Nai Baat:
2025-01-31@06:58:11 GMT

امریکہ سے وابستہ توقعات؟

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

امریکہ سے وابستہ توقعات؟

دنیا کے مشہور و معروف جنگلوں میں چھوٹے سے چھوٹے جانور سے لے کر قوی الجثہ ہر قسم کے جانور پائے جاتے ہیں، کچھ زیادہ وقت پانی میں گزارنا پسند کرتے ہیں جیسے دریائی گھوڑا، کہنے کو تو اسے گھوڑا کہا جاتا ہے لیکن جسامت میں وہ ہاتھی سے کم نہیں ہوتا، ہاتھی اپنا زیادہ وقت خشکی پر گزارتا ہے لیکن اسے پانی سے خاص رغبت ہے، وہ حالت غصہ میں ہو یا رومانوی موڈ میں، خشکی اور پانی دونوں میں ایک جیسی پرفارمنس دے سکتا ہے۔ غصے کی حالت میں یا پاگل پن کی حدود میں داخل ہاتھی اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز کو اپنی سونڈ میں لپیٹ کر زمین پر پٹخ دیتا ہے۔ بڑے سے بڑے درخت کو آن واحد میں جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ ہاتھی کی عمر اسی سے سو برس کے درمیان ہوتی ہے، ضعیف یا بیمار ہاتھی دور سے چلتا ہوا آ رہا ہو تو عام آدمی کو اس کی اندرونی حالت کا اندازہ نہیں ہو سکتا لیکن اس کی نگرانی پر مامور مہاوت پہلی نظر میں جانچ لیتا ہے کہ اتنا بڑا جسم اور بے پناہ طاقت رکھنے والے جانور کے اندر کیا ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے۔

بڑے اور طاقتور ملک ہاتھی جیسی طاقتور معیشت رکھتے ہیں لیکن وہ کس وقت کس حال میں ہے اس کا اندازہ اتنی آسانی سے نہیں لگایا جا سکتا۔ ایسی معیشتوں کو ڈوبتے ڈوبتے بھی کافی عرصہ لگ جاتا ہے۔ اس اثناء میں کئی ایسے موقعے بھی مل جاتے ہیں جن سے ڈوبتی ہوئی معیشت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ڈوبتے ہوئے شخص کو پانی دو سے تین مرتبہ اچھال کر پھینکتا ہے، حواس برقرار رکھنے والا ہاتھ پائوں مارنا نہ چھوڑ دے تو ڈوبنے سے بچ سکتا ہے۔ حواس باختہ ہو جائے تو ڈوب جاتا ہے۔
امریکی معیشت ایسے ہی حالات سے دوچار ہے۔ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک سمجھدار مہاوت کی طرح اقتدار میں آنے سے قبل ہی اس کا احساس ہو چکا تھا۔ وہ صرف ایک سیاست دان ہی نہیں دنیا میں ایک کامیاب بزنس مین کی پہچان بھی رکھتے ہیں اور ایک بڑی بزنس امپائر کو کامیابی سے چلاتے رہے ہیں، اس سے بہتر اس وقت کوئی نہیں جانتا کہ امریکہ کو آج ایک ایک ڈالر کی کس قدر ضرورت ہے، غیر ضروری جنگوں کو روکنے کا نعرہ اسی لئے لگایا گیا اور اب جبکہ وہ امریکہ کو ایک مرتبہ پھر عظیم ریاست بنانے کا نعرہ لگا چکے ہیں، ان کی کامیابی کا دارومدار معیشت کے میدان میں کامیابیوں یا ناکامیوں سے جڑا ہے۔ نئی حکومت کے پہلے سو دن اہم سمجھے جاتے ہیں۔ اس عرصہ میں حکومتی سفر کے راستوں اور منزل کا تعین ہو جاتا ہے، ٹرمپ نے پہلے دس روز میں پچاس روز کا سفر طے کر لیا ہے، انہوں نے ہنگامی طور پر کچھ فیصلے کئے ہیں جو امریکی نقطہ نظر سے مثبت ہیں۔ یہ اور بات کہ آدھی دنیا کو وہ فیصلے پسند نہ ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کے نوے ممالک میں یو ایس ایڈ کے پروگرام تین ماہ کے لئے بند کر دیئے ہیں جبکہ صرف دو ملکوں، اسرائیل اور مصر کو استثنا حاصل ہے۔ اس حوالے سے پاکستان میں چلنے والے 33 پراجیکٹ اس کی زد میں آئے ہیں۔ ان میں تعلیم کے شعبہ کے 4، صحت سے منسلک 4، زراعت سے وابستہ 5، گورننس سے متعلق 11، معیشت سے جڑے 4 اور انرجی سیکٹر کے 5پراجیکٹ ہیں۔ تین ماہ ان پراجیکٹس کا جائزہ لینے کے بعد امریکی حکومت اپنی ترجیحات کے مطابق فیصلہ کرے گی کہ کون کون سے پراجیکٹ جاری رکھے جا سکتے ہیں اور کون کون سے پراجیکٹ بند کئے جائیں گے۔ یہ معاملہ صرف پاکستان کے حوالے سے نہیں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ان پراجیکٹس کو اس انداز میں دیکھا جائے گا۔ ایک اضافی نکتہ یہ ہوگا کہ نئی صف بندیوں میں امریکہ کی نئی ضروریات کیا ہیں اور کون سا ملک امریکہ کے ساتھ کہاں تک چل سکتا ہے۔

عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے آسٹریلیا اور بھارت سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات سے ملاقات کی۔ اب بھارت کے وزیراعظم مودی وہ پہلے وزیراعظم ہو سکتے ہیں جو امریکہ کا دورہ کریں۔ ان کے دورہ امریکہ کی تفصیلات طے ہونے سے قبل ہی ٹرمپ نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ بھارت سے کیا چاہتا ہے۔ بھارت کو بتا دیا گیا ہے کہ کم از کم 32ارب ڈالر کی امریکہ سے خریداری کرے تاکہ امریکہ اور بھارت کی تجارت میں توازن قائم ہو سکے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی راستہ دکھا دیا گیا ہے کہ بھارت اسلحہ کی خریداری کرے کیونکہ اگر غیر ضروری جنگیں ختم کرنا ہے تو پھر امریکی اسلحے کو گوداموں میں پڑے رہنے سے بھی بچانا ایک ضرورت ہے۔ گزشتہ دس روز میں جاری ہونے والے ویزوں میں ستر فیصد بھارت کو دس فیصد چین کو جبکہ باقی دنیا کو بیس فیصد میں حصہ دیا گیا ہے۔ امریکی پالیسی کا ایک رخ یہ بھی ہے۔
ایک طرف نوزائیدہ ٹرمپ حکومت اپنی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی، ٹرمپ چین اور بعض دیگر ممالک کے ٹیرف میں اضافے کی بات کر رہے تھے کہ اسی اثنا میں چین نے اے آئی کا مہلک وار کر دیا۔ چین کی اس ضرب سے درجن بھر سے زائد اے آئی کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنیوں کو سیکڑوں ارب ڈالر کا نقصان ہو گیا، انہیں اس نقصان سے سنبھلنے میں کچھ وقت لگے گا کچھ عجب نہیں اسی دوران کسی اور شعبے میں ضرب لگا دی جائے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اس سے قبل اعلان کر چکے تھے کہ وہ چاہیں گے کہ اپنے پہلے سو دنوں میں چین کا دورہ کریں۔ اب دیکھنا ہے وہ یہ دورہ اپنی پہلی منصوبہ بندی کے مطابق کرتے ہیں یا نئی صورتحال کے مطابق نئی حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں۔ آئی ٹی کے شعبہ میں ایک درخشندہ ستارہ قرار پانے والے ایلون مسک کے خلاف ایک نیا محاذ سامنے آ چکا ہے جنہیں ان کی ٹرمپ کے ساتھ قربت ایک آنکھ نہ بھاتی تھی وہ اپنی کامیاب چال چل گئے ہیں۔ انہوں نے وائٹ ہائوس میں اپنا دفتر بنانے کا خواب دیکھنے والے ای لون مسک کو وائٹ ہائوس بدر کرا دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی چیف آف سٹاف سوزی نے ہدایات جاری کر دی ہیں کہ ایلون مسک سڑک کے پار آئیزن پاور بلڈنگ میں اپنے درجن بھر سٹاف کے ساتھ بیٹھیں گے اور وہ براہ راست صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو رپورٹ بھی نہیں کریں گے۔ یاد رہے یہ وہی ایلون مسک ہیں جنہوں نے کئی سو ارب ڈالر ٹرمپ کی انتخابی مہم پر خرچ کئے، انہیں ٹرمپ کے انتہائی قریبی اور قابل اعتماد شخصیتوں میں شمار کیا جا رہا تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد وہ پہلے شخص ہیں جن کے قدموں تلے سے زمین کھینچ لی گئی ہے۔ اس سے اندازہ کیجئے جس شخص نے اس کا عشر عشیر بھی ٹرمپ کی خدمت نہیں کی وہ اس کا کیسا قریبی یا کتنا معتمد ہو سکتا ہے۔ ایسی شخصیت یا گروپ سے کس قدر توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں جو امریکہ کا ملک ریاض بھی نہیں۔ ادھر میاں منشا بھی نہیں وہ پاکستان کو کیا دے سکتا ہے؟ امریکہ سے وابستہ توقعات کچھ غیر منطقی ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ جاتا ہے سکتا ہے کے ساتھ

