پاکستان کی معیشت گزشتہ کئی دہائیوں سے مشکلات کا شکار رہی ہے، کئی دفعہ اچھی بھلی ترقی کی راہ پہ گامزن معیشت کو پٹڑی سے اکھاڑ پھینکا گیا اور یوں معیشت کو ریورس گیئر لگ گیا۔ مگر اس سب کے باوجود، پچھلے ایک سال میں معیشت اور معاشی ترقی میں کچھ مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ اقتصادی ترقی کی شرح، غیر ملکی سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی کے شعبہ، دفاعی پیداوار اور صنعتی ترقی میں اضافہ وہ سب عوامل ہیں جو پاکستان کی معیشت کو ایک نیا رخ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگرچہ اب بھی پاکستان کی معیشت کے سامنے کئی چیلنجز موجود ہیں لیکن پھر بھی ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر اس کا مستقبل روشن ہے۔ پاکستان کی موجودہ معیشت کا اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم 2024 کے آخر تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں۔ پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو 2023 میں 2.
4 فیصد تک پہنچی، جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ عالمی بینک کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی 2024 میں تقریباً 375 ارب امریکی ڈالر کے قریب رہی۔ اگرچہ یہ شرح ترقی کچھ زیادہ نہیں ہے، لیکن پھر بھی پاکستان کی معیشت کا بڑھتا حجم اس بات کا غماز ہے کہ یہاں کچھ مثبت تبدیلیاں اور بہتری ضرور آ رہی ہیں۔ پاکستان میں زرعی شعبہ معیشت کا اہم حصہ ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی صنعتی اور سروسز کے شعبے میں بھی ترقی کی نئی امیدیں دکھائی دے رہی ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کی برآمدات کا حجم بڑھ رہا ہے اور درآمدات پہ کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر ٹیکسٹائل، چمڑے اور زرعی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ، آئی ٹی اور سافٹ ویئر کے شعبے میں بھی ترقی دیکھنے کو ملی ہے، جس سے معیشت کو نیا رخ مل رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان کا صنعتی شعبہ گزشتہ ایک دہائی میں کافی ترقی کر چکا ہے۔ خصوصاً ٹیکسٹائل انڈسٹری، جو کہ پاکستان کی معیشت کے لیے ایک اہم ستون ہے، اس میں سرمایہ کاری اور پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان ٹیکسٹائل کی برآمدات کے حوالے سے دنیا کے بڑے ممالک میں شامل ہے۔ 2024 میں پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات کا حجم 16.7 ارب امریکی ڈالر سے زائد تھا، جس میں صرف سال 2024 میں 7 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔ یقیناً یہ ایک اہم کامیابی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان، خاص طور پہ چمڑے سے بنی مصنوعات اور فوڈ پروسیسنگ کے شعبہ میں بھی ترقی کر رہا ہے۔ پاکستان کی حکومت نے صنعتی ترقی کو مزید فروغ دینے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، جیسا کہ صنعتی پارکوں کا قیام، غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے خصوصی مراعات اور بجلی کی پیداوار اور اس کی بلا تعطل سپلائی کے شعبے میں بہتری لانا شامل ہیں۔ ان اقدامات سے صنعتی پیداوار اور برآمدات میں مزید بہتری اور اضافہ متوقع ہے۔ پاکستان کا آئی ٹی سیکٹر بھی تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور اس شعبے میں پاکستان کی پوزیشن عالمی سطح پر مضبوط ہو رہی ہے۔ 