہیں جبکہ آپ کو حقیقی رپورٹنگ یا تجزیے سے کوئی بھی نہیں روک رہا اور نہ ہی سچ بولنے پر آپ کے خلاف کوئی مقدمہ بن سکتا ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ سوشل میڈیا کے ’’غازیوں‘‘ اور انہیں کنٹنٹ فراہم کرنے والے ’’ موکلات ‘‘ نے ریاست کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ریاست مخالف صحافیوں کی ایک رجیم جو منصوبہ بندی کے ساتھ ٗ طے شدہ ایجنڈے کے مطابق ٗ پہلے پاکستان کے جغرافیے اور اب بیرون ِ ملک بیٹھ کر انتہائی غلیظ اور ملک دشمن پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔اِن کا ماں باپ کون ہیں ؟ ان کا کس تنظیم سے تعلق ہے ؟ اِن کے پاس پاکستان کے مستقبل کیلئے پروگرام کیا ہے؟ یہ پاکستان کے اداروں کو برباد کرکے ٗ نیا کیا بنانا چاہتے ہیں؟ اِن کو ملنے والے ڈالر اور پائونڈ کس پروگرام کی تکمیل کیلئے ہیں ؟ اِن کی پاکستان اور پاکستان کے نوجوانوں سے دشمنی کیا ہے ؟ یہ سب باتیں یہ شاید خود بھی نہیں جانتے لیکن بطور صحافی میں جانتا ہوں کہ آپ کو سچ لکھنے اور بولنے کیلئے کسی قانون سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ پیکا ایکٹ بھی صرف آپ کے جھوٹ اور فیک نیوز کا محاسبہ کر رہا ہے ۔ سو اِن حالات میں کسی بھی ایسے قانون کی مخالفت کرنا جو ملک دشمنوں کی سرکوبی کیلئے بنایا گیا ہے دراصل اپنی ریاست سے دشمنی کرنا یا دشمنی کرنے کی اجازت مانگنے کے مترادف ہے ٗ۔جس کی امید آپ کو کم از کم اپنی ریاست سے تو ہرگز نہیں رکھنی چاہیے ۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر بیٹھے صحافی انتہائی معتبر اور محب وطن ہے لیکن سوال تو سوشل میڈیا کا ہے جس پر چلنے والی فیک نیوز کی تردید یا تصدیق خود صحافی معلوم کررہے ہو تے ہیں ۔ اِن حالات میں اِس قانون کا اطلاق کوئی بُری بات نہیں ہے ۔ حیرت تو اِس بات کی ہے کہ 2016 ء میں بننے والے اس قانون کو ماڈرنائز کر کے اگر2025 ء میں درپیش جدید مسائل سے نمٹنے کیلئے لا گو کیا جا رہا ہے تو اس میں قباحت کیا ہے ؟ پیکا ایکٹ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود اُس طر ح لاگو نہیں ہو سکے گا جس طرح اسے لکھا گیا ہے کیونکہ 2016ء کے بعد بھی اِس کا اطلاق ویسے نہیں ہو پایا ۔ اس کی وجہ ایک تو ہمارے ہاں درِ توبہ ہر وقت اور ہر ایک کیلئے کھلا ہے سو کون سا سائبر کریمنل کب تائب ہو کر اپنا معافی نامہ پیش کردے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ قانون بالادست طبقہ ہی ایک دوسرے کے خلاف زیادہ استعمال کرے گا اورعام آدمی اِس کے فائدے اور نقصان سے ان شاء اللہ محفوظ رہے گا کیونکہ میں خود اس ذلت آمیز تجربے سے گزر چکا ہوں ۔ 26 دسمبر 2023 ء کو میری والدہ کا تقریباً ایک ماہ بیمار ر ہنے کے بعد انتقال ہو گیا۔ اُن کی تدفین سے فارغ ہو ا تو قرض کا حساب کرنا شروع کردیا لیکن ابھی اُن کا چہلم ہونا باقی تھا ۔ 6 فروری 2024 ء کو جب میں والدہ کے چہلم میں مصروف تھا مجھے اپنے واٹس ایپ پرایک جعلی عمیراقبال کا پیغام ملا جس کے مطابق میں نے کسی شخص کے اکائونٹ میں دو لاکھ جمع کرانا تھے گھر میں عزیز و اقارب کی آمد رفت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا سو میں نے اپنے ایک دوست کو اکائونٹ نمبر بھیج کر پیسے جمع کرانے کا کہا جس نے ایسا ہی کیا اور میں مہمانوں میں مصروف ہو گیا ۔ شام کو مہمانوں کے جانے کے بعد اچانک مجھے خیال آیا کہ عمیر نے کبھی مجھے لکھ کر پیغام نہیں بھیجا وہ ایسے کام ہمیشہ مجھے کال کرکے کہتا ہے ۔ اگلے دن سارا کھیل میرے سامنے برہنہ اور میں سائبر کرائم کا شکار ہو چکا تھا ۔چند دن مزید تحقیق میں گزر گئے تو معلوم ہوا کہ بنک منیجر سمیت یہ ایک گینگ ہے ۔ جس نمبر سے مجھے کال آئی وہ ایک خاتون کا نمبر تھا جو علامہ اقبال ٹائون کی رہنے والی تھیں اور وہیں اُن کا ووٹ بھی رجسٹرڈ تھا ۔ بنک منیجر نے واردات کے بعد بنک اکائونٹ کا نمبر تبدیل کردیا جس سے اُس کی جرم میں مکمل شمولیت کا پتہ چل گیا ۔ایف آئی اے سائبر کرائمز لاہور کے دفترمیں فروری 2024ء کوملزمان کے خلاف ایک درخواست جمع کروائی جس کا نمبر سعیدہ نامی آفیسر نے مجھے-41224\24 CCW-C تھما کر چلتا کیا ۔ مجھے بتایا گیا کہ ’’آپ سے جلد رابطہ کر لیا جائے گا ۔ ‘‘ اور پھر وہ ’’جلد‘‘ کبھی نہیں آیا ۔میں نے رائج طریقے کے مطابق سفارش ڈھونڈی تو مجھے ایک نئی پرچی E-931\2024 جس پر FIA\CCRC\CRV کے علاوہ دو نام مسٹر طاہر محمود اورمسٹر شفقت احسان لکھے تھے ۔ اگست کے بدترین حبس میں ایک دن میں حوصلہ کرکے نئے عزم کے ساتھ سفارشی ہونے کی وجہ سے پہنچا تو مجھے ائر کنڈیشن کمرے سے باہر بدترین گرمی میں بٹھا دیا گیا ۔ خدا بھلا کرے اُس چھوٹے ملازم کا جس نے مجھے پسینے میں شرابور دیکھ کر پانی کا گلاس لا دیا ۔ میرے سامنے ہتھکڑیاں لگتی اور کھلتی رہیں لیکن مجھے سننے کیلئے کوئی بھی تیار نہ تھا اورجب میری باری آئی تو تمام تر جعلی کوشش کے باوجود میری فائل نہ ملی اورمجھے چلتا کیا گیا ۔

