سوشل میڈیا پرمذہبی توہین آمیز مواد پھیلانے پر 2ملزمان کو سزائے موت
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
اسلام آباد(صباح نیوز) ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد محمد افضل مجوکہ نے سوشل میڈیا پر مذہبی تو ہین آمیز مواد پھیلانے پر 2ملزمان کو ایف آئی آر میں درج مختلف دفعات کے تحت سزائے موت عمر قید دیگر دفعات میں مجموعی طور پر دس سال قید و سات لاکھ روپے جرمانے کی سزاکا حکم دیا ہے، عدم ادائیگی جرمانہ مجرموں کومزیدقید کاٹنا ہوگی ،ملزمان کے خلاف سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد پھیلانے پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اسلام آباد میں مقدمہ درج تھا،ملزمان ایاز بن طارق اور آفاق احمد کو دفعہ 295 سی میں سزائے موت اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی دفعہ 295 بی میں عمر قید،دفعہ 298 اے میں تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ،ملزم کو پیکا ایکٹ 2016 کی سیکشن 11 میں 7 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ملزمان کے خلاف 2021 میں ایف آئی اے سائبر کرائم سیل اسلام آباد نے مقدمہ درج کیا تھا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسلام آباد لاکھ روپے
پڑھیں:
پیکا ایکٹ متنازع کیوں ؟ملک بھر کے صحافی سراپا احتجاج
ویب ڈیسک : پیکا ایکٹ ترمیمی بل،قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظوری کے بعد صدر مملکت نے بھی دستخط کردیے ،
آخر اس قانون میں ایسا کیا ہے جو اس کے خلاف احتجاج کا سبب بن رہا ہے؟صحافتی تنظیمیں اس بل کو ’صحافیوں کی آواز دبانے والا کالا قانون‘ قرار دیتے ہوئے ملک بھر کے مختلف شہروں میں سراپا احتجاج ہیں۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’یہ بِل پروفیشنل صحافیوں کے خلاف نہیں بلکہ فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف ہے۔‘ان کا اصرار تھا کہ ڈیجیٹل میڈیا پر کوئی کچھ بھی کہہ دیتا ہے اور اس پر صحافت کے نام پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔ عطا تارڑ کے مطابق’پیکا ترمیمی بل ڈیجیٹل میڈیا کے لیے ہے، ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹ اور پروپیگنڈے کی کوئی جواب دہی نہیں ہے۔‘
ایک برس پرانے قتل کا مفرور قاتل پکڑا گیا
مگر صحافتی تنظیمیں اور اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتیں اس کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں ۔کیا یہ بل آزادی اظہار رائے کے خلاف ہے اور صحافیوں ہی نہیں عام شہریوں کی بھی آواز دبائی جاسکتی ہے
ترمیمی بل کے تحت جھوٹی اور جعلی معلومات پھیلانے کی سزا تین سال تک قید یا 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گی، یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔
بل کے مسودے کے مطابق نئی شق ون-اے کے تحت ’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ قائم کی جائے گی، جس کا کام ’غیر قانونی مواد‘ کی روک تھام ہو گا۔
کھیلتا پنجاب گیمز کے تمام کھلاڑیوں کی لاٹری لگ گئی، سب کو ای بائیک ملیں گی
’غیر قانونی‘ مواد کی تعریف کیا ہے؟
بل کے مسودے کے مطابق ایسا مواد جو پاکستان کے نظریے کے خلاف ہو، جو افراد کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اشتعال دلائے یا اس تناظر میں عوام، افراد، گروہوں، کمیونٹیز، سرکاری افسران اور اداروں کو خوف میں مبتلا کرے، غیر قانونی مواد ہے۔ایسا مواد جو عوام یا ایک سیکشن کو سرکاری یا نجی جائیداد کو نقصان پہنچانے کے لیے اشتعال دلائے، قانونی تجارت یا شہری زندگی میں خلل ڈالے، ایسا مواد بھی غیر قانونی ہو گا۔تشدد کو ہوا دینے یا اندرونی خلل پیدا کرنے کے لیے مذہبی، فرقہ وارانہ یا نسلی بنیادوں پر نفرت اور توہین کو ہوا دینے والا مواد بھی غیرقانونی ہو گا۔پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین، عدلیہ، مسلح افواج سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے، ریاستی اداروں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والا مواد بھی غیرقانونی ہو گا۔یہ قانون نافذالعمل ہونے کے بعد سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف کیے جانے والے الفاظ نشر نہیں کیے جا سکیں گے جبکہ کالعدم تنظیموں کے سربراہان اور نمائندوں کے بیانات کسی بھی طرز پر نشر کرنا بھی غیر قانونی مواد کے زمرے میں آئے گا۔