پڑھیں:

امریکی نو سامراجیت

اسلام ٹائمز: 1897ء میں امریکہ کے صدر ویلیم میک کیلنی نے سیاسی، اقتصادی اور سماجی شعبوں میں مخصوص تبدیلیاں ایجاد کر کے رائے عامہ کو اپنی مطلوبہ سامراجی پالیسیاں قبول کرنے کے لیے تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے اصلی اہداف بحرالکاہل اور بحیرہ کریبین کے جزیروں کو امریکہ سے ملحق کرنے پر مبنی تھے جن کے حصول کے لیے 1898ء میں ہسپانوی سلطنت سے خونریز جنگ لڑی گئی۔ اس سے پہلے ہمیشہ دوسروں کی مداخلت آمیز خارجہ پالیسیوں سے خائف رہنے والے امریکیوں نے پہلی بار یورپی سامراجی طاقتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک سے باہر فتح کا مزہ چکھا۔ صدر ویلیم میک کیلنی نے ان کامیابیوں کو امریکہ کا "سنہری دور" قرار دیا۔ اب 20 جنوری 2025ء کے دن جب دنیا والوں نے تقریب حلف برداری میں نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر سنی تو انہیں اس میں میک کیلنی کی جھلک دکھائی دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امریکی عوام کو "نئے دور" کا عندیہ دیا ہے۔ تحریر: سید رضا حسینی
 
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2024ء کے صدارتی الیکشن میں فتح حاصل کر کے ایک بار پھر امریکہ کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے جبکہ اس بار اس نے 2016ء میں گذشتہ مدت صدارت کے مقابلے میں زیادہ جارحانہ خارجہ پالیسی وضع کر رکھی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مدنظر امریکہ، ایسا ملک ہے جو دوسری عالمی جنگ (1939ء تا 1945ء) کے اختتام کے بعد برسراقتدار آنے والے امریکی صدور مملکت کے برعکس، جو عالمی نظام میں لبرل طرز فکر کی ترویج کے لیے ایک طرح کی بین الاقومی پولیس کا کردار ادا کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے، سازباز کرنے والی سپر پاور (مرچنٹلسٹ) کی حیثیت رکھتا ہے اور کسی قسم کے آئیڈیلز اور اعلی اہداف سے عاری ہے۔ دوسرے الفاظ میں، نیا امریکی صدر، امریکی معاشرے کے ایک ایسے حصے کا نمائندہ ہے جو خارجہ امور میں توسیع پسندی کے خواہاں ہیں۔
 