جناب محسن نقوی صاحب ! آپ بڑے آدمی ہیں، دو لاکھ کی رقم میرے نزدیک بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن جتنی تذلیل ایف آئی اے آفس میں جا کر محسوس ہوئی ہے اتنی فراڈیوں نے نہیں کی ۔ مجھے یقین ِ کامل ہے جو ہمارے بچوں کو جانتے بوجھتے گہرے سمندروں میں ڈبو دیتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اُن کے خلاف خودکشی پر اُکسانے کے مقدمے درج ہوں انہیں یا تو ملازمتوں سے فارغ کیا جاتا ہے یا اُن کی ترقیاں روک لی جاتی ہے ۔ صحافی دوستو ! آپ پریشان نہ ہوں پیکا کا قانون ہماری مدد کیلئے ہے اور نہ ہی ہمیں سچ لکھنے سے روکنے کیلئے یہ تو بالادست طبقات کی آپس کی اقتداری تقسیم کا پھڈا ہے ۔ ہم خوامخواہ اپنی حب الوطنی میں روزانہ اِن کیلئے صفحات کالے یا پھر لمبی لمبی تقاریر کرتے ہیں کہ یہ ریاست بچ جائے حالانکہ عام آدمی کو حقیقی انصاف دئیے بغیر یہ ریاست آگے چل ہی نہیں سکتے اور ایسا کرنے کی انہیں عادت نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پاکستان کے پیکا ایکٹ کے خلاف کے بعد

پڑھیں:

پیکا ایکٹ پر پی پی رہنما کا دبنگ موقف سامنے آ گیا

صحافتی آزادیوں کو جکڑنے والے پیکا ایکٹ ترمیمی آرڈیننس پر پی پی رہنما نے صحافیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے دبنگ موقف دیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم پر میڈیا ہاؤسز اور صحافی برادری سے مشاورت نہیں کی گئی۔ پیکا ترامیم کیخلاف صحافی برادری کے تحفظات ہیں، جو ایک حد تک بجا بھی ہیں۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ اس معاملے پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیتی اور مشاورت سے ترمیم لاتی۔ پی پی ایم این اے نے کہا کہ وفاقی حکومت ہم سے کسی طرح کی مشاورت نہیں کرتی۔ جب کمیٹی میں کوئی قانون لایا جاتا ہے، تو کہا جاتا ہے کہ بس پاس کردیں۔ ایسا اگر کوئی قانون بن جاتا ہے تو وہ حرف آخر نہیں ہوتا۔ اس معاملے پر ہم صحافی برادری کے ساتھ ہیں۔ یہ ترامیم حرفِ آخر نہیں، اگر حکومت تصحیح نہیں کرے گی تو پھر پیپلز پارٹی کرے گی۔ شرمیلا فاروقی نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سوشل میڈیا پر فیک نیوز بھی چلتی ہے۔ صدر کو کسی چیز پر قانونی طور پر تحفظات ہیں، تو وہ اعتراض لگا کر واپس بھیج دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز سینیٹ نے متنازع پیکا ترمیمی ایکٹ کثرت رائے سے منظور کر لیا تھا۔ 

متعلقہ مضامین

  • پیکا ایکٹ: پیپلز پارٹی کا دہرا کردار
  • صدر مملکت نے مولانا فضل الرحمان کو پیکا ایکٹ کے حوالے سے کیا کہا تھا؟ مولانا کا سخت ردعمل سامنے آ گیا
  • صحافتی تنظیموں نے پیکا کو کالا قانون قرار دے کر مسترد کردیا
  • صدر مملکت نے مولانا فضل الرحمان کو پیکا ایکٹ کے حوالے سے کیا کہا تھا؟ مولانا کا سخت ردعمل
  • پیکا ایکٹ پر حکومت کو جلدی نہیں، عقیل ملک
  • صدر مملکت نے متنازعہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کردیے
  • صدر مملکت آصف علی زرداری نے متنازعہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کر دیے
  • پیکا ایکٹ پر پی پی رہنما کا دبنگ موقف سامنے آ گیا
  • پیکا ایکٹ پر حکومت کو جلدی نہیں، صحافی ٹارگٹ نہیں، یہ سب کیلئے ہے: عقیل ملک