ایف آئی اے نے 2 انسانی سمگلر گرفتار کرلیے
منظور کردہ ترمیمی بل کے متن کے مطابق سزا دیے جانے کے حوالےسے بتایا گیا ہے کہ
’جھوٹی اور جعلی معلومات پھیلانے پر سزا اسے ہو گی جو جان بوجھ کر کسی بھی انفارمیشن سسٹم کے ذریعے کوئی بھی معلومات کو پھیلاتا، عوامی طور پر ظاہر کرتا ہے، یا منتقل کرتا ہے، جسے وہ جانتا ہے یا جس کے متعلق اسے یقین کرنے کی کوئی وجہ ہو کہ وہ جھوٹی یا جعلی ہے اور اس سے خوف پیدا کرنے یا پیدا ہونے کا امکان ہو، عام لوگوں یا معاشرے میں خوف و ہراس یا بدامنی پھیلتی ہو۔‘
لاہور؛ 245ٹریفک حادثات میں 296 افراد زخمی
ریگولیٹری اتھارٹی
سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی، سماجی رابطے کے پلیٹ فارمز کی بقول اس قانون کے سہولت کاری کرے گی اور صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کی مجاز ہو گی اور رجسٹریشن کے معیارات کا تعین کرنے اور رجسٹریشن منسوخ کرنے کی بھی مجاز ہو گی۔یہ اتھارٹی پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کر سکے گی۔ اس کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیرقانونی مواد ہٹانے کی ہدایت بھی جاری کر سکے گی۔
ٹک ٹاک کا شوق ایک اور جان لے گیا
یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں پر فرد کی شکایت پر 24 گھنٹے کے اندر کارروائی کرے گی اور اس کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہو گا۔
یہ ادارہ متعلقہ اداروں کو مواد بلاک کرنے کے حوالے سے ہدایات دے سکے گا، جس کی مدت 30 روز ہو گی، جس میں مزید 30 روز کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب یہ اتھارٹی دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کے ساتھ بھی اشتراک کرتے ہوئے کام کر سکے گی اور معلومات شیئر کر سکے گی۔
اس اتھارٹی میں چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا اور سیکرٹری داخلہ بطور ایکس آفیشو رکن شامل ہوں گے۔ بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سال کا تجربہ رکھنے والے فرد کو اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جا سکے گا۔
ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق اتھارٹی کے چیئرمین اور پانچ اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی جبکہ اس اتھارٹی میں صحافیوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ان پانچ اراکین میں سے ایک صحافی ہو گا، جس کا 10 سالہ تجربہ ہو گا۔ اس کے علاوہ اتھارٹی میں سافٹ ویئر انجینیئر، وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل اور نجی شعبے سے آئی ٹی ماہر بھی شامل ہوں گے۔نو اراکین پر مشتمل اس اتھارٹی میں چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا اور سیکرٹری داخلہ بطور ایکس آفیشو رکن شامل ہوں گے۔ بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سال کا تجربہ رکھنے والے فرد کو اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جا سکے گا۔
پیکا کے خلاف احتجاج کیوں؟
28 جنوری، 2025 کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے زیر انتظام پیکا قانون سازی کے خلاف ملک کے اہم شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
صحافی ناصر زیدی نے بتایا کہ منظور کردہ بل میں قانون کے سکوپ کو وسیع کر دیا گیا ہے جس میں شخصی آزادی اور سزا کے طریقہ کار کو بھی بڑھایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت جب بھی کوئی قانون لے کر آتی ہے تو یہی کہتی ہے کہ یہ تمام شہریوں کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف ان کے لیے ہے جو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (آر آئی یو جے) کے سیکرٹری جنرل آصف بشیر چوہدری نے کہا ہم ’سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے غیرجانبدارانہ چیک یا ریگولیشن کے حامی ہیں اور شاید اسی لیے حکومت نے ہم سے مشاورت بھی نہیں کی تاکہ من پسند قانون لایا جا سکے۔‘ ’ہمارا اس پر ایک اور اعتراض ہے کہ فیک نیوز اور غیرقانونی مواد اتنے مبہم الفاظ ہیں کہ ان میں کسی بھی فرد کو لایا جا سکتا ہے، اس کی تعریف ہی نہیں ہو سکتی۔ یہ بالکل صادق اور امین کی تعریف جیسا ہے۔‘