2024 میں پاکستان کے آئی ٹی کے شعبے کی برآمدات کا حجم تقریباً 3.2 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ اضافہ سافٹ ویئر اور ٹیکنالوجی کی مشاورتی خدمات میں ہوا ہے۔ پاکستانی سٹارٹ اپس کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور دنیا بھر سے سرمایہ کار اس شعبے میں گری دلچسپی لے رہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پنجاب کی صوبائی اور وفاقی حکومت دونوں اس شعبے کی ترقی و ترویج کے لیے عملی طور پہ کوشاں ہیں۔ وزیر اعظم نے اس شعبے کو 20 ارب ڈالر تک لیجانے کا اعلان کر دیا ہے۔ 2024 میں پاکستان نے تقریباً 2.55 ارب امریکی ڈالر کی غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری حاصل کی، جو اس کی معیشت کے لیے ایک اچھا اشارہ ہے۔ چین کے ساتھ سی پیک چین پاکستان اقتصادی راہداری فیز ون کے تمام منصوبوں کی تکمیل اور سی پیک فیز دوئم کی مد میں مزید سرمایہ کاری سے پاکستان کی معیشت کو مزید استحکام ملنے کی توقع ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ سی پیک منصوبہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات پورا کرنے، انفراسٹرکچر کی ترقی اور تجارت کے لیے ایک اہم محور بن چکا ہے اور اسے پاکستان کی ترقی کی کنجی اور گیم چینجر منصوبہ کہا جائے تو غلط نا ہو گا۔ پاکستان کی موجودہ حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور سرمایہ کاری کرنے والے لوگوں اور کمپنیوں کو تمام ممکنہ سہولیات کی فراہمی کے لیے خصوصی زونز، ٹیکس مراعات اور کاروبار میں آسانیاں پیدا کی ہیں۔ ان اقدامات کی بدولت پاکستان میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے جو معیشت کے لیے انتہائی حوصلہ افزا خبر ہے۔ حالیہ کچھ مہینوں کے دوران، یو اے ای، سعودی عرب، آذر بائیجان، بیلاروس، ترکیہ، امریکہ سمیت کئی ممالک کے تجارتی وفود پاکستان کا دورہ اور کئی شعبوں میں ڈائریکٹ سرمایہ کاری کرنے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ امید ہے 2025 میں بیرونی براہ راست سرمایہ کاری 5 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ جائیگی۔ دوسرے بڑے شعبوں کی طرح پاکستان کا زرعی شعبہ ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی کل ورک فورس کا تقریباً 40 فیصد زرعی شعبے سے منسلک اور ملک کی برآمدات میں بھی زرعی مصنوعات کا اہم حصہ ہے۔ زرعی شعبے میں ترقی کے لیے حکومت نے کئی انقلابی اقدامات لیے ہیں، جیسا کہ زراعت میں نئی و جدید ٹیکنالوجی اور مشینری کا استعمال، زمیندار کو بیجوں کی بہتر اقسام کی فراہمی، کھاد کی بلا رکاوٹ دستیابی اور آبپاشی کے جدید طریقوں کے استعمال کی طرف خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ان اقدامات سے زرعی اجناس کی پیداوار میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، جو ملک کی مجموعی معیشت کے لیے بہت اہم اور خوش آئند ہے۔ پاکستان کی معیشت کی ابھرتی ہوئی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت نے صحیح پالیسیاں اپنائیں اور مسائل پر قابو پا لیا تو پاکستان ایک اہم اقتصادی طاقت بن سکتا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں نے معیشت کی بہتری کو دیکھتے ہوئے اب پشین گوئیاں شروع کر دی ہیں کہ اگر ملک اسی طرح چلتا رہا تو 2035 تک پاکستان ایک ٹریلین ڈالر کی اکانومی بن جائیگا۔ عالمی سطح پر پاکستانی مصنوعات کی مانگ مسلسل بڑھ رہی ہے اور اگر پاکستانی حکومت نے معیشت کے مختلف شعبوں میں مزید اصلاحات کر دیں، تو پاکستان کو مزید برآمدات اور ترقی کے مواقع مل سکتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی معیشت کے لیے اب بھی کئی چیلنجز موجود ہیں، جیسا کہ کئی سال سے موجود توانائی کا بحران، سیاسی عدم استحکام اور غربت کی سطح کا بلند ہونا۔ تاہم، ان چیلنجز کے باوجود، ملک کی معیشت میں جو ترقی اور بہتری دیکھنے کو مل رہی ہے، وہ ایک روشن مستقبل کی نشاندہی کرتی ہے۔ پاکستان کی معیشت ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر دنیا کے نقشے پر اپنا مقام بناتی نظر آ رہی ہے۔ اگر پاکستان نے اپنے اندرونی مسائل کو حل کر لیا اور عالمی سطح پر اپنے اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم بنایا، تو وہ نہ صرف اپنے عوام کے لیے خوشحالی لا سکتا ہے، بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک قابل اعتماد تجارتی شراکت دار بن سکتا ہے۔ وزیر اعظم سے گزارش ہے کہ وہ مختلف ممالک کے ساتھ اپنے روابط کو مزید بہتر بنائیں تا کہ ہر دو ممالک سے تجارتی حجم بڑھایا جا سکے اور پاکستان اپنی برآمدات کو خاطر خواہ بڑھا کر دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک بن سکے۔ آخر میں یہی کہنا ہے کہ اب مستقبل پاکستان کا ہے۔ ان شاء اللہ
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ:
پاکستان کی معیشت
ارب امریکی ڈالر
کی معیشت کے لیے
عالمی سطح پر
سرمایہ کاری
میں پاکستان
کی برآمدات
پاکستان کا
دیکھنے کو
میں اضافہ
حکومت نے
معیشت کو
غیر ملکی
کو مزید
سکتا ہے
کے شعبے
ایک اہم
ترقی کی
میں بھی
رہا ہے
ہے اور
رہی ہے
پڑھیں:
سوشل میڈیا، گلوبل سیفٹی انڈیکس اور پاکستان کی حقیقت
سوشل میڈیا بھی ایک سمندر ہے، جس کی تہوں میں پوری کائنات کی معلومات چھپی ہوئی ہیں۔ اس کی سطح پر تیرتی خبروں، علمی و ادبی پوسٹوں اور مزاحیہ خاکوں کی بے شمار اقسام ہیں۔ جب کوئی ایک بار اس کے پانیوں میں قدم رکھتا ہے تو پھر اس میں اترتے ہی جاتا ہے۔ دلچسپ مواد کی کشش اسے جکڑ لیتی ہے اور وہ معلوماتی لہروں کے بیچ بھنور میں پھنس جاتا ہے۔
گزشتہ روز مری سے پنڈی سفر کے دوران فیس بک پر چلتی ایک خبر پر نظر پڑی۔ عنوان کی دلفریبی نے نظریں روک لیں: ’’گلوبل سیفٹی انڈیکس پر پاکستان بھارت سے اوپر‘‘۔ تفصیل پڑھ کر دل کو عجیب اطمینان ملا کہ وطن عزیز کے بارے میں کوئی مثبت اور حوصلہ افزا خبر ملی۔ ورنہ منفی خبروں اور افواہوں کی زد میں تو یہ مسکین ملک ہر وقت رہتا ہے۔ ملک دشمن عناصر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، جس کے نتیجے میں ملکی تجارت اور سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے۔ خاص طور پر سیاحت جیسی اہم انڈسٹری پر اس کے منفی اثرات نمایاں ہوتے ہیں، اور بیرونی ممالک کے سیاح پاکستان کے سفر سے گریز کرتے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی بیرونی تجارت اور سیاحت اس کے اندرونی حالات پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر امن و امان کی صورت حال بہتر ہو، سفر محفوظ ہو، جرائم کی شرح کم ہو اور معیار زندگی اچھا ہو تو بیرونی سیاح اور سرمایہ کار خود بخود کھنچے چلے آتے ہیں۔ لیکن اگر حالات اس کے برعکس ہوں تو معیشت تنزلی کا شکار ہو جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویب سائٹس موجود ہیں جو سیاحوں، مسافروں اور سرمایہ کاروں کو اپنے منصوبے مرتب کرنے میں مفید معلومات اور راہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک ’’نمبیو‘‘ ہے، جسے 2009 ء میں سربیا سے تعلق رکھنے والے ایک گوگل ملازم نے تخلیق کیا تھا۔ یہ ایک آن لائن ڈیٹا بیس ہے جہاں دنیا بھر کے صارفین مسلسل اپنے ملک اور شہر کے سماجی، سیکورٹی اور اقتصادی حالات کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اس ویب سائٹ پر معیار زندگی، تعلیمی سہولتوں، صحت کے شعبے، ہوٹلنگ، ٹرانسپورٹ، آلودگی اور جرائم کی شرح جیسے عوامل کو ایک خاص اسکیل پر پرکھا جاتا ہے، جس کے بعد متعلقہ ممالک اور شہروں کی رینکنگ ترتیب دی جاتی ہے۔ اس کا ایک اہم فیچر ’’گلوبل سیفٹی انڈیکس‘‘ ہے، جو دنیا کے محفوظ ترین اور غیر محفوظ ترین ممالک کی درجہ بندی کرتا ہے۔
سال 2025 ء کے اعداد و شمار کے مطابق سیاحت، سفر اور قیام کے لیے دنیا کا سب سے زیادہ موزوں اور محفوظ ملک ’’ایڈورا‘‘ ہے، جو کہ فرانس اور اسپین کے درمیان واقع ہے اور اس کی آبادی تقریبا اسی ہزار ہے۔ اسی ویب سائٹ کے مطابق وینزویلا کو دنیا کا سب سے غیر محفوظ ملک قرار دیا گیا ہے، جو اس رینکنگ میں آخری نمبر پر ہے۔
اگر ہم پاکستان کی پوزیشن دیکھیں تو گلوبل سیفٹی انڈیکس 2025 ء کے مطابق پاکستان 3.56 پوائنٹس کے ساتھ 65 ویں نمبر پر ہے، جبکہ بھارت 7.55 پوائنٹس کے ساتھ 66 ویں نمبر پر ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان بہت کم فرق ہے، مگر سیفٹی کے معاملے پر پاکستان کو بدنام کرنے والوں کے لیے یہ ایک منہ توڑ جواب ہے۔ پاکستان کے حالات اتنے خراب نہیں جتنا کہ ہمارے مخالفین بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ البتہ، اندرونی سطح پر سیاسی عدم استحکام اور تفریق کی وجہ سے ایک خاص طبقہ ملکی مفاد کی پرواہ کرنے سے بھی گریزاں ہے۔ بعض افراد اپنے سیاسی اختلافات اور ذاتی مفادات کی خاطر ملک کے خلاف سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں، جو کسی بھی محب وطن شہری کے شایان شان نہیں۔
ہمیں چاہیے کہ سیاسی اختلافات ضرور رکھیں، حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کریں، لیکن جب بات ملکی مفاد اور سلامتی کی ہو تو سب کچھ ایک طرف رکھ کر یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں اپنے ملک کے مثبت پہلوئوں کو اجاگر کرنا ہوگا اور کمزور گوشوں کی نشاندہی کر کے اصلاحی تجاویز دینی ہوں گی۔ وقت کی نزاکت کا یہی تقاضا ہے اور ہمیں اس کا ادراک اور احساس کرنا ہوگا ۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں ۔ آج کسی اور کل کسی اور سیاسی پارٹی کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہو گا ۔ محض ایک عارضی اور مخصوص مدتی مفاد کی خاطر یا سیاسی بغض میں ملکی سالمیت اور بقا کو داو پہ نہیں لگانا چاہیے۔ ملکی ترقی اور خوشحالی کے اشاروں پر فسردہ نہیں بلکہ خوشی اور فخر محسوس کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے ہمیں اپنی نفسیات اور ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا ۔ قومی ترقی کے سفر میں ملنے والی کامیابیوں کو اجتماعی خوشی اور فخر کے جذبے کے ساتھ منانا ہو گا ۔ یہی مہذب ، متحد اور غیرت مند قوموں کا خاصا ہوتا ہے ۔