گذشتہ اوہام کی قید میں
ٹرمپ کی سربراہی میں وائٹ ہاوس کی نئی ڈاکٹرائن درحقیقت شان و شوکت کے افسانوں اور جدید ناراضگیوں کی ملی جلی حالت ہے۔ 1945ء کے بعد بائی پولر ورلڈ آرڈر حکمفرما ہونے کے بعد کسی بھی امریکی صدر نے دیگر سرزمینوں کا امریکہ سے الحاق کی بات نہیں کی۔ آخری امریکی صدر جس نے واضح طور پر امریکی سرزمین میں توسیع کی بات کی تھی ریپبلکن پارٹی کا صدر ویلیم میک کیلنی (1897ء تا 1901ء) تھا۔ میک کیلنی بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح عالمی نظام میں امریکی طاقت اور اثرورسوخ بڑھانے کا خواہاں تھا اور اس مقصد کے لیے اس نے ہوائی جزیروں، گوام اور فلپائن کو امریکہ سے ملحق کرنے کے مقدمات بھی فراہم کیے تھے۔ اس نے کیریبین خطے میں واشنگٹن کا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے اسپین سے جنگ بھی کی اور آخرکار خلیج میکسیکو کو امریکی اثرورسوخ والے علاقے میں تبدیل کر دیا۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ سے پہلے امریکہ کا 25 واں صدر، درآمدات پر 50 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا زبردست حامی تھا اور اس نے اندرونی صنعت کی حمایت کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔ 1896ء میں ریپبلکن پارٹی کی جانب سے امریکہ کا صدارتی امیدوار بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح اپنے زمانے کے امریکی ارب پتیوں (مورگن اور راک فیلر) کی حمایت سے برخوردار تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں بھی سیلیکان ویلی کے ارب پتی موجود تھے۔ امریکہ کا 47 واں صدر، اپنے اسلاف کی مانند لاطینی خطے میں واشنگٹن کے اثرورسوخ کے احیاء کا خواہاں ہے۔ وہ خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کر کے خلیج امریکہ رکھنا چاہتا ہے اور پاناما کینال (جو میک کیلنی کے جانشینوں نے تعمیر کی تھی) بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی کا شکار ہو چکا ہے۔ ٹرمپ کی نئی پالیسی کا اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ 19 ویں صدی کے سامراجی ہتھکنڈوں کو دوبارہ بروئے کار لانا چاہتا ہے۔
 
ٹرمپ کا وحشی امریکہ
امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے ویران کھنڈروں میں عالمی ڈھانچے کی تنظیم نو کا نعرہ لگا کر بین الاقوامی سیاسی، فوجی اور اقتصادی نظام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ اس مقصد کے لیے امریکہ نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے بنا کر اقتصاد میں اداروں کی اجارہ داری کی حکمت عملی اختیار کی۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ جیسے سیاسی ادارے تشکیل دے کر دنیا بھر میں اپنا من مانا ورلڈ آرڈر مسلط کرنے کا زمینہ فراہم کیا۔ وہ ٹیم جس کی نمائندگی آج ڈونلڈ ٹرمپ کر رہا ہے، 1990ء کے عشرے میں ان بین الاقوامی اداروں کی کارکردگی سے سخت ناراض تھی۔ اس ٹیم نے امریکی کمپنیوں کو جنوب مشرقی ایشیا منتقل کیا اور دنیا کے مختلف حصوں میں امریکہ کے حریف ممالک کی اقتصادی ترقی کے پیش نظر لبرل طرز فکر کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ جیسی شخصیت کو سامنے لانے کے مقدمات فراہم کیے۔ ٹرمپ کا امریکہ مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے روایتی ہتھکنڈوں (19 ویں صدی میں میک کیلنی جیسے ہتھکنڈوں) کی طرف واپس لوٹ رہا ہے۔
 
