’ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں‘ ماسٹر عبداللہ کی دُھنیں بھُلائے نہیں بھُولتیں
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
ہم عصرموسیقاروں کے مقابلے ماسٹرعبداللہ کو ان کے جداگانہ انداز نے امتیازی شہرت دی۔ سب جانتے ہیں کہ کسی بھی فلم میں موسیقی کو اہم مقام حاصل ہوتا ہے اور برسوں سے چلتی یہ روایت آج بھی جاری ہے۔ پاکستان فلم انڈسٹری میں جداگانہ انداز، مستند اور قابلِ احترام شخصیت کے مالک ماسٹر عبداللہ کو فنِ موسیقی میں بے مثال شہرت ملی۔
فنِ موسیقی میں ماسٹرعبداللہ کا کردارماسٹر عبد اللہ 1930 کو لاہور میں پیدا ہوئے، ماسٹرعبداللہ نے خالص راگ راگنیوں کے رچاؤ سے بھری دھن میں انور کمال پاشا کی فلم سورج مکھی سے فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ او میرے گورے گورے راجہ گانے کی دھن نے انہیں فلمی دنیا میں شہرت اور مقام دیا۔
دھنوں کی جادوگریماسٹر عبداللہ کی شریف نیئر کی مشہور پنجابی فلم لاڈو میں کی گئی موسیقی کو نئی جہد دی۔ اقبال کشمیری کی اکثر فلموں کی موسیقی بھی ماسٹر عبداللہ نے ترتیب دی۔ ان فلموں میں خاص طور پر بابل، ٹیکسی ڈرائیور اور ضدی شامل ہیں۔
ماسٹر عبداللہ کی دیگر قابل ذکر فلموں میں دنیا پیسے دی، امام دین گوہاویہ، رنگی، وارث، ہرفن مولا، دل ناں دا، کش مکش، بدلہ اور نظام شامل ہیں۔
گانا تیرے نال نال وے میں رہنڑا اور پنجابی فلم ملنگی کا گانا ماہی وے سانوں بھل نہ جانویں تو آج تک شائقین کے دلوں میں گھر کیے ہوئے ہے۔ ملنگی کے ایک گانے میں رنگیلا، منور ظریف، زلفی اور ماسٹر عبداللہ نے بھی حصہ لیا تھا۔
1968 میں ہی انہوں نے فلم کمانڈرکی موسیقی ترتیب دی، جس میں رونا لیلیٰ کا گایا ہوا یہ گیت بہت مقبول ہوا جان من اتنا بتا دو محبت ہے کیا، 1968 میں انہوں نے فلم زندگی کی موسیقی دی، اردو فلم واہ بھئی واہ کے گانے، جانے والی چیز کا غم کیا کریں نے تو مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے۔
ماسٹر عبداللہ کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں فلم دلیر خان، لاڈو، میدان، کمانڈو، وارث، شہنشاہ، بدمعاش، بدل گیا انسان، اک سی چور، رنگی، کشمکش، رستم، ہیرا پتّھر، دل ماں دا، قسمت ٹیکسی ڈرائیور، بابل، نظام، شریف ہرفن مولا اور ضدّی کے نام سرِفہرست ہیں۔
فنی عظمتفن موسقی ہم عصر لوگوں میں ماسٹر عبداللہ کی موسیقی سب سے جدا تھی۔ ان کی یہی انفرادیت ان کی سب سے بڑی خوبی بن گئی۔ اصول پسند، سچے اور کام میں کھڑے ماسٹر عبداللہ نے30 سالہ فلمی کریئرمیں 51 فلموں میں میوزک کمپوز کیا تھا، جن میں 10 اردو اور 41 پنجابی فلمیں تھیں۔
موسیقی کا ایک منفرد انداز اور کامیابیاںفلم انڈسٹری کو کئی بے مثال دھنیں دینے والے موسیقار ماسٹر عبداللہ نے اپنے کمالِ فن سے اس وقت کے مشہور گلوکاروں کو بھی متاثر کیا، انہیں یہ اعزاز ہوا کے ان کی دھنوں پر شہنشاہِ غزل مہدی حسن، میڈم نور جہاں، مالا، تصور خانم اور دیگر بڑے گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔
آخری لمحات کا سفرفلمی صنعت نےان کی خدمات پرنگار ایوارڈ سمیت متعدد اعزازات سے بھی نوازا، لیکن باکمال موسیقار کے آخری ایام میں کوئی ساتھ دینے والا نہ رہا، غربت اور دمے کے مرض نے انہیں لاچار کردیا۔
31 جنوری 1994 کو انڈسٹری کے افق پر چمکتے ستارے نے وفات پائی اورانہیں لاہور کے سبزہ زار کے قبرستان میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا۔ لیکن ان کی دھنیں آج بھی اسی طرح سنی جاتی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: فلمیں ماسٹر عبد اللہ
پڑھیں:
آزاد منڈی اور ٹیرف
میں نے اس سے پہلے بھی آزاد منڈی پہ لکھا ہے، آج دوبارہ اس موضوع پہ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ 2 اپریل کو صدر ٹرمپ نے ٹیرف کے بارے میں تقریر کی ہے۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ عالمی سیاست کے منظرنامے پہ اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
دنیا کئی بار دیکھ چکی ہے کہ جب سرمایہ داری کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا ہو، منڈی کی دیوی اپنی چمکدار روشنیوں سے دنیا کو خیرہ کر رہی ہو اور منافع کی بھٹی میں سونا پگھل رہا ہو تب ہمیں آزاد منڈی کے ترانے سنائے جاتے ہیں۔ ریاست کی مداخلت کو معیشت کے لیے زہر قرار دیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مقابلے کی فضا میں ہی ترقی پنپتی ہے اور مارکیٹ سب سے بہتر فیصلے کرتی ہے اور حکومت کا کام بس نگرانی کرنا ہے اسے کاروبار میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے، لیکن تاریخ کی اپنی بے رحم منطق ہوتی ہے۔ کچھ سال بھی نہیں گزرتے کہ وہی آزاد منڈی کے علمبردار اچانک ٹیرف کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔ جو ہاتھ کبھی ریاست کی مداخلت سے کانپتے تھے وہی پھر تحفظ (protectionism) کے لیے اٹھنے لگتے ہیں۔ وہی لوگ جو عالمی تجارتی تنظیموں میں بیٹھ کر ترقی پذیر ممالک کو ڈانٹ رہے تھے کہ ٹیرف اور سبسڈی معیشت کی تباہی ہے، اب انھی اصولوں کو قومی مفاد کا نام دے کر اپنا رہے ہیں۔
دو اپریل کو صدر ٹرمپ نے روز گارڈن سے کھڑے ہوکر ایک نیا معاشی جہاد چھیڑ دیا۔ انھوں نے اس دن کو لبریشن ڈے قرار دیا مگر یہ آزادی کسی غلام قوم کے لیے نہیں تھی بلکہ عالمی تجارت کی زنجیروں کو مزید سخت کرنے کے لیے تھی۔
چین پر اضافی 34 فیصد ٹیکس یورپ پر 20 فیصد اور باقی دنیا پر 10 فیصد۔ آزاد منڈی کے ان مجاہدوں کو یکایک ریاستی تحفظ کی ضرورت کیوں پیش آگئی۔یہ تضاد صرف امریکا تک محدود نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خاصیت ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب کسی طاقتور ملک نے اپنی صنعتوں کو بچانے کے لیے ٹیرف کا سہارا لیا ہو۔ 1930 کی دہائی میں جب امریکا شدید کساد بازاری (Great Depression) کا شکار تھا اس نے اسموٹ ہالی ٹیرف ایکٹ نافذ کیا جس کے تحت غیر ملکی مصنوعات پر بھاری ٹیکس لگا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دوسرے ممالک نے جوابی اقدامات کیے اور عالمی تجارت مزید سکڑ گئی جس نے بحران کو اور گہرا کردیا۔
یہی کچھ 1980 کی دہائی میں جاپانی گاڑیوں کے ساتھ ہوا جب امریکی حکومت نے جاپان کی کار انڈسٹری پر قدغن لگانے کے لیے مختلف تجارتی پابندیاں عائد کیں۔ وہی امریکا جو آج چائنا پر ٹیرف لگا رہا ہے کل جاپان کے خلاف ایسا کر رہا تھا اور اس سے پہلے یورپ کے خلاف۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ منڈی کا کھیل تب تک جاری رہتا ہے جب تک طاقتور کو فائدہ ہو۔ جب طاقتور کو نقصان ہونے لگے تو اصول بدل دیے جاتے ہیں۔
آزاد منڈی دراصل صرف ایک نعرہ ہے، ایک ایسا خواب جسے ترقی پذیر ممالک کے لیے پالیسی کے طور پر نافذ کیا جاتا ہے مگر خود ترقی یافتہ ممالک اس پر مکمل عمل نہیں کرتے۔
عالمی مالیاتی ادارے (IMF اور World Bank) تیسری دنیا کے ممالک کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی معیشت کو اصلاحات کے نام پر کھول دیں، ریاستی اداروں کی نجکاری کریں، زرعی سبسڈی ختم کریں اور مقامی صنعتوں کو بیرونی سرمایہ کے لیے آسان ہدف بنا دیں۔