نو لبرل ازم کو درپیش مسائل
21 ویں صدی کے آغاز میں جیوپولیٹیکل شعبے کے ماہر رابرٹ کپلان نے اپنے کتاب "انارکی" میں اپنے ہم عصر بعض مغربی تجزیہ کاروں کی خوش بینانہ نگاہ کے برعکس اس بات کا اظہار کیا کہ اقتصادی ناانصافیاں، موسمیاتی تبدیلیاں اور حکومتوں کی کمزوری کا نتیجہ علاقائی سطح پر جنگوں اور سماجی انتشار کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ امریکہ میں ساحلی اور مرکزی شہروں پر مبنی تقسیم (ساحلی شہروں میں دولت کی فراوانی اور مرکزی شہروں میں غربت)، 90 کے عشرے سے مزدور طبقے کا بے روزگار ہونا (امریکی کارخانے چین منتقل ہو جانے کے باعث) اور ایسی عالمی لبرل ثقافت تشکیل پا جانا جس کے بارے میں امریکہ کا نچلا طبقہ زیادہ آگاہی نہیں رکھتا، نے ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں موجود ورلڈ آرڈر کے خلاف بغاوت کا زمینہ فراہم کیا ہے۔ ٹرمپ نے گذشتہ چار عشروں کے دوران گلوبلائزیشن کے مخالفین کی جانب سے تشکیل پانے والے ہتھکنڈوں کی مدد سے امریکی معاشرے کے ایک حصے کو منظم کر لیا ہے۔
 
امریکی خارجہ سیاست کی انیسویں صدی کی جانب واپسی
1897ء میں امریکہ کے صدر ویلیم میک کیلنی نے سیاسی، اقتصادی اور سماجی شعبوں میں مخصوص تبدیلیاں ایجاد کر کے رائے عامہ کو اپنی مطلوبہ سامراجی پالیسیاں قبول کرنے کے لیے تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے اصلی اہداف بحرالکاہل اور بحیرہ کریبین کے جزیروں کو امریکہ سے ملحق کرنے پر مبنی تھے جن کے حصول کے لیے 1898ء میں ہسپانوی سلطنت سے خونریز جنگ لڑی گئی۔ اس سے پہلے ہمیشہ دوسروں کی مداخلت آمیز خارجہ پالیسیوں سے خائف رہنے والے امریکیوں نے پہلی بار یورپی سامراجی طاقتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک سے باہر فتح کا مزہ چکھا۔ صدر ویلیم میک کیلنی نے ان کامیابیوں کو امریکہ کا "سنہری دور" قرار دیا۔ اب 20 جنوری 2025ء کے دن جب دنیا والوں نے تقریب حلف برداری میں نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر سنی تو انہیں اس میں میک کیلنی کی جھلک دکھائی دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امریکی عوام کو "نئے دور" کا عندیہ دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • The Art of the Deal اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکہ کا اب تارکین وطن کو گوانتانامو بے میں رکھنے کا فیصلہ
  • غزہ سے عین جالوت سے لد تک
  • امریکہ میں ٹک ٹاک کون خرید سکتا ہے؟
  • ٹرمپ جذباتی ہے پاگل نہیں
  • سی این این سے 18 سال سے وابستہ صحافی جِم اکوسٹا مستعفی
  • ممکنہ معاشی وحربی تبدیلیاں
  • امریکی نو سامراجیت
  • ٹرمپ اور مودی کی فون پر گفتگو، دو طرفہ تجارت بھی اہم موضوع