مگر جب یہی اصول امریکا، یورپ یا جاپان پر لاگو ہوتے ہیں تو وہ اچانک قومی سلامتی یا معاشی تحفظ کی بات کرنے لگتے ہیں۔ جب پاکستانی یا بنگلہ دیشی حکومتیں اپنے ٹیکسٹائل مزدوروں کو سبسڈی دیتی ہیں تو انھیں مارکیٹ کی خلاف ورزی کہا جاتا ہے لیکن جب امریکا اپنے زرعی کسانوں کو اربوں ڈالر کی سبسڈی دیتا ہے تو وہ معاشی استحکام کہلاتا ہے۔
جب افریقہ یا لاطینی امریکا کی حکومتیں اپنی منڈیوں پر کنٹرول رکھنے کی کوشش کرتی ہیں تو انھیں رجعت پسند کہا جاتا ہے مگر جب یورپی یونین اپنی مصنوعات کو تحفظ دیتی ہے تو وہ معاشی دانشمندی بن جاتی ہے۔
ٹرمپ کے ان ٹیرف سے کیا واقعی امریکی مزدور کو فائدہ ہوگا؟ شاید کچھ صنعتوں کو عارضی طور پر سہارا ملے مگر عالمی تجارت کی سطح پر اس کے اثرات کچھ اور ہوں گے۔ چین اور یورپ جیسے بڑے تجارتی شراکت دار جوابی اقدامات کریں گے۔
امریکی مصنوعات کے لیے عالمی منڈیاں سکڑ جائیں گی۔ عالمی سطح پر مہنگائی بڑھے گی، اشیائے ضرورت کی قیمتیں اوپر جائیں گی اور نتیجتاً عام امریکی مزدور مزید مشکلات کا شکار ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ٹیرف سے مقامی صنعتوں کو وقتی سہارا ملے لیکن اگر درآمدی اشیاء مہنگی ہوئیں تو صنعتی پیداوار پر بھی اثر پڑے گا۔
وہ کمپنیاں جو دوسرے ممالک سے سستا خام مال لاتی تھیں وہ مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوں گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یا تو وہ نقصان برداشت کریں گی یا مزدوروں کی تنخواہوں میں کٹوتی کریں گی یا نوکریاں ختم کریں گی۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سرمایہ دارانہ آزاد منڈی کا یہ حال ہے تو کیا اس کا کوئی متبادل ہے؟ سوشلسٹ ماڈل کو دنیا میں کئی بار آزمایا جا چکا ہے لیکن اس کے بھی اپنے مسائل رہے ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ موجودہ نظام بے عیب ہے۔
چین ویتنام اور کیوبا جیسے ممالک نے کچھ حد تک ریاستی کنٹرول اور آزاد منڈی کے امتزاج سے ترقی حاصل کی ہے۔ یورپ میں بھی اسکینڈے نیوین ماڈل ایسا ہے جہاں ریاست فلاحی اقدامات کرتی ہے، مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے اور ساتھ ہی سرمایہ داری کو بھی کنٹرول میں رکھتی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں معاشی طاقتور ممالک ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں وہ کمزور ممالک سے وسائل سستی لیبر اور منڈی تو حاصل کریں مگر جب ان ممالک کی صنعت ترقی کرنے لگے تو انھیں مختلف تجارتی پابندیوں میں جکڑ دیا جائے۔
یہ فیصلہ وقت کرے گا کہ کون سا نظام انسانیت کے لیے نجات دہندہ ثابت ہوتا ہے مگر تاریخ کی ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ تضادات بالآخر خود ہی اپنا پردہ چاک کر دیتے ہیں۔
آزاد منڈی کا جادو ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ جب بھی یہ اپنے ہی اصولوں کے تحت چلتی ہے اس کا سامنا ایسے سوالات سے ہوتا ہے جن کا جواب اس کے پاس نہیں ہوتا۔ ٹرمپ کے ٹیرف وقتی سیاست کا حصہ ہیں جن کا مقصد امریکی عوام کو یہ تاثر دینا ہے کہ حکومت ان کے لیے کچھ کر رہی ہے۔
لیکن اصل فائدہ ہمیشہ کی طرح بڑے سرمایہ داروں کو ہوگا۔ مزدور چاہے وہ امریکا کا ہو، چین کا ہو یا کسی اور ملک کا ہمیشہ ان پالیسیوں کی قیمت ادا کرتا ہے۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ دنیا ایک ایسے معاشی نظام پر بحث کرے جو نہ صرف منڈی کے اصولوں کو تسلیم کرے بلکہ مزدوروں اور عوام کے حقوق کو بھی مقدم رکھے۔ کیا ایسا کوئی نظام ممکن ہے؟ یہ سوال آج بھی دنیا کے ذہین ترین معیشت دانوں کے لیے کھلا چیلنج ہے۔